پاناما کیس سپریم کورٹ نے سماعت جمعرات تک مکمل کرنے کا عندیہ دے دیا
باپ سے پوچھو تو کہتا ہے بچوں سے پوچھو اور بچے کہتے ہیں دادا سے جائیداد ملی سمجھ نہیں آرہا ہوکیا رہا ہے، جسٹس کھوسہ
NORTH WAZIRISTAN:
سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کیس کی سماعت جمعرات تک مکمل کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے پاناما کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے چیئرمین ایف بی آر سے استفسار کیا کہ ایف بی آر نے پاناما پر وزارت خارجہ سے کب رابطہ کیا تھا ، پاناما لیکس پر آف شور کمپنیوں کے مالکان کو کب نوٹس جاری کئے تھے۔ جس پر ڈاکٹر ارشاد نے بتایا کہ 2 ستمبر 2016 کو 343 افراد کو نوٹسز جاری کئے گئے تھے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ 200 گز کا فاصلہ 6 ماہ میں طے کرنے پر آپ کو مبارک ہو، چیرمین ایف بی آر نے جواب میں کہا کہ آف شور کمپنیوں پر صرف ڈائریکٹرز کا نام ہونا کافی نہیں ہوتا اس کے اور بھی تقاضے ہوتے ہیں، 49 کمپنیاں ایسی ہیں جن کے ڈائریکٹرز کا تعلق پاکستان سے نہیں جبکہ 52 افراد ایسے ہیں جنہوں نے کمپنیوں کی ملکیت سے انکار کر دیا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ شریف فیملی کو نوٹس جاری کرنے پر کن کا جواب آیا۔ جس پر چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ حسن،حسین اور مریم نواز نے آف شور کمپنیوں پر جواب دیا، مریم نواز نے کہا ان کی بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں اوروہ کسی آف شور کمپنی کی بھی مالک نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا مریم نواز نے ٹرسٹی ہونے کا ذکر کیا۔ چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ مریم نے اپنے جواب میں ٹرسٹی ہونے سے متعلق کچھ نہیں کہا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ جواب موصول ہونے کے بعد آپ نے کیا اقدامات کیے، چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ ہم تمام معلومات کی تصدیق کر رہے ہیں۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ 7 گھنٹوں کےکام میں چیرمین ایف بی آر نے ایک سال لگا دیا، جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے آپ کوتصدیق کےلیے 30 سال درکارہیں، چیرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ ٹیکس بچانے کے معاملات کے لیے پاناما جنت ہے۔ پاکستان اور پاناما کے درمیان ٹیکس معلومات کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ ایف بی آر جو کر رہا ہے سب کے سامنے ہے، کون کب سے بیرون ملک ہے ایک گھنٹے میں پتا چل سکتا ہے، ریکارڈ دکھائیں کہ ٹریول ہسٹری کے لیے کس ادارے کو کب لکھا گیا، جس پر وکیل ایف بی آر کا کہنا تھا کہ عدالت کو دکھانے کےلیے ریکارڈ موجود نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو تحقیقات بڑھانے کے لیے عدالت کی مداخلت درکار ہے۔ ایف بی آر کے وکیل نے کہا کہ تسلیم کرتے ہیں کہ ادارے کی جانب سے فوری اقدامات نہیں کیے گئے لیکن ایک ایشو یہ بھی تھا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ دوسرے الفاظ میں آپ کا مطلب ہے ایف بی آر نے منی لانڈرنگ پر کچھ نہیں کیا۔ وکیل ایف بی آر نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے لیے الگ قوانین اور ادارے موجود ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے وکیل ایف بی آر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جہاں کارروائی کرنا ہوتی ہے ایف بی آر فوری کارروائی کرتا ہے، آپ کو فوری طور پر ایکشن لینا چاہیے تھا، جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ کوئی ادارہ کام کرتا تو کیس عدالت میں نہ آتا۔
