ذرا مقابلہ ہوجائے
بھارت اپنے جی ڈی پی کا تین فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے اور ہم دو فیصد بھی نہیں۔کرتے۔
آج کل پاکستان اورہندوستان کے درمیان قومی ترانوں کو لے کر مقابلہ چل رہا ہے، نہیں ہم کسی میوزیکل کمپٹیشن کی بات نہیں کررہے، جہاں ایک پاکستانی جج اور ایک انڈین جج دبئی کے کسی اسٹوڈیو میں موجود اسٹیج پر آئے ، مقابلے کے امیدوار کے گانے کے بعد ایک دوسرے سے لڑنا شروع کردیتے ہیں بلکہ ہم بات کر رہے ہیں ترانوں کو لے کر ورلڈ ریکارڈ قائم کرنے کا مقابلہ۔
کچھ دن پہلے تک دنیا میں سب سے زیادہ لوگوں کا مل کر اپنے ملک کا قومی ترانہ گانے کا ورلڈ ریکارڈ انڈیا کے پاس تھا، ریکارڈ کے مطابق 15,243 لوگوں نے ساتھ ترانہ گاکر ریکارڈ بنایا تھا، لیکن اکتوبر 2012 میں پاکستان کے صوبہ پنجاب میں 44,200 لوگوں نے ایک ساتھ قومی ترانہ گا کر یہ ریکارڈ توڑ دیا، لیکن پاکستانی ریکارڈ گنیز بک میں آتا اس سے پہلے ہی دسمبر کے دوسرے ہفتے میں انڈیا کے شہرکان پور کے ایک اسٹیڈیم میں ایک لاکھ لوگوں نے مل کر اپنا قومی ترانہ گایا اور ہمارا ریکارڈ بننے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا۔
آج انڈیا خوش تو بہت ہوگا، ہمیں اس ریس میں خود سے پیچھے دیکھ کر۔ چلیے انڈیا کو مزید خوش کرتے ہیں، ہم آزاد انڈیا سے عمر میں بڑے ہیں۔ ''ایک دن'' لیکن عمر کے علاوہ پاکستان کے پاس انڈیا کے مقابلے میں ہر چیزکم ہے سب سے پہلے انڈیا کے رقبے کو ہی لے لیں جو پاکستان سے 4.12 گنا زیادہ ہے، انڈیا کی آبادی بھی 1.2 بلین ہے جو پاکستان سے چھ سو گنا زیادہ ۔ اسی طرح انڈیا کا جی ڈی پی پاکستان سے آٹھ گنا بہتر ہے اس وقت کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کا جی ڈی پی /کیپٹا اٹھائیس سو ڈالر ہے اور انڈیا کا سینتیس سو ڈالرز۔
ایک چیز میں ہم انڈیا سے خوشی خوشی پیچھے ہیں اور وہ ہے ہمارا قومی قرضہ، پاکستان کے اوپر صرف اکسٹھ بلین ڈالرز کا قرضہ ہے جو ہمیں قرض دار ملکوں کی فہرست میں 54th نمبر پر ہے۔ مگر انڈیا پر (277) بلین کا قرضہ ہے ، اس حساب سے وہ قرض دار ملکوں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر آتا ہے، لیکن ایکسپورٹ کے معاملے میں پاکستان سالانہ صرف پچیس بلین ڈالرز کی ایکسپورٹ کرتا ہے جب کہ انڈیا 298 بلین ڈالرز کی، جس کی وجہ سے انڈیا اس وقت دنیا کا اکیسواں بڑا ایکسپورٹر ہے، جب کہ پاکستان اس فہرست میں اڑسٹھویں (68th) نمبر پر ہے۔ اس وقت انڈیا کے پاس ساتواں سب سے بڑا فارن ایکسچینج اور سونے کے ذخائر ہیں جن کی لاگت 345 بلین ڈالرز ہیں اور پاکستان کے پاس فارن ایکسچینج اور گولڈ ریزرو صرف انتالیس بلین ڈالرز کا ہے۔
