بات ہے سمجھ کی
پانامہ کے پاکستان کیس میں کتنا وقت لگا اور رزلٹ کیا نکلا
بہت عجیب سا عنوان لگتا ہے مگر ہے، کیوں ہے؟ یہ بات ثابت کرنے کے لیے کچھ وقت لگے گا، ثابت کرنے میں بہت وقت لگ جاتا ہے، پانامہ کے پاکستان کیس میں کتنا وقت لگا اور رزلٹ کیا نکلا۔ اب اس نام کا ایک ''کھیل'' بھی رائج ہونا چاہیے یا پھر اس پر''گاڈ فادر'' کی دوسری قسط ''فادر فادر'' بنانی چاہیے یا چاہیں تو نام ''مدر فادر'' رکھ لیں، کیونکہ کون تھا جس کا ذکر خیر نہیں کیا خود خاندان نے ۔
خاندان ڈس کس ہوا اور خوب ہوا، یہ خاندانی ''پنک پانگ'' بھی پاکستان کی سیاست میں ایک ریکارڈ ہوگئی ہے اور اگر بدعنوانی ہے تو وہ زوردار چھکا ہے جس میں بال گراؤنڈ کے باہر چلی جاتی ہے اور اسے ڈھونڈنے میں وقت ضایع کرنے کے بجائے، وزراء ٹائپ کی پرانی گیندیں استعمال کی جاتی ہیں۔
اگر کوئی گیند ابھی اتنی پرانی نہیں ہوئی ہو تو امپائر اسے گھس کر پرانا کردیتا ہے تاکہ کھیل جاری رہے ہمارے ملک میں عوام کو کوئی بھی تکلیف نہیں ہے سوائے پانامہ کے یوں لگا۔ تمام وزرا اس عوامی تکلیف کو دورکرنے میں شب و روز لگے رہے۔ نتیجہ؟
گیس، بجلی، صاف پانی، روزگار، مہنگائی، ملاوٹ، چور بازاری، جرائم اتنے چھوٹے چھوٹے مسائل تھے کہ وزرا نے اسے عوام باہمی کے تحت چھوڑ دیا، ان میں مداخلت نہیں کی کہ کہیں عوام کے حقوق کا استحصال نہ ہوجائے اور وہ تمام وزرا عوام کی خاطر پانامہ کو حسب توفیق حل کرنے میں لگے رہے۔
اگر کوئی صاحب قوت دیانتدار طاقت اس ملک میں ہو تو وہ وزرا کی جانب سے اس عوام کی خاطر پانامہ کی خدمت پر ایکشن لے سکتی ہے، لینا چاہیے اور سزا دینی چاہیے وزرا کو کہ کیوں اس قدر عوام کا خیال رکھا، قانون پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا اور وہ یہ تھا کہ اس کیس کے دوران وہ باقاعدہ اپنی اپنی وزارت میں تندہی سے کام کرتے بلکہ بہت زیادہ کام کرتے تاکہ کار سرکار نمٹ سکے۔
ہم قلم برداشتہ لکھتے چلے جاتے ہیں کیونکہ بات سے بات نکلتی رہتی ہے قلم رواں رہتا ہے، ہمارے ملک میں موسم کبھی ڈسکس نہیں ہوتا، سیاسی موسم ہر وقت ڈسکس ہوتا ہے۔ میں خدا کو حاضر ناظر جان کر لکھ رہا ہوں کہ ہمارے محلے کی دکان گلو بھائی کی دکان پر لائق بھائی ملازم ہیں، بہت پرانے ملازم ہیں۔ جب 25 سال پہلے دیکھا تھا تب بھی اتنے ہی بوڑھے تھے۔ یعنی عمر کم اور حالات کی وجہ سے بڑھاپا۔میں کچھ لینے گیا تو اتفاق سے میں اکیلا گاہک تھا، ورنہ ہمیشہ رش رہتا ہے، چہرے سے پریشان، سامان دیا اور جب میں چلنے لگا تو بولے جعفری صاحب! یہ پانامہ کا کیا ہوگا؟ میں نے غور سے ان کو دیکھا اور پوچھا اب تک اتنے سالوں میں جو کچھ ہوا ہے اس سے تم پر کوئی فرق پڑا؟ کہا نہیں۔ میں نے کہا اب بھی نہیں پڑے گا۔
