بچے نافرمان نہ ہوجائیں۔۔۔
بچے چاہے جس عمر سے تعلق رکھتے ہوں چند عمومی اقدام کو مشترکہ طور پر اپنایا جانا ضروری ہے۔
ISLAMABAD:
ننھے بچے جوں جوں شعور کی منزلیں پروان چڑھتے جاتے ہیں توں توں ان میں نت نئی خواہشات اور جذبات بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں، جن کے اظہار کے لیے وہ ٹوٹی پھوٹی زبان اور اشاروں سے کام لیتے ہیں۔
اس دوران ان میں ضد کا عنصر بھی داخل ہونے لگتا ہے، یہی وہ موقع ہوتا ہے جب ایک ماں کو نہایت احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ کس طرح بچے کی بات کو پورا کرنا ہے۔ بچہ کی ہر بات زبان سے نکلتے کے ساتھ ہی پوری کر دی جائے یا اسے فوراً ہی ضد کہہ کر رد کر دیا جائے۔ ہر دو انتہائیں بچے میں منفی رجحان بڑھانے کا باعث ہو سکتی ہیں۔
ضد کی ایک شکل اپنی خواہش پر اصرار کے ساتھ والدین کی حکم عدولی بھی ہو سکتی ہے، جس کا رجحان آج کل بہت بڑھتا جا رہا ہے۔ یوں تو والدین کی بات نہ ماننا ایک عام روّیہ ہے۔ بچے والدین کے بار بار منع کرنے پر بھی شرارتیں، دوسرے بچوں کو تنگ کرنے اور بد تمیزی سے باز نہیں آتے۔ ذرا سی سختی کی جائے تو پھر اس کا ردعمل بھی کیا جاتا ہے جیسے بلاوجہ رونا، منہ پھیر کر لیٹ جانا، منہ بسور کر بیٹھ جانا یا اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے جانا وغیرہ۔ ان حالات میں والدین کو طیش میںآنے کے بجائے ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے کہ آخر بچے ایسا کیوں کرتے ہیں۔ صرف اس صورت میں بچوں کی نافرمانی کی اصل وجہ اور محرکات کا پتا چل سکتا ہے۔ ورنہ نافرمانی کا جواب غصے سے دینا معاملات کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔
بچوں میں بڑھتی ہوئی نافرمانیوں کی سب سے بڑی وجہ معاشرے میں جاری مسلسل تبدیلیاں اور عمومی طرز زندگی میں تغیر ہے۔تیز رفتار زندگی میں والدین کے پاس بچوں کے لیے معیاری وقت کی کمی ہے، جس کی وجہ سے والدین اور بچوں کے درمیان بہترین تعلق اور اعتماد کا رشتہ قائم نہیں ہو پاتا اور اس اعتماد کی کمی کے باعث وہ والدین کی باتوں کو رد کیے جاتے ہیں۔ یوں رفتہ رفتہ نافرمانی کی عادت پختہ ہوتی چلی جاتی ہے، پھر وقت کی کمی کے باعث والدین کی بچوں کے معاملات میں دل چسپی میں کمی بھی اس نافرمانی کا نتیجہ ہے۔
عموماً والدین یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ ان کے بچوں کی ہم جولی اور ساتھی کس ماحول سے تعلق رکھتے ہیں۔ چوبیس گھنٹے جاری رہنے والے برقی ذرایع ابلاغ بھی بچے پر اپنے گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں، اکثر بچے اپنے گھروں میں بھی والدین سے زیادہ ٹی وی اور کمپیوٹر سے جڑے رہتے ہیں اور والدین اسے بچوں کی اچھی مصروفیت سمجھ کر لاتعلق رہتے ہیں۔
نا سازگار گھریلو اور خاندانی ماحول کے علاوہ اسکول، مدرسے اور علاقے بھی بچے کے رویّے کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں، اس کے علاوہ خدانخواستہ اہل خانہ یا خاندان کے کسی فرد سے تعلقات میں کشیدگی یا تنائو براہ راست حساس بچوں کی طبیعتوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ساتھ ہی اسکول میں جبر یا ضرورت سے زیادہ آزادی بھی ایک اہم عنصر ہے۔ اس کے علاوہ بچے کی بنیادی مادی ضروریات کو اگر ضد کہہ کر نظر انداز کر دیا جائے تو یہ بھی بچے کے رویّے پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ضد اور نافرمانی کے علاوہ بچوں کا اہل خانہ، محلے کے بچوں اور اسکول کے ساتھیوں سے ہر وقت الجھنا تشویش ناک ہے۔ جو کہ ان کے جذباتی عدم توازن کا واضح ثبوت ہے۔ بچے کی تربیت میں والدین کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ بچے کے گھر میں گزرے وقت کے اثرات عمر بھر اس کی شخصیت پر حاوی رہتے ہیں۔