عدالت نے چیر مین نیب کو روسٹرم پر بلایا جہاں چیر مین نیب کا کہنا تھا کہ نیب اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے، ستمبر 2016 میں معاملہ پبلک اکاوٴنٹس کمیٹی میں آیا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کمیٹی میں نیب کا موقف تھا کہ ہمارا دائرہ اختیار نہیں، چیئرمین نیب نے جواب دیا کہ نیب کا موقف ہے کہ متعلقہ ادارے کے بعد ہی کارروائی کر سکتے ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ کیا نیب آرڈی نینس میں کسی ریگولیٹر کا ذکر ہے، ریگولیٹر نیب کے کام میں رکاوٹ کیسے بن گیا جب کہ جسٹس گلزار نے چیر مین نیب سے استفسار کیا کہ کیا نیب کو بھی کوئی ریگولیٹ کرتا ہے جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کو اس کے قوانین ریگولیٹ کرتے ہیں۔
جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ نیب قانون چیئرمین کو کارروائی کا اختیار دیتا ہے، ریگولیٹر کا لفظ آخر کہاں سے آیا جب کہ قطری خط میں بھی ریگولیٹر آف پاکستان کا ذکر تھا لہذا پاکستان میں آخر ریگولیٹر ہے کون، کیا ریگولیٹر وہ ہے جو چیئرمین کو تعینات کرتا ہے، اوگرا اور نیپرا کا تو بطور ریگولیٹر سنا تھا لیکن نیب کا ریگولیٹر کون ہے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ آج پتہ چل گیا کہ نیب کا ریگولیٹر کون ہے، جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ نیب کی ٹیم کو سن کر افسوس ہوا، پراسیکیوٹر جنرل صاحب اب بس کر دیں، آپ نے معاونت کے بجائے عدالت کو گمراہ کرنا شروع کر دیا۔
جسٹس کھوسہ نے کہاکہ باپ سے پوچھو تو کہتا ہے بچوں سے پوچھو،بچے کہتے ہیں ہمیں دادا سے جائیداد ملی جب کہ نیب کہتا ہے کہ ہمیں ریگولیٹر کی اجازت کا انتظار ہے، سمجھ نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انوکھا مقدمہ ہے جس میں کسی ادارے کو دائرہ اختیار ہی نہیں، نیب کو تحقیقات کا اختیار نہیں تو آخر کس کے پاس ہے، سوال یہ ہے کہ آخر تحقیقات کرے گا کون اگر ادارے کام کرتے تو آج اتنا وقت اس کیس پر نہ لگتا۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کو کوئی ریگولیٹ نہیں کرتا، میری تعیناتی شفاف اور قانون کے مطابق ہے جس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو کہانیاں نہ سنائیں۔ جسٹس کھوسہ نے کہاکہ چیئرمین نیب کو تعینات کرنے والے بھی نہیں ہٹا سکتے، اللہ نے آپ کو ایسا عہدہ دیا ہے کہ آپ عوام کی خدمت کر سکیں، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ایک سال گزر گیا لیکن نیب نے کچھ نہیں کیا۔
جسٹس شیخ عظمت نے چیر مین نیب سے استفسار کیا کہ آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس آتا تو نیب انکوائری کرتا، جن کے نام پانامہ پیپرز میں آئے انہیں بلا کر پوچھتے تو سہی، کسی ایک بندے سے پوچھا کہ سرمایہ کہاں سے آیا۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ نیب کے لیے یہ اطلاعات نئی نہیں تھیں، ہائی کورٹ نے ریفرنس خارج کردیا تو پھر بھی مواد موجود تھا، نیب نے بینک اکاؤنٹس اور ٹرانزیکشنز پر کیا کارروائی کی جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ ہم کارروائی ضرور کریں گے۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ لوگوں کو امید تھی کہ آپ آف شور کمپنی والوں سے پوچھیں گے، سوال پوچھتے ہوئے نیب کا کیا جاتا تھا لہذا چیئرمین صاحب سوال تو پوچھ ہی لیا ہوتا جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ تاخیر ہوئی لیکن اپنا کام ضرور کروں گا، عدالت کو کارروائی کا یقین دلاتا ہوں جس پر جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ کیا کارروائی کریں گے آپ چیئرمین صاحب، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا آپ کے کام نہ کرنے کی وجہ وہ شخص ہے جس نے آپ کو تعینات کیا، نیب غیر سنجیدہ مقدمات میں بھی اپیل دائر کرتا ہے اور نیب وکلاء کہتے ہیں حکام بالا کو مطمئن کرنے کے لیے اپیل کرتے ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہائیکورٹ نے 1.2 ارب روپے کا ریفرنس خارج کردیا، ہائیکورٹ کے فیصلے پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ہائیکورٹ کے ریفری جج نے اس معاملے پر فیصلہ دیا جو ان کو بھجوایا ہی نہیں گیا، سوال یہ ہے کہ ریفری جج کو اپنی آبزرویشن دینا چاہیے تھی۔