الجبرا بہت دلچسپ مضمون ہے، اس کے ماہرین ناراض نہ ہوں کیونکہ سائنس بہت حد تک اس کی مرہون منت ہے کہ وہ کام انجام دے سکی اور بہت بڑے بڑے کام، الجبرا، جیومیٹری، ٹرگنومیٹری، ارتھ میٹک اور بہت سے مضامین نے انسان کو ترقی دی اور ان سب کی بنیاد الجبرا کے دلچسپ فارمولے رہے۔
ہم نے ان کو کسی اور طرح ترتیب دیا ہے اور نتائج اخذ کیے ہیں (اگر کوئی تسلیم کرلے)۔ یہ دنیا کا فارمولا ہے اور ہم نے اس کو آخرت سے بھی مربوط کرنے کی کوشش کی ہے، سنجیدگی سے ہمیں مت لیجیے گا ہم نے مشتاق احمد یوسفی اور ابن انشا کو پڑھ رکھا ہے۔
تو اس دنیا میں تین طبقے ہیں ایک اعلیٰ، ایک درمیانہ، ایک عام، ہم لفظ ادنیٰ استعمال نہیں کریں گے انسان ذات کے لیے توہین ہوتی ہے۔ یہ صرف طبقاتی تقسیم ہم نے بتائی ہے کم ازکم ہمارے ملک میں اس طرح ہے۔
دنیا میں بھی معاشی طور پر ایسا ہے، برطانیہ میں بھی بے گھر افراد ہوتے ہیں، پاکستان کے بے گھر لوگوں کو احساس فخر ہونا چاہیے۔ وہاں بھی روزانہ کمانے والے ہوتے ہیں اور وہاں بھی دوسروں کے کام کا فائدہ اٹھانے والے سیٹھ ہوتے ہیں نام ذرا مختلف ہے انویسٹر سرمایہ کار امریکا کے نیم پاگل صدر حکم کا ایکہ یعنی ٹرمپ کا تعلق بھی اس اشرافیہ سے ہے، یہ کتنی اشرافیہ ہے۔ ٹرمپ صاحب کا شکریہ ، یہ ثابت کردیا۔
تو ہم بات کریں اپنی ہی کیونکہ ٹرمپ صاحب نہ تو ہماری یعنی مسلمانوں کی بیخ کنی کا بیڑا (یعنی قسم کھا کر پان) منہ میں رکھا ہوا ہے ، دوسرا بحری بیڑہ ہوتا ہے وہ 1971 میں کہیں غرق ہوگیا امریکا کا اور پاکستان اس دھوکہ دہی کے نتیجے میں ، یہ پاکستان ہے جس کے دشمن ہزار۔ اپنے بھی، پرائے بھی۔
تو تین طبقے، تین رویے۔ اب یوں سمجھیے کہ الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں سب، تو ایک کوڈ آف لائف قرآن ہمارے پاس ہے اور ہم میں سے جو جس حد تک اس کے لیے ممکن ہے اس کا مطالعہ بھی کرتا ہے اور عمل بھی ، عمل ہمارا کمپیوٹرائزڈ ہے۔ کیونکہ چاہے ہم کتنی بھی کوشش کریں تمام حرکتوں کے باوجود خود میں سے دین نکال نہیں سکتے۔ ایکٹنگ کرتے ہیں کہ ہمیں پرواہ نہیں ہے اکیلے میں لرزتے کانپتے ہیں، فرعون کی طرح جو تنہائی میں خدا ہی سے مدد مانگتا تھا موسیٰؑ کے خلاف۔ کمال کریکٹر ہے یہ بھی تاریخ کا۔ دن میں خود کو خدا کہتا ہے، رات کو خدا سے مانگتا ہے جو کہ صریحاً غلط تھا اور قدرت اپنے نبی کے خلاف اس کی مدد کیوں کرتی۔ مگر کریکٹر ہے کمال کا۔
تو یوں سمجھیں کہ ایک کردار ہے A-1، اسے آپ اعلیٰ ترین میں رکھ لیں دوسرا کردار ہے B-1 اسے آپ درمیانہ میں رکھ لیں اور ایک کردار ہے X-2، یہ شکل سے ہی لگتا ہے کہ بہت دبا ہوا، پٹا ہوا ہے تو یہ عام غریب طبقہ ہے ہمارے ملک کا۔ اور اب معاشرے میں عمل شروع ہوتا ہے A-1 سے X-2 تک۔
