نشیب و فراز
اضی حسین احمد کی خواہش تھی کہ انتخابات وقت پر ہوں تاکہ ملک سے سراسیمگی کا خاتمہ ہو سکے
ISLAMABAD:
جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر قاضی حسین احمد 74 سال کی عمر میں 6 جنوری کی رات ایک بج کر 40 پردار فانی سے کوچ کر گئے۔
وہ مذہبی سیاست میں مدبرسیاست دان کے حوالے سے تادیر یاد رکھے جائیں گے۔ وہ ابولاعلیٰ مودودی اور میاں محمدطفیل کے بعد تیسرے امیر جماعت اسلامی بنے اور 22 سال تک یہ ذمے داری نباہتے رہے۔ قاضی صاحب کا تعلق نوشہرہ کے علاقے زیارت کاکا صاحب سے تھا۔ قاضی حسین احمد 1938 کو زیارت کاکا صاحب کے علم دوست گھرانے میں مولانا قاضی محمد عبدالرب کے ہاں پیدا ہوئے جو اپنے زمانے کے ایک معروف عالم دین تھے، اپنے علمی اثر و رسوخ اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے آپ جمعیت علمائِ ہند صوبہ خیبر پختون خوا کے صدر چنے گئے۔
قاضیٰ حسین احمد اپنے دس بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر والد سے حاصل کی اس کے بعد پشاور کے اسلامیہ کالج سے گریجوایشن اور پشاور یونی ورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کیا اور جہانزیب کالج سیدو شریف سوات میں جغرافیہ کے لیکچرار تعینات ہوئے۔ یونی ورسٹی میںزمانۂِ طالب علمی ہی میں عملی سیاست میں در آئے تھے۔ جماعتی مصروفیات اور فطری رجحان کے باعث ملازمت کو تین سال بعد خیرآباد کہا اور پشاور میں اپنا کاروبار شروع کر دیا، اس دوران سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہوئے۔
تعلیم کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ سے منسلک رہنے کے بعد 1970 میں جماعت اسلامی کے رکن بنے۔ 1978 میں جماعت اسلامی پاکستان کے جنرل سیکریٹری اور 1987 میں امیر جماعت اسلامی پاکستان کے منصب پر منتخب ہوئے جس کے بعد چار مرتبہ 1992، 1994، 1999 اور 2004 میں جماعت کے امیر منتخب ہوتے رہے۔ 1986 میں چھے سال کے لیے سینیٹ کے رکن بھی رہے۔ 1992 میں دوبارہ سینیٹر منتخب ہوئے مگر حکومتی پالیسیوں سے اختلاف پر استعفیٰ دیا۔ 2002 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہ نما سابق وزیر داخلہ نصیراللہ خان بابر کو شکست دے کر نوشہرہ اور دیر سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے بعد میں دیر کی سیٹ خالی کردی۔
مولانا شاہ احمدنورانی کی وفات کے بعد آپ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے متفقہ طور پر صدر منتخب ہوئے۔ ایم ایم اے میں مولانا فضل ا لرحمن کے برعکس قاضی حسین احمد کا نقطۂِ نظر ہمیشہ سخت گیر رہا۔ قاضی حسین احمد نے جولائی 2007 میں لال مسجد کے واقعے پر قومی اسمبلی سے استعفیٰ کا اعلان کیا۔ قاضی صاحب عام زندگی میں نہایت شفیق اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ اپنی ہنس مکھ شخصیت کی وجہ سے وہ ہر عمر کے افراد میں یکساں مقبول تھے۔ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کے خواہاں تھے۔ انہوں نے فرقہ وارانہ مذہبی منافرت کو ختم کرنے کے لیے ''ملی'' یک جہتی کونسل کی بنیاد رکھی اور حال ہی میں ''عالمی'' یک جہتی کونسل کا انعقاد کیا۔
