زاغ و زغن کی دوستی
اگلے وقتوں کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ زادی کو روزانہ کہانی سننے کا شوق تھا۔
اگلے وقتوں کا ذکر ہے کہ ایک بادشاہ زادی کو روزانہ کہانی سننے کا شوق تھا۔کہانی سنے بغیر اسے نیند نہ آتی تھی۔کئی ملازمائیں اس کی خدمت پہ مامور تھیں اور شہزادی کو سبق آموز اور دلچسپ کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ ایک دن کہانی سنانے والی نے دوران گفتگو ایک پرندے کا ذکر کیا، جس کو ہما کہتے ہیں اور وہ جس کے اوپر سے گزر جائے وہ بادشاہ بن جاتا ہے۔ ہما کا سایہ مال و دولت کا سبب بنتا ہے۔
شہزادی نے پوچھا کہ اس زمانے میں وہ پرندہ ہے؟کہانی سنانے والی نے کہا ''ہوگا کیوں نہیں، ضرورہوگا'' شہزادی تو شہزادی تھی اٹواٹی کھٹواٹی لے کر چھپرکھٹ پہ پڑ گئیں اور ہما کی فرمائش کردی کہ جب تک ہما کو نہیں دیکھوں گی چین نہیں آئے گا۔ یہ حالت اور ضد دیکھ کر بادشاہ سلامت نے حکم دیا کہ کسی بھی طرح ہما کو پکڑو اور حاضر کرو۔ وزیر باتدبیر نے صیادوں اور شکاریوں کو حکم دیا کہ کسی بھی طرح جال لگا کر ہما کو پکڑو تاکہ شہزادی کو قرار آئے۔ ایک ماہر اور بزرگ صیاد نے بتایا کہ ایک جگہ بالکل غیر آباد ہے۔
پتا چلا ہے کہ چھ ماہ میں ایک دفعہ اپنے ساتھیوں، ہمراہیوں کے ساتھ وہاں آتا ہے۔کچھ دیر قیام کرکے واپس کہیں چلا جاتا ہے۔ یہ امید افزا بات سن کر وزیر خوش ہوا، اور اپنے ملازموں اور سن رسیدہ شکاریوں کے ساتھ اس باغ کی طرف روانہ ہوا جس کا ذکر بزرگ صیاد نے کیا تھا۔ وہاں کا منظر ہی عجیب تھا، ہرطرف ویرانی اور جھاڑ جھنکار۔ وزیر نے غلاموں کو حکم دیا کہ اس ویران باغ کو ہر طرح کے میوؤں، دانوں اور تمام ایسی اشیا سے بھر دیا جائے جو پرندوں کو یہاں اترنے پر راغب کرے۔ ہر پرندہ دیکھتے ہی مشتاق ہوکر آن بیٹھے۔
یہ اہتمام مسلسل رہے تاوقتیکہ ہما جال میں نہ پھنس جائے۔ خوش قسمتی سے ایک دن ہما اپنے معمول کے مطابق معہ اپنے ہمراہیوں کے وہاں آیا۔ اس دن اس کے ہمراہ کبوتر، فاختہ، ہد ہد، بلبل، قاز، راج ہنس اور کلنگ تھے۔ لیکن ہما اور اس کے ساتھی اس باغ میں نہ اترے بلکہ کسی اور باغ کو چلے گئے۔ صیاد اور وزیر بہت پریشان ہوئے کہ نامعلوم ہما اس بار اس باغ میں کیوں نہ اترا، جب کہ ہمیشہ ہر ششماہی کو یہاں آتا ہے۔ بزرگ صیاد نے مشورہ دیا کہ پورے چھ ماہ بعد پھر یہ یہاں آئے گا، اگر ہماری قسمت اچھی ہوئی تو پھندے میں ضرور آئے گا۔
ہمیں انتظار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ وزیر نے بادشاہ کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا اور شکاریوں کو مزید چھ ماہ کی مہلت دلوادی۔ چھ مہینے کے بعد حسب موافق پھر باغ کو آراستہ کیا گیا۔ ہر طرح کا میوہ اور دانہ بکھیر دیا گیا۔ ہما حسب عادت اپنے کچھ ساتھیوں کے جن میں الو، گدھ،کوا، چیل اور چغہ شامل تھے اس باغ میں اترا جہاں اس کو پکڑنے کے لیے پہلے سے جال بچھے تھے۔ جیسے ہی پرندے دام میں پھنسے، غلاموں نے بزرگ صیاد سے ہما کو پہچاننے کے لیے کہا اور فوراً ہی شناخت کے بعد اسے علیحدہ پنجرے میں قید کرکے باقی تمام پرندوں کو آزاد کردیا اور ہما کو بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا۔
