متوازی بیانیہ کے محاذ پر خاموشی

جب چراغ کی روشنی دشمن کی رہنمائی کرے، اسے بجھا دینا چاہیے

جب چراغ کی روشنی دشمن کی رہنمائی کرے، اسے بجھا دینا چاہیے۔ جس پھل کو کیڑا لگ جائے، اُسے ٹوکری سے الگ کر نا بہتر۔۔۔جب مقابلہ طوفانوں سے ہو، تو چٹان پر مکان بنایا جائے کہ جب ہوائیں ٹکرائیں، تو وہ نہ گرے ۔ جب دشمن پھاڑ کھانے والا بھیڑیا ہو،مگر بھیڑوں کی روپ میں آئے، تب تاریک جنگل میں قیام نہیں کیا جاتا، بلکہ روشن میدانوں کو مسکن بنایا جاتا ہے، تاکہ اس سے مقابلہ کیا جاسکے۔

ہر سو راکھ اور کہرا ہے کہ دہشت گردوں نے پھر سر اٹھالیا ۔ چیخیں منجمد ہوئیں۔ کرب ٹھہر گیا۔ لاشیں اٹھانے کا عمل، جو کچھ عرصے کے لیے رک گیا تھا، پھر شروع ہوا۔ مائیں اپنے بچوں کو یاد کرکے سینہ پیٹتی ہیں، بوڑھے اپنے سہارا کھونے پر گریہ کرتے ہیں۔ صوفیوں کی سرزمین سرخ ہوئی۔ پہلے کراچی پھرلاہور،پھر خیبر پختون خوا نشانہ بنا۔ اوراب سندھ پر قہر اترا ہے۔

سندھ، جو کبھی گھوڑوں اور رتھوں سے مالا مال تھا، جس کے دریا کنارے عظیم تہذیوں کا جنم ہوا، جو صوفیوں کی سرزمین بنا،آج شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اِس کے بیٹوں کے اعضاجوہڑمیں پھینک دیے گئے، اس کے سینے پر لگے زخموں پر سیاست کی گئی۔ مرنے والوں کو دعووں وعدوں کے ذریعے بہلایا گیا، دشمن کے خاتمے کا عزم دہرایا گیا، مگر جب پیڑ پر سانپوں کا بسیرا ہو، تو اس کی شاخیں کاٹنا کافی نہیں۔ اور جوفصل خراب ہوجائے، اسے جلا دیا جاتا ہے۔

دشمن نے ہمار ی عورتوں اور بچوں کوقتل کیا، ہمارے بزرگوں کو بھی نہ چھوڑا، عبادت گاہوں کو خون میں نہلا دیا، مزارات کے گنبد گہنا گئے،اور وہاں بیٹھنے پنچھی ہمیشہ ہمیشہ کے اڑ گئے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت سے ہم کچھ برس پہلے گزرے تھے، جب پشاور میں قیامت ٹوٹی، جب آرمی پبلک اسکول کو نشانہ بنا گیا تھا، جب بربریت کی ایسی داستان رقم کی گئی کہ انسان انگشت بدنداں رہ جائے۔روح لرز اٹھے۔ آدمیت کا سر جھلک جائے۔

اس عظیم سانحے کے بعد اس وقت کے سپہ سالار، جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں آپریشن ضرب عضب شروع ہوا، جس کی سول قیادت نے بھرپور حمایت کی، یہاں تک کہ فوجی عدالتوں کے قیام جیسا نازک آئینی مرحلہ بھی طے ہوا۔ آنے والے عرصے میں بہتری دکھائی دی۔ دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہوئی۔کامیابی کا جشن منایا گیا، مگرآج دہشت گردوں نے پھر سر اٹھایا ہے۔اور ایسا بے سبب نہیں کہ جب بیج زرخیز زمین میں بویا گیا ہو، اوراسے پانی اور روشنی وافر مقدار میں مہیا ہو، تووہ زمین میں اپنی جڑیں خوب گہری پاتا ہے، اور تنا خوب توانا ہوجاتا ہے۔پھر اس کا خاتمے آسان نہیں ہوتا۔

یہ ہم ہی تھے، جنھوں نے افغان وار کے دوران، مفادات کہیے، مجبوری یا یا معروضی حقائق۔۔۔ عسکریت پسندی کے بیج بوئے۔ نیا ریاستی بیانیہ تشکیل دیا ۔اور اُن ''ملحدوں'' سے جنگ لڑنے کے لیے مجاہد تیار کیے، جنھیں آج بہ خوشی سی پیک میں شامل کرنے پر راضی ہیں۔یہ ہم ہی تھے، جنھوں نے افغان وار سے بہت پہلے ،جہاد کشمیر کو اخلاقی، افرادی اور عسکری امداد مہیا کی۔ ہم نے نچلے اور متوسط طبقے کی زرخیز زمینوں پر نظریات کے بیج گرائے، اور ایسے لڑاکا حاصل کیے، جو مقصد کے لیے جان دینے کو بھی تیار تھے، اور جان لینے کو بھی۔


