ٹریفک حادثات اور کامن سینس
آپ کی جلد بازی سے لوگ ٹریفک جام اور ذہنی کوفت کا شکار ہونگے، لیکن آپ کے تھوڑے صبر سے کئی لوگوں کی جان بچ سکتی ہے۔
KARACHI:
آج کل کے ترقی یافتہ دور میں ٹریفک حادثات اور اُن میں ہونے والی ہلاکتیں کوئی نئی بات نہیں، ملک امیر ہو یا غریب، فرسٹ ورلڈ ہو یا تھرڈ ورلڈ، اور سواری چلانے والے خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے ہوں یا دنیا کے امیر ترین افراد، حادثہ کبھی بھی، کہیں بھی، کسی کے بھی ساتھ ہوسکتا ہے۔ ٹرانسپورٹ، انفراسٹرکچر، سڑکوں کی ساخت، کشادگی اور معیار، گاڑیوں کی جدت اور ماڈل سے قطع نظر کچھ ایسی بنیادی عام سمجھ کی حفاظتی تدابیر ہیں، جن پر عمل کرکے بہت سی جانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔
میں نے اپنے حالیہ دورے کے دوران کراچی میں رینٹ اے کار لی، نئی گاڑیوں میں اگر آپ سیٹ بیلٹ نہ باندھیں تو گاڑیاں مسلسل بیپ کرتی رہتی ہیں، مگر جو گاڑی میں نے رینٹ پر لی تھی اُس گاڑی کے ساتھ ایسے ''ہُک'' مہیا کئے گئے تھے جو سیٹ بیلٹ کے اختتامی سانچے میں جاکر گاڑی کے کمپیوٹرازڈ سسٹم کو بے وقوف بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ہم بھی عجیب لوگ ہیں وہ سیٹ بیلٹ جو صرف اسی لئے بنایا گیا کہ حادثے کی صورت میں ہماری جان بچاسکے، اُس کو تو نہیں پہننا مگر دنیا بھر کی عقل لڑا کر وہ 'جگاڑ' ضرور پیدا کرلینی ہے جو اِس حفاظتی ایجاد سے جان خلاصی کراسکے۔
سیٹ بیلٹ باندھنا ایک بہت ہی بنیادی سمجھ والا اور عقل مندی کا کام ہے۔ آئیے آج سے عہد کرتے ہیں کہ ہم ہمیشہ گاڑی میں سیٹ بیلٹ باندھیں گے اور بچوں کو گاڑی کی پچھلی سیٹوں پر ہی بٹھائیں گے اور چھوٹے بچوں کیلئے اضافی حفاظتی سیٹ لگائیں گے۔ گاڑی خواہ اپنی ہو، کسی اور کی ہو، ٹیکسی ہو، اوبر ہو یا کریم، جب تک سیٹ بیلٹ نہ لگالیں سفر شروع نہ کریں۔
بالکل اسی طرح ٹریفک سگنلز کی پابندی کو لازمی بنائیں۔ یقین جانیے، اِس پر عمل درآمد کیلئے آپ کو خلیفۃ المسلمین کی ضرورت نہیں۔ آپ کی کچھ منٹ کی تاخیر سے کئی لوگوں کی جان بچ سکتی ہے اور آپ کی جلد بازی سے کئی لوگ ٹریفک جام اور ذہنی کوفت کا شکار ہوں گے۔ سڑکیں کسی بھی شہر کا مشترکہ اثاثہ ہوتی ہیں اور آپ کی غیر شائستہ اور بے ہنگم ڈرائیونگ سے لوگوں میں خوف و ہیجان بڑھے گا اور اپنے شہر کے باسیوں کو خوف میں مبتلا کرنا کوئی اچھی بات تو نہیں۔
اسی طرح سڑک پار کرنے کیلئے سفید کالی اسٹرپس والی زیبرا کراسنگ کا اہتمام کریں۔ آپ پورا سری لنکا گھوم لیں، یہاں آپ نے زیبرا کراسنگ پر قدم رکھا اور وہاں ٹریفک جامد و ساکت ہوگئی۔ متعدد بار کتوں اور دوسرے جانوروں کو زیبرا کراسنگ سے روڈ کراس کرتے ہوئے دیکھا۔ تحفظ اور زندگی کی ضمانت کا جو بھروسہ دوسرے ملکوں میں جانوروں کو نصیب ہے، کاش اس کا عشر عشیر ہی ملکِ خداداد کے باسیوں کو نصیب ہوتا۔ پولینڈ کے ایک زرعی گاؤں سے گزرتے ہوئے ایک روڈ سائن دیکھا جس پر لکھا تھا،
اے اللہ! جامعہ کراچی کی طالب علموں کو مرغابیوں جتنا ہی اسٹیٹس دلا دے۔
