عدل و انصاف معاشرے کی یک جہتی کی ضمانت
رب کائنات نے نظام کائنات کو عدل کے ساتھ مربوط کردیا ہے۔
JEDDAH:
عدل کے معنی ہیں کسی بوجھ کو دو برابر حصوں میں اس طرح بانٹ دیا جائے کہ ذرا بھی کمی بیشی نہ ہو۔ اچھے اور برے کام میں پورا پورا بدلہ دینا بھی عدل کہلاتا ہے۔
ہر کام مناسب وقت پر کرنا بھی عدل کی ایک صورت ہے۔ ہر چیز کو موزوں مقام پر رکھنا بھی عدل کہلاتا ہے۔ عدل کی ضد ظلم ہے، جس کے معنی ہیں کسی کی حق تلفی کرنا یا اس کے ساتھ زیادتی کرنا، کسی کام کو غیر مناسب وقت پر کرنا یا کسی چیز کو غیر موزوں مقام پر رکھنا۔
رب کائنات نے نظام کائنات کو عدل کے ساتھ مربوط کردیا ہے۔ تمام سیارے اپنے محور کے گرد مقررہ رفتار کے ساتھ گردش کررہے ہیں۔ اگر ذرا بھی رد و بدل ہوجائے گا تو نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا اور قیامت برپا ہوجائے گی۔ نظام کائنات، آسمان سے لے کر زمین تک صرف اللہ کے عدل و انصاف کے بل بوتے پر قائم ہے۔
سورۃ العمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ: '' اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے، انصاف سے قائم ہوکر اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں، عزت والا، حکمت والا۔''
اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ''عادل'' ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے بھی ہر معاملے میں عدل سے کام لیں۔ جس قسط و عدل سے زمین و آسمان قائم ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ: ''ہم نے رسولوں کو صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیج کر اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں'' (سورۃ الحدید)
مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں انبیا علیہم السلام کی بعثت کا مقصد مختصر مگر جامع الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے کہ انبیاء و رسلؑ تین چیزیں لے کر آئے۔
(1) کھلی نشانیاں (2) واضح ہدایات کتاب الٰہی (3) میزان یعنی وہ معیار حق و باطل جو ترازو کی طرح ٹھیک تول کی طرح بتادے کہ انصاف کی بات کیا ہے۔
عام فہم زبان میں اس آیت کے مفہوم کو ہم اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ پیغمبروںؑ کے بھیجنے اور کتاب نازل کرنے کی غرض یہ ہے کہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔
سب سے بڑا عدل یہ ہے کہ انسان توحید پر قائم رہے۔ توحید ہی سے عدل قائم ہوسکتا ہے اور شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ دنیا کی ساری خرابیاں شرک ہی سے پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
''بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔'' (سورۃ القمان)
حضور اکرمؐ ایک ایسی کامل شریعت لے کر آئے جو عدل و احسان اور قانون و اخلاق دونوں کا مجموعہ ہے۔ دنیا میں عدل و انصاف، قانون اور اخلاق دونوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ دونوں کا منشاء ایک ہی ہے۔ قانون، برائیوں کو روک تو دیتا ہے مگر دل میں اس برائی کی طرف سے نفرت کا اظہار اور روحانی کیفیت پیدا نہیں کرتا جو اخلاقیات کی جان ہے۔ اسلام ایک ایسا عادلانہ نظام پیش کرتا ہے کہ جن برائیوں کے خاتمے سے ایک پرامن معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور جس کا اثر دوسروں پر براہ راست ہوتا ہے، اسے قانون کے ماتحت کردیا۔ مثلاً قتل، چوری، راہ زنی، زنا اور تہمت لگانا وغیرہ ان جرائم کے لیے قرآن نے سزا بھی مقرر کردی جو ریاست کی طرف سے دی جاسکتی ہے۔ حکومتی انتظامات کے قیام کے لیے سختی کا یہ عالم ہے کہ ایک خاص سزا کے اجرا کے وقت حکم ہوتا ہے۔