قاضی حسین احمد ملک میں جاری خانہ جنگی کو امریکی پالیسیوں کا تسلسل قرار دے رہے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ انتخابات وقت پر ہوں تاکہ ملک سے سراسیمگی کا خاتمہ ہو سکے۔ قاضی حسین احمد ہر وقت ملکی سیاست میں ان ہونے کا گر خوب جانتے تھے چناںچہ ڈرائنگ روم کی سیاست کو ناپسند کیا کرتے تھے۔ تحریک نفاذ مصطفیٰ کے دوران گرفتاری کے علاوہ افغانستان پر امریکی حملوں اور یورپ میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف سخت گیر رد عمل کے طور پر گرفتاری کا سامنا بھی کیا، دوران گرفتاری قاضی حسین احمد نے متعدد مقالات بھی لکھے جو کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں ، اس کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی حالات پر وقتاً فوقتاً مختلف اخبارات میں لکھتے رہے۔
انہوں نے تین ماہ قبل این اے پانچ نوشہرہ ون سے انتخابی مہم کا آغاز کر دیا تھااور 25 دسمبر کو پیرپیائی میں عوامی جلسے سے خطاب بھی کیا جو ان کی زندگی کا آخری جلسہ ثابت ہوا۔ ان کو اپنے آبائی گائوں زیارت کاکا صاحب میں سپرد خاک کیا گیا ہے۔ ان کی وفات پر جماعت اسلامی اور پاکستانی سیاست میں ایک خلا پیدا ہوگیا ہے جو تادیر نہ بھر پائے گا۔ قاضیٰ حسین احمد نے اپنے بڑے فرزند آصف لقمان قاضی کو اپنا سیاسی جانشین قرار دیا تھا۔
ان کے دو صاحب زادے اور دو صاحب زادیاں ہیں جن میں آصف لقمان قاضی، سمعیہ راحیل قاضی، خولہ قاضی اور ڈاکٹر انس قاضی شامل ہیں۔ سمعیہ راحیل قاضی رکن قومی اسمبلی بھی رہ چکی ہیں اور اب بھی جماعت اسلامی شعبۂِ خواتین میں سرگرم ہیں جب کہ آصف لقمان قاضی بھی جماعت کے پلیٹ فارم سے نام پیدا کر چکے ہیں اور جماعت اسلامی نوشہرہ کے ضلعی امیر بھی رہ چکے ہیں۔
جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر قاضی حسین احمد 74 سال کی عمر میں 6 جنوری کی رات ایک بج کر 40 پردار فانی سے کوچ کر گئے۔
وہ مذہبی سیاست میں مدبرسیاست دان کے حوالے سے تادیر یاد رکھے جائیں گے۔ وہ ابولاعلیٰ مودودی اور میاں محمدطفیل کے بعد تیسرے امیر جماعت اسلامی بنے اور 22 سال تک یہ ذمے داری نباہتے رہے۔ قاضی صاحب کا تعلق نوشہرہ کے علاقے زیارت کاکا صاحب سے تھا۔ قاضی حسین احمد 1938 کو زیارت کاکا صاحب کے علم دوست گھرانے میں مولانا قاضی محمد عبدالرب کے ہاں پیدا ہوئے جو اپنے زمانے کے ایک معروف عالم دین تھے، اپنے علمی اثر و رسوخ اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے آپ جمعیت علمائِ ہند صوبہ خیبر پختون خوا کے صدر چنے گئے۔
قاضیٰ حسین احمد اپنے دس بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر والد سے حاصل کی اس کے بعد پشاور کے اسلامیہ کالج سے گریجوایشن اور پشاور یونی ورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کیا اور جہانزیب کالج سیدو شریف سوات میں جغرافیہ کے لیکچرار تعینات ہوئے۔ یونی ورسٹی میںزمانۂِ طالب علمی ہی میں عملی سیاست میں در آئے تھے۔ جماعتی مصروفیات اور فطری رجحان کے باعث ملازمت کو تین سال بعد خیرآباد کہا اور پشاور میں اپنا کاروبار شروع کر دیا، اس دوران سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہوئے۔
