تھینک یو ۔ مسٹر پرائم منسٹر
راقم جب اے ایس پی بنکر محافظوں کے قافلے میں شامل ہوا تو وہ شہداء کی بے قدری کا بدترین دور تھا۔
دھرتی کی محبت میں پولیس کے کڑیل جوانوں اور دلیر افسروں نے اپنا خون دیکر بڑے قرض اتارے ہیں، شہریوں کی جانیں بچانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے سے کوئی بھی گریز نہیں کررہا، کوئی پیچھے نہیں ہٹ رہا۔ اگر ایک مورچے سے شہیدوں کی میّتیں اُٹھائی جاتی ہیں تو چند منٹوں میں ان کی جگہ لینے کے لیے تازہ جذبوں سے سرشار نئے جوان اور افسر پہنچ جاتے ہیں۔ ملک کے امن اور شہریوں کے تحفظ کے لیے سب سینہ سپر ہیں اور سپاہی سے لے کر آئی جی تک نے وطنِ عزیز کے لیے جانیں نچھاور کردی ہیں۔
چند روز قبل لاہور میں پھر سینئر پولیس افسر مادرِ وطن پر قربان ہوگئے۔کیپٹن مبین۔ جوانِ رعنا۔ہنستا مسکراتا۔ سب کا دوست ۔ سب کا خیرخواہ، اور زاہد گوندل۔ فرشتہ سیرت انسان جس نے ہر جگہ اپنی یونیفارم کے وقار اور اعتبار میں اضافہ کیا۔ ایسے سرفروشوں اور قوم کے محسنوں کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے، انھیں کون بھول سکتاہے!
یہ بات اطمینان بخش ہے کہ ملک کے وزیرِ اعظم اور پنجاب کے وزیرِ اعلی نے شہداء کے گھروں میں جاکر ان کے والدین کو گلے لگایا، ان کے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھا، انھیں پیار کیا اور انھیں بتایا کہ جس ملک پر ان کے پیاروں نے جانیں قربان کی ہیں اس ملک کی حکومت آپ کے ساتھ کھڑی ہے، آپ کے غم میں برابر کی شریک ہے اور آپکی مشکلات اور مسائل حل کرنے میں بھرپور حصّہ ڈالنے کے لیے حاضر ہے۔
راقم جب اے ایس پی بنکر محافظوں کے قافلے میں شامل ہوا تو وہ شہداء کی بے قدری کا بدترین دور تھا، قوم کے لیے جان دینے والوں کے ورثاء کے لیے صرف ساٹھ ہزار کا ''پیکیج'' تھا اور بس۔ میں کبھی کسی شہید کے بوڑھے والد کو دفتروں میں خوارہوتے اور دھّکے کھاتے یا کسی شہید کی بیوہ کو کسی حرام خور اور بدتمیز کلرک کی منتّیں کرتے دیکھتا تو لَرز اُٹھتا اورسوچتا کہ ہم کتنے سنگدل لوگ ہیں اور یہ کتنی احسان فراموش قوم ہے۔ اپنے محسنوں کے ورثاء کے ساتھ بھی ہم ایسا سلوک کرتے ہیں۔
اُسوقت میرے کانوں میں شہید کی بیوہ کے وہ بَین گونج اُٹھتے ''ہمیں کس کے سپرد کرکے جارہے ہو؟'' مَیں ایہہ اوکھے پَینڈے کویں گزاراں دی؟ (میں یہ مشکل راستے کیسے طے کروں گی) ۔ پوری قوم ملکر کسی شہید کے بہنے والے خون کی ایک بوند کا بدلہ نہیں چکا سکتی۔ جنہوں نے اپنی قیمتی ترین متاع۔ اپنی زندگی دوسروں کی زندگیاں بچانے کے لیے نچھاور کردی، اُن کے باپ اور ان کی بیوائیں کبھی کسی دفتر آئیں تو دفتر کے تمام لوگوں کو کھڑے ہوکر ان کا استقبال کرنا چاہیے۔ مگر وہ دفتروں میں کیوں آئیں! اُنہیں دفتروں کے چکّر کیوں لگانے پڑیں! شہید پیکیج کی رقم اُنکے گھرپر پہنچنی چاہیے۔
