مغربی مابعد جدیدیت اور اُردو کا تناظر
ادب میں معنی کا التوا اور مصنف کی لامرکزیت اور لامرکزیت کا یہی تصور ثقافت اور شناختوں کے بحران کا سبب بنا ہے
تحقیق خواہ علم کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتی ہو، ذمے داری اورسنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے۔تحقیقی عمل آسان نہیں ہوتا،تاہم فلسفیانہ تحقیق اور بھی زیادہ مشکل کام ہے ۔ اس میں درپیش مشکلات کا ادراک صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں، جو اس مرحلے سے گزرے ہوں اور جن کی فکری تربیت میں فلسفے نے اہم کردار ادا کیا ہو۔ جب فلسفیانہ تحقیق میں حقائق کو جوں کا توں پیش کرنے کے علاوہ ان کا تنقیدی تجزیہ بھی مقصود ہو تو مشکل افکار کی تفہیم، ان کے درمیان لازمی تعلق، امتیاز، افتراق اور مختلف تناظر میں ان کے متعلقہ یا غیر متعلقہ ہونے کا معاملہ مزید مشکل ہوجاتا ہے۔
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ تحقیق اور تنقید حتیٰ کہ فلسفے کے بارے میں بھی کہانیاں لکھنے والوں کے علاوہ وہ لوگ رائے دینے کے لیے تیار رہتے ہیں جو اس مخصوص موضوع کے بارے میں یا تو بالکل ہی کچھ نہیں جانتے یا پھر ان کا علم بہت ہی محدود ہوتا ہے۔ آزادانہ تفکر کے نتیجے میں پروان چڑھنے والے فلسفیانہ خیالات کے بارے میںاذہانی طبع کے ادیبوںسے رائے لی جاتی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسی قسم کے اذہان رکھنے والے ہی وہ لوگ ہوتے ہیں، جو معیاری مطالعے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں۔مغربی ممالک میں تحقیق کی اہمیت میں بہت اضافہ ہوچکا ہے۔
تحقیق کی اہمیت دریافت کرنی ہے یا مختلف معاشروں پر اس کے اثرات کا جائزہ لینا ہو تو ہمارے سامنے وہ معاشرے اور ان اہم محققوں کے نام ہونے چاہیں، جن کے خیالات اور اخذ کردہ نتائج لوگوں کے اذہان پر اثر انداز ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ تنقید، تخلیق اور تحقیق تین مختلف میدان ہیں۔'' تخلیق'' کی برتری کے خیال کی جڑیں اٹھارویں اور انیسویں صدی کی رومانیت میں پیوست ہیں، جنھیں بیسویں صدی کے آغاز میں ہی کھوکھلا کردیا گیا تھا۔روس میں انقلاب کے بعد ''تنقیدی حقیقت نگاری'' اور فرانس میںانیس سو پچاس کے بعد تنقیدی نظریات کے معاشرے پر گہرائی سے اثر انداز ہونے کی شناخت ہوچکی تھی۔
عہد حاضر میں تنقیدی نظریات نے جس طرح لوگوں کو ایک مختلف فکری جہت عطا کی ہے اس سے تنقید کی اہمیت میں حد درجے اضافہ ہوا ہے۔ فلسفے سے جنم لینے والے خیالات سیاسی وسماجی علوم کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہمارے لیے ان خیالات کی اہمیت واضح ہونی بہت ضروری ہے جو لوگوں کے اذہان پر اثر انداز ہونے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ اگر مابعد جدید فکری مباحث کو ان کے حقیقی پسِ منظر میں پیش کیا جائے تو مغربی و امریکی علمیاتی اور ادبی رجحانات کا لوگوں کے اذہان پر اثر کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے، خواہ ان کی اہمیت بعض سطحوں پر فسطائیت ہی کی عکاسی کیوں نہ کرتی ہو۔