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ نیب نے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی زحمت نہیں کی، کیا ہم نیب کو اپیل دائر کرنے کا حکم دے سکتے ہیں، انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں لہذا عدالت آپ سے معاونت چاہتی ہے، قطری کہتا ہے کہ 8 ملین ڈالرز التوفیق کیس میں اس نے ادا کیے جب کہ نیب کہتا ہے 8 ملین ڈالرز حدیبیہ پیپز ملز نے ادا کیے جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ مقدمہ ایف آئی اے نے تیار کیا تھا۔
جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ عدالت نے تکنیکی بنیاد پر فیصلہ کیا تھا، عدالت نے کیس کو بے بنیاد قرار نہیں دیا تھا جب کہ اپیل دائر نہ کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی، 4 سو روپے کے ملزم کی ضمانت ہو جائے تو نیب عدالت کا دروازہ توڑ دیتا ہے، چھوٹے ملزمان کے خلاف اپیل فوری دائر کر دی جاتی ہے۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ پراسیکیوٹر جنرل سے مشاورت کر کے ہی اپیل دائر کرتے ہیں جس پر جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ جہاں اپیل کا فیصلہ نہ کرنا ہو وہاں بات ہی نہیں سے شروع ہوتی ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ نیب نے نہیں لکھا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے جس پر چیئر مین نیب نے جواب دیا کہ میں اپیل دائر نہ کرنے کے فیصلے کا حصہ تھا، اپیل تیار کرنے والوں نے ہی کہہ دیا کہ فائدہ نہیں ہو گا۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اس وقت کے پراسیکیوٹر نے دوبارہ تحقیقات کی حد تک اپیل کرنے کا کہا تھا جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ اپیل دائر نہ کرنے سے متعلق قانونی رائے پر قائم ہوں، جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ عدالت کے دائرہ اختیار پر قانونی معاونت فراہم کروں گا، درخواستوں میں وزیر اعظم کی نااہلی مانگی گئی ہے اور نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلوں کی مثالیں موجود ہیں، حنیف عباسی نے عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کی درخواستیں دائر کیں لیکن حنیف عباسی کی درخواستوں کو پانامہ کیس سے منسلک نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک منفرد کیس ہے، اس کیس کے لیے منتخب کیا گیا فورم اسے دوسرے مقدمات سے منفرد بناتا ہے جب کہ درخواستیں کو وانٹو اور الیکشن پٹیشنرز کی نوعیت کی ہیں لہذا ایسی درخواستوں کی سماعت کرنا عدالت کا معمول نہیں، ایسے مقدمات کی سماعت عدالت کا دائرہ اختیار نہیں جب کہ ماضی میں بھی عدالت نے ایسی درخواستوں کو پذیرائی نہیں بخشی، عدالت کا وضع کردہ قانون تمام ارکان پارلے منٹ پر لاگو ہو گا۔
اٹارنی جنرل کے جواب پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو آرٹیکل 184 تین کے تحت عوامی مفاد کی درخواستیں سننے کا اختیار ہے،قانونی مثال دیں کہ عدالت نے اختیار ہوتے ہوئے استعمال نہ کیے ہوں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت ان کی آواز بنی ہے جو اپنی آواز خود نہیں اٹھا سکتے،عدالت نے ہمیشہ بنیادی حقوق کے مقدمات میں اپنا اختیار استعمال کیا۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ کر چکے ہیں جب کہ اختیارات کا استعمال کیس کے حقائق کے مطابق کیا جاتا ہے اور اچھے جج کبھی اپنے اختیارات پر قدغن نہیں لگاتے، جسٹس گلزار نے کہا کہ عدالت کا دائرہ اختیار محدود نہیں ہوتا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ دائرہ اختیار قانون کے مطابق ہی استعمال ہوتا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دیکھنا ہو گا عدالت کے پاس دستیاب ریکارڈ کیا ہے اور پھر یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا بنیادی حقوق متاثر ہوئے، کیا عدالت نے اس مقدمہ میں کسی کو سننے سے انکار کیا جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ فریقین کا متفق ہونا بھی عدالت کو اختیار نہیں دیتا اور عدالت نے شفاف ٹرائل کو بھی دیکھنا ہے اور بات مقدمہ سننے کی نہیں فیصلے کی ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا کسی کی غلط بیانی پر اس کو نا اہل کر سکتے ہیں جب کہ کونسا آدمی ہو گا جس نے بیوی سے جھوٹ نہیں بولا، بیوی فون کرے تو خاوند کہتا ہے راستے میں ہوں جب کہ خاوند دفتر میں بیٹھا کام کر رہا ہوتا ہے، صرف وہ شخص جو شادی شدہ نہیں وہ بیوی سے جھوٹ نہیں بولتا ہے۔
