سرد موسم میں مہمان داری
گھر آیا مہمان اپنے میزبان کے خلوص سے اتنا خوش ہوتا ہے کہ دیگر تمام چیزیں کچھ ثانوی سی ہو جاتی ہیں۔
مہمان داری اور دعوتیں مشرقی روایات کا خاصہ ہیں اور ہماری مذہبی تعلیمات بھی مہمان کی بھرپور تواضع کا درس دیتی ہیں۔
اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے ہاں دعوتوں میں بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے، گھر کی آرایش و زیبایش سے لے کر کھانے اور دسترخوان تک، سب پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
یوں تو ہمارے یہاں اکثر موسم گرم رہتا ہے، اس لیے اکثر تقاریب کا انعقاد شام ڈھلے یا رات میں کیا جاتا ہے، تاکہ سخت موسم میں باہر نکلنے سے بچا جاسکے، البتہ سردیوں میں موسم کو مد نظر رکھتے ہوئے کوشش کی جاتی ہے کہ دعوت دن کے اوقات میں رکھی جائے، یا اگر اس کا اہتمام رات کے اوقات میں کرنا پڑے تو پھر ہیٹر یا آتش دان بھی موجود ہو۔
دعوت کسی بھی خوشی کے موقع یا تہوار کی ہو یا فقط ملنے جلنے کا ایک بہانہ۔ زندگی کے یہ لمحات دراصل ایسے انمول موتیوں کی مانند ہوتے ہیں جنہیں جب بھی موقع ملے سمیٹ لینا چاہیے۔ اگر آپ کی کسی مصروفیت کی بنا پر اپنے کسی رشتہ دار سے بہت دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی تو بغیر کسی خاص موقع کے بھی دعوت کا اہتمام اس ملن کا ایک اچھا ذریعہ بن سکتا ہے، یا یوں کہیں کہ مل بیٹھ کر کسی بھی عام وقت کو خاص اور یاد گار بنایا جا سکتا ہے۔
مہمانوں کو مدعو کرنے کے لیے عموماً تعطیل کے دن کا چنائو کیا جاتا ہے تاکہ لوگ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات سے فارغ ہوں اور بہ آسانی کسی بھی پہر دعوت میں شریک ہو سکیں، تاہم چھٹی کے روز عموماً لوگ دیر سے بھی سو کر اٹھتے ہیں، اور پھر بعض گھروں میں تعطیل کے روز ناشتا اور دوپہر کا کھانا ایک ساتھ کھانے کا رواج بھی ہوتا ہے، جس کو سنڈے برنچ کا نام دیا جاتا ہے۔ گھروں میں اس کا مقصد خاتون خانہ کی سہولت ہوتی ہے کہ اگر دوپہر کے وقت ناشتا کیا گیا تو پھر دوپہر اور رات کے کھانے کا معمول بھی متاثر ہوگا، البتہ کسی دعوت کے لیے بھی یہ ایک نہایت مناسب خیال سمجھا جاتا ہے۔
یوں بھی اگر وسیع آنگن میسر ہو تو سردی کے موسم کی ہلکی ہلکی دھوپ میں بیٹھ کر برنچ کرنے کا اپنا لطف ہے۔ اگر موسم زیادہ سرد ہو ، جس کی وجہ سے کھلی جگہ گراں گزرے تو دن کے اوقات میں بھی آپ گھر کے اندر بیٹھنے کا انتظام کیجیے۔ گھر کی کشادگی اجازت دیتی ہے تو میز کرسیوں کا اہتمام کیجیے، نہیں تو فرشی دستر خوان بچھا کر قالین گاؤ تکیے بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ ظہرانے اور شام کی چائے پر موسم کی صورت حال کے مطابق باہر کھلی جگہ بھی انتظام کیا جا سکتا ہے تاہم سردی کی راتوں میں عموماً موسم زیادہ سخت ہو جاتا ہے، اس لیے مکمل انتظام گھر کے اندر کرنا ضروری ہے۔
سردیوں میں دعوت کے موقع پر گھر کی آرایش میں گہرے رنگوں کا استعمال بہترین رہتا ہے۔ چادروں، پردوں اور غلاف وغیرہ سب میں گہرے رنگوں کا استعمال کریں۔ ان رنگوں کا انتخاب اور اس کا امتزاج آپ کے اچھے ذوق کا پتا دیتا ہے۔ دعوت کا اہتمام کرتے وقت پھولوں کی آرایش کو خصوصی اہمیت دیجیے، پھولوں کی خوب صورتی اور خوش بو مہمانوں پر آپ کا ایک بہترین تاثر چھوڑتے ہیں۔ اس کے لیے آپ اپنے لان یا گملوں میں لگے پھولوں کا خوب صورت سا گل دستہ بنا سکتی ہیں۔ گھر میں پھول دست یاب نہ ہوں تو بازار سے بھی تازہ پھول منگوائے جا سکتے ہیں۔