بادشاہ نے صیادوں کو بہت سا انعام دے کر رخصت کیا اور ہما کو شہزادی کے پاس بھیج دیا۔ وہ اس نایاب پرندے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اور اس سے پوچھا کہ ''بتا کہ تو پہلی بار کیوں گرفتار نہیں ہوا تھا اور دوسری بار کیوں کر جال میں پھنسا؟'' ہما نے جواب دیا کہ ''اے شہزادی! پہلی بار جب میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ جن میں فاختہ، کبوتر، ہدہد، راج ہنس، بلبل، بطہ، قاز اور کلنگ تھے۔
اس باغ میں انھوں نے اترنے سے منع کیا۔ میرے ساتھ نجیب اشراف اور عقل مند پرندوں کی نشست تھی اس لیے میں نے ان کی بات پہ کان دھرا، جب کہ میں اترنا چاہتا تھا۔ لیکن ان عقل مند ہمراہیوں نے کہا کہ یہ باغ مدت سے ویران پڑا ہے کبھی یہاں دانہ دنکا بھی نظر نہیں آیا۔ انتہائی خستہ حالت باغ میں اتنا میوہ اور دانہ دنکا جو دکھائی دے رہا ہے ضرور اس میں کوئی چال ہے۔ ہمیں یہاں نہیں اترنا چاہیے۔ یہ کہہ کر وہ لوگ مجھے دوسرے باغ میں لے گئے۔
اب کی بار جب میں اس باغ کی طرف آیا تو میرے ہمراہی چغد، الو، گدھ، چیل اورکوے تھے، ان زاغ و زغن نے مجھے اس باغ میں اترنے کے لیے زور دیا کہ جو میوہ اور پھل یہاں دکھائی دے رہے تھے وہ کہیں دوسرے باغ میں اتنی افراط سے نہیں تھے۔ میں نے انھیں سابقہ وجہ بتا کر اترنے سے منع کیا، لیکن یہ نمک حرام ہمراہی اور بے ایمان ساتھیوں نے میووں اور پھلوں کی لالچ میں یہاں زبردستی اترنے پر مجبورکیا۔ جس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ انھوں نے اپنے فائدے کے لیے مجھے قید کروادیا اور خود آزاد ہوکر میوے اور پھل کھانے میں لگ گئے۔ یہ لالچ کا انجام ہے۔ یہ روئیداد سن کر شہزادی نے ہما کو آزاد کروا دیا۔
خلاصہ اس حکایت کا یہ کہ حکمرانوں کے لیے لازم ہے کہ اپنی صحبت میں عالم، فاضل، پڑھے لکھے اور دیانت دار وزیروں اور امیروں کو رکھیں تاکہ دوران حکمرانی جب انھیں مشورے کی ضرورت پڑے تو اہل علم اور ایمان دار وزیر صائب مشورہ دے سکیں۔اب ذرا اس حکایت کی روشنی میں اپنے ملک پاکستان کا جائزہ لیجیے تو ایک بات تو یہ سامنے آتی ہے کہ ہما کو یہاں ایک سنہری پنجرے میں قید کرکے وردی والوں کے ہیڈکوارٹر میں رکھ دیا گیا ہے۔
باری باری اس پنجرے کو کھولا جاتا ہے ایک بار اسے (ن) لیگ کے سربراہ کے سر پہ بٹھادیا جاتا ہے اور دوسری بار پی پی کے سربراہ کے سر پہ پرندہ اگرچہ نایاب ہے لیکن اہل دانش اور اہل علم جن کا وجود صرف اور صرف سول سوسائٹی میں پایا جاتا ہے وہ بغیر ہما کو دیکھے جان جاتے ہیں کہ اس بار وہ کس کے سر پہ بیٹھے گا اور سرخاب پر کس کی شیروانی یا سوٹ میں لگے گا۔