راقم نے ڈویژن کی کمان سنبھال کر واضح احکامات دیے تھے کہ ''اگر کسی شہید کی بیوہ یا باپ کو دفتروں کے چکّر لگانے پڑے تو ضلعے کے ایس پی (ڈی پی او) کو نااہل اور قصور وار سمجھا جائیگا''۔ وزیرِاعظم ایک حکم کے تحت تمام آئی جی صاحبان کو پابند کریں کہ شہداء کے ورثاء کے لیے مالی امداد ان کے گھروں پر پہنچائی جائے اور ان کے کسی عزیزکو دفتروں کا چکر نہ لگانا پڑے۔
ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ شہداء کے ورثاء کے لیے امدادی رقم بڑھانے میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے ہمیشہ پہل کی ہے، 2008تک شہداء کے ورثاء کے لیے امدادی رقم معمولی (ہزاروں میں) اور توہین آمیز تھی۔ جلاوطنی سے واپس آکر وزیرِ اعلیٰ بنتے ہی شہباز شریف صاحب نے یہ رقم بڑھا کر پانچ لاکھ کردی پھر پانچ سے دس لاکھ ،پھر کچھ دیر بعد اسے بیس لاکھ کردیا۔ پھر چند سالوں بعد اسے تیس لاکھ کردیا گیا۔ 2014میں موٹروے پولیس نے شہداء کے وارثوں کے لیے پچھتّر لاکھ روپے منظور کیے۔2016 میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب پھر لیڈ لے گئے اور پنجاب میں شہید پیکیج ایک کروڑ روپے کردیا ۔
سانحہء مال روڈ کے بعد جب وزیرِ اعظم خود پولیس شہداء کے گھر گئے اور ان کے ورثاء سے ملے تو انھیں یقیناً اندازہ ہوگیا ہوگا کہ گھر کا سربراہ نہ رہے تو گھر کی چھت اُڑجاتی ہے۔ افسر کے بعد اس کی فیملی عرش سے فرش پر آجاتی ہے، کنبے کا سائبان ٹوٹ جاتا ہے۔ شہید کی رفیقۂ حیات کو تن تنہا بچوں کی انگلی پکڑ کر زندگی کا لق و دق صحرا پار کرنا ہوتا ہے۔ قدم قدم پر اسے توہین آمیز رویّوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک طویل آزمائش اور امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ نرم اور کھلے دل کے نوازشریف صاحب سے یہی توقع تھی۔ انھوں نے جوکیا ہے وہ صرف وہی کرسکتے تھے، انھوں نے وہ پیکیج منظور کیا ہے جو شہداء کے ورثاء کے شایانِ شان ہے۔ وزیرِ اعظم کی ہدایت پر اب شہداء کے ورثاء کے لیے ایک ایسا باعزت پیکیج دیا جائیگا جس میں پوری کوشش کی گئی ہے کہ ورثاء اُسی طرح باوقار زندگی گزارسکیں جس طرح شہید افسر کے ہوتے ہوئے گزارتے تھے۔
مال روڈ پر شہید ہونے والے پولیس کے دونوں سینئر افسروں کے ورثاء کو پانچ پانچ کروڑ روپے ادا کیے گئے ہیں۔ سابقہ روایت یہ تھی کہ صوبائی حکومت شہید کی بیوہ اور بچوں کو چند سال کے لیے سرکاری مکان میں رہنے کی اجازت دے دیتی تھی، جہاں حکومت بے نیازہوتی وہاں شہید کا چالیسواں ہونے سے پہلے ہی اس کا کوئی اور کولیگ اس کی بیوہ سے مکان خالی کرانے پہنچ جاتا تھا۔سب سے پہلے توشہید کی فیملی کو سرچھپانے کے لیے چَھت کی ضرورت ہوتی ہے۔