سردیوں میں آپ ڈرائنگ روم کی میز یا ٹی وی لاؤنج میں پھلوں اور ایک خشک میوہ جات کی ٹوکری رکھ سکتی ہیں جو نہ صرف خوش نمائی کا باعث ہوگی بلکہ بغیر اطلاع مہمانوں کی آمد کے موقع پر خاطر تواضع کا ذریعہ بھی ہوگا۔ جس کے ساتھ آپ کافی، چائے، قہوہ یا سبز چائے یا زعفرانی دودھ وغیرہ پیش کر سکتی ہیں۔
موسم سرما میں دعوتوںکے پکوانوںمیں بھی اسی مناسبت سے خاصی تبدیلی آ جاتی ہے۔ آپ اپنے کھانوں کو مہمانوں کی پسند اور غذائی عادات کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیجیے۔ مثلاً مشروبات میں کولڈڈرنک کی جگہ کشمیری چائے، کافی وغیرہ بہترین متبادل ہیں۔ گرما گرم سوپ ٹھنڈی یخ بستہ ہواؤں کے موسم میں بے حد پسند کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیسی کھانوں میں نہاری، پائے، مچھلی وغیرہ سردیوں کی سوغات سمجھے جاتے ہیں۔
کھانے کی میز کے اطراف میں سجاوٹ کے لیے بنائی گئی چھوٹی چھوٹی آرایشی چیزیں آپ خود بھی بنا سکتی ہیں۔ جیسے پستے کے چھلکوں یا دیگر گھریلو چیزوں کی مدد سے بنائی گئی مختلف اشیا وغیرہ۔ اس طرح کی چیزوں کو کار آمد بنانے سے نہ صرف خوب صورتی میں اضافہ ہوگا بلکہ آنے والا آپ کے سلیقے کا قائل بھی ہو جائے گا۔ کھانے کی میز پر چمچ وغیرہ رکھنے یا پھول سجانے کے لیے ایسی چیزیں خاصی کار آمد رہتی ہیں۔
اس کے ساتھ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ کسی تصنع بناوٹ یا جھجک سے بالاتر مسکراہٹ، خلوص اور گرم جوشی کے ساتھ اپنے مہمانوں کا استقبال کیجیے، کیوں کہ آپ کا سارا اہتمام خلوص کی کمی کے باعث قطعی رائیگاں اور بے کار سا ہو جاتا ہے۔ خوش اخلاقی سے کی گئی گفت گو ہماری سادہ سی دعوت کو بھی چار چاند لگا دیتی ہے اور مہمان آپ کے خلوص سے اتنا خوش ہوتا ہے کہ دیگر تمام چیزیں کچھ ثانوی سی ہو جاتی ہیں، ورنہ اگر بھر پوراہتمام کے باوجود خلوص میں کوئی کمی چھوڑ دی جائے تو گویا ساری محنت اکارت جاتی ہے۔
اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے ہاں دعوتوں میں بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے، گھر کی آرایش و زیبایش سے لے کر کھانے اور دسترخوان تک، سب پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
یوں تو ہمارے یہاں اکثر موسم گرم رہتا ہے، اس لیے اکثر تقاریب کا انعقاد شام ڈھلے یا رات میں کیا جاتا ہے، تاکہ سخت موسم میں باہر نکلنے سے بچا جاسکے، البتہ سردیوں میں موسم کو مد نظر رکھتے ہوئے کوشش کی جاتی ہے کہ دعوت دن کے اوقات میں رکھی جائے، یا اگر اس کا اہتمام رات کے اوقات میں کرنا پڑے تو پھر ہیٹر یا آتش دان بھی موجود ہو۔
دعوت کسی بھی خوشی کے موقع یا تہوار کی ہو یا فقط ملنے جلنے کا ایک بہانہ۔ زندگی کے یہ لمحات دراصل ایسے انمول موتیوں کی مانند ہوتے ہیں جنہیں جب بھی موقع ملے سمیٹ لینا چاہیے۔ اگر آپ کی کسی مصروفیت کی بنا پر اپنے کسی رشتہ دار سے بہت دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی تو بغیر کسی خاص موقع کے بھی دعوت کا اہتمام اس ملن کا ایک اچھا ذریعہ بن سکتا ہے، یا یوں کہیں کہ مل بیٹھ کر کسی بھی عام وقت کو خاص اور یاد گار بنایا جا سکتا ہے۔
مہمانوں کو مدعو کرنے کے لیے عموماً تعطیل کے دن کا چنائو کیا جاتا ہے تاکہ لوگ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات سے فارغ ہوں اور بہ آسانی کسی بھی پہر دعوت میں شریک ہو سکیں، تاہم چھٹی کے روز عموماً لوگ دیر سے بھی سو کر اٹھتے ہیں، اور پھر بعض گھروں میں تعطیل کے روز ناشتا اور دوپہر کا کھانا ایک ساتھ کھانے کا رواج بھی ہوتا ہے، جس کو سنڈے برنچ کا نام دیا جاتا ہے۔ گھروں میں اس کا مقصد خاتون خانہ کی سہولت ہوتی ہے کہ اگر دوپہر کے وقت ناشتا کیا گیا تو پھر دوپہر اور رات کے کھانے کا معمول بھی متاثر ہوگا، البتہ کسی دعوت کے لیے بھی یہ ایک نہایت مناسب خیال سمجھا جاتا ہے۔