بچّہ عمرِ طفولیت سے بلوغت تک نشونما کے مختلف منازل سے گزرتا ہے۔ ہر منزل کی اپنی خصوصیات ہیں۔ ماہرین کی رائے کے مطابق طرزِ عمل اختیار کر کے ان کے رویّوں میں بہتری لائی جا سکتی ہے اور اس میں منفی عنصر کا تدراک کیا جاسکتا ہے۔
٭ دو سے چھ سال تک کی عمر میں بچہ زیادہ تر گھریلو ماحول اور اہل خانہ تک محدود ہوتا ہے۔ بچّہ عموماً ایسے کام کرنے کی کوشش کرتا ہے جو بھاگنے دوڑنے والے ہیں۔ وہ ایک جگہ خاموش بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔ اپنے کھلونوں سے بھی بہت جلد اکتاہٹ اور بوریت محسوس کرتا ہے۔ اس دور میں بچے کو کنٹرول کرنا خاصا مشکل ہے۔ ایسی صورت میں اگر زیادہ روک ٹوک کی جائے تو بچے میں ضد کا عنصر بڑی تیزی سے پروان چڑھتا ہے جو بعد ازاں نافرمانی کا موجب بنتا ہے۔ ابتدائی عمر میں بچے کو نت نئے کھلونوں اور کھیل میں مشغول رکھ کر نظم و ضبط کے ساتھ کچھ آزادی دیا جانا بہتر ہے۔ جب وہ اس قابل ہوجائے تو کچھ رنگ برنگی تصاویر سے مزین اچھی کتابوں کو اس کا بہترین مشغلہ بنایا جا سکتا ہے، جو سیکھنے کے عمل کو براہ راست مہمیز کرے گا۔
٭درمیانی عمر میں سات سے بارہ سال کے بچے شامل ہیں اس عمر میں بچّہ دنیا سے متعلق واضح فہم حاصل کرلیتا ہے۔ بے تحاشا سوالات کر کے ہر چیز کی اصلیت معلوم کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔ والدین اکثر تنگ آ کر بچے کو جھڑک دیتے ہیں جس کے ردِعمل کے طور پر بچہ بھی پھر والدین کی بات سننے سے انکاری ہو جاتا ہے۔ بچے کی عمر کے اس حصے میں گھریلو ماحول، کھیل کود کے ساتھی اور اسکول اثر انداز ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایسے میں ان کی نگرانی نہایت اہم ہے۔ عموماً والدین کا اساتذہ سے رابطہ ہی نہیں ہوتا، والدین فیس جمع کر کے اپنی ذمہ داریوں سے گویا سبک دوش ہو جاتے ہیں جب کہ اسکول اور اساتذہ کے کام کا دائرہ اور ان سے رابطہ ضروری ہے تاکہ باہمی تعاون سے بچے کی انفرادی مسائل اور الجھنوں کو سمجھنے کی مشترکہ کوشش کی جا سکے۔
٭بچے کی عمر کا وہ حصہ جب وہ بچپن کی دہلیز پھلانگ رہا ہوتا ہے، سب سے زیادہ احتیاط طلب ہے۔ یہ عرصہ تیرہ سے سترہ سال کا ہوتا ہے۔ یہ ذہنی پختگی کا دور ہے، اس میں بچے بہت جذباتی ہوتے ہیں۔ معمولی نوعیت کی معاشرتی بے اعتدالیاں، نا انصافیاں شدید ردِعمل پیدا کر دیتی ہیں۔ اس عمر میں خاص طور پر بچے کو بچپن کی طرح کی ڈانٹ ڈپٹ سے گریز اور رہنمائی کرنا ضروری ہے، تاکہ وہ پریشان نہ ہوں اور منفی سوچوں سے بچے رہیں۔ ان کی تخلیقی رجحانات کو جانچ کر فوری طور پر بہترین میدانوں کی طرف رہنمائی کرنا چاہیے تاکہ وہ بہتر طور پر اپنا مستقبل بنا سکیں۔ بلوغت کا وقت بہت حساس ہوتا ہے۔ اس میں بچوں کی خاص طور پر والدین سے دوستی اور رہنمائی بہت ضروری ہے تاکہ وہ عمر کے اس اہم حصے میں والدین کی باتوں کو رد نہ کریں۔