وزیرِ اعظم کے منظور شدہ پیکیج کیمطابق اب شہداء کے ورثاء کو ایک ایک کنال کا تعمیر شدہ گھر فراہم کیا جائیگا، ان کے بچوں کو ماسٹرز تک بہترین اسکولوں میں مفت تعلیم دی جائے گی، بچوں نے بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنی ہے تو بھی مالی مدد فراہم کی جائے گی، بیوی اگر نوکری کرنا چاہے تو اسے گریڈ 17میں نوکری دی جائے گی۔ شہید کی بیٹیوں کے لیے جہیز کا پورا سامان حکومت تیار کرکے دیگی۔ جو کانسٹیبل شہید ہوئے ہیں ان کے پسماندگان کے لیے ایک ایک کروڑ روپے کے علاوہ دس دس مرلے کے تعمیر شدہ گھر، بچوں کی مفت تعلیم اور بیٹیوں کے جہیز کا مکمل سامان حکومت فراہم کریگی۔ اس باعزت پیکیج پر ہم وزیرِ اعظم صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ تھینک یو پرائم منسٹر صاحب اور تھینک یو شہباز شریف صاحب۔
سنا ہے شہباز شریف شہداء کی فیمیلیز سے ملنے ان کے گھر گئے تو انھیں کہا کہ '' ہم آپ کا بیٹا یا آپ کا شوہر تو واپس نہیں لاسکتے لیکن آپکے لیے اتنا بندوبست ضرور کریں گے۔ کہ زندگی کی آسائشوں کے ضمن میں آپکو کوئی کمی محسوس نہ ہواور یہ کوئی احسان نہیں ہے یہ ہمارا فرض ہے'' شہباز شریف صاحب ! آپ نے ٹھیک سوچا اور ٹھیک کہا۔ احسان تو شہیدوں کا ہے جو اتارا ہی نہیں جاسکتا، ان کی فیملیز کی مشکلات کم کرنے کے لیے جو کچھ بھی کیا جائے کم ہے۔ مگر آپ نے جو کردیا ہے اُس پر ہم سب آپ کے مشکور ہیں۔
شہداء اپنے لہو سے پولیس کے دامن پر لگے داغ دھوتے ہیں مگر کچھ حرام خور اور راشی اہلکار اپنی مجرمانہ حرکتوں سے پھر اس ادارے کے دامن کو داغدار کریتے ہیں اور تشویشناک امر یہ ہے کہ ان بدبخت عناصر کو سیاسی پناہ بھی مل جاتی ہے۔ سیاسی قیادت کو بھی شہدائے مال روڈ کے خون کی قسم اٹھاکر یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ بدنام پولیس افسروں کو کبھی قریب نہ آنے دیں گے اور ان کی کبھی سپورٹ یا سفارش نہیں کریں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ بدطینت ہمسائے کی موجودگی میں دھشت گردی کے ناسور کا مکمّل خاتمہ فوراً نہیں۔ایک طویل جنگ کے بعد ہوگا۔ اتنی نہیں جتنی طویل جنگ سری لنکا جیسے چھوٹے سے ملک نے بڑی جرأت اور استقلال کے ساتھ لڑی تھی۔ پورے ستائیس سال مگر قوم کو طویل جدّوجہد کے لیے ذہنی طور پر تیّار ہونا ہوگا۔ شمشیریں تیز اور گھوڑے تیّار رکھنے ہوں گے اور یہ جنگ جیتنے کے لیے کونسی شمشیریں درکار ہیں۔
اتحّاد، حوصلہ، استقلال، مالی اور جانی قربانی دینے کا جذبہ، پابندیاں۔ ہرطبقۂ فکر کو اپنے اوپر کچھ پابندیاں لگانا ہونگی، عیاشانہ زندگی اور اسراف سے پرہیز کرنا ہوگا اور سب سے بڑھکر میڈیا کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا ، اپنے مقاصد کا نئے سرے سے تعیّن کرنا ہوگا اور ہیجان انگیزی اور مقدس رشتوں کا تقدّس پامال کرنے کی مذموم روش چھوڑنا ہوگی۔
بی بی سی اور سی این این کے اینکر کسی بھی موضوع پر بڑی عرق ریزی اور تحقیق کے بعد بحث کرتے ہیں اسی لیے موضوع کے بارے میں ان کی معیاری گفتگو سنکر ہر شخص متاثر ہوتا ہے۔ مگر ہمارے اکثر اینکر موضوع کے بارے میں بہت سطحی معلومات کے ساتھ بحث کا الاؤ بھڑکا دیتے ہیں۔
یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے وہ کراچی میں ہونے والے مختلف آپریشنز، پولیس کے نظام میں اصلاحات ، پولیس آرڈر 2002کے فوائد و نقصانات، سیاسی مداخلت کی جہتیں، پولیس لیڈر شپ کے تقاضے، پولیس پر چیک اور کنٹرول، پبلک سیفٹی کمیشن جیسے اہم موضوعات پر پڑھے سنے بغیر ہی تیر اندازی کررہے ہوتے ہیں، برسوں پہلے جب میں نیشنل پولیس اکیڈیمی میں نوجوان افسروں کو تربیّت دیتا تھا سیدطلعت حسین نے پولیس آرڈر پر پروگرام کی میزبانی کرنا تھی وہ میرے پاس آئے اور گھنٹوں بیٹھ کر موضوع کے مختلف زاویوں پر تبادلہِ خیال کرتے رہے۔
کل ایک معقول اینکر کہہ رہا تھا کہ ''پہلے پبلک سیفٹی کمیشن ہوتے تھے اب پولیس پر کوئی چیک نہیں رہا''۔ اَرے بھائی کب ہوتے تھے؟ پبلک سیفٹی کمیشن تو نہ بن سکے نہ چل سکے اور نہ وہ چل سکتے تھے، کیونکہ وہ چلنے کے قابل ہی نہ تھے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو پڑھنے اور تحقیق کرکے بات کرنے کی عادت ڈالے۔آمین
چارسدہ میں محافظوں نے جس بے مثال جرأت کا مظاہرہ کیا ، یہ پختون محافظوں کے شایان شان ہے، ان سے یہی توقع تھی۔ انھیں سلام، اس واقعہ پر پھر تحریر کروں گا۔
چند روز قبل لاہور میں پھر سینئر پولیس افسر مادرِ وطن پر قربان ہوگئے۔کیپٹن مبین۔ جوانِ رعنا۔ہنستا مسکراتا۔ سب کا دوست ۔ سب کا خیرخواہ، اور زاہد گوندل۔ فرشتہ سیرت انسان جس نے ہر جگہ اپنی یونیفارم کے وقار اور اعتبار میں اضافہ کیا۔ ایسے سرفروشوں اور قوم کے محسنوں کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے، انھیں کون بھول سکتاہے!
یہ بات اطمینان بخش ہے کہ ملک کے وزیرِ اعظم اور پنجاب کے وزیرِ اعلی نے شہداء کے گھروں میں جاکر ان کے والدین کو گلے لگایا، ان کے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھا، انھیں پیار کیا اور انھیں بتایا کہ جس ملک پر ان کے پیاروں نے جانیں قربان کی ہیں اس ملک کی حکومت آپ کے ساتھ کھڑی ہے، آپ کے غم میں برابر کی شریک ہے اور آپکی مشکلات اور مسائل حل کرنے میں بھرپور حصّہ ڈالنے کے لیے حاضر ہے۔
راقم جب اے ایس پی بنکر محافظوں کے قافلے میں شامل ہوا تو وہ شہداء کی بے قدری کا بدترین دور تھا، قوم کے لیے جان دینے والوں کے ورثاء کے لیے صرف ساٹھ ہزار کا ''پیکیج'' تھا اور بس۔ میں کبھی کسی شہید کے بوڑھے والد کو دفتروں میں خوارہوتے اور دھّکے کھاتے یا کسی شہید کی بیوہ کو کسی حرام خور اور بدتمیز کلرک کی منتّیں کرتے دیکھتا تو لَرز اُٹھتا اورسوچتا کہ ہم کتنے سنگدل لوگ ہیں اور یہ کتنی احسان فراموش قوم ہے۔ اپنے محسنوں کے ورثاء کے ساتھ بھی ہم ایسا سلوک کرتے ہیں۔
