انتہا پسندی سادہ نہیں پیچیدہ مسئلہ
کچھ دنوں سے ہم خوش تھے کہ دہشت گردی کا زور ٹوٹ گیا ہے
ISLAMABAD:
کچھ دنوں سے ہم خوش تھے کہ دہشت گردی کا زور ٹوٹ گیا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ انتہاپسندوں کے ٹھکانے تباہ و برباد کردیئے گئے ہیں۔ لیکن فلکِ کج رفتار کو انسانوں کی خوشی بھلا کہاں راس آتی ہے۔ چند دنوں سے ایک بار پھر ہر طرف بارود کی بُو ہے، خون کے تھالے ہیں اور ادھڑی ہوئی لاشیں ہیں۔
لاہور، کوئٹہ، مہمند، جنوبی وزیرستان اور درگاہ لعل شہباز قلندرؒ خون میں نہا گئے۔ اب کہا جارہا ہے کہ نیکٹا نے 7فروری کو الرٹ جاری کیا تھا اور کہا تھا کہ ''نامعلوم دہشت گرد گروپ'' لاہور میں حملہ کرسکتا ہے۔ اس نوعیت کے الرٹس کا کوئی فائدہ کیوں نہیں ہوتا؟ کوئی اس کا جواب نہیں دے سکتا۔
وزیراعظم نے درست کہا کہ یہ حملے ترقی پسند پاکستان پر حملے ہیں اور ایسا کرنے والوں کے خلاف بے رحم آپریشن کیا جائے گا۔ آپریشن ضرور کیا جائے لیکن کسی بے گناہ کو بے رحمی کی چکی میں نہ پیس دیا جائے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ دہشتگردوں کو شکست دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں اور ان کے سہولت کاروں اور نظریے کو بھی ختم کرنا ضروری ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ بھی اسی نوعیت کے خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔
اس صورت حال کے بارے میں سب سے زیادہ کڑی تنقید سینیٹ میں ہوئی۔ سینیٹ ارکان احتجاج کررہے ہیں اور کھل کر یہ کہہ رے ہیں کہ کالعدم جماعتیں مل کر کام کررہی ہیں۔ ان کے جلسوں اور ان کے پوسٹروں میں نفرت انگیز تقریریں ہورہی ہیں، اشتعال دلانے والا مواد چھپ رہا ہے، تقریریں کی جارہی ہیں اور کوئی ان پر گرفت کرنے والا نہیں۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے بارے میں اپنی ترجیحات درست نہیں کیں، ان کا کہنا تھا کہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کرے۔ حکومت نے نفرت انگیز تقاریر روکنے کے بارے میں کچھ نہیں کیا، لیکن بلاگرز اور سول سوسائٹی کے نمایندے ریاست کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں تو ان کے خلاف نفرت آمیز تقاریر کرنے اور دوسرے سنگین الزامات عائد کردیئے جاتے ہیں۔
ملک کی ایک بڑی اکثریت آج سے نہیں سالہا سال سے یہ کہہ رہی تھی کہ پاکستان میں انتہا پسندی جس طرح اپنے پنجے گاڑ رہی ہے، وہ آخرکار ہمارے لیے ایک بڑا عذاب بننے والی ہے۔ اس وقت ہمیں گڈ اور بیڈ کا فلسفہ پڑھانے کی کوشش کی گئی جس سے کئی حلقے متفق نہیں تھے اور یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی خواہ کسی بھی طرح کی ہو وہ ملک اور معاشرے کے لیے تباہ کن ہوتی ہے۔
دہشت گردی اور انتہاپسندی کے اس عفریت کے بارے میں سہ ماہی جریدہ 'تجزیات' میں مسلسل وہ تحریریں چھپ رہی ہیں جو ان مسائل پر روشنی ڈالتی ہیں۔ جنوری تا مارچ 2017ء کے شمارے میں ایسی کئی تحریریں ہیں جو شدت پسندی اور انتہاپسندی کی وجوہ کا احاطہ کرتی ہیں۔ تازہ شمارے میں ایک تفصیلی مضمون 'پنجاب فرقہ واریت کا مقابلہ کرنے میں کہاں غلطی پر ہے؟' پڑھئے تو دل کانپ جاتا ہے اور فرقہ واریت پرانی کہانیوں کے کردار Hydra کی طرح نظر آتی ہے جس کا ایک سر کاٹا جائے تو کٹے ہوئے سر کے بجائے 7 یا 9 سر اُگ جاتے تھے، یعنی دہشت کا ایک ختم نہ ہونا والا سلسلہ۔