دوسری بات بھی اس حکایت کی پوری طرح پاکستانی سیاستدانوں اور لیڈروں پہ صادق آتی ہے۔ ذرا ماضی میں جائیے اور آہستہ آہستہ موجودہ دور کی طرف آجائیے۔ آپ دیکھیں گے کہ جس طرح ہما احمق اور لالچی ہمراہیوں کی مشاورت سے پھندے میں پھنسا اورگرفتار ہوا، اسی طرح ہمارے نام نہاد لیڈروں اور حکمرانوں کے اردگرد بھی زیادہ تر نااہل اور مطلب پرست خوشامدی ہمراہیوں کی جماعت ہمیشہ گھیرا ڈالے رہتی ہے۔
آپ ان خوشامدی وزیروں کے تیور دیکھے۔ اپنے عہدوں اور کرپشن کو جائز قرار دینے کے لیے وہ انھیں دودھ کا دھلا ثابت کرنے کے لیے چاہے پانامہ اسکینڈل ہو یا سرے محل اور سوئٹزر لینڈ کے بینک اکاؤنٹ سب جائز۔ یہاں تک کہ قطری شہزادوں کے خطوط بھی ہما کے نادان اور لالچی ہمراہیوں کی صف میں شامل ہوچکے ہیں۔ بہرحال یہ طے ہے کہ اقتدار کا ہما پنجرے سے نکلنے والا ہے۔ تیسری قوت موجود تو ہے لیکن جو آہنی ہاتھ ہما کے پنجرے کو کھولے گا وہ اسے کسی تیسری قوت کے سر پہ نہیں بیٹھنے دے گا۔ سچ کہا ناں میں نے؟
ویسے شیخ سعدی نے بھی کچھ ایسی ہی بات اپنی ایک حکایت میں کی ہے کہ چنبیلی کی خوشبو سے مٹی بھی خوشگوار ہوگئی کیونکہ ''جمال ہم نشیں در من اثر کرد'' والی بات ہے۔ کیکر کے درخت کے پاس سے جو گزرے گا لہو لہان ہوگا۔ سعدیؓ کی بات کو سادے انداز میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ''جیسی روح ویسے فرشتے''۔ انسان اپنے دوستوں اور صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ اب آپ دیکھ لیجیے کہ حکمرانوں کے کارندے جو خود کو ان کا دوست کہتے ہیں کس قماش کے ہیں۔ ان کا اندازگفتگو کس قدر عامیانہ ہے۔ گالم گلوچ مار پیٹ ہاتھا پائی۔ یہ آج کا اسمبلی اور ٹاک شو کلچر ہے۔ ہما کو زاغ زغن کی دوستی نے دام میں پھنسایا تھا۔ آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔
شہزادی نے پوچھا کہ اس زمانے میں وہ پرندہ ہے؟کہانی سنانے والی نے کہا ''ہوگا کیوں نہیں، ضرورہوگا'' شہزادی تو شہزادی تھی اٹواٹی کھٹواٹی لے کر چھپرکھٹ پہ پڑ گئیں اور ہما کی فرمائش کردی کہ جب تک ہما کو نہیں دیکھوں گی چین نہیں آئے گا۔ یہ حالت اور ضد دیکھ کر بادشاہ سلامت نے حکم دیا کہ کسی بھی طرح ہما کو پکڑو اور حاضر کرو۔ وزیر باتدبیر نے صیادوں اور شکاریوں کو حکم دیا کہ کسی بھی طرح جال لگا کر ہما کو پکڑو تاکہ شہزادی کو قرار آئے۔ ایک ماہر اور بزرگ صیاد نے بتایا کہ ایک جگہ بالکل غیر آباد ہے۔
پتا چلا ہے کہ چھ ماہ میں ایک دفعہ اپنے ساتھیوں، ہمراہیوں کے ساتھ وہاں آتا ہے۔کچھ دیر قیام کرکے واپس کہیں چلا جاتا ہے۔ یہ امید افزا بات سن کر وزیر خوش ہوا، اور اپنے ملازموں اور سن رسیدہ شکاریوں کے ساتھ اس باغ کی طرف روانہ ہوا جس کا ذکر بزرگ صیاد نے کیا تھا۔ وہاں کا منظر ہی عجیب تھا، ہرطرف ویرانی اور جھاڑ جھنکار۔ وزیر نے غلاموں کو حکم دیا کہ اس ویران باغ کو ہر طرح کے میوؤں، دانوں اور تمام ایسی اشیا سے بھر دیا جائے جو پرندوں کو یہاں اترنے پر راغب کرے۔ ہر پرندہ دیکھتے ہی مشتاق ہوکر آن بیٹھے۔