اُسوقت میرے کانوں میں شہید کی بیوہ کے وہ بَین گونج اُٹھتے ''ہمیں کس کے سپرد کرکے جارہے ہو؟'' مَیں ایہہ اوکھے پَینڈے کویں گزاراں دی؟ (میں یہ مشکل راستے کیسے طے کروں گی) ۔ پوری قوم ملکر کسی شہید کے بہنے والے خون کی ایک بوند کا بدلہ نہیں چکا سکتی۔ جنہوں نے اپنی قیمتی ترین متاع۔ اپنی زندگی دوسروں کی زندگیاں بچانے کے لیے نچھاور کردی، اُن کے باپ اور ان کی بیوائیں کبھی کسی دفتر آئیں تو دفتر کے تمام لوگوں کو کھڑے ہوکر ان کا استقبال کرنا چاہیے۔ مگر وہ دفتروں میں کیوں آئیں! اُنہیں دفتروں کے چکّر کیوں لگانے پڑیں! شہید پیکیج کی رقم اُنکے گھرپر پہنچنی چاہیے۔
راقم نے ڈویژن کی کمان سنبھال کر واضح احکامات دیے تھے کہ ''اگر کسی شہید کی بیوہ یا باپ کو دفتروں کے چکّر لگانے پڑے تو ضلعے کے ایس پی (ڈی پی او) کو نااہل اور قصور وار سمجھا جائیگا''۔ وزیرِاعظم ایک حکم کے تحت تمام آئی جی صاحبان کو پابند کریں کہ شہداء کے ورثاء کے لیے مالی امداد ان کے گھروں پر پہنچائی جائے اور ان کے کسی عزیزکو دفتروں کا چکر نہ لگانا پڑے۔
ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ شہداء کے ورثاء کے لیے امدادی رقم بڑھانے میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے ہمیشہ پہل کی ہے، 2008تک شہداء کے ورثاء کے لیے امدادی رقم معمولی (ہزاروں میں) اور توہین آمیز تھی۔ جلاوطنی سے واپس آکر وزیرِ اعلیٰ بنتے ہی شہباز شریف صاحب نے یہ رقم بڑھا کر پانچ لاکھ کردی پھر پانچ سے دس لاکھ ،پھر کچھ دیر بعد اسے بیس لاکھ کردیا۔ پھر چند سالوں بعد اسے تیس لاکھ کردیا گیا۔ 2014میں موٹروے پولیس نے شہداء کے وارثوں کے لیے پچھتّر لاکھ روپے منظور کیے۔2016 میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب پھر لیڈ لے گئے اور پنجاب میں شہید پیکیج ایک کروڑ روپے کردیا ۔
سانحہء مال روڈ کے بعد جب وزیرِ اعظم خود پولیس شہداء کے گھر گئے اور ان کے ورثاء سے ملے تو انھیں یقیناً اندازہ ہوگیا ہوگا کہ گھر کا سربراہ نہ رہے تو گھر کی چھت اُڑجاتی ہے۔ افسر کے بعد اس کی فیملی عرش سے فرش پر آجاتی ہے، کنبے کا سائبان ٹوٹ جاتا ہے۔ شہید کی رفیقۂ حیات کو تن تنہا بچوں کی انگلی پکڑ کر زندگی کا لق و دق صحرا پار کرنا ہوتا ہے۔ قدم قدم پر اسے توہین آمیز رویّوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک طویل آزمائش اور امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ نرم اور کھلے دل کے نوازشریف صاحب سے یہی توقع تھی۔ انھوں نے جوکیا ہے وہ صرف وہی کرسکتے تھے، انھوں نے وہ پیکیج منظور کیا ہے جو شہداء کے ورثاء کے شایانِ شان ہے۔ وزیرِ اعظم کی ہدایت پر اب شہداء کے ورثاء کے لیے ایک ایسا باعزت پیکیج دیا جائیگا جس میں پوری کوشش کی گئی ہے کہ ورثاء اُسی طرح باوقار زندگی گزارسکیں جس طرح شہید افسر کے ہوتے ہوئے گزارتے تھے۔
مال روڈ پر شہید ہونے والے پولیس کے دونوں سینئر افسروں کے ورثاء کو پانچ پانچ کروڑ روپے ادا کیے گئے ہیں۔ سابقہ روایت یہ تھی کہ صوبائی حکومت شہید کی بیوہ اور بچوں کو چند سال کے لیے سرکاری مکان میں رہنے کی اجازت دے دیتی تھی، جہاں حکومت بے نیازہوتی وہاں شہید کا چالیسواں ہونے سے پہلے ہی اس کا کوئی اور کولیگ اس کی بیوہ سے مکان خالی کرانے پہنچ جاتا تھا۔سب سے پہلے توشہید کی فیملی کو سرچھپانے کے لیے چَھت کی ضرورت ہوتی ہے۔