یوں بھی اگر وسیع آنگن میسر ہو تو سردی کے موسم کی ہلکی ہلکی دھوپ میں بیٹھ کر برنچ کرنے کا اپنا لطف ہے۔ اگر موسم زیادہ سرد ہو ، جس کی وجہ سے کھلی جگہ گراں گزرے تو دن کے اوقات میں بھی آپ گھر کے اندر بیٹھنے کا انتظام کیجیے۔ گھر کی کشادگی اجازت دیتی ہے تو میز کرسیوں کا اہتمام کیجیے، نہیں تو فرشی دستر خوان بچھا کر قالین گاؤ تکیے بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ ظہرانے اور شام کی چائے پر موسم کی صورت حال کے مطابق باہر کھلی جگہ بھی انتظام کیا جا سکتا ہے تاہم سردی کی راتوں میں عموماً موسم زیادہ سخت ہو جاتا ہے، اس لیے مکمل انتظام گھر کے اندر کرنا ضروری ہے۔
سردیوں میں دعوت کے موقع پر گھر کی آرایش میں گہرے رنگوں کا استعمال بہترین رہتا ہے۔ چادروں، پردوں اور غلاف وغیرہ سب میں گہرے رنگوں کا استعمال کریں۔ ان رنگوں کا انتخاب اور اس کا امتزاج آپ کے اچھے ذوق کا پتا دیتا ہے۔ دعوت کا اہتمام کرتے وقت پھولوں کی آرایش کو خصوصی اہمیت دیجیے، پھولوں کی خوب صورتی اور خوش بو مہمانوں پر آپ کا ایک بہترین تاثر چھوڑتے ہیں۔ اس کے لیے آپ اپنے لان یا گملوں میں لگے پھولوں کا خوب صورت سا گل دستہ بنا سکتی ہیں۔ گھر میں پھول دست یاب نہ ہوں تو بازار سے بھی تازہ پھول منگوائے جا سکتے ہیں۔
سردیوں میں آپ ڈرائنگ روم کی میز یا ٹی وی لاؤنج میں پھلوں اور ایک خشک میوہ جات کی ٹوکری رکھ سکتی ہیں جو نہ صرف خوش نمائی کا باعث ہوگی بلکہ بغیر اطلاع مہمانوں کی آمد کے موقع پر خاطر تواضع کا ذریعہ بھی ہوگا۔ جس کے ساتھ آپ کافی، چائے، قہوہ یا سبز چائے یا زعفرانی دودھ وغیرہ پیش کر سکتی ہیں۔
موسم سرما میں دعوتوںکے پکوانوںمیں بھی اسی مناسبت سے خاصی تبدیلی آ جاتی ہے۔ آپ اپنے کھانوں کو مہمانوں کی پسند اور غذائی عادات کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیجیے۔ مثلاً مشروبات میں کولڈڈرنک کی جگہ کشمیری چائے، کافی وغیرہ بہترین متبادل ہیں۔ گرما گرم سوپ ٹھنڈی یخ بستہ ہواؤں کے موسم میں بے حد پسند کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیسی کھانوں میں نہاری، پائے، مچھلی وغیرہ سردیوں کی سوغات سمجھے جاتے ہیں۔
کھانے کی میز کے اطراف میں سجاوٹ کے لیے بنائی گئی چھوٹی چھوٹی آرایشی چیزیں آپ خود بھی بنا سکتی ہیں۔ جیسے پستے کے چھلکوں یا دیگر گھریلو چیزوں کی مدد سے بنائی گئی مختلف اشیا وغیرہ۔ اس طرح کی چیزوں کو کار آمد بنانے سے نہ صرف خوب صورتی میں اضافہ ہوگا بلکہ آنے والا آپ کے سلیقے کا قائل بھی ہو جائے گا۔ کھانے کی میز پر چمچ وغیرہ رکھنے یا پھول سجانے کے لیے ایسی چیزیں خاصی کار آمد رہتی ہیں۔
اس کے ساتھ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ کسی تصنع بناوٹ یا جھجک سے بالاتر مسکراہٹ، خلوص اور گرم جوشی کے ساتھ اپنے مہمانوں کا استقبال کیجیے، کیوں کہ آپ کا سارا اہتمام خلوص کی کمی کے باعث قطعی رائیگاں اور بے کار سا ہو جاتا ہے۔ خوش اخلاقی سے کی گئی گفت گو ہماری سادہ سی دعوت کو بھی چار چاند لگا دیتی ہے اور مہمان آپ کے خلوص سے اتنا خوش ہوتا ہے کہ دیگر تمام چیزیں کچھ ثانوی سی ہو جاتی ہیں، ورنہ اگر بھر پوراہتمام کے باوجود خلوص میں کوئی کمی چھوڑ دی جائے تو گویا ساری محنت اکارت جاتی ہے۔