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ مسئلہ یہی ہے کہ ہر پہلو کے دوررس نتائج ہوں گے، کیس میں دلائل مکمل ہونے کے بعد ہزاروں دستاویزات جمع کروا دی گئیں لہذا جمع کرائی گئی غیر ضروری دستاویزات کو ہم نہیں پڑھیں گے جب کہ کیا 1.2ارب روپے ایسے ہی جانے دیں، ممکن ہے حدیبیہ پیپرز کیس کے الزامات درست ثابت نہ ہوں اور کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ عدالت کو نیب کو ہدایات نہیں دینی چاہیے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی بالکل عدالت کو نیب کے معاملے میں ہدایات نہیں دینی چاہیے کیونکہ اگر عدالت نے نیب کو ہدایات دیں تو بری مثال قائم ہو گی۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو کل اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل کے دلائل کے بعد نعیم بخاری جوابی دلائل دیں گے، جسٹس کھوسہ نے کہا اگر لکھ دیا کہ نیب نے قانون کی خلاف ورزی کی توچیئرمین عہدے پر نہیں رہ سکیں گے جب کہ صرف جواب الجواب کا موقع دیا جائے گا، مزید دستاویزات وصول نہیں کی جائیں گی۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ٹیکس چوری کا معاملہ ہے، عوام جاننا چاہتی ہے کس نے کتنا ٹیکس دیا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے آپ کل تک دلائل مکمل کرلیں گے، کوشش کریں گے پرسوں تک کیس کی سماعت مکمل ہوجائے، ایک دن درخواست گزاروں کے جواب الجواب کے لئے کافی ہوگا جب کہ کیس میں دلائل مکمل ہونے کے بعد غیر ضروری صفحات جمع کرائے گئے ہیں جس پر نعیم بخاری نے پوچھا کہ کیا آپ میری طرف اشارہ کررہے ہیں، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ غیر ضروری صفحات کا لفظ دونوں فریقین کے لیے استعمال کیا ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی ہے۔
سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کیس کی سماعت جمعرات تک مکمل کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے پاناما کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے چیئرمین ایف بی آر سے استفسار کیا کہ ایف بی آر نے پاناما پر وزارت خارجہ سے کب رابطہ کیا تھا ، پاناما لیکس پر آف شور کمپنیوں کے مالکان کو کب نوٹس جاری کئے تھے۔ جس پر ڈاکٹر ارشاد نے بتایا کہ 2 ستمبر 2016 کو 343 افراد کو نوٹسز جاری کئے گئے تھے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ 200 گز کا فاصلہ 6 ماہ میں طے کرنے پر آپ کو مبارک ہو، چیرمین ایف بی آر نے جواب میں کہا کہ آف شور کمپنیوں پر صرف ڈائریکٹرز کا نام ہونا کافی نہیں ہوتا اس کے اور بھی تقاضے ہوتے ہیں، 49 کمپنیاں ایسی ہیں جن کے ڈائریکٹرز کا تعلق پاکستان سے نہیں جبکہ 52 افراد ایسے ہیں جنہوں نے کمپنیوں کی ملکیت سے انکار کر دیا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ شریف فیملی کو نوٹس جاری کرنے پر کن کا جواب آیا۔ جس پر چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ حسن،حسین اور مریم نواز نے آف شور کمپنیوں پر جواب دیا، مریم نواز نے کہا ان کی بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں اوروہ کسی آف شور کمپنی کی بھی مالک نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا مریم نواز نے ٹرسٹی ہونے کا ذکر کیا۔ چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ مریم نے اپنے جواب میں ٹرسٹی ہونے سے متعلق کچھ نہیں کہا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ جواب موصول ہونے کے بعد آپ نے کیا اقدامات کیے، چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ ہم تمام معلومات کی تصدیق کر رہے ہیں۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ 7 گھنٹوں کےکام میں چیرمین ایف بی آر نے ایک سال لگا دیا، جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے آپ کوتصدیق کےلیے 30 سال درکارہیں، چیرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ ٹیکس بچانے کے معاملات کے لیے پاناما جنت ہے۔ پاکستان اور پاناما کے درمیان ٹیکس معلومات کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ ایف بی آر جو کر رہا ہے سب کے سامنے ہے، کون کب سے بیرون ملک ہے ایک گھنٹے میں پتا چل سکتا ہے، ریکارڈ دکھائیں کہ ٹریول ہسٹری کے لیے کس ادارے کو کب لکھا گیا، جس پر وکیل ایف بی آر کا کہنا تھا کہ عدالت کو دکھانے کےلیے ریکارڈ موجود نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو تحقیقات بڑھانے کے لیے عدالت کی مداخلت درکار ہے۔ ایف بی آر کے وکیل نے کہا کہ تسلیم کرتے ہیں کہ ادارے کی جانب سے فوری اقدامات نہیں کیے گئے لیکن ایک ایشو یہ بھی تھا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ دوسرے الفاظ میں آپ کا مطلب ہے ایف بی آر نے منی لانڈرنگ پر کچھ نہیں کیا۔ وکیل ایف بی آر نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے لیے الگ قوانین اور ادارے موجود ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے وکیل ایف بی آر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جہاں کارروائی کرنا ہوتی ہے ایف بی آر فوری کارروائی کرتا ہے، آپ کو فوری طور پر ایکشن لینا چاہیے تھا، جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ کوئی ادارہ کام کرتا تو کیس عدالت میں نہ آتا۔
عدالت نے چیر مین نیب کو روسٹرم پر بلایا جہاں چیر مین نیب کا کہنا تھا کہ نیب اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے، ستمبر 2016 میں معاملہ پبلک اکاوٴنٹس کمیٹی میں آیا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کمیٹی میں نیب کا موقف تھا کہ ہمارا دائرہ اختیار نہیں، چیئرمین نیب نے جواب دیا کہ نیب کا موقف ہے کہ متعلقہ ادارے کے بعد ہی کارروائی کر سکتے ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ کیا نیب آرڈی نینس میں کسی ریگولیٹر کا ذکر ہے، ریگولیٹر نیب کے کام میں رکاوٹ کیسے بن گیا جب کہ جسٹس گلزار نے چیر مین نیب سے استفسار کیا کہ کیا نیب کو بھی کوئی ریگولیٹ کرتا ہے جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کو اس کے قوانین ریگولیٹ کرتے ہیں۔
جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ نیب قانون چیئرمین کو کارروائی کا اختیار دیتا ہے، ریگولیٹر کا لفظ آخر کہاں سے آیا جب کہ قطری خط میں بھی ریگولیٹر آف پاکستان کا ذکر تھا لہذا پاکستان میں آخر ریگولیٹر ہے کون، کیا ریگولیٹر وہ ہے جو چیئرمین کو تعینات کرتا ہے، اوگرا اور نیپرا کا تو بطور ریگولیٹر سنا تھا لیکن نیب کا ریگولیٹر کون ہے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ آج پتہ چل گیا کہ نیب کا ریگولیٹر کون ہے، جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ نیب کی ٹیم کو سن کر افسوس ہوا، پراسیکیوٹر جنرل صاحب اب بس کر دیں، آپ نے معاونت کے بجائے عدالت کو گمراہ کرنا شروع کر دیا۔
جسٹس کھوسہ نے کہاکہ باپ سے پوچھو تو کہتا ہے بچوں سے پوچھو،بچے کہتے ہیں ہمیں دادا سے جائیداد ملی جب کہ نیب کہتا ہے کہ ہمیں ریگولیٹر کی اجازت کا انتظار ہے، سمجھ نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انوکھا مقدمہ ہے جس میں کسی ادارے کو دائرہ اختیار ہی نہیں، نیب کو تحقیقات کا اختیار نہیں تو آخر کس کے پاس ہے، سوال یہ ہے کہ آخر تحقیقات کرے گا کون اگر ادارے کام کرتے تو آج اتنا وقت اس کیس پر نہ لگتا۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کو کوئی ریگولیٹ نہیں کرتا، میری تعیناتی شفاف اور قانون کے مطابق ہے جس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو کہانیاں نہ سنائیں۔ جسٹس کھوسہ نے کہاکہ چیئرمین نیب کو تعینات کرنے والے بھی نہیں ہٹا سکتے، اللہ نے آپ کو ایسا عہدہ دیا ہے کہ آپ عوام کی خدمت کر سکیں، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ایک سال گزر گیا لیکن نیب نے کچھ نہیں کیا۔
