’’جناب یہ ہے کشمیر کا سچ‘‘
جناب وزیراعظم!ابھی چاردن کے بعد جموں و کشمیر سے لوٹاہوں۔ میں وادی کشمیرمیں جاکرسخت مضطرب ہوگیاہوں
MADRID:
سنتوش بھارتیہ بھارت کے معروف صحافی، ہندی اخبار 'چھوٹی دنیا'کے ایڈیٹر اور جانے مانے دانشور ہیں۔ 1989ء سے 1991ء تک بھارتی پارلیمنٹ کے منتخب رکن رہ چکے ہیں۔سابق آرمی چیف جنرل وی پی سنگھ کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوںسنتوش بھارتیہ نے تین صحافیوں کے ہمراہ مقبوضہ کشمیرکادورہ کیا۔ واپسی پرانھوں نے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کوایک خط لکھااوراس کوکھلے خط کے طورپراپنے اخبار میں بھی چھاپا۔ اس تہلکہ خیزخط کے مندرجات ملاحظہ کیجیے ۔
''جناب وزیراعظم!ابھی چاردن کے بعد جموں و کشمیر سے لوٹاہوں۔ میں وادی کشمیرمیں جاکرسخت مضطرب ہوگیاہوں۔کشمیرکی زمین ہمارے پاس ضرورہے،کیونکہ ہماری فوج وہاں پر ہے، مگر کشمیرکے لوگ ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ 6سال کے بچے سے لے کر80سال کے بوڑھے تک،سب آزادی، آزادی پکاررہے ہیں۔
اگرچہ ہرایک کے ہاتھ میں پتھرنہیں، مگراس کے دل میں پتھرضرورہے۔ وادی میںاس بارقربانی کی عید بھی نہیں منائی گئی۔کسی نے نئے کپڑے پہنے، نہ قربانی کی۔ کیا یہ ہندوستان کے ان تمام لوگوں کے منہ پرطمانچہ نہیں، جو جمہوریت کی قسمیں کھاتے ہیں۔آخرکچھ توہواہے کہ کشمیرکے لوگوں نے تہوارمنانے بھی بندکردیے ہیں۔
آج شام کے وقت کشمیرکے لوگ ایک بلب روشن کرکے گزربسرکرتے ہیں۔ کیوں؟وہ کہتے ہیں، ہمارے یہاں اتنا دکھ ہے، روزانہ اتنے لوگ قتل ہوتے ہیں، دس ہزارسے زائدبچے، عورتیں اورجوان توپیلیٹ گنوں سے ہی زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے سیکڑوں ہمیشہ کے لیے بینائی سے محروم ہوگئے ہیں۔ایسے سوگوارماحول میں ہم گھروںمیں چاربلب روشن کرکے خوشی کااظہارکیسے کرسکتے ہیں۔ میں نے یہ بھی دیکھاکہ کس طرح نوجوان صبح کے وقت سڑکوں پر پتھر لگا دیتے ہیں اورشام کو ہٹادیتے ہیں۔
دن میں وہ یہ پتھرچلاتے ہیں اورشام کواپنے گھروں میں اس خدشے کولے کرسوتے ہیں کہ معلوم نہیں،رات کے کس پہرسیکیورٹی فورسزکے کارندے انھیں اٹھاکرلے جائیں اور پھرکبھی گھرواپس آبھی سکیں یا نہیں۔ کشمیر میں ایسے بدتر حالات تو انگریزروں کے دورمیں بھی نہ تھے۔ آج کشمیر کا ہررہنے والا کسی انجانے خوف کاشکارہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کشمیرکی موجودہ تحریک بالکل ویسی عوامی تحریک بن گئی ہے، جیسی 1942ء کی تحریک تھی یا پھر جے پی تحریک تھی، جس میں لیڈروںکاکردارکم اور جنتا کا کردارزیادہ تھا۔