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا کی جامعات میں شدت پسندی، بہ ظاہر ہم سے متعلق نہیں لیکن کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر مارٹن روز نے جس طرح یہ جائزہ لیا ہے، اس میں ہمارے لیے بھی سوچ کے بہت سے پہلو پنہاں ہیں۔ ان تحقیقات کو پاکستان کے تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ حال میں منظرعام پر آنے والی سانحہ کوئٹہ کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وکیلوں پر خودکش حملے کا ماسٹر مائنڈ انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار سے پڑھ کر نکلا تھا۔
اپنی تحقیق میں پروفیسر مارٹن روز نے یہ بڑا غور طلب نتیجہ نکالا ہے کہ شدت پسندی کا تعلیم کی کمی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ''یہ کہنا آسان ہے کہ غربت اور تعلیمی انحطاط، مایوسی کا موجب بنتے ہیں اور جب مایوسی اور ''کھونے کو کچھ نہ ہو'' جیسے حالات اکٹھے ہو جائیں تو یہ دہشت گردی کا محرک بنتی ہیں۔ جیسا کہ Claude Berrebi نے 2007ء میں اپنے ایک تحقیقی مقالے میں لکھا تھا کہ ''کسی بھی دہشت گرد تنظیم کا سب سے آسان شکار وہ افراد ہوتے ہیں جنھیں آگے بڑھنے کے بہت کم مواقع دستیاب ہوتے ہیں''۔
اس بات میں کافی وزن ہے۔ بہت سے لوگ Eli Wiesel کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس کا موقف کچھ مختلف ہے، وہ لکھتا ہے کہ ''جو بات نوجوان افراد کو دہشت گردی کی جانب مائل کرتی ہے وہ سہولت اور آسانی ہے۔ انتہاپسندوں کے پاس سوالات نہیں، صرف جوابات ہوتے ہیں، تعلیم ہی وہ راستہ ہے جو دہشت گردی کو ختم کرسکتا ہے۔ Berrebi نے کئی سیاستدانوں کا حوالہ بھی دیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ''غربت اور عدم توجہی، شدت پسندی اور دہشت گردی کے ذمے دار ہیں''۔ سب اس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم ہی دہشت گردی کے خلاف موثر ہتھیار ہے۔
نیشنل پولیس اکیڈمی انقرہ میں پروفیسر مارٹن روز کا لکچر بہت طویل، جامع اور اعداد و شمار سے مرصع تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ عسکریت پسندی کے بیج اسکولوں کے کلاس روم میں بوئے جاتے ہیں۔ درحقیقت ایسا تعلیمی نظام جو طلبا میں تنقیدی سوچ کو پروان چڑھائے وہی ان میں عسکریت پسندی کے خلاف مدافعانہ قوت پیدا کرے گا۔ جب وہ یونیورسٹی کی سطح تک پہنچیں گے تو ان کے ذہن تنقیدی رویہ اور وسعتِ فکر رکھتے ہوں گے۔
انجینئرنگ، سائنسز اور ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا شدت پسندانہ سوچ کو رد کردیں گے۔ اس تجربے کو تمام سطحوں پر آزمایا جانا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ چند ایک پھر بھی شدت پسندی کی جانب راغب ہوجائیں۔ لیکن اگر اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں تنقیدی فکر کو پروان چڑھایا جائے گا تو ان میں شدت پسندی کی جانب راغب ہونے کا رجحان اور زیادہ کم ہوجائے گا جس سے آگے چل کر وسعت نظر اور جمہوری انداز رکھنے والے معاشروں کو تقویت ملے گی۔
تعلیم ہی وہ راستہ ہے جس سے دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے صرف تعلیم نہیں بلکہ ایسی تعلیم جس کا مقصد بھی ہو۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور انسداد دہشت گردی کے مانے ہوئے ماہر Louise Richardson نے کہا ہے کہ ''وہ اپنے تحقیقی کام کے سلسلے میں جس دہشت گرد سے بھی ملا اس کا دنیا کے بارے میں نقطہ نظر بڑا جامد تھا۔ وہ ہر چیز کو سفید یا سیاہ سمجھتا تھا۔ تعلیم اس سے یہ انداز فکر اور یہ یقین چھین لیتی ہے۔ دہشت گردی کے زہر کے خلاف تعلیم سے بہتر تریاق کوئی نہیں ہے''۔
ہم کئی دہائیوں سے بتدریج انتہا پسندی کی طرف بڑھتے رہے ہیں۔ ابتدائی دور سے ہمیں ایک جنگ آمادہ پڑوسی کا سامنا رہا۔ اس پر سے ستم یہ ہوا کہ ہمیں اس بیانیے کو بڑھاوا دینے والے ملے جن کے خیال میں حقیقی اور خیالی دشمن سے حقیقی اور فرضی محاذ آرائی ہماری تقویت کا سبب تھی۔