A-1نے ناراض ہوکر B-2 کو تھپڑ مارا، B-2 نے اس کا بدلہ لینے کو X-2 کو تھپڑ ماردیا، عمل مکمل ہوگیا اب اس کا تجزیہ کرتے ہیں، تھپڑ تو A-1 نے مارا۔B-2 کو تو B-2 کو A-1 سے بدلہ لینے کے لیے تھپڑ A-1 کو مارنا چاہیے تھا، مگر اس نے مارا X-2 کو۔
یہ کیاہے؟ اسے سسٹم کہتے ہیں اور اس کا یہ نام بھی ان لوگوں نے ہی رکھا ہے جو یہ غلط طریقہ استعمال کرتے ہیں تاکہ لوگ سسٹم سے ڈریں۔ اب A-1 نے کیا ایک جرم، B-2 نے کیے 2 جرم اور X-2 نے ان دونوں کے کیے کا بھگتان بھگتا جیسے ہم وزراء کے کیے کا جو وہ بڑے صاحب کے کہنے پر کرتے ہیں بھگتان بھرتے ہیں ہر روز۔
یعنی الجبرا کے حسب سے A1+B2=X2 تک تو اچھا رہا ہے کاغذ پر مگر جو حقیقت ہم نے عرض کی ہے اس سے دکھ ہو رہا ہوگا، ہونا چاہیے۔ B-2 کے دو جرم یوں ہیں کہ مقصود کو تھپڑ نہیں مارا۔ مظلوم کو مارا، حوصلہ نہیں کیا، ایک جرم۔ معصوم پر ظلم کیا دوسرا جرم، مگر اس پر A-1 اگر ساتھ دینا پڑا تو B-2 کا دے گا X-2 کا نہیں کیونکہ وہ اس سے قریب تر ہے اور کل A-1 بھی ہوسکتا ہے۔ اس دنیا میں کیا نہیں ہوتا ہے۔
پر جب سب سے بڑی قدرت کا تخت سجے گا تو یہ Phrase الٹی چلے گی۔ X-2=B2+A1 اور انسانی فہم کے مطابق، کیونکہ اصل کا جاننے والا اور کرنے والا صرف خدا ہے۔ تو A1 کا جہنم جانا طے ہے، B-2 کا شاید جہنم کے بہت گہرے حصے میں جانا طے ہوسکتا ہے کہ برائی کے خلاف جدوجہد کیوں نہ کی بے شک شہید ہوجاتے، اور خود اس سے بڑا گناہ کیا کہ معصوم بے گناہ کو مارا تو بدلہ بھی لے لیا دنیا میں لہٰذا کوئی بدلہ نہیں غلط لیا تو سزا یہ انجام ہوسکتا ہے۔ B-2 کا اور X-2 بلاشبہ جنت ہمیشہ کے لیے ایسے ہی تو قرآن میں نہیں لکھا پیارے رب کا ارشاد ہے ''اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے''۔ بات ہے سمجھ کی۔
خاندان ڈس کس ہوا اور خوب ہوا، یہ خاندانی ''پنک پانگ'' بھی پاکستان کی سیاست میں ایک ریکارڈ ہوگئی ہے اور اگر بدعنوانی ہے تو وہ زوردار چھکا ہے جس میں بال گراؤنڈ کے باہر چلی جاتی ہے اور اسے ڈھونڈنے میں وقت ضایع کرنے کے بجائے، وزراء ٹائپ کی پرانی گیندیں استعمال کی جاتی ہیں۔
اگر کوئی گیند ابھی اتنی پرانی نہیں ہوئی ہو تو امپائر اسے گھس کر پرانا کردیتا ہے تاکہ کھیل جاری رہے ہمارے ملک میں عوام کو کوئی بھی تکلیف نہیں ہے سوائے پانامہ کے یوں لگا۔ تمام وزرا اس عوامی تکلیف کو دورکرنے میں شب و روز لگے رہے۔ نتیجہ؟
گیس، بجلی، صاف پانی، روزگار، مہنگائی، ملاوٹ، چور بازاری، جرائم اتنے چھوٹے چھوٹے مسائل تھے کہ وزرا نے اسے عوام باہمی کے تحت چھوڑ دیا، ان میں مداخلت نہیں کی کہ کہیں عوام کے حقوق کا استحصال نہ ہوجائے اور وہ تمام وزرا عوام کی خاطر پانامہ کو حسب توفیق حل کرنے میں لگے رہے۔