''اور تم کو اللہ کا حکم صادر کرنے میں ان دو گنہگاروں پر ترس نہ آئے۔ اگر تم کو خدا پر اور قیامت پر ایمان ہے اور مسلمانوں کی ایک جماعت کو دونوں کی سزا کے وقت حاضر رہنا چاہیے۔'' (سورۂ نور)
یعنی قیامت کے دن اس گناہ کی سزا اور سخت ہے، اس لیے نرمی نہ کی جائے اور جماعت کو حاضر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کو عبرت ہو، تاکہ وہ جرم سے باز رہیں۔ عدل و انصاف ایک اچھی حکومت و سلطنت کی عمارت کا بنیادی ستون ہے۔ امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ ایک بااختیار عدلیہ ہو، جو مظلوم کی داد رسی کرے اور عدل و انصاف کے مطابق بلا تفریق قبیلہ، خاندان، سیاسی وابستگی فیصلہ کرے اور معاشرے کے تمام افراد قانون کی نظر میں برابر ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کئی مقامات پر فرمایا ہے کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو اور ساتھ ہی فرمایا کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ انصاف سے فیصلہ کرنے والوں کو اپنی دوستی اور محبت سے نوازنے کی بشارت سناتا ہے۔
اب فیصلہ کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ آزاد ہو اور اپنے فیصلے کے نفاذ کی قدرت رکھتا ہو اور صاحب علم ہو، تاکہ ظلم و انصاف میں تمیز کرسکے۔ لیکن مقدمات کے صحیح فیصلے کا انحصار سچی شہادت پر ہے۔ اسی لیے اسلام عدل و انصاف کے ساتھ سچی شہادت دینے کی بھی تاکید کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ: '' اے ایمان والو، انصاف پر قایم ہوجاؤ، اللہ کے لیے گواہی دیتے جاؤ، اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو، یا ماں باپ کا، یا رشتے داروں کا، جس پر گواہی دو، وہ غنی ہو یا فقیر۔'' (سورۃ النسا )
عدالتی نظام کی کام یابی کا دار و مدار اگر ایک طرف متقی، پرہیزگار اور پیکر انصاف جج اور قاضی پر ہے تو دوسری طرف پیکر صدق و صفا گواہوں پر بھی ہے، تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں تو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے رعب و دبدبے کی وجہ سے چشم دید گواہ ان کے خلاف گواہی دینے کی جرأت بھی نہیں کرتا، بل کہ اپنی آنکھیں ہی بند کرلیتا ہے۔ اس کی ایک وجہ گواہان کا عدم تحفظ بھی ہے۔ ریاست کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ گواہان کا تحفظ یقینی بنائے تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے جاسکیں اور انصاف کی بروقت فراہمی کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔
ہمیں آپؐ کے اسوۂ حسنہ اور خلفائے راشدینؓ سے راہ نمائی حاصل کرنی چاہیے۔
ایک بار خاندانِ بنی مخزوم کی فاطمہ نامی خاتون چوری کے الزام میں پکڑی گئی۔ اس کا قبیلہ چاہتا تھا کہ اسے ہاتھ کاٹنے کی سزا نہ ملے۔ انہوں نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو حضورؐ کی خدمت میں سفارشی بناکر بھیجا کہ سزا میں کچھ نرمی فرمائی جائے۔ آپؐ کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا اور فرمایا: ''پہلی قومیں اسی لیے تباہ ہوئیں کہ جب کوئی بااثر آدمی جرم کا ارتکاب کرتا تو اس کی خاطر قانون کی تاویلیں کرکے اسے بچالیا جاتا تھا۔ آپؐ نے فرمایا، اللہ کی قسم اس کی جگہ اگر میری بیٹی فاطمہؓ چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹتا۔''
ہمیں اس واقعے سے سبق سیکھنا چاہیے۔ معاشرے کے تمام افراد میں قانونی مساوات قائم ہونی چاہیے اور قانون کی بالادستی ہونی چاہیے۔ قول صادق ہے کہ ''جو ریاست مجرموں پر رحم کرتی ہے وہاں بے گناہ لوگ بڑی بے رحمی سے مرتے ہیں۔''
