لہو رلاتے واقعات
یہ تمام بچے ایک ہی دھرتی، ایک ہی وطن اور ایک ہی قوم کے ہیں
KARACHI:
یہ تمام بچے ایک ہی دھرتی، ایک ہی وطن اور ایک ہی قوم کے ہیں، کچھ نے صبح سویرے اٹھ کر تلاوت کلام اور نماز سے فراغت کے بعد ناشتہ کیا، کتابیں اٹھائیں اور مادر علمی کی سمت سفر اختیار کیا۔ ان لڑکیوں کو پڑھ لکھ کر اعلیٰ مقام حاصل کرنا ہے، اپنے وطن کی خدمت اور رزق حلال کما کر اپنے بوڑھے والدین اور چھوٹے بہن بھائیوں کی مدد کرنی ہے، مہنگائی کے جہاد میں اپنا بھی حصہ ڈالنا ہے، وہ جانتی ہیں کہ ان کے والدین نے بڑی محنت، مشقت کے ساتھ انھیں پڑھانے کا عزم کیا تھا، پرائمری و سیکنڈری جماعتوں تک پہنچنے تک وہ کئی بار مقروض بھی ہوگئے، گھر کی ضرورتوں میں خرچ ہونے والی قلیل رقم کو تعلیم کی مد میں خرچ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔
اماں ابا نے کہا تھا کہ روکھی سوکھی کھالیں گے، مگر اپنی اولاد کو علم کے نور سے ضرور روشن کریں گے، وہ جانتے تھے کہ جہالت سیاہ اندھیرے کی مانند ہے، گھپ تاریکی میں کوئی راستہ نظر نہیں آتا ہے، وہ اس بات سے بھی واقف تھے کہ جہالت شیطانی کاموں کا دوسرا نام ہے، اسی لیے اللہ نے علم حاصل کرنے کے لیے زور دیا، لڑکے اور لڑکی میں کوئی تخصیص نہیں رکھی، لیکن اس کے باوجود گمراہی خوب پروان چڑھی۔
ابا نے اس بدبخت کا واقعہ سن کر کہا تھا کتنا ظالم اور شقی القلب شخص تھا، جس نے اپنی ہی بیٹیوں کو جن کی عمریں 10 اور 12 سال تھیں بیدردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا، پہلے نالے میں ڈبویا، نہیں مریں تو زندہ دفن کرکے زمانہ جاہلیت کی رسم کو زندہ کردیا۔ اماں ابا کے سامنے ایسے بہت سے خونی واقعات تھے کہ درندے ان رشتوں کو ذبح کر رہے تھے، جنھیں اسلام نے عزت و توقیر بخشی ہے۔ وہ قومیں جو دنیا میں اپنا نام کر جاتی ہیں۔
یہی نسل وطن کے استحکام کے لیے اور خاندان کی عزت و وقار کے لیے اپنی زندگیاں بتا دیتی ہیں۔ ابا نے اماں سے اس وقت فخر سے کہا تھا جب بچیوں نے اس دنیا میں قدم رکھا اور رحمتوں سے ان کا گھر بھر گیا تھا، اے نیک بخت میں غریب سہی لیکن غیرت مند اور باہمت ہوں، میرے والدین نے جو مجھے دیا وہ میں انھیں ضرور لوٹاؤں گا۔ اور بیٹے کو جب ملازمت ملی تو بہنوں کے دل خوشی سے جھوم اٹھے اور ابا نے مجبوریوں اور نامرادیوں کی بے ساکھیوں کو دور پھینک دیا، اماں کی دعائیں قبول ہوئیں اور افلاس کے جراثیم انجانی راہوں پر اڑتے چلے گئے، واقعی جب بیٹا جوان ہوتا ہے تو ماں باپ کے لیے ان کی آنکھیں ان کے ہاتھ پیر بن جاتا ہے اور اب تو بیٹیاں بھی یہ فریضہ انجام دے رہی ہیں۔
ابا خوش ہوتے ہوئے بولے تھے اور اماں نے سروتے کی تال کو اچانک اختتام کی شکل تک پہنچادیا اور رازداری سے کہا اپنے ہیرے سے بیٹے کے لیے لڑکی تلاش کرنا چاہ رہی ہوں، کوئی پری زادی لے اڑے گی تو ہم منہ دیکھتے رہ جائیں گے، ماشا اللہ تعلیم حاصل کر لی، ملازمت بھی ایسی ملی کہ ساری دنیا اسے دیکھ کر رشک کرتی ہے۔
