انسان دوسروں کو بھی زندہ رہنے دے
اتفاق سے اس وقت میرے سامنے چند جنگلی منظر کھلے ہیں اور جانور اور پرندے ان میں زندگی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
میں نے اپنے افسر اعلیٰ سے پوچھا کہ درد کمر کا کیا علاج ہے، جواب ملا مکمل آرام اور اس آرام کا مطلب ہے دفتر سے چھٹی کہ جب آپ کو قلم دوات لے کر لکھنا ہو تو آرام کہاں لیکن اس کا علاج یہی ہے۔ رات بھر سوتا ہوں اور اس طرح آرام کرتا ہوں تو صبح کے وقت بھلا چنگا ہوتا ہوں، کسی درد کا پتہ بھی نہیں ہوتا لیکن تھوڑی دیر بعد جب روزمرہ کا روزگار شروع کرتا ہوں تو نہ جانے یہ درد کہاں سے نمودار ہو جاتا ہے اور ایسی بے حیائی سے کہ قلم تک نہیں چلا سکتا۔ کمر کو ہلا جلا نہیں سکتا اور قلم کا مکمل آرام لکھنے وکھنے سے محرومی کا نام ہے اور دوسرے الفاظ میں چھٹی۔ اگر یہ چھٹی ذرا لمبی ہو جائے تو پھر چھٹی ہی چھٹی۔
اس وقت میرے سامنے بھارت کا ریگستان جودھ پور ہے جس کی فضا میں پر کھولے درندے اڑ رہے ہیں اور ان کے پنجے زمین پر اور مکانوں کی چھتوں پہ نہ جانے کیا پڑا ہے کہ وہ باری باری اس پر جھپٹ رہے ہیں اور اپنی روزی تلاش کر رہے ہیں۔ پرندے فضاؤں اور ہواؤں سے جھپٹتے ہیں اور زمین پر مقیم انسان جہاں تک ہاتھ پڑتا ہے وہ کچھ نہ کچھ چھین لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ غرض ہواؤں فضاؤں اور زمین پر چھینا چھپٹی کا عالم ہے اور کہیں یہ عالم نہیں ہے تو وہ میرے اندر نہیں ہے کہ مجھے درد کمر ہے اور میں زیادہ ہل جل نہیں سکتا۔
کچھ تھوڑی بہت کوشش ضرور کرتا ہوں مگر میرے سامنے ناچتے ہوئے بندر مجھ سے کہیں زیادہ تیز ہیں۔ میں ایک ایسی آبادی کے سامنے بیٹھا ہوں جس پر بندروں کا راج ہے۔ یہ تیز طرار بندر سب پر بھاری ہیں۔ اگرچہ ان کے اندر کوئی خاص طاقت نہیں ہے لیکن قدرت نے ان کے جسموں میں ایسی چستی اور چالاکی بھر دی ہے کہ وہ انسانوں پر بھاری ہو گئے ہیں۔ انسان ان کی آپس کی لڑائی کا تماشا دیکھ سکتے ہیں اور لطف اندوز بھی ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ دور ہے۔ اس وقت میرے سامنے ایک درخت کی شاخ پر ایک بہت خوبصورت پرندہ بیٹھا ہے، انسانوں سے محفوظ اور بندوق کی گولی سے بھی محفوظ مگر ہماری خوبصورت مخلوق کو کون بے رحم اپنا نشانہ بنا سکتا ہے۔
قدرت نے اسے انسان کے نشانے پر بٹھا دیا ہے لیکن اس کے بال و پر میں اتنا حسن بھر دیا کہ شکاری انسان اسے دیکھتا رہ جاتا ہے۔ اپنے پاس شکار کے تمام اسباب کے باوجود اس کی طرف بڑھ نہیں سکتا۔ قدرت نے اس کے وجود میں اس قدر دلکشی بھر دی ہے کہ وہ اس کے حسن کے نظارے میں گم ہوجاتا ہے۔ اسی گمشدگی میں اس پرندے یا جانور کی زندگی ہے جس کا حسن کسی انسان کو مبہوت کر دیتا ہے لیکن اس کے اندر چھپی ہوئی وحشت پھر بھی زندہ رہتی ہے اور یہی وحشت کسی کی جان کا خطرہ ہے۔
اتفاق سے اس وقت میرے سامنے چند جنگلی منظر کھلے ہیں اور جانور اور پرندے ان میں زندگی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یوں تو خدا کی زمین پر بسنے والے انسان بھی جانوروں کے نشانے پر ہیں اور جب کسی کو موقع ملتا ہے وہ کسی کو شکار کر لیتا ہے لیکن اس کے باوجود انسانوں کے پاس اپنے بچاؤ کے ہتھیار بہت ہیں اور وہ ان درندوں سے بچ نکلتے ہیں مگر انسانوں کی طرح ان کی زندگی بھی خطرے میں گھری رہتی ہے۔ میں نے کل پرسوں دیکھا کہ ایک جنگل میں انسان اور جانوروں کی لاشیں پڑی ہیں یہ سب ان درندوں سے بچ نہ سکے اور ان کی خونریزی کی نذر ہو گئے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ پرندے اور چھوٹے موٹے جانور شکار بنتے رہتے ہیں اور کسی اخبار میں چند سطروں کی خبر چھپ جاتی ہے لیکن انسانوں کی بدقسمتی دیکھیے کہ اب خود ان انسانوں کے ہاتھوں سے بم دھماکے ہو رہے ہیں اور کسی ایک دھماکے میں نہ جانے کتنی جانیں ضایع ہو جاتی ہیں۔
تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسے کئی دھماکے انسانوں کے نہایت ہی مقدس مقامات پر ہوتے ہیں جن میں زائرین کی ایک بڑی تعداد لقمہ اجل بن جاتی ہے کسی اجر اور ثواب کے بغیر کتنے ہی مزار ہیں جن پر کبھی نہ کبھی ایسے خون ریز حادثے ہو چکے ہیں اور نہ جانے کتنے بے گناہ انسان ان حادثوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ اس حال میں ان کی میتیں بھی دستیاب نہیں ہوتیں۔
معلوم نہیں انسان اس قدر ظلم پر کیوں اتر آتے ہیں جب کہ وہ خود بھی کسی وقت ایسے کسی ظلم کا شکار ہو سکتے ہیں لیکن انسانوں نے دوسرے انسانوں کو اپنے سامنے ختم ہونے اور زندگی سے محروم دیکھا مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ انسانوں کی موت کا یہ سلسلہ جاری ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ کب تک جاری رہے گا۔
ہم انسانوں نے بارہا دیکھا ہے کہ ایک گروہ کسی خوفناک ہتھیار سے آناً فاناً ختم ہو گیا اور اس کا کچھ پتہ نہ چلا کیونکہ اس کا نشان تک مٹ گیا اور تدفین کے لیے میت بھی دستیاب نہ ہوئی۔ عزیز و اقارب رو پیٹ کر چپ ہو گئے۔ ایسے حادثے اکثر ہوتے رہتے ہیں اور انسان دوسرے انسانوں کی تباہی کا سبب بن جاتے ہیں۔ یہ ایک سلسلہ ہے جو انسانی زندگی میں جاری رہتا ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا کیونکہ انسانی وحشت کی کوئی حد نہیں ہے۔ میں یہ سب کچھ پر امن اور انسان پرور انسانوں کے لیے عرض کر رہا ہوں جن کو زندگی کی ضرورت ہے اور جو امن کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔
ہم انسان اگر انسان ہی رہیں کسی وحشت اور درندگی پر نہ اتریں تو یہ دنیا امن و امان کی دنیا بن سکتی ہے اور جہاں انسانوں نے انسانیت سے کام لیا وہاں کی زندگی میں امن ہے اور خود انسان ایک خوبصورت زندگی بسر کرتے رہے۔ آج بھی آپ ایسی بستیوں کو دیکھ سکتے ہیں جو اس کا ایک نمونہ ہیں لیکن بشرطیکہ انسان دوسروں کو بھی زندہ رہنے دے۔
اس وقت میرے سامنے بھارت کا ریگستان جودھ پور ہے جس کی فضا میں پر کھولے درندے اڑ رہے ہیں اور ان کے پنجے زمین پر اور مکانوں کی چھتوں پہ نہ جانے کیا پڑا ہے کہ وہ باری باری اس پر جھپٹ رہے ہیں اور اپنی روزی تلاش کر رہے ہیں۔ پرندے فضاؤں اور ہواؤں سے جھپٹتے ہیں اور زمین پر مقیم انسان جہاں تک ہاتھ پڑتا ہے وہ کچھ نہ کچھ چھین لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ غرض ہواؤں فضاؤں اور زمین پر چھینا چھپٹی کا عالم ہے اور کہیں یہ عالم نہیں ہے تو وہ میرے اندر نہیں ہے کہ مجھے درد کمر ہے اور میں زیادہ ہل جل نہیں سکتا۔
کچھ تھوڑی بہت کوشش ضرور کرتا ہوں مگر میرے سامنے ناچتے ہوئے بندر مجھ سے کہیں زیادہ تیز ہیں۔ میں ایک ایسی آبادی کے سامنے بیٹھا ہوں جس پر بندروں کا راج ہے۔ یہ تیز طرار بندر سب پر بھاری ہیں۔ اگرچہ ان کے اندر کوئی خاص طاقت نہیں ہے لیکن قدرت نے ان کے جسموں میں ایسی چستی اور چالاکی بھر دی ہے کہ وہ انسانوں پر بھاری ہو گئے ہیں۔ انسان ان کی آپس کی لڑائی کا تماشا دیکھ سکتے ہیں اور لطف اندوز بھی ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ دور ہے۔ اس وقت میرے سامنے ایک درخت کی شاخ پر ایک بہت خوبصورت پرندہ بیٹھا ہے، انسانوں سے محفوظ اور بندوق کی گولی سے بھی محفوظ مگر ہماری خوبصورت مخلوق کو کون بے رحم اپنا نشانہ بنا سکتا ہے۔