ٹیلی کمیونیکیشن یعنی فونز میں بھی انڈیا ہم سے کافی آگے ہے۔ اس وقت انڈیا میں پینتیس ملین لینڈ لائنز بچھی ہوئی ہیں دنیا کی نویں نمبر پر سب سے زیادہ زمینی لائنز۔ جب کہ پاکستان میں اس وقت صرف 34 ملین فون لائنز ہیں۔ جس کے حساب سے ہم چھیالیسویں نمبر پر آتے ہیں۔
موبائل فون میں انڈیا اور آگے ہے، چائنا موبائل فون استعمال کرنے والوں میں اول نمبر پر ہے، تو انڈیا 752 ملین موبائل فونز کے ساتھ نمبر دو پاکستان جب کہ اس فہرست میں نویں نمبر پر ہے۔ اس کے باوجود ہمارے یہاں صرف ایک سوگیارہ ملین Users ہیں، فون کے بعد انٹرنیٹ میں بھی انڈیا دنیا میں یوزرز کے حساب سے چھٹے نمبر پر ہے، وہاں اکسٹھ ملین ہیں اور پاکستان بیس ملین یوزرز کے ساتھ بیسویں نمبر پر ہے۔
ایئرپورٹس میں بھی انڈیا آگے ہے کل ملاکر 352 ایئرپورٹس کے ساتھ وہ دنیا میں بائیسویں رینک پر ہے اور ہم 151 ایئرپورٹس کے ساتھ سینتیسویں (37) نمبر پر۔
جہاز سے اتر کر ریل پر آئیں تو انڈیا دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں ریل کی پٹری 63 ہزار کلومیٹر پر محیط ہے اور پاکستان سات ہزار کلومیٹر پر ستائیسویں نمبر پر ہے۔
سی آئی اے فیکٹ بک 2012 کے مطابق پاکستان میں کئی سالوں سے اندرونی سیاسی جھگڑے ہیں جس کی وجہ سے وہاں باہر کے ملک سرمایہ نہیں لگاتے اور یہی پاکستان کے ترقی پذیر ہونے کی وجہ ہے۔
زراعت پاکستان کی آمدنی کا 1/5 ذریعہ ہے اور 2/5 روزگار کا ذریعہ ہے۔ ٹیکسٹائل پاکستان کی سب بڑی ایکسپورٹ کی آمدنی کا ذریعہ ہے لیکن پاکستان مار کھاتا ہے اپنے بھیجے گئے مال کے معیار سے اور دوسرے ملکوں کی برابری کرنے میں۔ رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ پاکستان کو اپنے سیاسی معاملات اور بجلی کے بحران کو حل کرنا چاہیے اگر وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے۔یو این او ہیومن ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 50% لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سی آئی اے کی ورلڈ فیکٹ بک انڈیا کے بارے میں کہتی ہے کہ وہاں کی گروتھ ایک مثبت سمت میں سفر کر رہی ہے۔ کیونکہ وہاں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے ساتھ ہی وہ لوگ پیسے خرچ کرنا اور بچانا جانتے ہیں اور عالمی معاشیات کی بہتری میں حصہ دار بن رہے ہیں۔
انڈیا کے کئی مسئلے ہیں جیسے غربت اور اچھی اعلیٰ تعلیم کا نہ ہونا، لیکن لگتا ہے کہ انڈیا جلد ہی ان مسئلوں پر قابو پالے گا، یعنی سی آئی اے کی فیکٹ بک میں جہاں پاکستان کی کئی برائیاں نظر آتی ہیں انڈیا ان کے حساب سے ایک روشن اور مثبت مستقبل رکھتا ہے۔
