المیہ
ہمارے ملک میں قومی یکجہتی قصہ پارینہ بن چکی ہے ہماری پوری قوم کئی اکائیوں میں بٹ چکی ہے
جامعہ کراچی کی جانب سے 'قومی یکجہتی اورعلاقائی روابط میں نوجوانوں کا کردار'' کے موضوع پر گزشتہ دنوں منعقدہ سیمینار میں ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر فاروق ستار اور پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال کا ایک ساتھ بیٹھنا، ہاتھ ملانا اورخوشگوار موڈ میں مسکراہٹیں بکھیرکر ایک دوسرے سے ملتے رہنے کے وعدے کے ساتھ رخصت ہونا، ایک یادگار واقعہ تھا۔ اس ملاقات سے جہاں سیمینارگل گلزار بن گیا وہاں اس کا عوامی سطح پر اچھا تاثرگیا۔
میڈیا نے بھی اس کا مثبت اثر لیا اور اسے قومی یکجہتی جیسے اہم موضوع پرکراچی یونیورسٹی کی جانب سے منعقد کیا جانے والا یہ سیمینار انتہائی مستحسن اقدام تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں قومی یکجہتی قصہ پارینہ بن چکی ہے ہماری پوری قوم کئی اکائیوں میں بٹ چکی ہے۔ اس کے ذمے دار سراسر ہمارے بعض سیاستدان ہیں جنھوں نے اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے قوم کو فرقوں، زبانوں اور صوبوں کے چکر میں ڈال دیا ہے۔
بدقسمتی سے ملک میں پانچ قومیتوں کی بات کی جاتی ہے جب کہ تمام پاکستانی ایک قوم ہیں۔ پانچ قومیتوں والی بات سراسر ملک اور قوم کے ساتھ ظلم ہے۔ اس ملک کی تمام پریشانیوں اور مشکلوں کا منبع بھی یہی منفی رجحان ہے۔ حب الوطنی کا فقدان بھی اسی منفی رویے کا نتیجہ ہے۔ وہ قوم جس میں یکجہتی اور جذبہ حب الوطنی نہ ہو اسے کیونکر ایک قوم کہا جاسکتا ہے، بقول ایک انگریز شاعرالیگزینڈر پوپ اس قوم کو مردہ سمجھنا چاہیے جس میں جذبۂ حب الوطنی نہ ہو۔
ہمارے دشمن ہمارے اندر پھیلے ہوئے تفرقے سے ہی فائدہ اٹھا کر ہمیں تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو غلط راستے پر ڈال رہے ہیں اور انھیں اپنے مذموم عزائم کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ دراصل ملک میں پھیلی ہوئی دہشتگردی میں ایسے ہی نوجوان ملوث ہیں چنانچہ ضرورت اس امرکی ہے کہ نوجوانوں کو قومی یکجہتی کا درس ااسکول کی سطح سے دیا جائے۔ نصابی کتابوں کو حب الوطنی، قومی یکجہتی اوراخلاقیات کے مضامین سے مزین کیا جائے۔
جامعہ کراچی کی طرح ملک کی دوسری جامعات کو بھی اسی قسم کے سیمینار منعقد کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو تمام ااسکولوں، کالجوں اور جامعات کو سال میں کئی مرتبہ ایسے سیمینار منعقد کرنے کا پابند بنانا چاہیے۔ اس سے یقینا نہایت حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوں گے اور ملک سے دہشتگردی کے خاتمے میں بہت مدد ملے گی۔ جہاں تک فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کا تعلق ہے دونوں ایک عرصے سے ایک دوسرے پر تنقید کے گولے برسا رہے ہیں اور ایک دوسرے کو اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار کا طعنہ دے رہے ہیں جب کہ دونوں ہی اس الزام کو بے بنیاد قرار دے رہے ہیں۔