جسٹس شیخ عظمت نے چیر مین نیب سے استفسار کیا کہ آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس آتا تو نیب انکوائری کرتا، جن کے نام پانامہ پیپرز میں آئے انہیں بلا کر پوچھتے تو سہی، کسی ایک بندے سے پوچھا کہ سرمایہ کہاں سے آیا۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ نیب کے لیے یہ اطلاعات نئی نہیں تھیں، ہائی کورٹ نے ریفرنس خارج کردیا تو پھر بھی مواد موجود تھا، نیب نے بینک اکاؤنٹس اور ٹرانزیکشنز پر کیا کارروائی کی جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ ہم کارروائی ضرور کریں گے۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ لوگوں کو امید تھی کہ آپ آف شور کمپنی والوں سے پوچھیں گے، سوال پوچھتے ہوئے نیب کا کیا جاتا تھا لہذا چیئرمین صاحب سوال تو پوچھ ہی لیا ہوتا جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ تاخیر ہوئی لیکن اپنا کام ضرور کروں گا، عدالت کو کارروائی کا یقین دلاتا ہوں جس پر جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ کیا کارروائی کریں گے آپ چیئرمین صاحب، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا آپ کے کام نہ کرنے کی وجہ وہ شخص ہے جس نے آپ کو تعینات کیا، نیب غیر سنجیدہ مقدمات میں بھی اپیل دائر کرتا ہے اور نیب وکلاء کہتے ہیں حکام بالا کو مطمئن کرنے کے لیے اپیل کرتے ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہائیکورٹ نے 1.2 ارب روپے کا ریفرنس خارج کردیا، ہائیکورٹ کے فیصلے پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ہائیکورٹ کے ریفری جج نے اس معاملے پر فیصلہ دیا جو ان کو بھجوایا ہی نہیں گیا، سوال یہ ہے کہ ریفری جج کو اپنی آبزرویشن دینا چاہیے تھی۔
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ نیب نے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی زحمت نہیں کی، کیا ہم نیب کو اپیل دائر کرنے کا حکم دے سکتے ہیں، انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں لہذا عدالت آپ سے معاونت چاہتی ہے، قطری کہتا ہے کہ 8 ملین ڈالرز التوفیق کیس میں اس نے ادا کیے جب کہ نیب کہتا ہے 8 ملین ڈالرز حدیبیہ پیپز ملز نے ادا کیے جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ مقدمہ ایف آئی اے نے تیار کیا تھا۔
جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ عدالت نے تکنیکی بنیاد پر فیصلہ کیا تھا، عدالت نے کیس کو بے بنیاد قرار نہیں دیا تھا جب کہ اپیل دائر نہ کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی، 4 سو روپے کے ملزم کی ضمانت ہو جائے تو نیب عدالت کا دروازہ توڑ دیتا ہے، چھوٹے ملزمان کے خلاف اپیل فوری دائر کر دی جاتی ہے۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ پراسیکیوٹر جنرل سے مشاورت کر کے ہی اپیل دائر کرتے ہیں جس پر جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ جہاں اپیل کا فیصلہ نہ کرنا ہو وہاں بات ہی نہیں سے شروع ہوتی ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ نیب نے نہیں لکھا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے جس پر چیئر مین نیب نے جواب دیا کہ میں اپیل دائر نہ کرنے کے فیصلے کا حصہ تھا، اپیل تیار کرنے والوں نے ہی کہہ دیا کہ فائدہ نہیں ہو گا۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اس وقت کے پراسیکیوٹر نے دوبارہ تحقیقات کی حد تک اپیل کرنے کا کہا تھا جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ اپیل دائر نہ کرنے سے متعلق قانونی رائے پر قائم ہوں، جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ عدالت کے دائرہ اختیار پر قانونی معاونت فراہم کروں گا، درخواستوں میں وزیر اعظم کی نااہلی مانگی گئی ہے اور نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلوں کی مثالیں موجود ہیں، حنیف عباسی نے عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کی درخواستیں دائر کیں لیکن حنیف عباسی کی درخواستوں کو پانامہ کیس سے منسلک نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک منفرد کیس ہے، اس کیس کے لیے منتخب کیا گیا فورم اسے دوسرے مقدمات سے منفرد بناتا ہے جب کہ درخواستیں کو وانٹو اور الیکشن پٹیشنرز کی نوعیت کی ہیں لہذا ایسی درخواستوں کی سماعت کرنا عدالت کا معمول نہیں، ایسے مقدمات کی سماعت عدالت کا دائرہ اختیار نہیں جب کہ ماضی میں بھی عدالت نے ایسی درخواستوں کو پذیرائی نہیں بخشی، عدالت کا وضع کردہ قانون تمام ارکان پارلے منٹ پر لاگو ہو گا۔
