دمادم مست قلندر

حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار مبارک پر خودکش حملے کی وجہ سے پوری پاکستانی قوم سوگوار اور سراپائے احتجاج ہے

shabbirarman@yahoo.com

حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار مبارک پر خودکش حملے کی وجہ سے پوری پاکستانی قوم سوگوار اور سراپائے احتجاج ہے، اس بزدلانہ حملے کے نتیجے میں 88 افراد شہید جب کہ 343 افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں 76 شدید زخمی تاحال زیر علاج ہیں۔ 16 فروری 2017 کو سندھ کے علاقے سیہون شریف میں واقع درگاہ حضرت لعل شہباز قلندر میں دھماکہ اس وقت ہوا جب زائرین بڑی تعداد میں دھمال ڈال رہے تھے۔

دھماکے کے بعد احاطے میں آگ لگ گئی، ہر طرف لاشیں اور انسانی اعضا بکھر گئے، یہ قیامت جیسا منظر تھا۔ واضح رہے کہ ملک بھر میں پانچ دنوں میں مسلسل آٹھ دہشت گرد حملے میں ایک سو سے زیادہ افراد شہید اور تین سو سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کی اس حالیہ لہر کے بعد پاک فوج نے دہشت گردوں کو کرارا جواب دیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق پاک فوج نے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے جس میں متعدد دہشت گردوں کے مارے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔

خیبرپختونخوا، فاٹا میں پچاس، لاہور میں دو، کراچی میں 27 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا اور سیکڑوں مشتبہ افراد گرفتار بھی کیے گئے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پوری پاکستانی قوم پاک افواج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ ملک میں دہشت گردی کے خلاف کامیاب ضرب عضب آپریشن نے عیار دشمن کے ہوش ٹھکانے لگا دیے ہیں، اب وہ پبلک مقامات کو نشانہ بناکر اپنی ناکام بہادری کا مظاہرہ کرنا چاہ رہا ہے۔ ایسے میں وقت کا تقاضا ہے کہ انسانیت کے دشمنوں کے خلاف دمادم مست قلندر ہونا چاہیے، کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔

سخی لعل شہباز قلندر کا اصل نام سید محمد عثمان مروندی تھا، جو ایک مشہور صوفی بزرگ، شاعر، فلسفی اور قلندر تھے۔ ان کا تعلق صوفی سلسلہ سہروردیہ سے تھا، ان کا زمانہ اولیائے کرام کا زمانہ مشہور ہے، مشہور بزرگ شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی، شیخ فریدالدین گنج شکر، شمس تبریزی، جلال الدین رومی اور سید جلال الدین سرخ بخاری ان کے قریباً ہم عصر تھے۔

حضرت شیخ محمد عثمان مروندی کے آباؤ اجداد بغداد سے ہجرت کرکے افغانستان کے علاقے مروند میں آباد ہوئے تھے اور ان کے والد شیخ کبیرالدین سلسلہ سہروردیہ کے مشائخ میں شمار ہوتے تھے، خود حضرت شیخ محمد عثمان مروندی بھی سلسلہ سہروردیہ سے وابستہ تھے۔ شیخ محمدعثمان مروندی شہباز قلندر 1196 کے آس پاس افغانستان سے پاکستان آئے۔ ان کے شاگردوں میں مخدوم بلاول، شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست شامل تھے۔

شیخ محمد عثمان مروندی اکثر سرخ لباس زیب تن کیے رکھتے تھے، جس کی وجہ سے ان کا نام لعل شہباز قلندر پڑگیا۔ شہباز اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ ایک مرتبہ کہیں جارہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ آپ کے ایک مرید کو بے وجہ پھانسی دی جارہی ہے، یکایک آپ نے ایک جست لگائی اور اپنے اس مرید کو پھانسی سے بچا لائے۔ قلندر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آپ کا تعلق تصوف میں سلسلہ قادریہ سے تھا۔ ان کا عرس مبارک ہر سال شعبان کی اٹھارہ تاریخ سے سیہون شریف میں ہوتا ہے، جس میں پانچ لاکھ سے زیادہ زائرین ہر سال شریک ہوتے ہیں۔