فاروق ستار کا حب الوطنی کے حوالے سے کہنا ہے کہ 22 اگست کے بعد انھوں نے پاکستان مخالف لوگوں سے اپنا رشتہ توڑ لیا وہ سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں مگر پاکستان کے خلاف کسی سازش کو برداشت نہیں کرسکتے۔ پاکستان ہمارے بزرگوں کی میراث ہے۔ انھوں نے بڑی قربانیوں کے بعد اس وطن کو حاصل کیا تھا ہم ان کی میراث کو کیسے برباد ہوتا دیکھ سکتے ہیں؟ ہم تو اس پاک سرزمین کے ایک ایک ذرے کو آنکھوں سے لگا کر چومتے ہیں۔ یہ ہے تو ہم ہیں اور یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
دراصل اس وقت ملک اور بالخصوص کراچی کے دگرگوں حالات کے پیش نظر ایم کیو ایم کے بکھرے ہوئے تمام دھڑوں کو آپس میں قریبی تعلقات قائم رکھنے کی سخت ضرورت ہے۔ کراچی میں ابھی مکمل طور پر امن قائم نہیں ہوسکا ہے، چنانچہ امن کے قیام کے لیے تمام ہی پارٹیوں کو اپنی ذمے داریاں پوری کرنا ہوں گی۔ آپس کے تفرقوں سے شہر میں قیام امن کی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
ماضی میں بھی ایم کیو ایم اور حکومت کے درمیان جاری طویل چپقلش سے شہر کی فضا خراب رہی تھی اور اس تناؤ سے ملک دشمن قوتوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا۔ خاص طور پر لشکر جھنگوی اور طالبان نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہرکو طویل عرصے تک لہولہان کیے رکھا تھا۔ ایم کیو ایم نے ضرب عضب آپریشن کی مکمل حمایت کرکے اس شہر کو اجڑنے سے بچا لیا تھا۔
اب نئے حالات میں بھی ایم کیو ایم کے تمام دھڑے امن کی بحالی کے سلسلے میں حکومتی ہر اقدام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ تاہم ایم کیو ایم کے بکھرنے کے بعد اب سندھ میں زبردست سیاسی خلا پیدا ہوگیا ہے۔ وہ پارٹیاں جنھیں کراچی اورحیدر آباد میں برسوں سے کوئی سیٹ نہیں ملی تھی وہ اب آئندہ الیکشن میں کامیابی کی امیدیں باندھنے لگی ہیں اور کچھ نہ کچھ سیٹوں کے حاصل کرنے کے خواب دیکھنے لگی ہیں۔
بہرحال خواب دیکھنے پرکوئی پابندی نہیں ہے خواب دیکھنا بجا طور پر ہر ایک کا حق ہے البتہ آئندہ الیکشن کے بارے میں منظور وسان کیا خواب دیکھ رہے ہیں اس کا انھوں نے ابھی تک اظہار نہیں کیا ہے۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے نئے حالات میں وہ آئندہ الیکشن میں کراچی اور حیدرآباد میں بڑی کامیابی کی امیدیں لگا رہی ہے مگر تجزیہ کاروں کے مطابق شاید ایسا نہ ہو سکے اس لیے اس نے دونوں ہی شہروں کو بے یار و مددگار چھوڑ رکھا ہے۔ یہاں مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں مگر پیپلز پارٹی کی حکومت کی اس جانب کوئی توجہ نہیں ہے۔
سندھ حکومت کی یہ دلیل مضحکہ خیز ہے کہ شہری مسائل کو حل کرنا شہری حکومت کا کام ہے جب شہری حکومت کے اختیارات میں کٹوتی کرکے اسے بے اختیار کردیا جائے تو پھر شہری مسائل کیسے حل ہوں گے؟ بہرحال شہری مسائل کے حل نہ ہونے سے ایم کیو ایم کی نہیں بلکہ صوبائی حکومت کی اپنی پوزیشن خراب ہو رہی ہے اور جس سے آئندہ انتخابات ضرور متاثر ہوں گے۔