یہ اہتمام مسلسل رہے تاوقتیکہ ہما جال میں نہ پھنس جائے۔ خوش قسمتی سے ایک دن ہما اپنے معمول کے مطابق معہ اپنے ہمراہیوں کے وہاں آیا۔ اس دن اس کے ہمراہ کبوتر، فاختہ، ہد ہد، بلبل، قاز، راج ہنس اور کلنگ تھے۔ لیکن ہما اور اس کے ساتھی اس باغ میں نہ اترے بلکہ کسی اور باغ کو چلے گئے۔ صیاد اور وزیر بہت پریشان ہوئے کہ نامعلوم ہما اس بار اس باغ میں کیوں نہ اترا، جب کہ ہمیشہ ہر ششماہی کو یہاں آتا ہے۔ بزرگ صیاد نے مشورہ دیا کہ پورے چھ ماہ بعد پھر یہ یہاں آئے گا، اگر ہماری قسمت اچھی ہوئی تو پھندے میں ضرور آئے گا۔
ہمیں انتظار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ وزیر نے بادشاہ کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا اور شکاریوں کو مزید چھ ماہ کی مہلت دلوادی۔ چھ مہینے کے بعد حسب موافق پھر باغ کو آراستہ کیا گیا۔ ہر طرح کا میوہ اور دانہ بکھیر دیا گیا۔ ہما حسب عادت اپنے کچھ ساتھیوں کے جن میں الو، گدھ،کوا، چیل اور چغہ شامل تھے اس باغ میں اترا جہاں اس کو پکڑنے کے لیے پہلے سے جال بچھے تھے۔ جیسے ہی پرندے دام میں پھنسے، غلاموں نے بزرگ صیاد سے ہما کو پہچاننے کے لیے کہا اور فوراً ہی شناخت کے بعد اسے علیحدہ پنجرے میں قید کرکے باقی تمام پرندوں کو آزاد کردیا اور ہما کو بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا۔
بادشاہ نے صیادوں کو بہت سا انعام دے کر رخصت کیا اور ہما کو شہزادی کے پاس بھیج دیا۔ وہ اس نایاب پرندے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اور اس سے پوچھا کہ ''بتا کہ تو پہلی بار کیوں گرفتار نہیں ہوا تھا اور دوسری بار کیوں کر جال میں پھنسا؟'' ہما نے جواب دیا کہ ''اے شہزادی! پہلی بار جب میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ جن میں فاختہ، کبوتر، ہدہد، راج ہنس، بلبل، بطہ، قاز اور کلنگ تھے۔
اس باغ میں انھوں نے اترنے سے منع کیا۔ میرے ساتھ نجیب اشراف اور عقل مند پرندوں کی نشست تھی اس لیے میں نے ان کی بات پہ کان دھرا، جب کہ میں اترنا چاہتا تھا۔ لیکن ان عقل مند ہمراہیوں نے کہا کہ یہ باغ مدت سے ویران پڑا ہے کبھی یہاں دانہ دنکا بھی نظر نہیں آیا۔ انتہائی خستہ حالت باغ میں اتنا میوہ اور دانہ دنکا جو دکھائی دے رہا ہے ضرور اس میں کوئی چال ہے۔ ہمیں یہاں نہیں اترنا چاہیے۔ یہ کہہ کر وہ لوگ مجھے دوسرے باغ میں لے گئے۔
اب کی بار جب میں اس باغ کی طرف آیا تو میرے ہمراہی چغد، الو، گدھ، چیل اورکوے تھے، ان زاغ و زغن نے مجھے اس باغ میں اترنے کے لیے زور دیا کہ جو میوہ اور پھل یہاں دکھائی دے رہے تھے وہ کہیں دوسرے باغ میں اتنی افراط سے نہیں تھے۔ میں نے انھیں سابقہ وجہ بتا کر اترنے سے منع کیا، لیکن یہ نمک حرام ہمراہی اور بے ایمان ساتھیوں نے میووں اور پھلوں کی لالچ میں یہاں زبردستی اترنے پر مجبورکیا۔ جس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ انھوں نے اپنے فائدے کے لیے مجھے قید کروادیا اور خود آزاد ہوکر میوے اور پھل کھانے میں لگ گئے۔ یہ لالچ کا انجام ہے۔ یہ روئیداد سن کر شہزادی نے ہما کو آزاد کروا دیا۔