یہ عرس مبارک پاکستان بھر میں قلندری صوفی سلسلے سے وابستہ درویشوں اور فقیروں کے باہم میل ملاقات کا سبب بھی بنتا ہے۔ جس طرح نبیوں سے معجزے ظہور پذیر ہوتے تھے اسی طرح اولیاء کرام بھی کرامتوں سے مالامال تھے۔ خیال رہے کہ معجزات اور کرامات حکم ربی کے تابع ہیں جو اللہ نے اپنی محبوب ہستیوں کو اس لیے عنایت کیے تھے تاکہ انھیں دیکھ کر لوگ ایمان لے آئیں، ان ہی ہستیوں، اولیائے کرام میں حضرت محمد عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر بھی شامل ہیں، جن کے ہاتھوں بے شمار لوگ مسلمان ہوئے تھے۔

حضرت لعل شہباز قلندر کی چند کرامتوں کا ذکر کتابوں میں بیان کیا گیا ہے اور کچھ ایسی ہیں جو عوام میں مشہور ہیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم والد بزرگوار سے حاصل کی، سات سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا، آپ نے دنیا بھر کی سیاحت کی اور حج کی سعادت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حضور اکرم ﷺ کے روضہ اقدس پر بھی حاضری دی۔ مشہد میں شیخ جمال مجرد کے مرید کامل بابا ابراہیم سے آپ کی ملاقات ہوئی، جن کے ہاتھوں آپ نے قلندری طریقت کی بیعت لی، عربی اور فارسی زبانوں پر آپ کو عبور حاصل تھا، آپ فارسی میں شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ آپ کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔


بیا اے مطرب ساقی سماع شوق دردل دہ
کہ من از شادی وصلش قلندر دار می رقصم

(میں تو اس دریا کا مانجھی ہوں کہ مردم خوار ہوں اور وہ دریا ہے بے کشتی عجب اسرار ہے)

سنو عشاق مروندی، یہ مستی و مدہوشی کہ اس مستی و مدہوشی کی عظمت گاہ میں بھی تھا، عثمان ہمیشہ تجھ سے کرے ہے تجھے طلب، اپنا جمال ماہ لقا اس گدا کو دے۔ (تراجم، رئیس امروہوی)

مقالات الشعراء، شایع کردہ سندھی ادبی بورڈ نے آپ کی مندرجہ ذیل غزل نقل کی ہے، جو اپنی معنویت کے اعتبار سے آج بھی مشائخ حضرات اور صوفیائے کرام کے حلقوں میں مقبول و معروف ہے۔

زعشق دوست ہر ساعت درون نار می رقصم
گہے بر خاک می غلطم، گہے برخار می رقصم

تصوف کا بنیادی نقطہ نگاہ اپنی ذات کو پہچاننا ہے اور جو کوئی خود کو پہچان لیتا ہے وہ اپنے مالک حقیقی کو بھی پہچان لیتا ہے۔ یہ معلومات کا وہ خزانہ ہے جو بندے پر خدائی اسرار کے دروازے کھولتا ہے۔ حضرت لعل شہباز قلندر کی شاعری اسی خدائی اسرار کا آئینہ ہے، جس کے مطالعے سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کی شاعری عشق الٰہی سے لبریز ہے۔

روایت ہے کہ وصال کے وقت آپ ہوش و حواس میں تھے اور اپنے خاد موںسے فرمایا مجھے اٹھا کر بٹھادو، پھر فرمایا کوئی میرا ساتھی نہیں ہے، میرا عمل میرا کیا ساتھ دے گا، میرا سب سے بڑا سہارا اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اب میرے رفیق اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں۔ پھر آپ نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں اور دونوں ہاتھ بلند کرکے دعا فرمائی۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ آپ کے ہاتھ بستر پر گر پڑے اور جسم سیدھا ہوگیا اور زبان کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے خاموش ہوگئی۔

حیدرآباد سے 88 میل کے فاصلے پر کیرتھر کی پہاڑیوں کے دامن میں آباد سیہون شریف شہر میں آپ کا مزار واقع ہے، جہاں آپ کے عقیدت مند بڑی تعداد میں حاضری دینے آتے رہتے ہیں۔ آپ کے مزار مبارک میں خودکش حملے کے بعد آپ کے پیروکاروں نے خوف و دہشت کے آگے سر جھکانے سے انکار کردیا ہے۔ مزار پر روایتی گھنٹے اور دھمال کی آوازیں پھر سے گونجنے لگی ہیں، دما دم مست قلندر، دما دم مست قلندر۔
Load Next Story