شہری مسائل کے حل کے سلسلے میں صوبائی حکومت صرف کراچی میں ہی نہیں بلکہ صوبے کے دوسرے شہروں میں بھی لاپرواہی کا ثبوت دے رہی ہے۔ لاڑکانہ شہر جو شہید ذوالفقار علی بھٹو کا آبائی شہر ہے شہری مسائل کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ عدالت بھی لاڑکانہ کے مسائل کے سلسلے میں حکومت سندھ کو متنبہ کرچکی ہے۔
پیپلز پارٹی اپنی ان کوتاہیوں سے جہاں عوامی پریشانیوں میں اضافہ کر رہی ہے وہاں پیپلزپارٹی کے بانی اور عوام کے محبوب شہید رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی روح کو بھی تکلیف پہنچا رہی ہے۔ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ وہ جلدازجلد کراچی کو گندگی سے پاک کردیں گے اب انھیں عہدہ سنبھالے کئی مہینے گزر چکے ہیں مگر حالات جوں کے توں ہیں۔
ادھر میئرکراچی وسیم اختر شہرکے مسائل کو حل کرنے کے لیے پرعزم تو ہیں مگر وہ خود کو بے اختیار کہہ کر سارے مسائل کا ذمے دار حکومت کو قرار دے رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ عوام کہاں جائیں اور کس کے آگے فریاد کریں۔ پیپلز پارٹی کا یہ المیہ ہے کہ وہ جب بھی اقتدار میں آتی ہے عوامی مسائل پر اس کی توجہ کم ہی رہتی ہے۔
زرداری دور میں پورے پانچ سال ملک میں مفاہمتی سیاست جاری رہی جس سے سیاستدانوں نے تو ضرور اپنا الو سیدھا کیا مگر عوام مسائل کی چکی میں بدستور پستے رہے۔ پیپلز پارٹی کی اس عوامی بے اعتنائی کی وجہ سے ہی تحریک انصاف نے عوام میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ گزشتہ الیکشن میں اس نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی اکثر سیٹوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اب آئندہ الیکشن میں اگر پیپلز پارٹی کو سندھ کی اپنی سیٹیں بچانی ہیں تو پھر اسے عوامی مسائل کے حل پر بھرپور توجہ مرکوز کرنی چاہیے ورنہ حالات کے بدلتے دیر نہیں لگتی۔
میڈیا نے بھی اس کا مثبت اثر لیا اور اسے قومی یکجہتی جیسے اہم موضوع پرکراچی یونیورسٹی کی جانب سے منعقد کیا جانے والا یہ سیمینار انتہائی مستحسن اقدام تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں قومی یکجہتی قصہ پارینہ بن چکی ہے ہماری پوری قوم کئی اکائیوں میں بٹ چکی ہے۔ اس کے ذمے دار سراسر ہمارے بعض سیاستدان ہیں جنھوں نے اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے قوم کو فرقوں، زبانوں اور صوبوں کے چکر میں ڈال دیا ہے۔
بدقسمتی سے ملک میں پانچ قومیتوں کی بات کی جاتی ہے جب کہ تمام پاکستانی ایک قوم ہیں۔ پانچ قومیتوں والی بات سراسر ملک اور قوم کے ساتھ ظلم ہے۔ اس ملک کی تمام پریشانیوں اور مشکلوں کا منبع بھی یہی منفی رجحان ہے۔ حب الوطنی کا فقدان بھی اسی منفی رویے کا نتیجہ ہے۔ وہ قوم جس میں یکجہتی اور جذبہ حب الوطنی نہ ہو اسے کیونکر ایک قوم کہا جاسکتا ہے، بقول ایک انگریز شاعرالیگزینڈر پوپ اس قوم کو مردہ سمجھنا چاہیے جس میں جذبۂ حب الوطنی نہ ہو۔