قدرت نے اسے انسان کے نشانے پر بٹھا دیا ہے لیکن اس کے بال و پر میں اتنا حسن بھر دیا کہ شکاری انسان اسے دیکھتا رہ جاتا ہے۔ اپنے پاس شکار کے تمام اسباب کے باوجود اس کی طرف بڑھ نہیں سکتا۔ قدرت نے اس کے وجود میں اس قدر دلکشی بھر دی ہے کہ وہ اس کے حسن کے نظارے میں گم ہوجاتا ہے۔ اسی گمشدگی میں اس پرندے یا جانور کی زندگی ہے جس کا حسن کسی انسان کو مبہوت کر دیتا ہے لیکن اس کے اندر چھپی ہوئی وحشت پھر بھی زندہ رہتی ہے اور یہی وحشت کسی کی جان کا خطرہ ہے۔
اتفاق سے اس وقت میرے سامنے چند جنگلی منظر کھلے ہیں اور جانور اور پرندے ان میں زندگی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یوں تو خدا کی زمین پر بسنے والے انسان بھی جانوروں کے نشانے پر ہیں اور جب کسی کو موقع ملتا ہے وہ کسی کو شکار کر لیتا ہے لیکن اس کے باوجود انسانوں کے پاس اپنے بچاؤ کے ہتھیار بہت ہیں اور وہ ان درندوں سے بچ نکلتے ہیں مگر انسانوں کی طرح ان کی زندگی بھی خطرے میں گھری رہتی ہے۔ میں نے کل پرسوں دیکھا کہ ایک جنگل میں انسان اور جانوروں کی لاشیں پڑی ہیں یہ سب ان درندوں سے بچ نہ سکے اور ان کی خونریزی کی نذر ہو گئے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ پرندے اور چھوٹے موٹے جانور شکار بنتے رہتے ہیں اور کسی اخبار میں چند سطروں کی خبر چھپ جاتی ہے لیکن انسانوں کی بدقسمتی دیکھیے کہ اب خود ان انسانوں کے ہاتھوں سے بم دھماکے ہو رہے ہیں اور کسی ایک دھماکے میں نہ جانے کتنی جانیں ضایع ہو جاتی ہیں۔
تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسے کئی دھماکے انسانوں کے نہایت ہی مقدس مقامات پر ہوتے ہیں جن میں زائرین کی ایک بڑی تعداد لقمہ اجل بن جاتی ہے کسی اجر اور ثواب کے بغیر کتنے ہی مزار ہیں جن پر کبھی نہ کبھی ایسے خون ریز حادثے ہو چکے ہیں اور نہ جانے کتنے بے گناہ انسان ان حادثوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ اس حال میں ان کی میتیں بھی دستیاب نہیں ہوتیں۔
معلوم نہیں انسان اس قدر ظلم پر کیوں اتر آتے ہیں جب کہ وہ خود بھی کسی وقت ایسے کسی ظلم کا شکار ہو سکتے ہیں لیکن انسانوں نے دوسرے انسانوں کو اپنے سامنے ختم ہونے اور زندگی سے محروم دیکھا مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ انسانوں کی موت کا یہ سلسلہ جاری ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ کب تک جاری رہے گا۔
ہم انسانوں نے بارہا دیکھا ہے کہ ایک گروہ کسی خوفناک ہتھیار سے آناً فاناً ختم ہو گیا اور اس کا کچھ پتہ نہ چلا کیونکہ اس کا نشان تک مٹ گیا اور تدفین کے لیے میت بھی دستیاب نہ ہوئی۔ عزیز و اقارب رو پیٹ کر چپ ہو گئے۔ ایسے حادثے اکثر ہوتے رہتے ہیں اور انسان دوسرے انسانوں کی تباہی کا سبب بن جاتے ہیں۔ یہ ایک سلسلہ ہے جو انسانی زندگی میں جاری رہتا ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا کیونکہ انسانی وحشت کی کوئی حد نہیں ہے۔ میں یہ سب کچھ پر امن اور انسان پرور انسانوں کے لیے عرض کر رہا ہوں جن کو زندگی کی ضرورت ہے اور جو امن کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔
ہم انسان اگر انسان ہی رہیں کسی وحشت اور درندگی پر نہ اتریں تو یہ دنیا امن و امان کی دنیا بن سکتی ہے اور جہاں انسانوں نے انسانیت سے کام لیا وہاں کی زندگی میں امن ہے اور خود انسان ایک خوبصورت زندگی بسر کرتے رہے۔ آج بھی آپ ایسی بستیوں کو دیکھ سکتے ہیں جو اس کا ایک نمونہ ہیں لیکن بشرطیکہ انسان دوسروں کو بھی زندہ رہنے دے۔