جناب وزیراعظم! کشمیرمیں آج ہردرخت پر، ہرموبائل ٹاورکے اوپر، ہراونچی جگہ پرپاکستانی جھنڈا لہرا رہا ہے۔ میں نے اس بارے میں پوچھاتوانھوں نے کہا،ہم نے پاکستان نہیںجانا، مگرچونکہ آپ پاکستان سے چڑتے ہیں، اس لیے ہم پاکستان کاجھنڈالگاتے ہیں۔ جب بھی ہندوستان کی کرکٹ ٹیم ہارتی ہے، کشمیرکے لوگ ہمیں چڑانے کے لیے جشن مناتے ہیں۔ بلکہ ہم نیوزی لینڈ،بنگلہ دیش یاسری لنکاسے بھی ہار جائیں تووہ جشن مناتے ہیں۔ اس طرح دراصل وہ ہماری کسی بھی خوشی کومستردکرکے اپنی مخالفت کااظہارکرتے ہیں کیا یہ نفسیات دہلی سرکارکوسمجھنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ کشمیرکے لوگ اگرہمارے ساتھ نہیں ہوں گے توکشمیرکی زمین لے کرہم کیاکریں گے۔
جناب وزیراعظم! میرے دل میں یہ سوال بھی ہے کہ کیاپاکستان اتنابڑا ہے کہ وہ پتھرچلانے والے بچوں کو روزانہ پانچ سوروپے دے سکتاہے۔کمجھے یہ مفروضہ مذاق لگتاہے۔ کشمیرکے لوگ بھی اس کومذاق سمجھتے ہیں۔ میرے لیے یہ بات بھی حیران کن ہے کہ آج کشمیرمیں''حریت'' کے لوگوں کی اتنی مضبوط گرفت ہے کہ اگرحریت والے کہتے ہیں کہ پانچ بجے یاچھ بجے شام تک بازاربندرہیں گے تواس دوران میں بازاربندرہتے ہیں۔اب تووادی میں بینک بھی حریت والوں کی ہدایت پرکھلنے اوربندہونے لگے ہیں۔
وادی سیکیورٹی فورسزکے اہل کارچھ بجے کے بعدسڑکوں پریاگلیوںمیں گھوم نہیں سکتے ہیں۔میں وادی کے اسپتالوںمیں بھی گیاہوں۔ مجھے بتایا گیاتھاکہ پانچ ہزار سے زیادہ زخمی فوجی ہیں۔ مگران کی تعداد بہت کم تھی اور جوتھے، وہ بھی پتھروں سے زخمی تھے۔ اس لیے کشمیر میں کوئی بھی ہزاروں فوجیوں کے زخمی ہونے کے پر چارپریقین نہیں کرتا۔
اگر آپ کا ماننا ہے کہ واقعی ایساہے تو ہم صحافیوں کوان فوجی جوانوں سے ضرورملوائیے، جوہزاروں کی تعدادمیں کسی جگہ زیرعلاج ہیں ۔اس کے برخلاف ہم نے اپنی آنکھوں سے اسپتالوںکے فرش پرایک دوسرے سے بستر شیئر کرتے ہوئے زخمی دیکھے، ہم نے ان معصوم زخمی بچوں کودیکھا ، جن کی آنکھیں چلی گئی ہیں۔ اوراب کبھی واپس نہیں آئیں گی۔''
سنتوش بھارتیہ کایہ خط ان لوگوںکی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے جوکشمیرکی تحریک آزادی کے موجودہ ابھارکووقتی ابال قراردیتے ہیں،اوریہ کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیرکولے کربھارت کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرنے چاہییں۔ بھارت توپہلے ہی دنیا کو یہ باورکرانے کی سعی کررہاہے کہ کشمیرپاکستانی حکومت کا نہیں، پاکستانی فوج اوراس کی حاشیہ برداربعض پاکستانی تنظیموںکامسئلہ ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ کشمیراس وقت اہل کشمیرکے لیے ایک زندان بن چکا ہے۔ سنتوش بھارتیہ کا یہ خط اس کی شہادت ہے۔ شاعرنے کہاتھا،