ہمارے دشمن ہمارے اندر پھیلے ہوئے تفرقے سے ہی فائدہ اٹھا کر ہمیں تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو غلط راستے پر ڈال رہے ہیں اور انھیں اپنے مذموم عزائم کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ دراصل ملک میں پھیلی ہوئی دہشتگردی میں ایسے ہی نوجوان ملوث ہیں چنانچہ ضرورت اس امرکی ہے کہ نوجوانوں کو قومی یکجہتی کا درس ااسکول کی سطح سے دیا جائے۔ نصابی کتابوں کو حب الوطنی، قومی یکجہتی اوراخلاقیات کے مضامین سے مزین کیا جائے۔
جامعہ کراچی کی طرح ملک کی دوسری جامعات کو بھی اسی قسم کے سیمینار منعقد کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو تمام ااسکولوں، کالجوں اور جامعات کو سال میں کئی مرتبہ ایسے سیمینار منعقد کرنے کا پابند بنانا چاہیے۔ اس سے یقینا نہایت حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوں گے اور ملک سے دہشتگردی کے خاتمے میں بہت مدد ملے گی۔ جہاں تک فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کا تعلق ہے دونوں ایک عرصے سے ایک دوسرے پر تنقید کے گولے برسا رہے ہیں اور ایک دوسرے کو اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار کا طعنہ دے رہے ہیں جب کہ دونوں ہی اس الزام کو بے بنیاد قرار دے رہے ہیں۔
فاروق ستار کا حب الوطنی کے حوالے سے کہنا ہے کہ 22 اگست کے بعد انھوں نے پاکستان مخالف لوگوں سے اپنا رشتہ توڑ لیا وہ سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں مگر پاکستان کے خلاف کسی سازش کو برداشت نہیں کرسکتے۔ پاکستان ہمارے بزرگوں کی میراث ہے۔ انھوں نے بڑی قربانیوں کے بعد اس وطن کو حاصل کیا تھا ہم ان کی میراث کو کیسے برباد ہوتا دیکھ سکتے ہیں؟ ہم تو اس پاک سرزمین کے ایک ایک ذرے کو آنکھوں سے لگا کر چومتے ہیں۔ یہ ہے تو ہم ہیں اور یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
دراصل اس وقت ملک اور بالخصوص کراچی کے دگرگوں حالات کے پیش نظر ایم کیو ایم کے بکھرے ہوئے تمام دھڑوں کو آپس میں قریبی تعلقات قائم رکھنے کی سخت ضرورت ہے۔ کراچی میں ابھی مکمل طور پر امن قائم نہیں ہوسکا ہے، چنانچہ امن کے قیام کے لیے تمام ہی پارٹیوں کو اپنی ذمے داریاں پوری کرنا ہوں گی۔ آپس کے تفرقوں سے شہر میں قیام امن کی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
ماضی میں بھی ایم کیو ایم اور حکومت کے درمیان جاری طویل چپقلش سے شہر کی فضا خراب رہی تھی اور اس تناؤ سے ملک دشمن قوتوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا۔ خاص طور پر لشکر جھنگوی اور طالبان نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہرکو طویل عرصے تک لہولہان کیے رکھا تھا۔ ایم کیو ایم نے ضرب عضب آپریشن کی مکمل حمایت کرکے اس شہر کو اجڑنے سے بچا لیا تھا۔
اب نئے حالات میں بھی ایم کیو ایم کے تمام دھڑے امن کی بحالی کے سلسلے میں حکومتی ہر اقدام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ تاہم ایم کیو ایم کے بکھرنے کے بعد اب سندھ میں زبردست سیاسی خلا پیدا ہوگیا ہے۔ وہ پارٹیاں جنھیں کراچی اورحیدر آباد میں برسوں سے کوئی سیٹ نہیں ملی تھی وہ اب آئندہ الیکشن میں کامیابی کی امیدیں باندھنے لگی ہیں اور کچھ نہ کچھ سیٹوں کے حاصل کرنے کے خواب دیکھنے لگی ہیں۔