ارے تو! اتنی تمہید باندھنے کی کیا ضرورت ہے، سیدھی طرح کیوں نہیں کہتی ہو کہ اب تم گھر کی ذمے داریاں اٹھاتے اٹھاتے تک گئی ہو، بہو کی شکل میں مددگار چاہتی ہو۔ تو پھر دیر کس بات کی، ڈھونڈو چاند سی لڑکی، جوتیوں کی کمی نہیں ہے، میں تمہیں اور لادوں گا، خوب توڑو۔
لیکن؟ اماں نے تشویش سے کہا، لیکن کیا؟ ابا چونکنا ہوگئے۔ میرا مطلب ہے ابھی بچیوں کی تو شادیاں نہیں ہوئی ہیں، میری خواہش تھی پہلے بیٹیاں نمٹ جاتیں اور پھر تمہارے بیٹے کی باری آتی۔ تم اس بات کی فکر کیوں کرتی ہو، سب کے بَر مل جائیں گے، بس اللہ کی ذات پر امید رکھو اور تمناؤں اور مسئلے مسائل کو خالی کشتی میں ڈال کر اللہ کے سپرد کردو۔ ''ہوں کہتے تو تم ٹھیک ہی ہو۔''
اماں نے سروتہ اپنے ہاتھ میں دوبارہ تھام لیا۔ وہ وقت بھی قریب آ گیا ہے، جب زرق برق کپڑوں کی خریداری، ہال کی بکنگ، مایوں اور مہندی کے خاص دنوں کے لیے زرد اور سبز لباسوں کے ڈھیر گھر میں لگ گئے ہیں، یوں لگتا ہے ہر سمت سرسوں پھول رہی ہے، اور ہرے بھرے پتیوں جیسے دلکش ملبوسات آنکھوں کو تازگی بخش رہے ہیں، یہ کام اپنی جگہ اور مہنگائی کا جن اپنی جگہ جو منتظمین خصوصاً والدین کی رگوں کا لہو منجمد کررہا ہے، بیٹی کا گھر آباد کرتے کرتے ماں باپ کا اپنا گھر برباد ہوتے ہوتے بچا ہے، سہرا سجانے کا خواب اور کارڈوں کی تقسیم، مستقبل کے خوابوں اور نئی زندگی کے آغاز نے دل میں پھلجھڑیاں جلادی ہیں اور گھر میں خوشیوں کے پھول رقصاں ہیں۔
باد بہاری کامیابیوں کے گیت گنگنا رہی ہے۔ ہر فرد خوش ہے، تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ لیکن انھی گھرانوں میں قیامت اتر آتی ہے خوشی کا نغمہ نوحے میں بدل جاتا ہے اور سرخ لباس زیب تن کرنے والی فاطمہ اور بلال امجد زندگی کی خوشیاں سمیٹنے سے پہلے ہی رخصت ہو جاتے ہیں، بلال امجد کی نجی بینک میں بطور اسسٹنٹ منیجر ترقی ہوئی تھی اور اس کی بارہ مارچ کو شادی طے تھی، مال روڈ لاہور کے خودکش دھماکوں میں پولیس افسران اور اہلکار شہید ہوئے ان کے ہنستے بسرے گھر اجڑ گئے، بچے یتیم اور ہمیشہ کے لیے شفقت پدری سے محروم ہوگئے، محرومی، اداسی، غم، آنسو، کرب اور دلخراش یادیں تو ان گھرانوں کا بھی حصہ بن گئیں۔
جہاں سے جوان بیٹیوں کے جنازے اٹھے، سہاگ کے جوڑے کی جگہ کفن پہننا نصیب ہوا۔ کتنی خواہشات ، تمنائیں اور آرزوئیں عین شباب پر تھیں، سنہرا مستقبل خوش آمدید کہنے کے لیے بے قرار تھا اور والدین اولاد کی خوشیوں کی آس لگائے زندہ تھے، انھیں بابل کے گھر سے وداع کرنے کے خواب جاگتے میں دیکھ رہے تھے۔ لیکن نصیب میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔
ڈرائیور کی تیز رفتاری اور دوسری بس سے ریس لگاتے ہوئے اول نمبر حاصل کرنے کی دھن نے بہت سے مسافروں کی جان لے لی، ناہموار سڑک پر دوڑتی بھاگتی بسیں مسجد بیت المکرم کے قریب راستے میں پڑے پتھر سے جا ٹکرائی اور الٹ گئی، جامع اردو گلشن اقبال کی تینوں طالبات آمنہ بتول، رابعہ بتول اور کرن شہزادی اور بس کا کنڈیکٹر اس سانحے میں جان کی بازی ہارگئے۔ اپنے پیروں پر جانے والی یہ معصوم لڑکیاں بذریعہ ایمبولینس اپنے گھروں کو پہنچیں۔ اور اپنا آخری غسل، آخری لباس پہن کر ملک عدم کو سدھار گئیں۔
یہ دھرتی معصومین کے لہو سے نہا چکی ہے، ہر سو خون ہی خون ہے، ہر روز باقاعدگی کے ساتھ ٹریفک حادثات رونما ہو رہے ہیں، بسیں، کاریں، ٹرالر تیز رفتاری کے باعث الٹ جاتے ہیں لیکن ٹریفک پولیس کی لاپرواہی جوں کی توں ہے، پورے شہر کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، مرمت کے مرحلے سے گزر رہی ہیں نہ جانے کب یہ کام مکمل ہوگا سابقہ اور موجودہ حکومتیں، سیاستدان ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے نہیں تھکتے، معاشرتی ڈھانچہ شکستہ ہوچکا ہے، اقربا پروری نے اس میں ہزاروں سوراخ کردیے ہیں، محنت کشوں کی کمائی پر ٹیکس کی بھرمار کرکے ان سے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے ساتھ میں بجلی، پانی کی سہولتوں سے محرومی، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر، خاکروبوں کی چھٹی کردی گئی ہے شہر اور شہر کے باسی دکھوں اور اذیتوں میں مبتلا ہیں۔ حالات سنگین ہیں۔ ان واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیوں نہ انفرادی و اجتماعی طور پر تو بہ کرلی جائے۔ شاید ہمارا رب ہم سے راضی ہوجائے اور عذاب نما حادثات سے نجات مل جائے۔
یہ تمام بچے ایک ہی دھرتی، ایک ہی وطن اور ایک ہی قوم کے ہیں، کچھ نے صبح سویرے اٹھ کر تلاوت کلام اور نماز سے فراغت کے بعد ناشتہ کیا، کتابیں اٹھائیں اور مادر علمی کی سمت سفر اختیار کیا۔ ان لڑکیوں کو پڑھ لکھ کر اعلیٰ مقام حاصل کرنا ہے، اپنے وطن کی خدمت اور رزق حلال کما کر اپنے بوڑھے والدین اور چھوٹے بہن بھائیوں کی مدد کرنی ہے، مہنگائی کے جہاد میں اپنا بھی حصہ ڈالنا ہے، وہ جانتی ہیں کہ ان کے والدین نے بڑی محنت، مشقت کے ساتھ انھیں پڑھانے کا عزم کیا تھا، پرائمری و سیکنڈری جماعتوں تک پہنچنے تک وہ کئی بار مقروض بھی ہوگئے، گھر کی ضرورتوں میں خرچ ہونے والی قلیل رقم کو تعلیم کی مد میں خرچ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔
اماں ابا نے کہا تھا کہ روکھی سوکھی کھالیں گے، مگر اپنی اولاد کو علم کے نور سے ضرور روشن کریں گے، وہ جانتے تھے کہ جہالت سیاہ اندھیرے کی مانند ہے، گھپ تاریکی میں کوئی راستہ نظر نہیں آتا ہے، وہ اس بات سے بھی واقف تھے کہ جہالت شیطانی کاموں کا دوسرا نام ہے، اسی لیے اللہ نے علم حاصل کرنے کے لیے زور دیا، لڑکے اور لڑکی میں کوئی تخصیص نہیں رکھی، لیکن اس کے باوجود گمراہی خوب پروان چڑھی۔