سی آئی اے فیکٹ بک میں ایسا کیوں نہ ہو جب کہ انڈیا کی آبادی ہم سے چھ سو گنا زیادہ ہے اس کے باوجود صرف تین ملین چھوٹے بچے ایسے ہیں جن کے علاقے میں کوئی پرائمری اسکول نہیں، لیکن پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد سات ملین ہے۔ انڈیا میں 91% بچے پرائمری اسکولوں میں رجسٹر ہیں جب کہ پاکستان میں صرف 70%، پرائمری اسکول ختم کرنے والے بچوں کا تناسب انڈیا میں 95% ہے جب کہ پاکستان میں محض 67%۔
انڈیا اپنے جی ڈی پی کا تین فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے اور ہم دو فیصد بھی نہیں۔خواتین کی شرح خواندگی انڈیا میں پچاس فیصد اور پاکستان میں چالیس فیصد ہے۔ انڈیا میں جتنے پی ایچ ڈی ایک سال میں نکلتے ہیں اتنے پاکستان میں بیس سال میں نہیں نکلے۔
یہ سب باتیں بتانے کا مقصد یہ نہیں کہ ہم انڈیا سے پیچھے ہیں بلکہ یہ ہے کہ انڈیا کو پاکستان سے زیادہ مواقع حاصل تھے کیونکہ آزادی کے وقت ان کے پاس ہم سے زیادہ زمین، آبادی، پیسہ، وسائل اور صنعتیں تھیں جس کی وجہ سے وہ آج ہم سے کئی چیزوں میں آگے ہیں۔ یہ ہم جانتے ہیں، لاہور کے پنجاب ہاکی اسٹیڈیم میں ترانے کا ریکارڈ ہم ان سے مقابلے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے بنا رہے تھے کہ ہم اپنی قوم کو خود یہ احساس دلائیں کہ ہم ایک ہیں، ہمارے چوالیس ہزار پاکستانیوں کے پاک سرزمین میں نہ ہی انڈیا کا نام شامل تھا نہ ہی سوچ۔
باقی چیزوں میں انڈیا کو پیچھے چھوڑنے میں تھوڑا وقت لگے گا لیکن انڈیا اگر فوراً مقابلہ کرنا چاہتا تو اسٹیڈیم میں ترانہ گا کر نہ کرے اسی طرح کے کسی اسٹیڈیم میں ذرا بیس بیس اوورز کا ایک کرکٹ میچ ہوجائے۔
کچھ دن پہلے تک دنیا میں سب سے زیادہ لوگوں کا مل کر اپنے ملک کا قومی ترانہ گانے کا ورلڈ ریکارڈ انڈیا کے پاس تھا، ریکارڈ کے مطابق 15,243 لوگوں نے ساتھ ترانہ گاکر ریکارڈ بنایا تھا، لیکن اکتوبر 2012 میں پاکستان کے صوبہ پنجاب میں 44,200 لوگوں نے ایک ساتھ قومی ترانہ گا کر یہ ریکارڈ توڑ دیا، لیکن پاکستانی ریکارڈ گنیز بک میں آتا اس سے پہلے ہی دسمبر کے دوسرے ہفتے میں انڈیا کے شہرکان پور کے ایک اسٹیڈیم میں ایک لاکھ لوگوں نے مل کر اپنا قومی ترانہ گایا اور ہمارا ریکارڈ بننے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا۔
آج انڈیا خوش تو بہت ہوگا، ہمیں اس ریس میں خود سے پیچھے دیکھ کر۔ چلیے انڈیا کو مزید خوش کرتے ہیں، ہم آزاد انڈیا سے عمر میں بڑے ہیں۔ ''ایک دن'' لیکن عمر کے علاوہ پاکستان کے پاس انڈیا کے مقابلے میں ہر چیزکم ہے سب سے پہلے انڈیا کے رقبے کو ہی لے لیں جو پاکستان سے 4.12 گنا زیادہ ہے، انڈیا کی آبادی بھی 1.2 بلین ہے جو پاکستان سے چھ سو گنا زیادہ ۔ اسی طرح انڈیا کا جی ڈی پی پاکستان سے آٹھ گنا بہتر ہے اس وقت کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کا جی ڈی پی /کیپٹا اٹھائیس سو ڈالر ہے اور انڈیا کا سینتیس سو ڈالرز۔