بچے چاہے جس عمر سے تعلق رکھتے ہوں چند عمومی اقدام ایسے ہیں جن کا مشترکہ طور پر اپنا یا جانا ضروری ہے۔ معمولی باتوں میں بچے کو انتخاب کی آزادی اور فیصلے کا شعور دینا چاہیے۔ رہنمائی کرنے والوں کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ اپنا فیصلہ بچے پر مسلط کر دیں، البتہ فیصلوں اور نتائج کے بارے میں احساس ذمہ داری پیدا کرنا پہلا قدم ہے تاکہ خود اعتمادی پیدا کی جا سکے۔ بچوں کو بتایا جائے کہ معاشرتی اقدار کیا ہیں، تربیت سے اُسے اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول اور اپنے کردار کا تجزیہ کرنے کے قابل ہو جائیں۔ جب روزِ اوّل سے بچوں میں صحیح اور غلط کا شعور پیدا کر دیا جائے گا تو اپنی دانستہ یا غیر دانستہ غلطیوں پر کبھی ان میں شرمندگی کا احساس بھی پیدا ہوگا، جو نہایت ضروری ہے۔
بچے کو گھر اور تعلیمی ادارے میں ایسی خوش گوار فضا ملنی چاہیے جو بچے کو مسرت اور شادمانی، توازن اور مطابقت سے ہم کنار کر دے۔ مثبت سرگرمیوں کی تلاش، منفی سرگرمیوں سے آگاہی اور ان سے احتیاط کی تاکید کرنا والدین کا فرض ہے۔ بچے کی جذباتی تعلیم و تربیت اور فرماں برداری کا جذبہ پیدا کرنے کا ایک سنہری اصول یہ بھی ہے کہ والدین خود اپنی جذباتی زندگی میں صحت اور توازن کا ہمہ وقت خیا ل رکھیں۔ اگر رہنمائی کرنے والوں کی اپنی زندگی خلش، اضطراب، تلخ کلامی اور لڑائی جھگڑوں سے پاک ہوگی تو بچے کی جذباتی زندگی میں بھی صحت اور توازن کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ بچوں کے رویوں میں تبدیلی سے غفلت برتنا ایک سنگین معاشرتی جرم ہے اگر ان پر بر وقت توجہ نہ دی جائے تو وہ بڑے ہو کر اپنی ذات، اپنے خاندان، سارے معاشرے بلکہ بسا اوقات پوری دنیا کے لیے زحمت بن جاتے ہیں۔
ننھے بچے جوں جوں شعور کی منزلیں پروان چڑھتے جاتے ہیں توں توں ان میں نت نئی خواہشات اور جذبات بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں، جن کے اظہار کے لیے وہ ٹوٹی پھوٹی زبان اور اشاروں سے کام لیتے ہیں۔
اس دوران ان میں ضد کا عنصر بھی داخل ہونے لگتا ہے، یہی وہ موقع ہوتا ہے جب ایک ماں کو نہایت احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ کس طرح بچے کی بات کو پورا کرنا ہے۔ بچہ کی ہر بات زبان سے نکلتے کے ساتھ ہی پوری کر دی جائے یا اسے فوراً ہی ضد کہہ کر رد کر دیا جائے۔ ہر دو انتہائیں بچے میں منفی رجحان بڑھانے کا باعث ہو سکتی ہیں۔
ضد کی ایک شکل اپنی خواہش پر اصرار کے ساتھ والدین کی حکم عدولی بھی ہو سکتی ہے، جس کا رجحان آج کل بہت بڑھتا جا رہا ہے۔ یوں تو والدین کی بات نہ ماننا ایک عام روّیہ ہے۔ بچے والدین کے بار بار منع کرنے پر بھی شرارتیں، دوسرے بچوں کو تنگ کرنے اور بد تمیزی سے باز نہیں آتے۔ ذرا سی سختی کی جائے تو پھر اس کا ردعمل بھی کیا جاتا ہے جیسے بلاوجہ رونا، منہ پھیر کر لیٹ جانا، منہ بسور کر بیٹھ جانا یا اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے جانا وغیرہ۔ ان حالات میں والدین کو طیش میںآنے کے بجائے ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے کہ آخر بچے ایسا کیوں کرتے ہیں۔ صرف اس صورت میں بچوں کی نافرمانی کی اصل وجہ اور محرکات کا پتا چل سکتا ہے۔ ورنہ نافرمانی کا جواب غصے سے دینا معاملات کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔
بچوں میں بڑھتی ہوئی نافرمانیوں کی سب سے بڑی وجہ معاشرے میں جاری مسلسل تبدیلیاں اور عمومی طرز زندگی میں تغیر ہے۔تیز رفتار زندگی میں والدین کے پاس بچوں کے لیے معیاری وقت کی کمی ہے، جس کی وجہ سے والدین اور بچوں کے درمیان بہترین تعلق اور اعتماد کا رشتہ قائم نہیں ہو پاتا اور اس اعتماد کی کمی کے باعث وہ والدین کی باتوں کو رد کیے جاتے ہیں۔ یوں رفتہ رفتہ نافرمانی کی عادت پختہ ہوتی چلی جاتی ہے، پھر وقت کی کمی کے باعث والدین کی بچوں کے معاملات میں دل چسپی میں کمی بھی اس نافرمانی کا نتیجہ ہے۔
عموماً والدین یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ ان کے بچوں کی ہم جولی اور ساتھی کس ماحول سے تعلق رکھتے ہیں۔ چوبیس گھنٹے جاری رہنے والے برقی ذرایع ابلاغ بھی بچے پر اپنے گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں، اکثر بچے اپنے گھروں میں بھی والدین سے زیادہ ٹی وی اور کمپیوٹر سے جڑے رہتے ہیں اور والدین اسے بچوں کی اچھی مصروفیت سمجھ کر لاتعلق رہتے ہیں۔
نا سازگار گھریلو اور خاندانی ماحول کے علاوہ اسکول، مدرسے اور علاقے بھی بچے کے رویّے کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں، اس کے علاوہ خدانخواستہ اہل خانہ یا خاندان کے کسی فرد سے تعلقات میں کشیدگی یا تنائو براہ راست حساس بچوں کی طبیعتوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ساتھ ہی اسکول میں جبر یا ضرورت سے زیادہ آزادی بھی ایک اہم عنصر ہے۔ اس کے علاوہ بچے کی بنیادی مادی ضروریات کو اگر ضد کہہ کر نظر انداز کر دیا جائے تو یہ بھی بچے کے رویّے پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ضد اور نافرمانی کے علاوہ بچوں کا اہل خانہ، محلے کے بچوں اور اسکول کے ساتھیوں سے ہر وقت الجھنا تشویش ناک ہے۔ جو کہ ان کے جذباتی عدم توازن کا واضح ثبوت ہے۔ بچے کی تربیت میں والدین کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ بچے کے گھر میں گزرے وقت کے اثرات عمر بھر اس کی شخصیت پر حاوی رہتے ہیں۔
بچّہ عمرِ طفولیت سے بلوغت تک نشونما کے مختلف منازل سے گزرتا ہے۔ ہر منزل کی اپنی خصوصیات ہیں۔ ماہرین کی رائے کے مطابق طرزِ عمل اختیار کر کے ان کے رویّوں میں بہتری لائی جا سکتی ہے اور اس میں منفی عنصر کا تدراک کیا جاسکتا ہے۔
٭ دو سے چھ سال تک کی عمر میں بچہ زیادہ تر گھریلو ماحول اور اہل خانہ تک محدود ہوتا ہے۔ بچّہ عموماً ایسے کام کرنے کی کوشش کرتا ہے جو بھاگنے دوڑنے والے ہیں۔ وہ ایک جگہ خاموش بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔ اپنے کھلونوں سے بھی بہت جلد اکتاہٹ اور بوریت محسوس کرتا ہے۔ اس دور میں بچے کو کنٹرول کرنا خاصا مشکل ہے۔ ایسی صورت میں اگر زیادہ روک ٹوک کی جائے تو بچے میں ضد کا عنصر بڑی تیزی سے پروان چڑھتا ہے جو بعد ازاں نافرمانی کا موجب بنتا ہے۔ ابتدائی عمر میں بچے کو نت نئے کھلونوں اور کھیل میں مشغول رکھ کر نظم و ضبط کے ساتھ کچھ آزادی دیا جانا بہتر ہے۔ جب وہ اس قابل ہوجائے تو کچھ رنگ برنگی تصاویر سے مزین اچھی کتابوں کو اس کا بہترین مشغلہ بنایا جا سکتا ہے، جو سیکھنے کے عمل کو براہ راست مہمیز کرے گا۔