ابا نے اس بدبخت کا واقعہ سن کر کہا تھا کتنا ظالم اور شقی القلب شخص تھا، جس نے اپنی ہی بیٹیوں کو جن کی عمریں 10 اور 12 سال تھیں بیدردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا، پہلے نالے میں ڈبویا، نہیں مریں تو زندہ دفن کرکے زمانہ جاہلیت کی رسم کو زندہ کردیا۔ اماں ابا کے سامنے ایسے بہت سے خونی واقعات تھے کہ درندے ان رشتوں کو ذبح کر رہے تھے، جنھیں اسلام نے عزت و توقیر بخشی ہے۔ وہ قومیں جو دنیا میں اپنا نام کر جاتی ہیں۔
یہی نسل وطن کے استحکام کے لیے اور خاندان کی عزت و وقار کے لیے اپنی زندگیاں بتا دیتی ہیں۔ ابا نے اماں سے اس وقت فخر سے کہا تھا جب بچیوں نے اس دنیا میں قدم رکھا اور رحمتوں سے ان کا گھر بھر گیا تھا، اے نیک بخت میں غریب سہی لیکن غیرت مند اور باہمت ہوں، میرے والدین نے جو مجھے دیا وہ میں انھیں ضرور لوٹاؤں گا۔ اور بیٹے کو جب ملازمت ملی تو بہنوں کے دل خوشی سے جھوم اٹھے اور ابا نے مجبوریوں اور نامرادیوں کی بے ساکھیوں کو دور پھینک دیا، اماں کی دعائیں قبول ہوئیں اور افلاس کے جراثیم انجانی راہوں پر اڑتے چلے گئے، واقعی جب بیٹا جوان ہوتا ہے تو ماں باپ کے لیے ان کی آنکھیں ان کے ہاتھ پیر بن جاتا ہے اور اب تو بیٹیاں بھی یہ فریضہ انجام دے رہی ہیں۔
ابا خوش ہوتے ہوئے بولے تھے اور اماں نے سروتے کی تال کو اچانک اختتام کی شکل تک پہنچادیا اور رازداری سے کہا اپنے ہیرے سے بیٹے کے لیے لڑکی تلاش کرنا چاہ رہی ہوں، کوئی پری زادی لے اڑے گی تو ہم منہ دیکھتے رہ جائیں گے، ماشا اللہ تعلیم حاصل کر لی، ملازمت بھی ایسی ملی کہ ساری دنیا اسے دیکھ کر رشک کرتی ہے۔
ارے تو! اتنی تمہید باندھنے کی کیا ضرورت ہے، سیدھی طرح کیوں نہیں کہتی ہو کہ اب تم گھر کی ذمے داریاں اٹھاتے اٹھاتے تک گئی ہو، بہو کی شکل میں مددگار چاہتی ہو۔ تو پھر دیر کس بات کی، ڈھونڈو چاند سی لڑکی، جوتیوں کی کمی نہیں ہے، میں تمہیں اور لادوں گا، خوب توڑو۔
لیکن؟ اماں نے تشویش سے کہا، لیکن کیا؟ ابا چونکنا ہوگئے۔ میرا مطلب ہے ابھی بچیوں کی تو شادیاں نہیں ہوئی ہیں، میری خواہش تھی پہلے بیٹیاں نمٹ جاتیں اور پھر تمہارے بیٹے کی باری آتی۔ تم اس بات کی فکر کیوں کرتی ہو، سب کے بَر مل جائیں گے، بس اللہ کی ذات پر امید رکھو اور تمناؤں اور مسئلے مسائل کو خالی کشتی میں ڈال کر اللہ کے سپرد کردو۔ ''ہوں کہتے تو تم ٹھیک ہی ہو۔''
اماں نے سروتہ اپنے ہاتھ میں دوبارہ تھام لیا۔ وہ وقت بھی قریب آ گیا ہے، جب زرق برق کپڑوں کی خریداری، ہال کی بکنگ، مایوں اور مہندی کے خاص دنوں کے لیے زرد اور سبز لباسوں کے ڈھیر گھر میں لگ گئے ہیں، یوں لگتا ہے ہر سمت سرسوں پھول رہی ہے، اور ہرے بھرے پتیوں جیسے دلکش ملبوسات آنکھوں کو تازگی بخش رہے ہیں، یہ کام اپنی جگہ اور مہنگائی کا جن اپنی جگہ جو منتظمین خصوصاً والدین کی رگوں کا لہو منجمد کررہا ہے، بیٹی کا گھر آباد کرتے کرتے ماں باپ کا اپنا گھر برباد ہوتے ہوتے بچا ہے، سہرا سجانے کا خواب اور کارڈوں کی تقسیم، مستقبل کے خوابوں اور نئی زندگی کے آغاز نے دل میں پھلجھڑیاں جلادی ہیں اور گھر میں خوشیوں کے پھول رقصاں ہیں۔