ایک چیز میں ہم انڈیا سے خوشی خوشی پیچھے ہیں اور وہ ہے ہمارا قومی قرضہ، پاکستان کے اوپر صرف اکسٹھ بلین ڈالرز کا قرضہ ہے جو ہمیں قرض دار ملکوں کی فہرست میں 54th نمبر پر ہے۔ مگر انڈیا پر (277) بلین کا قرضہ ہے ، اس حساب سے وہ قرض دار ملکوں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر آتا ہے، لیکن ایکسپورٹ کے معاملے میں پاکستان سالانہ صرف پچیس بلین ڈالرز کی ایکسپورٹ کرتا ہے جب کہ انڈیا 298 بلین ڈالرز کی، جس کی وجہ سے انڈیا اس وقت دنیا کا اکیسواں بڑا ایکسپورٹر ہے، جب کہ پاکستان اس فہرست میں اڑسٹھویں (68th) نمبر پر ہے۔ اس وقت انڈیا کے پاس ساتواں سب سے بڑا فارن ایکسچینج اور سونے کے ذخائر ہیں جن کی لاگت 345 بلین ڈالرز ہیں اور پاکستان کے پاس فارن ایکسچینج اور گولڈ ریزرو صرف انتالیس بلین ڈالرز کا ہے۔
ٹیلی کمیونیکیشن یعنی فونز میں بھی انڈیا ہم سے کافی آگے ہے۔ اس وقت انڈیا میں پینتیس ملین لینڈ لائنز بچھی ہوئی ہیں دنیا کی نویں نمبر پر سب سے زیادہ زمینی لائنز۔ جب کہ پاکستان میں اس وقت صرف 34 ملین فون لائنز ہیں۔ جس کے حساب سے ہم چھیالیسویں نمبر پر آتے ہیں۔
موبائل فون میں انڈیا اور آگے ہے، چائنا موبائل فون استعمال کرنے والوں میں اول نمبر پر ہے، تو انڈیا 752 ملین موبائل فونز کے ساتھ نمبر دو پاکستان جب کہ اس فہرست میں نویں نمبر پر ہے۔ اس کے باوجود ہمارے یہاں صرف ایک سوگیارہ ملین Users ہیں، فون کے بعد انٹرنیٹ میں بھی انڈیا دنیا میں یوزرز کے حساب سے چھٹے نمبر پر ہے، وہاں اکسٹھ ملین ہیں اور پاکستان بیس ملین یوزرز کے ساتھ بیسویں نمبر پر ہے۔
ایئرپورٹس میں بھی انڈیا آگے ہے کل ملاکر 352 ایئرپورٹس کے ساتھ وہ دنیا میں بائیسویں رینک پر ہے اور ہم 151 ایئرپورٹس کے ساتھ سینتیسویں (37) نمبر پر۔
جہاز سے اتر کر ریل پر آئیں تو انڈیا دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں ریل کی پٹری 63 ہزار کلومیٹر پر محیط ہے اور پاکستان سات ہزار کلومیٹر پر ستائیسویں نمبر پر ہے۔
سی آئی اے فیکٹ بک 2012 کے مطابق پاکستان میں کئی سالوں سے اندرونی سیاسی جھگڑے ہیں جس کی وجہ سے وہاں باہر کے ملک سرمایہ نہیں لگاتے اور یہی پاکستان کے ترقی پذیر ہونے کی وجہ ہے۔