ہرایک مردِجواں مجرم رسن بہ گلو
ہراک حسینہ ٗ رعنا ، کنیز حلقہ بگوش
سنتوش بھارتیہ بھارت کے معروف صحافی، ہندی اخبار 'چھوٹی دنیا'کے ایڈیٹر اور جانے مانے دانشور ہیں۔ 1989ء سے 1991ء تک بھارتی پارلیمنٹ کے منتخب رکن رہ چکے ہیں۔سابق آرمی چیف جنرل وی پی سنگھ کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوںسنتوش بھارتیہ نے تین صحافیوں کے ہمراہ مقبوضہ کشمیرکادورہ کیا۔ واپسی پرانھوں نے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کوایک خط لکھااوراس کوکھلے خط کے طورپراپنے اخبار میں بھی چھاپا۔ اس تہلکہ خیزخط کے مندرجات ملاحظہ کیجیے ۔
''جناب وزیراعظم!ابھی چاردن کے بعد جموں و کشمیر سے لوٹاہوں۔ میں وادی کشمیرمیں جاکرسخت مضطرب ہوگیاہوں۔کشمیرکی زمین ہمارے پاس ضرورہے،کیونکہ ہماری فوج وہاں پر ہے، مگر کشمیرکے لوگ ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ 6سال کے بچے سے لے کر80سال کے بوڑھے تک،سب آزادی، آزادی پکاررہے ہیں۔
اگرچہ ہرایک کے ہاتھ میں پتھرنہیں، مگراس کے دل میں پتھرضرورہے۔ وادی میںاس بارقربانی کی عید بھی نہیں منائی گئی۔کسی نے نئے کپڑے پہنے، نہ قربانی کی۔ کیا یہ ہندوستان کے ان تمام لوگوں کے منہ پرطمانچہ نہیں، جو جمہوریت کی قسمیں کھاتے ہیں۔آخرکچھ توہواہے کہ کشمیرکے لوگوں نے تہوارمنانے بھی بندکردیے ہیں۔
آج شام کے وقت کشمیرکے لوگ ایک بلب روشن کرکے گزربسرکرتے ہیں۔ کیوں؟وہ کہتے ہیں، ہمارے یہاں اتنا دکھ ہے، روزانہ اتنے لوگ قتل ہوتے ہیں، دس ہزارسے زائدبچے، عورتیں اورجوان توپیلیٹ گنوں سے ہی زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے سیکڑوں ہمیشہ کے لیے بینائی سے محروم ہوگئے ہیں۔ایسے سوگوارماحول میں ہم گھروںمیں چاربلب روشن کرکے خوشی کااظہارکیسے کرسکتے ہیں۔ میں نے یہ بھی دیکھاکہ کس طرح نوجوان صبح کے وقت سڑکوں پر پتھر لگا دیتے ہیں اورشام کو ہٹادیتے ہیں۔
دن میں وہ یہ پتھرچلاتے ہیں اورشام کواپنے گھروں میں اس خدشے کولے کرسوتے ہیں کہ معلوم نہیں،رات کے کس پہرسیکیورٹی فورسزکے کارندے انھیں اٹھاکرلے جائیں اور پھرکبھی گھرواپس آبھی سکیں یا نہیں۔ کشمیر میں ایسے بدتر حالات تو انگریزروں کے دورمیں بھی نہ تھے۔ آج کشمیر کا ہررہنے والا کسی انجانے خوف کاشکارہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کشمیرکی موجودہ تحریک بالکل ویسی عوامی تحریک بن گئی ہے، جیسی 1942ء کی تحریک تھی یا پھر جے پی تحریک تھی، جس میں لیڈروںکاکردارکم اور جنتا کا کردارزیادہ تھا۔