تعلیم کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ سے منسلک رہنے کے بعد 1970 میں جماعت اسلامی کے رکن بنے۔ 1978 میں جماعت اسلامی پاکستان کے جنرل سیکریٹری اور 1987 میں امیر جماعت اسلامی پاکستان کے منصب پر منتخب ہوئے جس کے بعد چار مرتبہ 1992، 1994، 1999 اور 2004 میں جماعت کے امیر منتخب ہوتے رہے۔ 1986 میں چھے سال کے لیے سینیٹ کے رکن بھی رہے۔ 1992 میں دوبارہ سینیٹر منتخب ہوئے مگر حکومتی پالیسیوں سے اختلاف پر استعفیٰ دیا۔ 2002 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہ نما سابق وزیر داخلہ نصیراللہ خان بابر کو شکست دے کر نوشہرہ اور دیر سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے بعد میں دیر کی سیٹ خالی کردی۔
مولانا شاہ احمدنورانی کی وفات کے بعد آپ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے متفقہ طور پر صدر منتخب ہوئے۔ ایم ایم اے میں مولانا فضل ا لرحمن کے برعکس قاضی حسین احمد کا نقطۂِ نظر ہمیشہ سخت گیر رہا۔ قاضی حسین احمد نے جولائی 2007 میں لال مسجد کے واقعے پر قومی اسمبلی سے استعفیٰ کا اعلان کیا۔ قاضی صاحب عام زندگی میں نہایت شفیق اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ اپنی ہنس مکھ شخصیت کی وجہ سے وہ ہر عمر کے افراد میں یکساں مقبول تھے۔ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کے خواہاں تھے۔ انہوں نے فرقہ وارانہ مذہبی منافرت کو ختم کرنے کے لیے ''ملی'' یک جہتی کونسل کی بنیاد رکھی اور حال ہی میں ''عالمی'' یک جہتی کونسل کا انعقاد کیا۔
قاضی حسین احمد ملک میں جاری خانہ جنگی کو امریکی پالیسیوں کا تسلسل قرار دے رہے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ انتخابات وقت پر ہوں تاکہ ملک سے سراسیمگی کا خاتمہ ہو سکے۔ قاضی حسین احمد ہر وقت ملکی سیاست میں ان ہونے کا گر خوب جانتے تھے چناںچہ ڈرائنگ روم کی سیاست کو ناپسند کیا کرتے تھے۔ تحریک نفاذ مصطفیٰ کے دوران گرفتاری کے علاوہ افغانستان پر امریکی حملوں اور یورپ میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف سخت گیر رد عمل کے طور پر گرفتاری کا سامنا بھی کیا، دوران گرفتاری قاضی حسین احمد نے متعدد مقالات بھی لکھے جو کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں ، اس کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی حالات پر وقتاً فوقتاً مختلف اخبارات میں لکھتے رہے۔
انہوں نے تین ماہ قبل این اے پانچ نوشہرہ ون سے انتخابی مہم کا آغاز کر دیا تھااور 25 دسمبر کو پیرپیائی میں عوامی جلسے سے خطاب بھی کیا جو ان کی زندگی کا آخری جلسہ ثابت ہوا۔ ان کو اپنے آبائی گائوں زیارت کاکا صاحب میں سپرد خاک کیا گیا ہے۔ ان کی وفات پر جماعت اسلامی اور پاکستانی سیاست میں ایک خلا پیدا ہوگیا ہے جو تادیر نہ بھر پائے گا۔ قاضیٰ حسین احمد نے اپنے بڑے فرزند آصف لقمان قاضی کو اپنا سیاسی جانشین قرار دیا تھا۔
ان کے دو صاحب زادے اور دو صاحب زادیاں ہیں جن میں آصف لقمان قاضی، سمعیہ راحیل قاضی، خولہ قاضی اور ڈاکٹر انس قاضی شامل ہیں۔ سمعیہ راحیل قاضی رکن قومی اسمبلی بھی رہ چکی ہیں اور اب بھی جماعت اسلامی شعبۂِ خواتین میں سرگرم ہیں جب کہ آصف لقمان قاضی بھی جماعت کے پلیٹ فارم سے نام پیدا کر چکے ہیں اور جماعت اسلامی نوشہرہ کے ضلعی امیر بھی رہ چکے ہیں۔