جب بعض شارحین مابعد جدیدیت کا ذکر کرتے ہیں تو وہ مابعد جدیدیت کے عمومی رجحان اور جن شعبوں میں اس کے بنیادی قضایا سرایت کرچکے ہیں،ان کو واضح طور پر دیکھ پاتے ہیں اور نہ ہی بیان کرپاتے ہیں۔اس وجہ سے بھی مابعد جدیدیت کی نظری جہت ابھی تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ پھر یہ کہ فلسفے، ادب، شاعری، سیاسیات ، علم البشریات اور دیگر سماجی سائنوں میں مابعد جدیدیت کے بنیادی نظری قضایا کے مابین اصطلاحات کے فرق سے بھی تفہیم کا مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مابعد جدیدیت کے نظری مباحث نے بعض مقامات پر عقلیت کے اس روشن خیالی پروجیکٹ کو سخت چیلنج سے دوچار کردیا ہے، جس کی ابتدا رینے ڈیکارٹ سے ہوئی اور انتہا جرمن فلسفی فریڈرک ہیگل کے فلسفے میں!مثال کے طور پر فلسفے میں تعقل کا عدم استحکام اور ترکیبی قضایا کا بحران سامنے آچکا ہے۔
ادب میں معنی کا التوا اور مصنف کی لامرکزیت اور لامرکزیت کا یہی تصور ثقافت اور دیگر سماجی سائنسوں میں شناختوں کے بحران کا سبب بنا ہے۔جس تصور کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے وہ بلاشبہ مرکزیت اور مآخذ کا تصور ہے، دیگر تمام تصورات اسی سے جڑے ہوئے ہیں۔ فلسفے میں جب اس کو نقصان پہنچتا ہے تو تعقل میں عدم استحکام کی وجہ سے ترکیب کا عمل مشکل تر ہوجاتا ہے جو علمیات کے سوال کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ ادب اور شاعری میں مرکزیت کے انہدام کا مطلب مصنف و شاعر کے معنی پر دعوے کے تصور کا خاتمہ کرنا ہے۔ جب مصنف بطورِ مرکز موجود ہی نہیں ہوگا تو خواہ وہ علمیات کی بحث میں خارجیت کی تخفیف کا عمل ہو یا ادب میں معنی کا تعین کیے جانے کا عمل، اس کا کردار فیصلہ کن نہیں رہے گااور نہ ہی مصنف خود بطورِ بڑا بیانیہ آفاقی کردار اداکرسکے گا۔
یہ وہ خیالات ہیں جو فرانسیسی فلسفی ژاک دریدا اور ادبی نقاد رولاں بارتھ کے افکار میں موجود تھے۔ اور جنھیں بعد ازاں ایک اور فرانسیسی فلسفی لیوٹارڈ نے 1979 میں'' ترقی یافتہ معاشروں'' کی ثقافتی اور علمیاتی سطحوں کا تعین کرتے وقت اختیار کرلیا ۔بڑے بیانیے پر تشکیک سے سیاست میں مائیکرو سیاست کے تصور کا آغاز ہوا، مگر دریدا کے لاتشکیلی خیالات سے مائیکرو سیاست کو بھی دھچکا لگا، کیونکہ اصل مقصد اس تعین کو چیلنج کرنا تھا جو کلیت کے تصور کے وسیلے سے ممکن تھی۔ مائیکرو سطح پر بھی مرکزیت کے تصور کا انہدام ممکن نہ تھا، اس کے بغیر معنی کے التوا کے بارے میں سوچنا بھی محال تھا۔
ادب میں شیکسپیئر، گوئٹے، ملارمے سمیت وہ تمام ادبا و شعرا اس مابعد جدید تصورکی زد پر تھے جن کا بحیثیت ایک ''بڑا بیانیہ'' حوالہ استعمال کیا جاتا تھا۔ مغرب میں مابعد جدیدیت کے بعد شیکسپیئر کی اہمیت کم ہوچکی تھی، سوائے ان چند'' قدامت پسندوں'' کے جو ابھی تک ادب میں ''ویلیو ججمنٹ'' پر یقین رکھتے تھے، مگر اس کے باوجود شعری و ادبی متون کا تجزیہ یہ ثابت کردیتا تھا کہ جس معنی کی تشکیل کی کوشش شعرا اور ادبا نے کی ہے اس کی حیثیت محض ایک افسانے جیسی ہے اور وہ ''تخلیق کار'' کے اپنے ذہن کے علاوہ کہیں موجود نہیں ہے۔ اس طرح اعلیٰ ہونے کا تصور محض ایک طرح کی آئیڈیولاجیکل تشکیل بن جاتا ہے، کوئی ازلی و ابدی سچائی نہیں! اس فکری پس منظر کے تحت نئے عہد کا تقاضا تھا کہ شیکسپیئر کی بطور ایک ''اعلیٰ ادیب'' کے تحت قائم ہوئی ''باطل'' شناخت کو ختم کیا جاتا تاکہ ''بڑے بیانیے'' کے حوالے کے تحت کسی بھی فن پارے کو نہ پرکھا جاسکے۔ (جاری ہے۔)
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ تحقیق اور تنقید حتیٰ کہ فلسفے کے بارے میں بھی کہانیاں لکھنے والوں کے علاوہ وہ لوگ رائے دینے کے لیے تیار رہتے ہیں جو اس مخصوص موضوع کے بارے میں یا تو بالکل ہی کچھ نہیں جانتے یا پھر ان کا علم بہت ہی محدود ہوتا ہے۔ آزادانہ تفکر کے نتیجے میں پروان چڑھنے والے فلسفیانہ خیالات کے بارے میںاذہانی طبع کے ادیبوںسے رائے لی جاتی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسی قسم کے اذہان رکھنے والے ہی وہ لوگ ہوتے ہیں، جو معیاری مطالعے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں۔مغربی ممالک میں تحقیق کی اہمیت میں بہت اضافہ ہوچکا ہے۔
تحقیق کی اہمیت دریافت کرنی ہے یا مختلف معاشروں پر اس کے اثرات کا جائزہ لینا ہو تو ہمارے سامنے وہ معاشرے اور ان اہم محققوں کے نام ہونے چاہیں، جن کے خیالات اور اخذ کردہ نتائج لوگوں کے اذہان پر اثر انداز ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ تنقید، تخلیق اور تحقیق تین مختلف میدان ہیں۔'' تخلیق'' کی برتری کے خیال کی جڑیں اٹھارویں اور انیسویں صدی کی رومانیت میں پیوست ہیں، جنھیں بیسویں صدی کے آغاز میں ہی کھوکھلا کردیا گیا تھا۔روس میں انقلاب کے بعد ''تنقیدی حقیقت نگاری'' اور فرانس میںانیس سو پچاس کے بعد تنقیدی نظریات کے معاشرے پر گہرائی سے اثر انداز ہونے کی شناخت ہوچکی تھی۔
عہد حاضر میں تنقیدی نظریات نے جس طرح لوگوں کو ایک مختلف فکری جہت عطا کی ہے اس سے تنقید کی اہمیت میں حد درجے اضافہ ہوا ہے۔ فلسفے سے جنم لینے والے خیالات سیاسی وسماجی علوم کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہمارے لیے ان خیالات کی اہمیت واضح ہونی بہت ضروری ہے جو لوگوں کے اذہان پر اثر انداز ہونے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ اگر مابعد جدید فکری مباحث کو ان کے حقیقی پسِ منظر میں پیش کیا جائے تو مغربی و امریکی علمیاتی اور ادبی رجحانات کا لوگوں کے اذہان پر اثر کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے، خواہ ان کی اہمیت بعض سطحوں پر فسطائیت ہی کی عکاسی کیوں نہ کرتی ہو۔
