عوامی احکامات

عوام اس ملک کے افسروں اور عوامی نمایندوں کی صلاحیت و مہارت سے محروم ہوتے جارہے ہیں

عوام اس ملک کے افسروں اور عوامی نمایندوں کی صلاحیت و مہارت سے محروم ہوتے جارہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید ہر شخص نے اپنے قبلے کا تعین خود کرلیا ہے۔ جب انسان میں یہ سوچ پیدا ہوجائے تو پھر صرف احکامات سے کام چلایا جاتا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سویلین افسران اور ہمارے منتخب کردہ نمایندے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور وہ کچھ نہیں کرنا چاہتے۔

قوم اس عمل کی وجہ سے شدید اضطراب میں ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ سیاسی ریاکاریوں نے عوام کو بدحال کردیا ہے۔ صبح لوگ عزم و حوصلے سے اپنے کاموں پر نکلتے ہیں مگر شام کو رنج و الم کے ساتھ واپس گھر لوٹتے ہیں۔ احکامات کی بارش جب ہوتی ہے تو یہ قوم خوشی خوشی سکون کے پانی سے نہانے کی کوشش کرتی ہے اور پھر تھوڑے دن بعد اعصاب جواب دے جاتے ہیں۔ کوئی ایک سیاسی شخص بتادیں، جس کو خراج تحسین پیش کیا جاسکے۔

1990ء سے احکامات دیے جاتے رہے، مگر اب 2009ء سے لے کر 2017ء تک تو احکامات کی موسلادھار بارش ہورہی ہے اور قوم وعدوں کے تحت بھیگ رہی ہے۔ سیاست دان زندہ رہنے کے لیے بیانات دیتے رہتے ہیں، اس لیے کہ انھوں نے اپنے حلقوں میں نہ جانا ہے اور نہ کام کرانا ہے۔ پورا ملک احکامات کے تلے چل رہا ہے۔ گزشتہ دنوں اس لاوارث شہر میں کچھ احکامات جاری ہوئے۔ پہلا بیان تو یہ دیا گیا کہ صبح سے لے کر رات تک ہیوی ٹریفک پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

یہ اعلان ایک یادگار اعلان تھا، دو دن اس پر عمل ہوا۔ ان دو دن کے لیے ہم اعلیٰ حکام کو مبارکباد دیںگے، تیسرا دن پھر عوام کا شروع ہوگیا، جگہ جگہ ترقیاتی کاموں کے نام کے بورڈ آویزاں ہیں جنھیں دیکھ کر اب کوفت ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کام نہ ہونے کے برابر ہے اور پھر ایسے حالات میں بڑے بڑے دیوہیکل ٹرالر صبح سے ہی روٹ پر نمودار ہوجاتے ہیں، جگہ نہ ملنے پر خوفناک قسم کے ہارن بجاتے ہیں، جس کو سننے کے بعد خودکشی حلال محسوس ہوتی ہے۔

دکھ تو اس بات کا ہے کہ ان بڑے ٹرالر سے ہمارے معزز افسران کے علاقے ڈیفنس اور کلفٹن محروم ہیں۔ کاش! ان کے کانوں کی بھی صفائی ہوتی، مگر اس ملک میں یہ ناممکن ہے، کیونکہ ہمارے ہاں پروٹوکول زندگی کی ضمانت کے طور پر کام کررہا ہے۔

ایک سیاسی جماعت پاناما لیکس کے مشن پر کام کررہی ہے۔ ان کے ووٹر کا کیا ہوگا جنھوں نے انھیں اسمبلی میں بھیجا ہے۔ دوسری سیاسی جماعت پاناما لیکس اور ایک نئے کام کا آغاز کرتے ہوئے پٹرول کی قیمتوں کے پیچھے بڑی ہوئی ہے۔ حالانکہ ان کے دور اقتدار میں پٹرول 110 روپے لیٹر فروخت ہوتا رہا، اب انھیں 72 روپے لیٹر برا لگ رہا ہے۔ تیسری سیاسی پارٹی کے رہنما کرپشن کے پیچھے گزشتہ سال مارچ سے کئی مارچ کرچکے ہیں، اپنے جیت جانے کے حوالے سے اسلامی نظام بھی نافذ کرنا چاہتے ہیں، خیبر پختونخوا میں حکومت کررہے ہیں اور عمران خان کے اتحادی ہیں۔