زراعت پاکستان کی آمدنی کا 1/5 ذریعہ ہے اور 2/5 روزگار کا ذریعہ ہے۔ ٹیکسٹائل پاکستان کی سب بڑی ایکسپورٹ کی آمدنی کا ذریعہ ہے لیکن پاکستان مار کھاتا ہے اپنے بھیجے گئے مال کے معیار سے اور دوسرے ملکوں کی برابری کرنے میں۔ رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ پاکستان کو اپنے سیاسی معاملات اور بجلی کے بحران کو حل کرنا چاہیے اگر وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے۔یو این او ہیومن ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 50% لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سی آئی اے کی ورلڈ فیکٹ بک انڈیا کے بارے میں کہتی ہے کہ وہاں کی گروتھ ایک مثبت سمت میں سفر کر رہی ہے۔ کیونکہ وہاں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے ساتھ ہی وہ لوگ پیسے خرچ کرنا اور بچانا جانتے ہیں اور عالمی معاشیات کی بہتری میں حصہ دار بن رہے ہیں۔
انڈیا کے کئی مسئلے ہیں جیسے غربت اور اچھی اعلیٰ تعلیم کا نہ ہونا، لیکن لگتا ہے کہ انڈیا جلد ہی ان مسئلوں پر قابو پالے گا، یعنی سی آئی اے کی فیکٹ بک میں جہاں پاکستان کی کئی برائیاں نظر آتی ہیں انڈیا ان کے حساب سے ایک روشن اور مثبت مستقبل رکھتا ہے۔
سی آئی اے فیکٹ بک میں ایسا کیوں نہ ہو جب کہ انڈیا کی آبادی ہم سے چھ سو گنا زیادہ ہے اس کے باوجود صرف تین ملین چھوٹے بچے ایسے ہیں جن کے علاقے میں کوئی پرائمری اسکول نہیں، لیکن پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد سات ملین ہے۔ انڈیا میں 91% بچے پرائمری اسکولوں میں رجسٹر ہیں جب کہ پاکستان میں صرف 70%، پرائمری اسکول ختم کرنے والے بچوں کا تناسب انڈیا میں 95% ہے جب کہ پاکستان میں محض 67%۔
انڈیا اپنے جی ڈی پی کا تین فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے اور ہم دو فیصد بھی نہیں۔خواتین کی شرح خواندگی انڈیا میں پچاس فیصد اور پاکستان میں چالیس فیصد ہے۔ انڈیا میں جتنے پی ایچ ڈی ایک سال میں نکلتے ہیں اتنے پاکستان میں بیس سال میں نہیں نکلے۔
یہ سب باتیں بتانے کا مقصد یہ نہیں کہ ہم انڈیا سے پیچھے ہیں بلکہ یہ ہے کہ انڈیا کو پاکستان سے زیادہ مواقع حاصل تھے کیونکہ آزادی کے وقت ان کے پاس ہم سے زیادہ زمین، آبادی، پیسہ، وسائل اور صنعتیں تھیں جس کی وجہ سے وہ آج ہم سے کئی چیزوں میں آگے ہیں۔ یہ ہم جانتے ہیں، لاہور کے پنجاب ہاکی اسٹیڈیم میں ترانے کا ریکارڈ ہم ان سے مقابلے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے بنا رہے تھے کہ ہم اپنی قوم کو خود یہ احساس دلائیں کہ ہم ایک ہیں، ہمارے چوالیس ہزار پاکستانیوں کے پاک سرزمین میں نہ ہی انڈیا کا نام شامل تھا نہ ہی سوچ۔
باقی چیزوں میں انڈیا کو پیچھے چھوڑنے میں تھوڑا وقت لگے گا لیکن انڈیا اگر فوراً مقابلہ کرنا چاہتا تو اسٹیڈیم میں ترانہ گا کر نہ کرے اسی طرح کے کسی اسٹیڈیم میں ذرا بیس بیس اوورز کا ایک کرکٹ میچ ہوجائے۔