جناب وزیراعظم! کشمیرمیں آج ہردرخت پر، ہرموبائل ٹاورکے اوپر، ہراونچی جگہ پرپاکستانی جھنڈا لہرا رہا ہے۔ میں نے اس بارے میں پوچھاتوانھوں نے کہا،ہم نے پاکستان نہیںجانا، مگرچونکہ آپ پاکستان سے چڑتے ہیں، اس لیے ہم پاکستان کاجھنڈالگاتے ہیں۔ جب بھی ہندوستان کی کرکٹ ٹیم ہارتی ہے، کشمیرکے لوگ ہمیں چڑانے کے لیے جشن مناتے ہیں۔ بلکہ ہم نیوزی لینڈ،بنگلہ دیش یاسری لنکاسے بھی ہار جائیں تووہ جشن مناتے ہیں۔ اس طرح دراصل وہ ہماری کسی بھی خوشی کومستردکرکے اپنی مخالفت کااظہارکرتے ہیں کیا یہ نفسیات دہلی سرکارکوسمجھنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ کشمیرکے لوگ اگرہمارے ساتھ نہیں ہوں گے توکشمیرکی زمین لے کرہم کیاکریں گے۔
جناب وزیراعظم! میرے دل میں یہ سوال بھی ہے کہ کیاپاکستان اتنابڑا ہے کہ وہ پتھرچلانے والے بچوں کو روزانہ پانچ سوروپے دے سکتاہے۔کمجھے یہ مفروضہ مذاق لگتاہے۔ کشمیرکے لوگ بھی اس کومذاق سمجھتے ہیں۔ میرے لیے یہ بات بھی حیران کن ہے کہ آج کشمیرمیں''حریت'' کے لوگوں کی اتنی مضبوط گرفت ہے کہ اگرحریت والے کہتے ہیں کہ پانچ بجے یاچھ بجے شام تک بازاربندرہیں گے تواس دوران میں بازاربندرہتے ہیں۔اب تووادی میں بینک بھی حریت والوں کی ہدایت پرکھلنے اوربندہونے لگے ہیں۔
وادی سیکیورٹی فورسزکے اہل کارچھ بجے کے بعدسڑکوں پریاگلیوںمیں گھوم نہیں سکتے ہیں۔میں وادی کے اسپتالوںمیں بھی گیاہوں۔ مجھے بتایا گیاتھاکہ پانچ ہزار سے زیادہ زخمی فوجی ہیں۔ مگران کی تعداد بہت کم تھی اور جوتھے، وہ بھی پتھروں سے زخمی تھے۔ اس لیے کشمیر میں کوئی بھی ہزاروں فوجیوں کے زخمی ہونے کے پر چارپریقین نہیں کرتا۔
اگر آپ کا ماننا ہے کہ واقعی ایساہے تو ہم صحافیوں کوان فوجی جوانوں سے ضرورملوائیے، جوہزاروں کی تعدادمیں کسی جگہ زیرعلاج ہیں ۔اس کے برخلاف ہم نے اپنی آنکھوں سے اسپتالوںکے فرش پرایک دوسرے سے بستر شیئر کرتے ہوئے زخمی دیکھے، ہم نے ان معصوم زخمی بچوں کودیکھا ، جن کی آنکھیں چلی گئی ہیں۔ اوراب کبھی واپس نہیں آئیں گی۔''
سنتوش بھارتیہ کایہ خط ان لوگوںکی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے جوکشمیرکی تحریک آزادی کے موجودہ ابھارکووقتی ابال قراردیتے ہیں،اوریہ کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیرکولے کربھارت کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرنے چاہییں۔ بھارت توپہلے ہی دنیا کو یہ باورکرانے کی سعی کررہاہے کہ کشمیرپاکستانی حکومت کا نہیں، پاکستانی فوج اوراس کی حاشیہ برداربعض پاکستانی تنظیموںکامسئلہ ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ کشمیراس وقت اہل کشمیرکے لیے ایک زندان بن چکا ہے۔ سنتوش بھارتیہ کا یہ خط اس کی شہادت ہے۔ شاعرنے کہاتھا،
ہرایک مردِجواں مجرم رسن بہ گلو
ہراک حسینہ ٗ رعنا ، کنیز حلقہ بگوش