ریاست نے جس پیمانے پر جنگ پسندی کو بڑھاوا دیا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے یہاں ایسے بے شمار گروہ پیدا ہوگئے جنھوں نے تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں، جیسے نعروں کو حرز جاں بنا لیا اور اب ہمارے سامنے ناگ پھنی کے جنگل لہرا رہے ہیں۔ اس ذہنی رویے سے نمٹنے کی جب بھی کوشش کی گئی تو نامعلوم افراد نے امن کی تمام کوششوں کو سبوتاژ کرنا اپنا فرض سمجھا۔
لعل شہباز قلندر کے مزار پر دھمال کھیلتے ہوئے بدحال اور مفلس انسان جس طرح خون میں نہلا دیئے گئے، اس کے پیچھے نفرت کے جہنم بھڑکتے ہیں۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم اس پیچیدہ مسئلے کو بہت سادہ تصور کرتے ہیں اور نفرت کے اس جہنم کو سرد کرنے کی ذمے داری صرف حکومتوں پر عائد کرتے ہیں۔
مسلم ملکوں میں انتہا پسندی اور دہشت گردی ظالم بادشاہوں اور آمروں کے طویل جبر اور استبداد کا نتیجہ ہے۔ جب آمروں اور شاہوں نے پُرامن جمہوری اور لبرل جدوجہد کا بزور جبر راستہ روکا تو اس کے نتیجے میں انتہاپسند عسکری طاقتوں کو عروج ہوا اور انھیں بعض جگہوں پر عوام کے بعض حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہوگئی اور بتدریج اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ہمارے پالیسی سازوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ دہشت گردوں کے خلاف ریاست کی جانب سے عوام کی حمایت کے ساتھ سخت کارروائی ضرور کی جائے لیکن اس کے ساتھ یہ امر بھی فراموش نہ کیا جائے کہ اپنے عوام کو جمہوریت، بنیادی انسانی حقوق، انصاف اور منصفانہ معاشی نظام سے محروم رکھ کر یہ جنگ مکمل طور پر نہیں جیتی جا سکتی ہے۔ لہٰذا یاد رکھا جائے کہ ان عوامل پر عمل درآمد کیے بغیر انتہاپسندی اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن فتح ممکن نہیں ہوگی۔
کچھ دنوں سے ہم خوش تھے کہ دہشت گردی کا زور ٹوٹ گیا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ انتہاپسندوں کے ٹھکانے تباہ و برباد کردیئے گئے ہیں۔ لیکن فلکِ کج رفتار کو انسانوں کی خوشی بھلا کہاں راس آتی ہے۔ چند دنوں سے ایک بار پھر ہر طرف بارود کی بُو ہے، خون کے تھالے ہیں اور ادھڑی ہوئی لاشیں ہیں۔
لاہور، کوئٹہ، مہمند، جنوبی وزیرستان اور درگاہ لعل شہباز قلندرؒ خون میں نہا گئے۔ اب کہا جارہا ہے کہ نیکٹا نے 7فروری کو الرٹ جاری کیا تھا اور کہا تھا کہ ''نامعلوم دہشت گرد گروپ'' لاہور میں حملہ کرسکتا ہے۔ اس نوعیت کے الرٹس کا کوئی فائدہ کیوں نہیں ہوتا؟ کوئی اس کا جواب نہیں دے سکتا۔
وزیراعظم نے درست کہا کہ یہ حملے ترقی پسند پاکستان پر حملے ہیں اور ایسا کرنے والوں کے خلاف بے رحم آپریشن کیا جائے گا۔ آپریشن ضرور کیا جائے لیکن کسی بے گناہ کو بے رحمی کی چکی میں نہ پیس دیا جائے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ دہشتگردوں کو شکست دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں اور ان کے سہولت کاروں اور نظریے کو بھی ختم کرنا ضروری ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ بھی اسی نوعیت کے خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔
اس صورت حال کے بارے میں سب سے زیادہ کڑی تنقید سینیٹ میں ہوئی۔ سینیٹ ارکان احتجاج کررہے ہیں اور کھل کر یہ کہہ رے ہیں کہ کالعدم جماعتیں مل کر کام کررہی ہیں۔ ان کے جلسوں اور ان کے پوسٹروں میں نفرت انگیز تقریریں ہورہی ہیں، اشتعال دلانے والا مواد چھپ رہا ہے، تقریریں کی جارہی ہیں اور کوئی ان پر گرفت کرنے والا نہیں۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے بارے میں اپنی ترجیحات درست نہیں کیں، ان کا کہنا تھا کہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کرے۔ حکومت نے نفرت انگیز تقاریر روکنے کے بارے میں کچھ نہیں کیا، لیکن بلاگرز اور سول سوسائٹی کے نمایندے ریاست کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں تو ان کے خلاف نفرت آمیز تقاریر کرنے اور دوسرے سنگین الزامات عائد کردیئے جاتے ہیں۔