اٹارنی جنرل کے جواب پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو آرٹیکل 184 تین کے تحت عوامی مفاد کی درخواستیں سننے کا اختیار ہے،قانونی مثال دیں کہ عدالت نے اختیار ہوتے ہوئے استعمال نہ کیے ہوں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت ان کی آواز بنی ہے جو اپنی آواز خود نہیں اٹھا سکتے،عدالت نے ہمیشہ بنیادی حقوق کے مقدمات میں اپنا اختیار استعمال کیا۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ کر چکے ہیں جب کہ اختیارات کا استعمال کیس کے حقائق کے مطابق کیا جاتا ہے اور اچھے جج کبھی اپنے اختیارات پر قدغن نہیں لگاتے، جسٹس گلزار نے کہا کہ عدالت کا دائرہ اختیار محدود نہیں ہوتا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ دائرہ اختیار قانون کے مطابق ہی استعمال ہوتا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دیکھنا ہو گا عدالت کے پاس دستیاب ریکارڈ کیا ہے اور پھر یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا بنیادی حقوق متاثر ہوئے، کیا عدالت نے اس مقدمہ میں کسی کو سننے سے انکار کیا جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ فریقین کا متفق ہونا بھی عدالت کو اختیار نہیں دیتا اور عدالت نے شفاف ٹرائل کو بھی دیکھنا ہے اور بات مقدمہ سننے کی نہیں فیصلے کی ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا کسی کی غلط بیانی پر اس کو نا اہل کر سکتے ہیں جب کہ کونسا آدمی ہو گا جس نے بیوی سے جھوٹ نہیں بولا، بیوی فون کرے تو خاوند کہتا ہے راستے میں ہوں جب کہ خاوند دفتر میں بیٹھا کام کر رہا ہوتا ہے، صرف وہ شخص جو شادی شدہ نہیں وہ بیوی سے جھوٹ نہیں بولتا ہے۔
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ مسئلہ یہی ہے کہ ہر پہلو کے دوررس نتائج ہوں گے، کیس میں دلائل مکمل ہونے کے بعد ہزاروں دستاویزات جمع کروا دی گئیں لہذا جمع کرائی گئی غیر ضروری دستاویزات کو ہم نہیں پڑھیں گے جب کہ کیا 1.2ارب روپے ایسے ہی جانے دیں، ممکن ہے حدیبیہ پیپرز کیس کے الزامات درست ثابت نہ ہوں اور کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ عدالت کو نیب کو ہدایات نہیں دینی چاہیے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی بالکل عدالت کو نیب کے معاملے میں ہدایات نہیں دینی چاہیے کیونکہ اگر عدالت نے نیب کو ہدایات دیں تو بری مثال قائم ہو گی۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو کل اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل کے دلائل کے بعد نعیم بخاری جوابی دلائل دیں گے، جسٹس کھوسہ نے کہا اگر لکھ دیا کہ نیب نے قانون کی خلاف ورزی کی توچیئرمین عہدے پر نہیں رہ سکیں گے جب کہ صرف جواب الجواب کا موقع دیا جائے گا، مزید دستاویزات وصول نہیں کی جائیں گی۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ٹیکس چوری کا معاملہ ہے، عوام جاننا چاہتی ہے کس نے کتنا ٹیکس دیا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے آپ کل تک دلائل مکمل کرلیں گے، کوشش کریں گے پرسوں تک کیس کی سماعت مکمل ہوجائے، ایک دن درخواست گزاروں کے جواب الجواب کے لئے کافی ہوگا جب کہ کیس میں دلائل مکمل ہونے کے بعد غیر ضروری صفحات جمع کرائے گئے ہیں جس پر نعیم بخاری نے پوچھا کہ کیا آپ میری طرف اشارہ کررہے ہیں، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ غیر ضروری صفحات کا لفظ دونوں فریقین کے لیے استعمال کیا ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی ہے۔