ایک سیاسی جماعت اختیارات کا مطالبہ کررہی ہے اور جب اختیارات تھے تو اس کا موازنہ کس طرح کیا جائے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ملک میں کیا ہورہا ہے۔ ہر سیاسی جماعت نے اپنے بینرز آویزاں کردیے ہیں اور الیکشن 2018ء سے قبل ہر سیاسی جماعت اپنی ذمے داریوں سے بری الذمہ ہونا چاہتی ہے۔ ہاں اپنے مفادات کے لیے یہ اسمبلیوں میں ایک دوسرے کا کچا چٹھا کھولتے ہیں۔ ویسے یہ سب ایک ہیں، کیونکہ جب ان کے مفادات کی بات ہو تو آئین کی نئی شق پر بغل گیر ہوکر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے دستخط کرتے ہیں۔

کراچی اور حیدرآباد کی ابتر صورت حال ہے، بارش نے شہر کو حلیہ بگاڑ دیا ہے، مگر احکامات جاری ہیں۔ کمشنر کہتے ہیں دودھ مہنگا فروخت کیا گیا تو سخت اقدامات کیے جائیں۔ دودھ بڑے آرام سے 90 روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ مرغی کی فروخت کے لیے سرکار اخبارات کو جو ریٹ بھجواتی ہے کبھی بھی اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ اور اس لحاظ سے سبزی کے ریٹ بھی آسمان سے باتیں کرتے ہیں۔

تجاوزات کا یہ عالم ہے کہ دکان کا سائز5X5 ہے اور روڈ پر 20 فٹ جگہ گھیرے ہوئے ہیں۔ یہ میں گول مارکیٹ ناظم آباد کا حال بتارہا ہوں۔ سرکار کہتی ہے کہ مہنگائی پر کسی حد تک قابو پالیا گیا ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ احکامات کے تحت کام چلایا جارہا ہے، کیونکہ سیاسی جماعتوں کے حضرات تو بے چارے پاناما لیکس اور کرپشن کے خلاف نکلے ہوئے ہیں، آخر یہ بھی تو قوم کی خدمت ہے۔

پولیس افسران کہتے ہیں اسٹریٹ کرائم پر قابو پالیا گیا ہے، جب کہ روزانہ کی بنیاد پر 2 یا 3 افراد جان کی بازی ہارتے ہیں، زخمی افراد کی کوئی گنتی نہیں۔ مخالف سمت سے آنے والے ٹریفک کے لیے روزانہ کی بنیاد پر پولیس کے ترجمان بیایانات دیتے رہتے ہیں۔

یہ احکامات نہیں بیانات ہیں، احکامات یہ ہیں کہ بغیر لائسنس اور نمبر پلیٹ کے جو گاڑی نظر آئی اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔ کراچی میں موٹر سائیکلوں پر آپ کو نمبر پلیٹ نہیں ملے گی، رکشہ رات کے اوقات میں یعنی 8 بجے کے بعد 14 سال کے بچے چلارہے ہوتے ہیں، نمبر پلیٹ کی باری تو بعد میں آئے گی۔

جب سیاست دان اسمبلیوں کا رخ کرکے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہوں تو پھر بیوروکریسی خاموشی اختیار کرلیتی ہے، وہ صرف مراعات لیتی ہے، اپنی ڈیوٹی کے 8 گھنٹے مکمل کرتی ہے اور گھر کی راہ لیتی ہے۔ ٹریفک کا نظام، تجاوزات کا نظام، قیمتوں کا نظام، قانونی نظام، غرض ہر چیز تباہی کے کنارے لگ چکی ہے۔ ٹریفک کا نظام تو مکمل طور پر تباہ ہوچکا اور اب تو پیشہ ورانہ صلاحیتیں رکھنے والے اعلیٰ افسران ماضی کے اس بین الاقوامی شہر کو سیاسی خطوط پر صرف احکامات کے تحت چلارہے ہیں۔ رب ذوالجلال عوام پر رحم کرے۔
Load Next Story