خلاصہ اس حکایت کا یہ کہ حکمرانوں کے لیے لازم ہے کہ اپنی صحبت میں عالم، فاضل، پڑھے لکھے اور دیانت دار وزیروں اور امیروں کو رکھیں تاکہ دوران حکمرانی جب انھیں مشورے کی ضرورت پڑے تو اہل علم اور ایمان دار وزیر صائب مشورہ دے سکیں۔اب ذرا اس حکایت کی روشنی میں اپنے ملک پاکستان کا جائزہ لیجیے تو ایک بات تو یہ سامنے آتی ہے کہ ہما کو یہاں ایک سنہری پنجرے میں قید کرکے وردی والوں کے ہیڈکوارٹر میں رکھ دیا گیا ہے۔
باری باری اس پنجرے کو کھولا جاتا ہے ایک بار اسے (ن) لیگ کے سربراہ کے سر پہ بٹھادیا جاتا ہے اور دوسری بار پی پی کے سربراہ کے سر پہ پرندہ اگرچہ نایاب ہے لیکن اہل دانش اور اہل علم جن کا وجود صرف اور صرف سول سوسائٹی میں پایا جاتا ہے وہ بغیر ہما کو دیکھے جان جاتے ہیں کہ اس بار وہ کس کے سر پہ بیٹھے گا اور سرخاب پر کس کی شیروانی یا سوٹ میں لگے گا۔
دوسری بات بھی اس حکایت کی پوری طرح پاکستانی سیاستدانوں اور لیڈروں پہ صادق آتی ہے۔ ذرا ماضی میں جائیے اور آہستہ آہستہ موجودہ دور کی طرف آجائیے۔ آپ دیکھیں گے کہ جس طرح ہما احمق اور لالچی ہمراہیوں کی مشاورت سے پھندے میں پھنسا اورگرفتار ہوا، اسی طرح ہمارے نام نہاد لیڈروں اور حکمرانوں کے اردگرد بھی زیادہ تر نااہل اور مطلب پرست خوشامدی ہمراہیوں کی جماعت ہمیشہ گھیرا ڈالے رہتی ہے۔
آپ ان خوشامدی وزیروں کے تیور دیکھے۔ اپنے عہدوں اور کرپشن کو جائز قرار دینے کے لیے وہ انھیں دودھ کا دھلا ثابت کرنے کے لیے چاہے پانامہ اسکینڈل ہو یا سرے محل اور سوئٹزر لینڈ کے بینک اکاؤنٹ سب جائز۔ یہاں تک کہ قطری شہزادوں کے خطوط بھی ہما کے نادان اور لالچی ہمراہیوں کی صف میں شامل ہوچکے ہیں۔ بہرحال یہ طے ہے کہ اقتدار کا ہما پنجرے سے نکلنے والا ہے۔ تیسری قوت موجود تو ہے لیکن جو آہنی ہاتھ ہما کے پنجرے کو کھولے گا وہ اسے کسی تیسری قوت کے سر پہ نہیں بیٹھنے دے گا۔ سچ کہا ناں میں نے؟
ویسے شیخ سعدی نے بھی کچھ ایسی ہی بات اپنی ایک حکایت میں کی ہے کہ چنبیلی کی خوشبو سے مٹی بھی خوشگوار ہوگئی کیونکہ ''جمال ہم نشیں در من اثر کرد'' والی بات ہے۔ کیکر کے درخت کے پاس سے جو گزرے گا لہو لہان ہوگا۔ سعدیؓ کی بات کو سادے انداز میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ''جیسی روح ویسے فرشتے''۔ انسان اپنے دوستوں اور صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ اب آپ دیکھ لیجیے کہ حکمرانوں کے کارندے جو خود کو ان کا دوست کہتے ہیں کس قماش کے ہیں۔ ان کا اندازگفتگو کس قدر عامیانہ ہے۔ گالم گلوچ مار پیٹ ہاتھا پائی۔ یہ آج کا اسمبلی اور ٹاک شو کلچر ہے۔ ہما کو زاغ زغن کی دوستی نے دام میں پھنسایا تھا۔ آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