امریکی ہتھکنڈوں کے شکارممالک اورقیدی سوشلزمتیسرا حصہ

اسٹالن کو سابقہ سوویت یونین کو غیر جانبدار رہ کر سوشلسٹ سسٹم کا دفاع کرنا تھا

k_goraya@yahoo.com

آئی ایم ایف نے سڈمڈ ڈاکٹرائن یا فارمولے کے نتیجے میں پاکستانی 4.762 روپے فی ڈالرکے حساب سے یہ پٹرول پاکستان نے 7.76 روپے کا خریدا۔ اس میں حکومتی ٹیکس اور تاجروں کا نفع شامل کرکے عوام کو مزید مہنگا پٹرول فراہم کیا گیا۔ باہر سے خریدی جانے والی ہر شے پٹرول، مشینری، ادویات ودیگر عوام کے لیے مقامی کرنسی میں خریدنے پرسڈمڈکی نسبت سے زیادہ قیمتیں ادا کرنا پڑیں۔ صنعتکاری میں لاگتیں بڑھ گئیں۔ ملکی اشیا بھی مہنگی ہوگئیں، لیکن اس کے برعکس غیرملکی منڈیوں کی اشیاؤں کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے پاکستانی تجارت منفی ہوگئی۔

مالی سال 1956-57 میں تجارتی خسارہ 72 کروڑ70 لاکھ روپے کا ہوگیا۔ درآمدات کا بل 2 ارب 33 کروڑ 46 لاکھ روپے تک جا پہنچا اوربرآمدات کا بل ایک ارب 60 کروڑ 76 لاکھ تک نیچے آگیا۔ سڈمڈکا منفی Impact ملکی پوری معیشت پر پڑا جس کے نتیجے میں ملکی مرکزی بجٹ جو 1948-49 سے 1955-56 تک سرپلس تھا۔سڈمڈ کے لگنے کے بعد خسارے میں 2 کروڑ48 لاکھ 86 روپے سے چلا گیا۔اس طرح پرائیویٹ پیداواری تمام شعبے سرکاری سمیت خسارے میں چلے گئے۔

سامراجی ادارے نے پھر حکومت کو بجٹ، تجارت کے خساروں سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سے قرضے لینے کی طرف دھکیل دیا۔امریکا نے شیطانی نوسربازی کا فارمولا سڈمڈ استعمال کرکے نو آزاد پاکستان کو امریکا کا ''معاشی غلام'' بنالیا۔امریکا نے سب سے پہلے یورپی ملکوں کی معیشت کو سڈمڈ کے ہتھکنڈے سے امریکی کاغذی ڈالرکا قیدی بنایا۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں صرف 5 سال کے دوران یورپی ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی دیکھی۔

کتاب The Course and Phases of the World Economic Depression By League of Nations Geneva 1931 کے صفحہ 25 کے مطابق 1921 سے 1925 تک ڈالر کے مقابلے میں 21 ملکوں کی کرنسیوں کی قیمت میں کمی 10 فیصد ہوچکی تھی اور 26 ملکوں کی کرنسیوں کی قیمت میں ڈالر کے مقابلے میں کمی 20 فیصد سے زیادہ کردی گئی تھی۔ معیشت کا بنیادی اصول ہے کہ کسی بھی ملک میں جوں جوں غیر پیداواری اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے، اسی نسبت سے مہنگائی بڑھتی ہے۔امریکا نے نوسر بازی کرکے کاغذی ڈالر یورپی معیشت میں داخل کردیا۔ قرضوں، سرمایہ کاری اورسڈمڈ کے فارمولے سے یورپی تمام ملکوں کی معیشتیں خسارے میں چلی گئیں۔کتاب ''انٹرنیشنل اکنامی'' جسے جان پاریک ینگ نے 1963 میں لکھا اس کے صفحہ 543-544 کے مطابق امریکا نے پہلی عالمی جنگ کے دوران اور بعد میں یورپی ملکوں کو جو قرضے دیے تھے ۔

ان قرضوں کا سود جون 1931 کو 2 ارب 80 کروڑ ڈالر امریکا نے وصول کیا تھا۔ یورپی ملکوں کی سرپلس آمدنیاں معاشی خساروں کے نتیجے میں امریکا منتقل ہوتی گئیں۔ جس کے نتیجے میں امریکا کے غیر پیداواری بڑھتے اخراجات کے بوجھ کے نتیجے میں تمام یورپ معاشی بحران کا 1930 میں شکار ہوگیا۔ اس کے بعد امریکا نے نوسر بازی کرکے یورپی ملکوں میں پھیلائے گئے غیر ضمانتی ڈالروں کی نکاسی کے لیے امریکی صدر روزویلٹ کے 20 اپریل 1933 سے 31 جنوری 1934 کے دوران امریکی ڈالر کی قیمت میں بتدریج سونے کے مقابلے میں 69 فیصد یعنی 20.67 ڈالر فی اونس سونے Gold سے 35 ڈالر فی اونس سونا خریدنے کا اعلان کرکے ان ملکوں سے مزید سونا نکالنے اور کاغذی ڈالر داخل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔


یوں یورپی شناخت صرف نام کی رہ گئی۔ باقی یورپی تمام سرمائے کی گردش ڈالر کے گرد گھومنے لگی۔ کتاب Year Book of International Trade Statistics by U.N. New York 1954-55 کے صفحہ 533 کے مطابق امریکا نے نوسربازی 20 اپریل 1933 سے 31 جنوری 1934 تک کے نتیجے میں یوریپی ڈالر ٹریڈرز سے 17 ارب 23 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کا سونا کاغذی ڈالر کی فروخت کے بدلے جمع کرچکا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران لینن 1917 کو روس میں مزدور سوشلسٹ انقلاب برپا کرکے پرولتاری ڈکٹیٹر شپ قائم کرچکا تھا۔

پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ترکی کی تمام نو آبادیاں معاہدہ سیورس کے تحت چھین لی گئی تھیں۔ اسی طرح پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد جرمنی سے اتحادیوں نے معاہدہ ورسائیVersailles کے تحت جرمنی سے معدنی وسائل کے علاقے اور نو آبادیاں چھین لی تھیں۔ عالمی معاشی بحران 1930 کے نتیجے میں جرمنی میں عوام فاقہ کشی کا شکار ہوگئے جرمنی میں شدت پسندی کے نتیجے میں نازی پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ 1937 میں جاپان اور جرمنی نے سوشلسٹ سسٹم کے خلاف برلن ٹوکیو معاہدہ کرلیا۔ 1939 میں اٹلی کے مسولینی نے جرمنی سے معاہدہ کرلیا۔ 1939 میں جرمنی نے ڈنمارک اسیٹونیا، لٹویا سے عدم جارحیت کا معاہدہ کرلیا۔ اگست 1939 میں جرمنی اور روس کے درمیان عدم جارحیت کا معاہدہ ہوگیا۔ روس کے ڈکٹیٹر اسٹالن نے سابقہ لینن ازم سے انحراف کیا،کیونکہ لینن نے پہلی عالمی سامراجی جنگ کی مخالفت کی تھی۔

اسٹالن کو سابقہ سوویت یونین کو غیر جانبدار رہ کر سوشلسٹ سسٹم کا دفاع کرنا تھا۔ اسٹالن نے جنگ میں شریک ہوکر سامراج کا ہمنوا بننے کا کردار ادا کیا۔ جو آگے چل کر خود سامراج بنتا گیا تھا۔ 21 مارچ 1939 کو برطانوی وزیراعظم چیمبرلین نے اعلان کیا کہ اگر جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا تو برطانیہ اور فرانس اس کی یعنی پولینڈکی مدد کریں گے۔ یکم ستمبر 1939 کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کردیا۔ 3 ستمبر 1939 برطانیہ، فرانس نے جرمنی پر حملہ کردیا۔ 22 جون 1941 کو جرمنی کے ہٹلر نے روس پر حملہ کردیا۔ روسی اسٹالن کی غلطی تھی جو بعد میں پورے روس کو بھگتنا پڑی تھی۔ روس اس دور میں سامراج بنادیا گیا۔اس سے قبل نومبر 1939 کو روسی فوجیں فن لینڈ پر حملہ آور ہوئیں۔ مارچ 1940 کو روس کو فن لینڈ نے بے شمار مراعات دے دیں۔ روس، اسٹونیا، لٹویا، لتھونیا پر قابض ہوچکا تھا۔ جرمنی نے اپریل 1940 کو ڈنمارک پر قبضہ کرلیا۔ ناروے، ہالینڈ، بیلجیم پر مئی 1939 میں جرمنی قابض ہوگیا۔فرانس نے 21 جون 1940 کو جرمنی کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

برطانوی وزیر اعظم چیمبرلین نے مئی 1940 کو استعفیٰ دے دیا۔ 10 مئی 1940 کو ونسٹن چرچل وزیر اعظم بنادیا گیا۔ جرمنی فوجوں کی لگا تار بمباری سے برطانیہ کو بہت بڑا نقصان پہنچا تھا۔ اٹلی نے جرمنی کی مدد سے یونان پر قبضہ کرلیا۔جرمنی نے یوگو سلاویہ، کریٹ پر قبضہ کرلیا۔ یاد رہے کہ برطانوی اور امریکی سامراج کا مطمع نظر ایک ہی نظر آتا ہے۔ امریکی صدر روز ویلٹ اور برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل دونوں دوسری عالمی جنگ کے دوران خفیہ میٹنگ کرتے ہیں۔ 14 اگست 1941 کو 8 نکاتی اٹلانٹک چارٹر کا اعلان کرتے ہیں۔اس کے چھٹے نکتے میں کھل کر جرمنی ازم کے خاتمے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کا عندیہ دیتے ہیں۔

22 جون 1941 کو جرمنی نے سوشلسٹ روس پر حملہ کردیا اور مسلسل گولہ بارود استعمال کرنے کے باوجود جرمنی لینن گراڈ پر قابض ہونے میں ناکام رہا۔ روس پہلے ہی معاشی بحران کا شکار تھا۔ امریکا The Land Lease Act of March 11-1941 کے تحت متحارب اتحادیوں کے لیے (قرض) امداد کا اعلان کرتا ہے۔ کتاب Balances of Payments 1939-1945 by United Nations. Geneva 1948 کے صفحہ 171-170 کے مطابق پورے اتحادی ملکوں کے لیے 46 ارب 4 کروڑ ڈالر کا قرضہ یکم جولائی 1940 سے 30 ستمبر 1945 تک دینا شروع کرتا ہے۔ روس، جرمنی حملے کے دباؤ میں 22 جون 1941 سے ستمبر 1942 تک رہتا ہے۔
Load Next Story