اگر کوئی صاحب قوت دیانتدار طاقت اس ملک میں ہو تو وہ وزرا کی جانب سے اس عوام کی خاطر پانامہ کی خدمت پر ایکشن لے سکتی ہے، لینا چاہیے اور سزا دینی چاہیے وزرا کو کہ کیوں اس قدر عوام کا خیال رکھا، قانون پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا اور وہ یہ تھا کہ اس کیس کے دوران وہ باقاعدہ اپنی اپنی وزارت میں تندہی سے کام کرتے بلکہ بہت زیادہ کام کرتے تاکہ کار سرکار نمٹ سکے۔
ہم قلم برداشتہ لکھتے چلے جاتے ہیں کیونکہ بات سے بات نکلتی رہتی ہے قلم رواں رہتا ہے، ہمارے ملک میں موسم کبھی ڈسکس نہیں ہوتا، سیاسی موسم ہر وقت ڈسکس ہوتا ہے۔ میں خدا کو حاضر ناظر جان کر لکھ رہا ہوں کہ ہمارے محلے کی دکان گلو بھائی کی دکان پر لائق بھائی ملازم ہیں، بہت پرانے ملازم ہیں۔ جب 25 سال پہلے دیکھا تھا تب بھی اتنے ہی بوڑھے تھے۔ یعنی عمر کم اور حالات کی وجہ سے بڑھاپا۔میں کچھ لینے گیا تو اتفاق سے میں اکیلا گاہک تھا، ورنہ ہمیشہ رش رہتا ہے، چہرے سے پریشان، سامان دیا اور جب میں چلنے لگا تو بولے جعفری صاحب! یہ پانامہ کا کیا ہوگا؟ میں نے غور سے ان کو دیکھا اور پوچھا اب تک اتنے سالوں میں جو کچھ ہوا ہے اس سے تم پر کوئی فرق پڑا؟ کہا نہیں۔ میں نے کہا اب بھی نہیں پڑے گا۔
الجبرا بہت دلچسپ مضمون ہے، اس کے ماہرین ناراض نہ ہوں کیونکہ سائنس بہت حد تک اس کی مرہون منت ہے کہ وہ کام انجام دے سکی اور بہت بڑے بڑے کام، الجبرا، جیومیٹری، ٹرگنومیٹری، ارتھ میٹک اور بہت سے مضامین نے انسان کو ترقی دی اور ان سب کی بنیاد الجبرا کے دلچسپ فارمولے رہے۔
ہم نے ان کو کسی اور طرح ترتیب دیا ہے اور نتائج اخذ کیے ہیں (اگر کوئی تسلیم کرلے)۔ یہ دنیا کا فارمولا ہے اور ہم نے اس کو آخرت سے بھی مربوط کرنے کی کوشش کی ہے، سنجیدگی سے ہمیں مت لیجیے گا ہم نے مشتاق احمد یوسفی اور ابن انشا کو پڑھ رکھا ہے۔
تو اس دنیا میں تین طبقے ہیں ایک اعلیٰ، ایک درمیانہ، ایک عام، ہم لفظ ادنیٰ استعمال نہیں کریں گے انسان ذات کے لیے توہین ہوتی ہے۔ یہ صرف طبقاتی تقسیم ہم نے بتائی ہے کم ازکم ہمارے ملک میں اس طرح ہے۔
دنیا میں بھی معاشی طور پر ایسا ہے، برطانیہ میں بھی بے گھر افراد ہوتے ہیں، پاکستان کے بے گھر لوگوں کو احساس فخر ہونا چاہیے۔ وہاں بھی روزانہ کمانے والے ہوتے ہیں اور وہاں بھی دوسروں کے کام کا فائدہ اٹھانے والے سیٹھ ہوتے ہیں نام ذرا مختلف ہے انویسٹر سرمایہ کار امریکا کے نیم پاگل صدر حکم کا ایکہ یعنی ٹرمپ کا تعلق بھی اس اشرافیہ سے ہے، یہ کتنی اشرافیہ ہے۔ ٹرمپ صاحب کا شکریہ ، یہ ثابت کردیا۔
تو ہم بات کریں اپنی ہی کیونکہ ٹرمپ صاحب نہ تو ہماری یعنی مسلمانوں کی بیخ کنی کا بیڑا (یعنی قسم کھا کر پان) منہ میں رکھا ہوا ہے ، دوسرا بحری بیڑہ ہوتا ہے وہ 1971 میں کہیں غرق ہوگیا امریکا کا اور پاکستان اس دھوکہ دہی کے نتیجے میں ، یہ پاکستان ہے جس کے دشمن ہزار۔ اپنے بھی، پرائے بھی۔