آج کے دور میں مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں، سبزی منڈیوں، درگاہوں، اسکولوں اور یونی ورسٹیوں میں آئے دن خودکش حملے اور بم دھماکوں میں لاکھوں بے گناہ اور معصوم لوگ بڑی بے رحمی سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ غرض یہ کہ عدل و انصاف کے بغیر مثالی اور پرامن معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کی کوئی قوم بھی اس کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں کرسکتی۔ عدل و انصاف ہی کے ذریعے انسان اس زندگی میں جنت کی جھلک دیکھ سکتا ہے اور معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ عدالت کا بلاوجہ فیصلے میں تاخیر کرنا بھی انصاف نہ دینے کے مترادف ہے اور اس سے مجرموں کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ اگر کسی معاشرے میں ادارے اور حکومت، عدل و انصاف قائم کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں اور ہر طرف بے انصافی ہونے لگے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو بدلنے کی قدرت رکھتا ہے اور اس کی جگہ دوسری قوم لاسکتا ہے۔
حضرت علیؓ کا قول ہے کہ '' ظلم کی بنیاد پر حکومت قائم نہیں رہتی لیکن کفر کی بنیاد پر ہوسکتی ہے۔''
آج کل بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز، اغواء برائے تاوان، راہ زنی، چائلڈ لیبر اور ان کے ساتھ بے رحمانہ رویے کی اصل وجہ یہ ہے کہ مجرموں کی پکڑ نہیں ہے۔ بااثر لوگ اپنے تمام اثر و رسوخ بروئے کار لانے کی کوشش میں رہتے ہیں لیکن عدالت عظمیٰ کی بالادستی ہونی چاہیے۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے عدل و انصاف قائم کرنے کی دوہری ذمے داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے۔ (آمین)
عدل کے معنی ہیں کسی بوجھ کو دو برابر حصوں میں اس طرح بانٹ دیا جائے کہ ذرا بھی کمی بیشی نہ ہو۔ اچھے اور برے کام میں پورا پورا بدلہ دینا بھی عدل کہلاتا ہے۔
ہر کام مناسب وقت پر کرنا بھی عدل کی ایک صورت ہے۔ ہر چیز کو موزوں مقام پر رکھنا بھی عدل کہلاتا ہے۔ عدل کی ضد ظلم ہے، جس کے معنی ہیں کسی کی حق تلفی کرنا یا اس کے ساتھ زیادتی کرنا، کسی کام کو غیر مناسب وقت پر کرنا یا کسی چیز کو غیر موزوں مقام پر رکھنا۔
رب کائنات نے نظام کائنات کو عدل کے ساتھ مربوط کردیا ہے۔ تمام سیارے اپنے محور کے گرد مقررہ رفتار کے ساتھ گردش کررہے ہیں۔ اگر ذرا بھی رد و بدل ہوجائے گا تو نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا اور قیامت برپا ہوجائے گی۔ نظام کائنات، آسمان سے لے کر زمین تک صرف اللہ کے عدل و انصاف کے بل بوتے پر قائم ہے۔
سورۃ العمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ: '' اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے، انصاف سے قائم ہوکر اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں، عزت والا، حکمت والا۔''
اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ''عادل'' ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے بھی ہر معاملے میں عدل سے کام لیں۔ جس قسط و عدل سے زمین و آسمان قائم ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ: ''ہم نے رسولوں کو صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیج کر اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں'' (سورۃ الحدید)
مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں انبیا علیہم السلام کی بعثت کا مقصد مختصر مگر جامع الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے کہ انبیاء و رسلؑ تین چیزیں لے کر آئے۔