رکشے اور چنگچی بھی ہمارے معاشرے اور آمد و رفت کے ذرائع کا ایک حصہ شمار ہوتے ہیں۔ اُن کی تباہ کاریاں تو اظہر من الشمس ہیں مگر کچھ احتیاطی تدابیر تو ہم کر ہی سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب بھی آپ رکشہ سے اتریں تو کوشش کریں کہ ہمیشہ روڈ کی بائیں سائیڈ کی جانب سے اتریں کہ دائیں سائیڈ پر ٹریفک رواں دواں ہے۔ پورے سری لنکا میں، رکشہ میں، سیدھے ہاتھ پر ایک پلاسٹک کا بلاک گیٹ لگا ہوتا ہے تاکہ کوئی سیدھے ہاتھ کی طرف سے اتر ہی نہ سکے۔ آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ سو دو سو روپے کا یہ پلاسٹک کا ٹکڑا کتنے لوگوں کی زندگی بچاسکتا ہے۔
آئیے آخر میں بات کرتے ہیں موٹر سائیکل کی، آنکھوں دیکھا واقعہ ہے کہ ایک ماں اپنے بیٹے کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار شاہراہ فیصل پر 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جارہی تھی کہ، اچانک اُن کا برقعہ موٹر سائیکل کی چین میں آگیا۔ بیٹے نے حسبِ معمول ہیلمٹ نہیں پہنا ہوا تھا۔ آگے کی اسٹوری سمجھنے کیلئے روڈ پر پھیلا خون ہی کافی تھا۔ اب اگر ہم صرف اپنی موٹر سائیکل کی چین پر کور ہی چڑھا لیں اور ہیلمٹ پہننے کی زحمت گوارا کرلیں تو اپنی جان کا بھی بھلا ہو اور اُن لوگوں کی اذیت بھی کم ہوسکتی ہے جنہیں آپ کی ہٹ دھرمی اور ضد کی بدولت ساری زندگی رونا پڑتا ہے۔ ہر حادثے کو آفتِ ناگہانی اور عذابِ خداوندی سمجھ کر بیٹھ جانے والوں کو شاید وہاں بھی جوتے پڑیں کہ اِس عقل کا استعمال کیوں نہیں کیا جو ساتھ میں دے کر بھیجا تھا۔
آئیے اپنے روز مرہ معمولات اور آمد رفت کے ذرائع اور اطوار کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ کون کون سی چھوٹی چھوٹی حفاظتی تدابیر ہیں جنہیں اپناکر ہم اپنی اور دوسروں کی زندگی میں بہتری لاسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آج کل کے ترقی یافتہ دور میں ٹریفک حادثات اور اُن میں ہونے والی ہلاکتیں کوئی نئی بات نہیں، ملک امیر ہو یا غریب، فرسٹ ورلڈ ہو یا تھرڈ ورلڈ، اور سواری چلانے والے خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے ہوں یا دنیا کے امیر ترین افراد، حادثہ کبھی بھی، کہیں بھی، کسی کے بھی ساتھ ہوسکتا ہے۔ ٹرانسپورٹ، انفراسٹرکچر، سڑکوں کی ساخت، کشادگی اور معیار، گاڑیوں کی جدت اور ماڈل سے قطع نظر کچھ ایسی بنیادی عام سمجھ کی حفاظتی تدابیر ہیں، جن پر عمل کرکے بہت سی جانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔
میں نے اپنے حالیہ دورے کے دوران کراچی میں رینٹ اے کار لی، نئی گاڑیوں میں اگر آپ سیٹ بیلٹ نہ باندھیں تو گاڑیاں مسلسل بیپ کرتی رہتی ہیں، مگر جو گاڑی میں نے رینٹ پر لی تھی اُس گاڑی کے ساتھ ایسے ''ہُک'' مہیا کئے گئے تھے جو سیٹ بیلٹ کے اختتامی سانچے میں جاکر گاڑی کے کمپیوٹرازڈ سسٹم کو بے وقوف بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ہم بھی عجیب لوگ ہیں وہ سیٹ بیلٹ جو صرف اسی لئے بنایا گیا کہ حادثے کی صورت میں ہماری جان بچاسکے، اُس کو تو نہیں پہننا مگر دنیا بھر کی عقل لڑا کر وہ 'جگاڑ' ضرور پیدا کرلینی ہے جو اِس حفاظتی ایجاد سے جان خلاصی کراسکے۔
سیٹ بیلٹ باندھنا ایک بہت ہی بنیادی سمجھ والا اور عقل مندی کا کام ہے۔ آئیے آج سے عہد کرتے ہیں کہ ہم ہمیشہ گاڑی میں سیٹ بیلٹ باندھیں گے اور بچوں کو گاڑی کی پچھلی سیٹوں پر ہی بٹھائیں گے اور چھوٹے بچوں کیلئے اضافی حفاظتی سیٹ لگائیں گے۔ گاڑی خواہ اپنی ہو، کسی اور کی ہو، ٹیکسی ہو، اوبر ہو یا کریم، جب تک سیٹ بیلٹ نہ لگالیں سفر شروع نہ کریں۔