ملک کی ایک بڑی اکثریت آج سے نہیں سالہا سال سے یہ کہہ رہی تھی کہ پاکستان میں انتہا پسندی جس طرح اپنے پنجے گاڑ رہی ہے، وہ آخرکار ہمارے لیے ایک بڑا عذاب بننے والی ہے۔ اس وقت ہمیں گڈ اور بیڈ کا فلسفہ پڑھانے کی کوشش کی گئی جس سے کئی حلقے متفق نہیں تھے اور یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی خواہ کسی بھی طرح کی ہو وہ ملک اور معاشرے کے لیے تباہ کن ہوتی ہے۔
دہشت گردی اور انتہاپسندی کے اس عفریت کے بارے میں سہ ماہی جریدہ 'تجزیات' میں مسلسل وہ تحریریں چھپ رہی ہیں جو ان مسائل پر روشنی ڈالتی ہیں۔ جنوری تا مارچ 2017ء کے شمارے میں ایسی کئی تحریریں ہیں جو شدت پسندی اور انتہاپسندی کی وجوہ کا احاطہ کرتی ہیں۔ تازہ شمارے میں ایک تفصیلی مضمون 'پنجاب فرقہ واریت کا مقابلہ کرنے میں کہاں غلطی پر ہے؟' پڑھئے تو دل کانپ جاتا ہے اور فرقہ واریت پرانی کہانیوں کے کردار Hydra کی طرح نظر آتی ہے جس کا ایک سر کاٹا جائے تو کٹے ہوئے سر کے بجائے 7 یا 9 سر اُگ جاتے تھے، یعنی دہشت کا ایک ختم نہ ہونا والا سلسلہ۔
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا کی جامعات میں شدت پسندی، بہ ظاہر ہم سے متعلق نہیں لیکن کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر مارٹن روز نے جس طرح یہ جائزہ لیا ہے، اس میں ہمارے لیے بھی سوچ کے بہت سے پہلو پنہاں ہیں۔ ان تحقیقات کو پاکستان کے تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ حال میں منظرعام پر آنے والی سانحہ کوئٹہ کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وکیلوں پر خودکش حملے کا ماسٹر مائنڈ انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار سے پڑھ کر نکلا تھا۔
اپنی تحقیق میں پروفیسر مارٹن روز نے یہ بڑا غور طلب نتیجہ نکالا ہے کہ شدت پسندی کا تعلیم کی کمی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ''یہ کہنا آسان ہے کہ غربت اور تعلیمی انحطاط، مایوسی کا موجب بنتے ہیں اور جب مایوسی اور ''کھونے کو کچھ نہ ہو'' جیسے حالات اکٹھے ہو جائیں تو یہ دہشت گردی کا محرک بنتی ہیں۔ جیسا کہ Claude Berrebi نے 2007ء میں اپنے ایک تحقیقی مقالے میں لکھا تھا کہ ''کسی بھی دہشت گرد تنظیم کا سب سے آسان شکار وہ افراد ہوتے ہیں جنھیں آگے بڑھنے کے بہت کم مواقع دستیاب ہوتے ہیں''۔
اس بات میں کافی وزن ہے۔ بہت سے لوگ Eli Wiesel کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس کا موقف کچھ مختلف ہے، وہ لکھتا ہے کہ ''جو بات نوجوان افراد کو دہشت گردی کی جانب مائل کرتی ہے وہ سہولت اور آسانی ہے۔ انتہاپسندوں کے پاس سوالات نہیں، صرف جوابات ہوتے ہیں، تعلیم ہی وہ راستہ ہے جو دہشت گردی کو ختم کرسکتا ہے۔ Berrebi نے کئی سیاستدانوں کا حوالہ بھی دیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ''غربت اور عدم توجہی، شدت پسندی اور دہشت گردی کے ذمے دار ہیں''۔ سب اس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم ہی دہشت گردی کے خلاف موثر ہتھیار ہے۔