جب بعض شارحین مابعد جدیدیت کا ذکر کرتے ہیں تو وہ مابعد جدیدیت کے عمومی رجحان اور جن شعبوں میں اس کے بنیادی قضایا سرایت کرچکے ہیں،ان کو واضح طور پر دیکھ پاتے ہیں اور نہ ہی بیان کرپاتے ہیں۔اس وجہ سے بھی مابعد جدیدیت کی نظری جہت ابھی تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ پھر یہ کہ فلسفے، ادب، شاعری، سیاسیات ، علم البشریات اور دیگر سماجی سائنوں میں مابعد جدیدیت کے بنیادی نظری قضایا کے مابین اصطلاحات کے فرق سے بھی تفہیم کا مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مابعد جدیدیت کے نظری مباحث نے بعض مقامات پر عقلیت کے اس روشن خیالی پروجیکٹ کو سخت چیلنج سے دوچار کردیا ہے، جس کی ابتدا رینے ڈیکارٹ سے ہوئی اور انتہا جرمن فلسفی فریڈرک ہیگل کے فلسفے میں!مثال کے طور پر فلسفے میں تعقل کا عدم استحکام اور ترکیبی قضایا کا بحران سامنے آچکا ہے۔
ادب میں معنی کا التوا اور مصنف کی لامرکزیت اور لامرکزیت کا یہی تصور ثقافت اور دیگر سماجی سائنسوں میں شناختوں کے بحران کا سبب بنا ہے۔جس تصور کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے وہ بلاشبہ مرکزیت اور مآخذ کا تصور ہے، دیگر تمام تصورات اسی سے جڑے ہوئے ہیں۔ فلسفے میں جب اس کو نقصان پہنچتا ہے تو تعقل میں عدم استحکام کی وجہ سے ترکیب کا عمل مشکل تر ہوجاتا ہے جو علمیات کے سوال کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ ادب اور شاعری میں مرکزیت کے انہدام کا مطلب مصنف و شاعر کے معنی پر دعوے کے تصور کا خاتمہ کرنا ہے۔ جب مصنف بطورِ مرکز موجود ہی نہیں ہوگا تو خواہ وہ علمیات کی بحث میں خارجیت کی تخفیف کا عمل ہو یا ادب میں معنی کا تعین کیے جانے کا عمل، اس کا کردار فیصلہ کن نہیں رہے گااور نہ ہی مصنف خود بطورِ بڑا بیانیہ آفاقی کردار اداکرسکے گا۔
یہ وہ خیالات ہیں جو فرانسیسی فلسفی ژاک دریدا اور ادبی نقاد رولاں بارتھ کے افکار میں موجود تھے۔ اور جنھیں بعد ازاں ایک اور فرانسیسی فلسفی لیوٹارڈ نے 1979 میں'' ترقی یافتہ معاشروں'' کی ثقافتی اور علمیاتی سطحوں کا تعین کرتے وقت اختیار کرلیا ۔بڑے بیانیے پر تشکیک سے سیاست میں مائیکرو سیاست کے تصور کا آغاز ہوا، مگر دریدا کے لاتشکیلی خیالات سے مائیکرو سیاست کو بھی دھچکا لگا، کیونکہ اصل مقصد اس تعین کو چیلنج کرنا تھا جو کلیت کے تصور کے وسیلے سے ممکن تھی۔ مائیکرو سطح پر بھی مرکزیت کے تصور کا انہدام ممکن نہ تھا، اس کے بغیر معنی کے التوا کے بارے میں سوچنا بھی محال تھا۔
ادب میں شیکسپیئر، گوئٹے، ملارمے سمیت وہ تمام ادبا و شعرا اس مابعد جدید تصورکی زد پر تھے جن کا بحیثیت ایک ''بڑا بیانیہ'' حوالہ استعمال کیا جاتا تھا۔ مغرب میں مابعد جدیدیت کے بعد شیکسپیئر کی اہمیت کم ہوچکی تھی، سوائے ان چند'' قدامت پسندوں'' کے جو ابھی تک ادب میں ''ویلیو ججمنٹ'' پر یقین رکھتے تھے، مگر اس کے باوجود شعری و ادبی متون کا تجزیہ یہ ثابت کردیتا تھا کہ جس معنی کی تشکیل کی کوشش شعرا اور ادبا نے کی ہے اس کی حیثیت محض ایک افسانے جیسی ہے اور وہ ''تخلیق کار'' کے اپنے ذہن کے علاوہ کہیں موجود نہیں ہے۔ اس طرح اعلیٰ ہونے کا تصور محض ایک طرح کی آئیڈیولاجیکل تشکیل بن جاتا ہے، کوئی ازلی و ابدی سچائی نہیں! اس فکری پس منظر کے تحت نئے عہد کا تقاضا تھا کہ شیکسپیئر کی بطور ایک ''اعلیٰ ادیب'' کے تحت قائم ہوئی ''باطل'' شناخت کو ختم کیا جاتا تاکہ ''بڑے بیانیے'' کے حوالے کے تحت کسی بھی فن پارے کو نہ پرکھا جاسکے۔ (جاری ہے۔)