بالکل اسی طرح ٹریفک سگنلز کی پابندی کو لازمی بنائیں۔ یقین جانیے، اِس پر عمل درآمد کیلئے آپ کو خلیفۃ المسلمین کی ضرورت نہیں۔ آپ کی کچھ منٹ کی تاخیر سے کئی لوگوں کی جان بچ سکتی ہے اور آپ کی جلد بازی سے کئی لوگ ٹریفک جام اور ذہنی کوفت کا شکار ہوں گے۔ سڑکیں کسی بھی شہر کا مشترکہ اثاثہ ہوتی ہیں اور آپ کی غیر شائستہ اور بے ہنگم ڈرائیونگ سے لوگوں میں خوف و ہیجان بڑھے گا اور اپنے شہر کے باسیوں کو خوف میں مبتلا کرنا کوئی اچھی بات تو نہیں۔
اسی طرح سڑک پار کرنے کیلئے سفید کالی اسٹرپس والی زیبرا کراسنگ کا اہتمام کریں۔ آپ پورا سری لنکا گھوم لیں، یہاں آپ نے زیبرا کراسنگ پر قدم رکھا اور وہاں ٹریفک جامد و ساکت ہوگئی۔ متعدد بار کتوں اور دوسرے جانوروں کو زیبرا کراسنگ سے روڈ کراس کرتے ہوئے دیکھا۔ تحفظ اور زندگی کی ضمانت کا جو بھروسہ دوسرے ملکوں میں جانوروں کو نصیب ہے، کاش اس کا عشر عشیر ہی ملکِ خداداد کے باسیوں کو نصیب ہوتا۔ پولینڈ کے ایک زرعی گاؤں سے گزرتے ہوئے ایک روڈ سائن دیکھا جس پر لکھا تھا،
'احتیاط سے گاڑی چلائیں کہ کچھ آگے کچھوؤں اور مرغابیوں کا گزر ہوتا ہے۔'
اے اللہ! جامعہ کراچی کی طالب علموں کو مرغابیوں جتنا ہی اسٹیٹس دلا دے۔
رکشے اور چنگچی بھی ہمارے معاشرے اور آمد و رفت کے ذرائع کا ایک حصہ شمار ہوتے ہیں۔ اُن کی تباہ کاریاں تو اظہر من الشمس ہیں مگر کچھ احتیاطی تدابیر تو ہم کر ہی سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب بھی آپ رکشہ سے اتریں تو کوشش کریں کہ ہمیشہ روڈ کی بائیں سائیڈ کی جانب سے اتریں کہ دائیں سائیڈ پر ٹریفک رواں دواں ہے۔ پورے سری لنکا میں، رکشہ میں، سیدھے ہاتھ پر ایک پلاسٹک کا بلاک گیٹ لگا ہوتا ہے تاکہ کوئی سیدھے ہاتھ کی طرف سے اتر ہی نہ سکے۔ آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ سو دو سو روپے کا یہ پلاسٹک کا ٹکڑا کتنے لوگوں کی زندگی بچاسکتا ہے۔
آئیے آخر میں بات کرتے ہیں موٹر سائیکل کی، آنکھوں دیکھا واقعہ ہے کہ ایک ماں اپنے بیٹے کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار شاہراہ فیصل پر 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جارہی تھی کہ، اچانک اُن کا برقعہ موٹر سائیکل کی چین میں آگیا۔ بیٹے نے حسبِ معمول ہیلمٹ نہیں پہنا ہوا تھا۔ آگے کی اسٹوری سمجھنے کیلئے روڈ پر پھیلا خون ہی کافی تھا۔ اب اگر ہم صرف اپنی موٹر سائیکل کی چین پر کور ہی چڑھا لیں اور ہیلمٹ پہننے کی زحمت گوارا کرلیں تو اپنی جان کا بھی بھلا ہو اور اُن لوگوں کی اذیت بھی کم ہوسکتی ہے جنہیں آپ کی ہٹ دھرمی اور ضد کی بدولت ساری زندگی رونا پڑتا ہے۔ ہر حادثے کو آفتِ ناگہانی اور عذابِ خداوندی سمجھ کر بیٹھ جانے والوں کو شاید وہاں بھی جوتے پڑیں کہ اِس عقل کا استعمال کیوں نہیں کیا جو ساتھ میں دے کر بھیجا تھا۔
آئیے اپنے روز مرہ معمولات اور آمد رفت کے ذرائع اور اطوار کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ کون کون سی چھوٹی چھوٹی حفاظتی تدابیر ہیں جنہیں اپناکر ہم اپنی اور دوسروں کی زندگی میں بہتری لاسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