(1) کھلی نشانیاں (2) واضح ہدایات کتاب الٰہی (3) میزان یعنی وہ معیار حق و باطل جو ترازو کی طرح ٹھیک تول کی طرح بتادے کہ انصاف کی بات کیا ہے۔
عام فہم زبان میں اس آیت کے مفہوم کو ہم اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ پیغمبروںؑ کے بھیجنے اور کتاب نازل کرنے کی غرض یہ ہے کہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔
سب سے بڑا عدل یہ ہے کہ انسان توحید پر قائم رہے۔ توحید ہی سے عدل قائم ہوسکتا ہے اور شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ دنیا کی ساری خرابیاں شرک ہی سے پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
''بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔'' (سورۃ القمان)
حضور اکرمؐ ایک ایسی کامل شریعت لے کر آئے جو عدل و احسان اور قانون و اخلاق دونوں کا مجموعہ ہے۔ دنیا میں عدل و انصاف، قانون اور اخلاق دونوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ دونوں کا منشاء ایک ہی ہے۔ قانون، برائیوں کو روک تو دیتا ہے مگر دل میں اس برائی کی طرف سے نفرت کا اظہار اور روحانی کیفیت پیدا نہیں کرتا جو اخلاقیات کی جان ہے۔ اسلام ایک ایسا عادلانہ نظام پیش کرتا ہے کہ جن برائیوں کے خاتمے سے ایک پرامن معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور جس کا اثر دوسروں پر براہ راست ہوتا ہے، اسے قانون کے ماتحت کردیا۔ مثلاً قتل، چوری، راہ زنی، زنا اور تہمت لگانا وغیرہ ان جرائم کے لیے قرآن نے سزا بھی مقرر کردی جو ریاست کی طرف سے دی جاسکتی ہے۔ حکومتی انتظامات کے قیام کے لیے سختی کا یہ عالم ہے کہ ایک خاص سزا کے اجرا کے وقت حکم ہوتا ہے۔
''اور تم کو اللہ کا حکم صادر کرنے میں ان دو گنہگاروں پر ترس نہ آئے۔ اگر تم کو خدا پر اور قیامت پر ایمان ہے اور مسلمانوں کی ایک جماعت کو دونوں کی سزا کے وقت حاضر رہنا چاہیے۔'' (سورۂ نور)
یعنی قیامت کے دن اس گناہ کی سزا اور سخت ہے، اس لیے نرمی نہ کی جائے اور جماعت کو حاضر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کو عبرت ہو، تاکہ وہ جرم سے باز رہیں۔ عدل و انصاف ایک اچھی حکومت و سلطنت کی عمارت کا بنیادی ستون ہے۔ امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ ایک بااختیار عدلیہ ہو، جو مظلوم کی داد رسی کرے اور عدل و انصاف کے مطابق بلا تفریق قبیلہ، خاندان، سیاسی وابستگی فیصلہ کرے اور معاشرے کے تمام افراد قانون کی نظر میں برابر ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کئی مقامات پر فرمایا ہے کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو اور ساتھ ہی فرمایا کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ انصاف سے فیصلہ کرنے والوں کو اپنی دوستی اور محبت سے نوازنے کی بشارت سناتا ہے۔
اب فیصلہ کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ آزاد ہو اور اپنے فیصلے کے نفاذ کی قدرت رکھتا ہو اور صاحب علم ہو، تاکہ ظلم و انصاف میں تمیز کرسکے۔ لیکن مقدمات کے صحیح فیصلے کا انحصار سچی شہادت پر ہے۔ اسی لیے اسلام عدل و انصاف کے ساتھ سچی شہادت دینے کی بھی تاکید کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ: '' اے ایمان والو، انصاف پر قایم ہوجاؤ، اللہ کے لیے گواہی دیتے جاؤ، اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو، یا ماں باپ کا، یا رشتے داروں کا، جس پر گواہی دو، وہ غنی ہو یا فقیر۔'' (سورۃ النسا )