باد بہاری کامیابیوں کے گیت گنگنا رہی ہے۔ ہر فرد خوش ہے، تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ لیکن انھی گھرانوں میں قیامت اتر آتی ہے خوشی کا نغمہ نوحے میں بدل جاتا ہے اور سرخ لباس زیب تن کرنے والی فاطمہ اور بلال امجد زندگی کی خوشیاں سمیٹنے سے پہلے ہی رخصت ہو جاتے ہیں، بلال امجد کی نجی بینک میں بطور اسسٹنٹ منیجر ترقی ہوئی تھی اور اس کی بارہ مارچ کو شادی طے تھی، مال روڈ لاہور کے خودکش دھماکوں میں پولیس افسران اور اہلکار شہید ہوئے ان کے ہنستے بسرے گھر اجڑ گئے، بچے یتیم اور ہمیشہ کے لیے شفقت پدری سے محروم ہوگئے، محرومی، اداسی، غم، آنسو، کرب اور دلخراش یادیں تو ان گھرانوں کا بھی حصہ بن گئیں۔
جہاں سے جوان بیٹیوں کے جنازے اٹھے، سہاگ کے جوڑے کی جگہ کفن پہننا نصیب ہوا۔ کتنی خواہشات ، تمنائیں اور آرزوئیں عین شباب پر تھیں، سنہرا مستقبل خوش آمدید کہنے کے لیے بے قرار تھا اور والدین اولاد کی خوشیوں کی آس لگائے زندہ تھے، انھیں بابل کے گھر سے وداع کرنے کے خواب جاگتے میں دیکھ رہے تھے۔ لیکن نصیب میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔
ڈرائیور کی تیز رفتاری اور دوسری بس سے ریس لگاتے ہوئے اول نمبر حاصل کرنے کی دھن نے بہت سے مسافروں کی جان لے لی، ناہموار سڑک پر دوڑتی بھاگتی بسیں مسجد بیت المکرم کے قریب راستے میں پڑے پتھر سے جا ٹکرائی اور الٹ گئی، جامع اردو گلشن اقبال کی تینوں طالبات آمنہ بتول، رابعہ بتول اور کرن شہزادی اور بس کا کنڈیکٹر اس سانحے میں جان کی بازی ہارگئے۔ اپنے پیروں پر جانے والی یہ معصوم لڑکیاں بذریعہ ایمبولینس اپنے گھروں کو پہنچیں۔ اور اپنا آخری غسل، آخری لباس پہن کر ملک عدم کو سدھار گئیں۔
یہ دھرتی معصومین کے لہو سے نہا چکی ہے، ہر سو خون ہی خون ہے، ہر روز باقاعدگی کے ساتھ ٹریفک حادثات رونما ہو رہے ہیں، بسیں، کاریں، ٹرالر تیز رفتاری کے باعث الٹ جاتے ہیں لیکن ٹریفک پولیس کی لاپرواہی جوں کی توں ہے، پورے شہر کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، مرمت کے مرحلے سے گزر رہی ہیں نہ جانے کب یہ کام مکمل ہوگا سابقہ اور موجودہ حکومتیں، سیاستدان ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے نہیں تھکتے، معاشرتی ڈھانچہ شکستہ ہوچکا ہے، اقربا پروری نے اس میں ہزاروں سوراخ کردیے ہیں، محنت کشوں کی کمائی پر ٹیکس کی بھرمار کرکے ان سے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے ساتھ میں بجلی، پانی کی سہولتوں سے محرومی، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر، خاکروبوں کی چھٹی کردی گئی ہے شہر اور شہر کے باسی دکھوں اور اذیتوں میں مبتلا ہیں۔ حالات سنگین ہیں۔ ان واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیوں نہ انفرادی و اجتماعی طور پر تو بہ کرلی جائے۔ شاید ہمارا رب ہم سے راضی ہوجائے اور عذاب نما حادثات سے نجات مل جائے۔