بہرحال خواب دیکھنے پرکوئی پابندی نہیں ہے خواب دیکھنا بجا طور پر ہر ایک کا حق ہے البتہ آئندہ الیکشن کے بارے میں منظور وسان کیا خواب دیکھ رہے ہیں اس کا انھوں نے ابھی تک اظہار نہیں کیا ہے۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے نئے حالات میں وہ آئندہ الیکشن میں کراچی اور حیدرآباد میں بڑی کامیابی کی امیدیں لگا رہی ہے مگر تجزیہ کاروں کے مطابق شاید ایسا نہ ہو سکے اس لیے اس نے دونوں ہی شہروں کو بے یار و مددگار چھوڑ رکھا ہے۔ یہاں مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں مگر پیپلز پارٹی کی حکومت کی اس جانب کوئی توجہ نہیں ہے۔
سندھ حکومت کی یہ دلیل مضحکہ خیز ہے کہ شہری مسائل کو حل کرنا شہری حکومت کا کام ہے جب شہری حکومت کے اختیارات میں کٹوتی کرکے اسے بے اختیار کردیا جائے تو پھر شہری مسائل کیسے حل ہوں گے؟ بہرحال شہری مسائل کے حل نہ ہونے سے ایم کیو ایم کی نہیں بلکہ صوبائی حکومت کی اپنی پوزیشن خراب ہو رہی ہے اور جس سے آئندہ انتخابات ضرور متاثر ہوں گے۔
شہری مسائل کے حل کے سلسلے میں صوبائی حکومت صرف کراچی میں ہی نہیں بلکہ صوبے کے دوسرے شہروں میں بھی لاپرواہی کا ثبوت دے رہی ہے۔ لاڑکانہ شہر جو شہید ذوالفقار علی بھٹو کا آبائی شہر ہے شہری مسائل کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ عدالت بھی لاڑکانہ کے مسائل کے سلسلے میں حکومت سندھ کو متنبہ کرچکی ہے۔
پیپلز پارٹی اپنی ان کوتاہیوں سے جہاں عوامی پریشانیوں میں اضافہ کر رہی ہے وہاں پیپلزپارٹی کے بانی اور عوام کے محبوب شہید رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی روح کو بھی تکلیف پہنچا رہی ہے۔ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ وہ جلدازجلد کراچی کو گندگی سے پاک کردیں گے اب انھیں عہدہ سنبھالے کئی مہینے گزر چکے ہیں مگر حالات جوں کے توں ہیں۔
ادھر میئرکراچی وسیم اختر شہرکے مسائل کو حل کرنے کے لیے پرعزم تو ہیں مگر وہ خود کو بے اختیار کہہ کر سارے مسائل کا ذمے دار حکومت کو قرار دے رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ عوام کہاں جائیں اور کس کے آگے فریاد کریں۔ پیپلز پارٹی کا یہ المیہ ہے کہ وہ جب بھی اقتدار میں آتی ہے عوامی مسائل پر اس کی توجہ کم ہی رہتی ہے۔
زرداری دور میں پورے پانچ سال ملک میں مفاہمتی سیاست جاری رہی جس سے سیاستدانوں نے تو ضرور اپنا الو سیدھا کیا مگر عوام مسائل کی چکی میں بدستور پستے رہے۔ پیپلز پارٹی کی اس عوامی بے اعتنائی کی وجہ سے ہی تحریک انصاف نے عوام میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ گزشتہ الیکشن میں اس نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی اکثر سیٹوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اب آئندہ الیکشن میں اگر پیپلز پارٹی کو سندھ کی اپنی سیٹیں بچانی ہیں تو پھر اسے عوامی مسائل کے حل پر بھرپور توجہ مرکوز کرنی چاہیے ورنہ حالات کے بدلتے دیر نہیں لگتی۔