عدالتی نظام کی کام یابی کا دار و مدار اگر ایک طرف متقی، پرہیزگار اور پیکر انصاف جج اور قاضی پر ہے تو دوسری طرف پیکر صدق و صفا گواہوں پر بھی ہے، تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں تو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے رعب و دبدبے کی وجہ سے چشم دید گواہ ان کے خلاف گواہی دینے کی جرأت بھی نہیں کرتا، بل کہ اپنی آنکھیں ہی بند کرلیتا ہے۔ اس کی ایک وجہ گواہان کا عدم تحفظ بھی ہے۔ ریاست کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ گواہان کا تحفظ یقینی بنائے تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے جاسکیں اور انصاف کی بروقت فراہمی کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔
ہمیں آپؐ کے اسوۂ حسنہ اور خلفائے راشدینؓ سے راہ نمائی حاصل کرنی چاہیے۔
ایک بار خاندانِ بنی مخزوم کی فاطمہ نامی خاتون چوری کے الزام میں پکڑی گئی۔ اس کا قبیلہ چاہتا تھا کہ اسے ہاتھ کاٹنے کی سزا نہ ملے۔ انہوں نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو حضورؐ کی خدمت میں سفارشی بناکر بھیجا کہ سزا میں کچھ نرمی فرمائی جائے۔ آپؐ کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا اور فرمایا: ''پہلی قومیں اسی لیے تباہ ہوئیں کہ جب کوئی بااثر آدمی جرم کا ارتکاب کرتا تو اس کی خاطر قانون کی تاویلیں کرکے اسے بچالیا جاتا تھا۔ آپؐ نے فرمایا، اللہ کی قسم اس کی جگہ اگر میری بیٹی فاطمہؓ چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹتا۔''
ہمیں اس واقعے سے سبق سیکھنا چاہیے۔ معاشرے کے تمام افراد میں قانونی مساوات قائم ہونی چاہیے اور قانون کی بالادستی ہونی چاہیے۔ قول صادق ہے کہ ''جو ریاست مجرموں پر رحم کرتی ہے وہاں بے گناہ لوگ بڑی بے رحمی سے مرتے ہیں۔''
آج کے دور میں مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں، سبزی منڈیوں، درگاہوں، اسکولوں اور یونی ورسٹیوں میں آئے دن خودکش حملے اور بم دھماکوں میں لاکھوں بے گناہ اور معصوم لوگ بڑی بے رحمی سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ غرض یہ کہ عدل و انصاف کے بغیر مثالی اور پرامن معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کی کوئی قوم بھی اس کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں کرسکتی۔ عدل و انصاف ہی کے ذریعے انسان اس زندگی میں جنت کی جھلک دیکھ سکتا ہے اور معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ عدالت کا بلاوجہ فیصلے میں تاخیر کرنا بھی انصاف نہ دینے کے مترادف ہے اور اس سے مجرموں کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ اگر کسی معاشرے میں ادارے اور حکومت، عدل و انصاف قائم کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں اور ہر طرف بے انصافی ہونے لگے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو بدلنے کی قدرت رکھتا ہے اور اس کی جگہ دوسری قوم لاسکتا ہے۔
حضرت علیؓ کا قول ہے کہ '' ظلم کی بنیاد پر حکومت قائم نہیں رہتی لیکن کفر کی بنیاد پر ہوسکتی ہے۔''
آج کل بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز، اغواء برائے تاوان، راہ زنی، چائلڈ لیبر اور ان کے ساتھ بے رحمانہ رویے کی اصل وجہ یہ ہے کہ مجرموں کی پکڑ نہیں ہے۔ بااثر لوگ اپنے تمام اثر و رسوخ بروئے کار لانے کی کوشش میں رہتے ہیں لیکن عدالت عظمیٰ کی بالادستی ہونی چاہیے۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے عدل و انصاف قائم کرنے کی دوہری ذمے داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے۔ (آمین)