نیشنل پولیس اکیڈمی انقرہ میں پروفیسر مارٹن روز کا لکچر بہت طویل، جامع اور اعداد و شمار سے مرصع تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ عسکریت پسندی کے بیج اسکولوں کے کلاس روم میں بوئے جاتے ہیں۔ درحقیقت ایسا تعلیمی نظام جو طلبا میں تنقیدی سوچ کو پروان چڑھائے وہی ان میں عسکریت پسندی کے خلاف مدافعانہ قوت پیدا کرے گا۔ جب وہ یونیورسٹی کی سطح تک پہنچیں گے تو ان کے ذہن تنقیدی رویہ اور وسعتِ فکر رکھتے ہوں گے۔
انجینئرنگ، سائنسز اور ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا شدت پسندانہ سوچ کو رد کردیں گے۔ اس تجربے کو تمام سطحوں پر آزمایا جانا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ چند ایک پھر بھی شدت پسندی کی جانب راغب ہوجائیں۔ لیکن اگر اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں تنقیدی فکر کو پروان چڑھایا جائے گا تو ان میں شدت پسندی کی جانب راغب ہونے کا رجحان اور زیادہ کم ہوجائے گا جس سے آگے چل کر وسعت نظر اور جمہوری انداز رکھنے والے معاشروں کو تقویت ملے گی۔
تعلیم ہی وہ راستہ ہے جس سے دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے صرف تعلیم نہیں بلکہ ایسی تعلیم جس کا مقصد بھی ہو۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور انسداد دہشت گردی کے مانے ہوئے ماہر Louise Richardson نے کہا ہے کہ ''وہ اپنے تحقیقی کام کے سلسلے میں جس دہشت گرد سے بھی ملا اس کا دنیا کے بارے میں نقطہ نظر بڑا جامد تھا۔ وہ ہر چیز کو سفید یا سیاہ سمجھتا تھا۔ تعلیم اس سے یہ انداز فکر اور یہ یقین چھین لیتی ہے۔ دہشت گردی کے زہر کے خلاف تعلیم سے بہتر تریاق کوئی نہیں ہے''۔
ہم کئی دہائیوں سے بتدریج انتہا پسندی کی طرف بڑھتے رہے ہیں۔ ابتدائی دور سے ہمیں ایک جنگ آمادہ پڑوسی کا سامنا رہا۔ اس پر سے ستم یہ ہوا کہ ہمیں اس بیانیے کو بڑھاوا دینے والے ملے جن کے خیال میں حقیقی اور خیالی دشمن سے حقیقی اور فرضی محاذ آرائی ہماری تقویت کا سبب تھی۔
ریاست نے جس پیمانے پر جنگ پسندی کو بڑھاوا دیا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے یہاں ایسے بے شمار گروہ پیدا ہوگئے جنھوں نے تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں، جیسے نعروں کو حرز جاں بنا لیا اور اب ہمارے سامنے ناگ پھنی کے جنگل لہرا رہے ہیں۔ اس ذہنی رویے سے نمٹنے کی جب بھی کوشش کی گئی تو نامعلوم افراد نے امن کی تمام کوششوں کو سبوتاژ کرنا اپنا فرض سمجھا۔
لعل شہباز قلندر کے مزار پر دھمال کھیلتے ہوئے بدحال اور مفلس انسان جس طرح خون میں نہلا دیئے گئے، اس کے پیچھے نفرت کے جہنم بھڑکتے ہیں۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم اس پیچیدہ مسئلے کو بہت سادہ تصور کرتے ہیں اور نفرت کے اس جہنم کو سرد کرنے کی ذمے داری صرف حکومتوں پر عائد کرتے ہیں۔
مسلم ملکوں میں انتہا پسندی اور دہشت گردی ظالم بادشاہوں اور آمروں کے طویل جبر اور استبداد کا نتیجہ ہے۔ جب آمروں اور شاہوں نے پُرامن جمہوری اور لبرل جدوجہد کا بزور جبر راستہ روکا تو اس کے نتیجے میں انتہاپسند عسکری طاقتوں کو عروج ہوا اور انھیں بعض جگہوں پر عوام کے بعض حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہوگئی اور بتدریج اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ہمارے پالیسی سازوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ دہشت گردوں کے خلاف ریاست کی جانب سے عوام کی حمایت کے ساتھ سخت کارروائی ضرور کی جائے لیکن اس کے ساتھ یہ امر بھی فراموش نہ کیا جائے کہ اپنے عوام کو جمہوریت، بنیادی انسانی حقوق، انصاف اور منصفانہ معاشی نظام سے محروم رکھ کر یہ جنگ مکمل طور پر نہیں جیتی جا سکتی ہے۔ لہٰذا یاد رکھا جائے کہ ان عوامل پر عمل درآمد کیے بغیر انتہاپسندی اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن فتح ممکن نہیں ہوگی۔