ایسا تو نہیں کہ یہ پالیسی کلی طور پر ناکام رہی کہ ایک زمانے میں ، جب افغانستان پر ملا عمر کی حکومت تھی، تب ہم اپنی مغربی سرحد کے ایک رخ کوانتہائی محفوظ خیال کرتے تھے، اور فخر کیا کرتے کہ ادھر ایک پاکستان نواز حکومت ہے۔ شاید کچھ اوربرس اطمینان رہتا،ہماری غفلتیں چھپی رہتیں، اگر 9/11 کا واقعہ نہ ہوتا، جس نے تباہی کا پہیا پھر چلا دیا، اور طلسماتی گرم پانیوں والا یہ خطہ، جو چین اور ایک معنوں میں روس سے بھی جڑاہواتھا، ایک بار پھر امریکی توجہ کا مرکز بن گیا۔

صاحبو، وہ طاقت ہی کیا، جس سے خوف نہ کھایا جائے، اور جس کی پرستش نہ ہو۔ مشرف دور میں ہماری افغان پالیسی میں آنے والی تبدیلی حیران کن نہیں تھی۔ مشرف کے ناقدین بھی اگر اس سمے اقتدار میں ہوتے، تو لگ بھگ یہی فیصلہ کرتے کہ آج کی دنیا پر امریکی سکہ چلتا ہے۔ تو پالیسی تبدیل ہوئی، مگر ہم اپنے ماضی سے تو منہ نہیں موڑ سکتے تھے۔اُن عسکری گروہوں سے،جن پر کنٹرول کا ہمیں دعویٰ تھا،اور اس شدت پسند بیانیہ سے، جسے ہم نے تشکیل دیا تھا، یکدم الگ ہونا ممکن نہیں تھا۔

افغان پالیسی میں آنے والی اچانک بے ربط تبدیلی، انتظامی غفلت اور اغیار کی سازشیں، نتیجہ یہ نکلا کہ جن گروہوں کو ہم اپنا اثاثہ ٹھہراتے تھے، وہ پہلے بے یار و مددگار ہوئے، توڑے گئے، کچلے گئے،پھر اکٹھے ہوئے۔اب انھیں نئے مددگار مل گئے تھے۔ آخر کار وہ تلوار سونت کر ہمارے ہی سامنے کھڑے ہوگئے۔ نظریے کے لیے جان دینا اور جان لینا ان کی تر بیت کا جزوتھا، جسے شدت پسند نظریات کی نئی کمک مل گئی ۔حملے اور دھماکے ہونے لگے۔ تباہی پھیلتی گئی۔ کرب بڑھتا گیا۔ جنھیں ان کی مذمت کرنی چاہیے تھی۔۔۔ جو مذہبی طبقات تھے، ان میں سے کچھ توگومگو کا شکار رہے، کچھ نے مصلحتاً چپ سادہ لی۔

ہاں، کچھ نے آواز اٹھائی، ان حملوں کو خلاف اسلام قرار دیا، مگر شاید وہ مرکزی دھارے کا حصہ نہیں،شاید عوام میں جڑیں نہیں رکھتے۔ان کی کاوشوں کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکال۔دھماکے جاری رہے کہ دھماکے کرنے والوںکو حامی اور سہولت کار میسر تھے۔ علما کی خاموشی ان کی طاقت تھی، اور حکمرانوں کی غفلت انھیں قوت بخشتی تھی۔

آپریشن کے بعد کچھ سکون تھا، مگر پھر دہشت گردوں نے سر اٹھایا۔ کل داتا دربار پر حملہ ہوا تھا، پھرشاہ نوارنی خون میں نہا گیا، اب لعل شہباز قلندر کے مزار کی چادر سرخ ہوئی۔ مستقبل میں مزید حملوں کا امکان ۔ مزید دھماکے ہوں گے، جن سے نمٹنے کے لیے فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ نظریاتی آپریشن بھی ضروری ہے، ازحد ضروری۔ بڑا چیرا لگانا ہوگا۔ یہ متوازی بیانیہ ہی ہے، جو آپریشن کو حقیقی معنوں میں کارگر بنا سکتا ہے۔ماضی میں جو بیانیہ ہم نے اختیار کیا، اس نے ہمارے گھروں، ہماری نسلوں کو شدت پسند بنا دیا، ہم نے سماج کے زرخیز حصوں میں یہ بیج بوئے، اور اب یہ تن آور درخت بن چکے ہیں۔

یہ شدت پسند، یہ رجعت پسند کوئی اور نہیں، ہم ہیں۔ ہمارے بھائی، ہمارے بیٹے، ہمارے بھانجے بھتیجے ، جنھیں ہم ہی نے ان نظریات کا لبادہ اوڑھنے کو تیار کیا تھا۔ اب ہمیں اپنے ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے، ایک متوازی بیانیہ اختیار کرکے، سماج کو ایک نئی اور مضبوط سوچ دینی ہوگی۔جو الگ ہوگئے، انھیں مرکزی دھارے میں لانا ہوگا۔

درخت کا تنا مضبوط ہو، تو آری کی دھار تیز رکھی جاتی ہے۔۔۔متوازی بیانیہ ہی اکلوتا حل، مگر بدقسمتی سے اس کی تشکیل کے لیے ہماری تقدیر کے فیصلہ ساز میں، ہمارے حکمرانوں سیاست دانوں میں جس بصیرت، قابلیت ، مہارت اور سنجیدگی کی ضرورت ، اس کا واضح فقدان دکھائی دیتا ہے۔پی پی، ن لیگ اور پی ٹی آئی ایک دوسرے پر کیچڑ تو اچھال رہی ہیں، مگر اس محاذ پر مکمل خاموشی ہے۔
Load Next Story