٭درمیانی عمر میں سات سے بارہ سال کے بچے شامل ہیں اس عمر میں بچّہ دنیا سے متعلق واضح فہم حاصل کرلیتا ہے۔ بے تحاشا سوالات کر کے ہر چیز کی اصلیت معلوم کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔ والدین اکثر تنگ آ کر بچے کو جھڑک دیتے ہیں جس کے ردِعمل کے طور پر بچہ بھی پھر والدین کی بات سننے سے انکاری ہو جاتا ہے۔ بچے کی عمر کے اس حصے میں گھریلو ماحول، کھیل کود کے ساتھی اور اسکول اثر انداز ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایسے میں ان کی نگرانی نہایت اہم ہے۔ عموماً والدین کا اساتذہ سے رابطہ ہی نہیں ہوتا، والدین فیس جمع کر کے اپنی ذمہ داریوں سے گویا سبک دوش ہو جاتے ہیں جب کہ اسکول اور اساتذہ کے کام کا دائرہ اور ان سے رابطہ ضروری ہے تاکہ باہمی تعاون سے بچے کی انفرادی مسائل اور الجھنوں کو سمجھنے کی مشترکہ کوشش کی جا سکے۔
٭بچے کی عمر کا وہ حصہ جب وہ بچپن کی دہلیز پھلانگ رہا ہوتا ہے، سب سے زیادہ احتیاط طلب ہے۔ یہ عرصہ تیرہ سے سترہ سال کا ہوتا ہے۔ یہ ذہنی پختگی کا دور ہے، اس میں بچے بہت جذباتی ہوتے ہیں۔ معمولی نوعیت کی معاشرتی بے اعتدالیاں، نا انصافیاں شدید ردِعمل پیدا کر دیتی ہیں۔ اس عمر میں خاص طور پر بچے کو بچپن کی طرح کی ڈانٹ ڈپٹ سے گریز اور رہنمائی کرنا ضروری ہے، تاکہ وہ پریشان نہ ہوں اور منفی سوچوں سے بچے رہیں۔ ان کی تخلیقی رجحانات کو جانچ کر فوری طور پر بہترین میدانوں کی طرف رہنمائی کرنا چاہیے تاکہ وہ بہتر طور پر اپنا مستقبل بنا سکیں۔ بلوغت کا وقت بہت حساس ہوتا ہے۔ اس میں بچوں کی خاص طور پر والدین سے دوستی اور رہنمائی بہت ضروری ہے تاکہ وہ عمر کے اس اہم حصے میں والدین کی باتوں کو رد نہ کریں۔
بچے چاہے جس عمر سے تعلق رکھتے ہوں چند عمومی اقدام ایسے ہیں جن کا مشترکہ طور پر اپنا یا جانا ضروری ہے۔ معمولی باتوں میں بچے کو انتخاب کی آزادی اور فیصلے کا شعور دینا چاہیے۔ رہنمائی کرنے والوں کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ اپنا فیصلہ بچے پر مسلط کر دیں، البتہ فیصلوں اور نتائج کے بارے میں احساس ذمہ داری پیدا کرنا پہلا قدم ہے تاکہ خود اعتمادی پیدا کی جا سکے۔ بچوں کو بتایا جائے کہ معاشرتی اقدار کیا ہیں، تربیت سے اُسے اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول اور اپنے کردار کا تجزیہ کرنے کے قابل ہو جائیں۔ جب روزِ اوّل سے بچوں میں صحیح اور غلط کا شعور پیدا کر دیا جائے گا تو اپنی دانستہ یا غیر دانستہ غلطیوں پر کبھی ان میں شرمندگی کا احساس بھی پیدا ہوگا، جو نہایت ضروری ہے۔
بچے کو گھر اور تعلیمی ادارے میں ایسی خوش گوار فضا ملنی چاہیے جو بچے کو مسرت اور شادمانی، توازن اور مطابقت سے ہم کنار کر دے۔ مثبت سرگرمیوں کی تلاش، منفی سرگرمیوں سے آگاہی اور ان سے احتیاط کی تاکید کرنا والدین کا فرض ہے۔ بچے کی جذباتی تعلیم و تربیت اور فرماں برداری کا جذبہ پیدا کرنے کا ایک سنہری اصول یہ بھی ہے کہ والدین خود اپنی جذباتی زندگی میں صحت اور توازن کا ہمہ وقت خیا ل رکھیں۔ اگر رہنمائی کرنے والوں کی اپنی زندگی خلش، اضطراب، تلخ کلامی اور لڑائی جھگڑوں سے پاک ہوگی تو بچے کی جذباتی زندگی میں بھی صحت اور توازن کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ بچوں کے رویوں میں تبدیلی سے غفلت برتنا ایک سنگین معاشرتی جرم ہے اگر ان پر بر وقت توجہ نہ دی جائے تو وہ بڑے ہو کر اپنی ذات، اپنے خاندان، سارے معاشرے بلکہ بسا اوقات پوری دنیا کے لیے زحمت بن جاتے ہیں۔