تو تین طبقے، تین رویے۔ اب یوں سمجھیے کہ الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں سب، تو ایک کوڈ آف لائف قرآن ہمارے پاس ہے اور ہم میں سے جو جس حد تک اس کے لیے ممکن ہے اس کا مطالعہ بھی کرتا ہے اور عمل بھی ، عمل ہمارا کمپیوٹرائزڈ ہے۔ کیونکہ چاہے ہم کتنی بھی کوشش کریں تمام حرکتوں کے باوجود خود میں سے دین نکال نہیں سکتے۔ ایکٹنگ کرتے ہیں کہ ہمیں پرواہ نہیں ہے اکیلے میں لرزتے کانپتے ہیں، فرعون کی طرح جو تنہائی میں خدا ہی سے مدد مانگتا تھا موسیٰؑ کے خلاف۔ کمال کریکٹر ہے یہ بھی تاریخ کا۔ دن میں خود کو خدا کہتا ہے، رات کو خدا سے مانگتا ہے جو کہ صریحاً غلط تھا اور قدرت اپنے نبی کے خلاف اس کی مدد کیوں کرتی۔ مگر کریکٹر ہے کمال کا۔
تو یوں سمجھیں کہ ایک کردار ہے A-1، اسے آپ اعلیٰ ترین میں رکھ لیں دوسرا کردار ہے B-1 اسے آپ درمیانہ میں رکھ لیں اور ایک کردار ہے X-2، یہ شکل سے ہی لگتا ہے کہ بہت دبا ہوا، پٹا ہوا ہے تو یہ عام غریب طبقہ ہے ہمارے ملک کا۔ اور اب معاشرے میں عمل شروع ہوتا ہے A-1 سے X-2 تک۔
A-1نے ناراض ہوکر B-2 کو تھپڑ مارا، B-2 نے اس کا بدلہ لینے کو X-2 کو تھپڑ ماردیا، عمل مکمل ہوگیا اب اس کا تجزیہ کرتے ہیں، تھپڑ تو A-1 نے مارا۔B-2 کو تو B-2 کو A-1 سے بدلہ لینے کے لیے تھپڑ A-1 کو مارنا چاہیے تھا، مگر اس نے مارا X-2 کو۔
یہ کیاہے؟ اسے سسٹم کہتے ہیں اور اس کا یہ نام بھی ان لوگوں نے ہی رکھا ہے جو یہ غلط طریقہ استعمال کرتے ہیں تاکہ لوگ سسٹم سے ڈریں۔ اب A-1 نے کیا ایک جرم، B-2 نے کیے 2 جرم اور X-2 نے ان دونوں کے کیے کا بھگتان بھگتا جیسے ہم وزراء کے کیے کا جو وہ بڑے صاحب کے کہنے پر کرتے ہیں بھگتان بھرتے ہیں ہر روز۔
یعنی الجبرا کے حسب سے A1+B2=X2 تک تو اچھا رہا ہے کاغذ پر مگر جو حقیقت ہم نے عرض کی ہے اس سے دکھ ہو رہا ہوگا، ہونا چاہیے۔ B-2 کے دو جرم یوں ہیں کہ مقصود کو تھپڑ نہیں مارا۔ مظلوم کو مارا، حوصلہ نہیں کیا، ایک جرم۔ معصوم پر ظلم کیا دوسرا جرم، مگر اس پر A-1 اگر ساتھ دینا پڑا تو B-2 کا دے گا X-2 کا نہیں کیونکہ وہ اس سے قریب تر ہے اور کل A-1 بھی ہوسکتا ہے۔ اس دنیا میں کیا نہیں ہوتا ہے۔
پر جب سب سے بڑی قدرت کا تخت سجے گا تو یہ Phrase الٹی چلے گی۔ X-2=B2+A1 اور انسانی فہم کے مطابق، کیونکہ اصل کا جاننے والا اور کرنے والا صرف خدا ہے۔ تو A1 کا جہنم جانا طے ہے، B-2 کا شاید جہنم کے بہت گہرے حصے میں جانا طے ہوسکتا ہے کہ برائی کے خلاف جدوجہد کیوں نہ کی بے شک شہید ہوجاتے، اور خود اس سے بڑا گناہ کیا کہ معصوم بے گناہ کو مارا تو بدلہ بھی لے لیا دنیا میں لہٰذا کوئی بدلہ نہیں غلط لیا تو سزا یہ انجام ہوسکتا ہے۔ B-2 کا اور X-2 بلاشبہ جنت ہمیشہ کے لیے ایسے ہی تو قرآن میں نہیں لکھا پیارے رب کا ارشاد ہے ''اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے''۔ بات ہے سمجھ کی۔