وزیرِ اعظم کے منظور شدہ پیکیج کیمطابق اب شہداء کے ورثاء کو ایک ایک کنال کا تعمیر شدہ گھر فراہم کیا جائیگا، ان کے بچوں کو ماسٹرز تک بہترین اسکولوں میں مفت تعلیم دی جائے گی، بچوں نے بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنی ہے تو بھی مالی مدد فراہم کی جائے گی، بیوی اگر نوکری کرنا چاہے تو اسے گریڈ 17میں نوکری دی جائے گی۔ شہید کی بیٹیوں کے لیے جہیز کا پورا سامان حکومت تیار کرکے دیگی۔ جو کانسٹیبل شہید ہوئے ہیں ان کے پسماندگان کے لیے ایک ایک کروڑ روپے کے علاوہ دس دس مرلے کے تعمیر شدہ گھر، بچوں کی مفت تعلیم اور بیٹیوں کے جہیز کا مکمل سامان حکومت فراہم کریگی۔ اس باعزت پیکیج پر ہم وزیرِ اعظم صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ تھینک یو پرائم منسٹر صاحب اور تھینک یو شہباز شریف صاحب۔
سنا ہے شہباز شریف شہداء کی فیمیلیز سے ملنے ان کے گھر گئے تو انھیں کہا کہ '' ہم آپ کا بیٹا یا آپ کا شوہر تو واپس نہیں لاسکتے لیکن آپکے لیے اتنا بندوبست ضرور کریں گے۔ کہ زندگی کی آسائشوں کے ضمن میں آپکو کوئی کمی محسوس نہ ہواور یہ کوئی احسان نہیں ہے یہ ہمارا فرض ہے'' شہباز شریف صاحب ! آپ نے ٹھیک سوچا اور ٹھیک کہا۔ احسان تو شہیدوں کا ہے جو اتارا ہی نہیں جاسکتا، ان کی فیملیز کی مشکلات کم کرنے کے لیے جو کچھ بھی کیا جائے کم ہے۔ مگر آپ نے جو کردیا ہے اُس پر ہم سب آپ کے مشکور ہیں۔
شہداء اپنے لہو سے پولیس کے دامن پر لگے داغ دھوتے ہیں مگر کچھ حرام خور اور راشی اہلکار اپنی مجرمانہ حرکتوں سے پھر اس ادارے کے دامن کو داغدار کریتے ہیں اور تشویشناک امر یہ ہے کہ ان بدبخت عناصر کو سیاسی پناہ بھی مل جاتی ہے۔ سیاسی قیادت کو بھی شہدائے مال روڈ کے خون کی قسم اٹھاکر یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ بدنام پولیس افسروں کو کبھی قریب نہ آنے دیں گے اور ان کی کبھی سپورٹ یا سفارش نہیں کریں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ بدطینت ہمسائے کی موجودگی میں دھشت گردی کے ناسور کا مکمّل خاتمہ فوراً نہیں۔ایک طویل جنگ کے بعد ہوگا۔ اتنی نہیں جتنی طویل جنگ سری لنکا جیسے چھوٹے سے ملک نے بڑی جرأت اور استقلال کے ساتھ لڑی تھی۔ پورے ستائیس سال مگر قوم کو طویل جدّوجہد کے لیے ذہنی طور پر تیّار ہونا ہوگا۔ شمشیریں تیز اور گھوڑے تیّار رکھنے ہوں گے اور یہ جنگ جیتنے کے لیے کونسی شمشیریں درکار ہیں۔
اتحّاد، حوصلہ، استقلال، مالی اور جانی قربانی دینے کا جذبہ، پابندیاں۔ ہرطبقۂ فکر کو اپنے اوپر کچھ پابندیاں لگانا ہونگی، عیاشانہ زندگی اور اسراف سے پرہیز کرنا ہوگا اور سب سے بڑھکر میڈیا کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا ، اپنے مقاصد کا نئے سرے سے تعیّن کرنا ہوگا اور ہیجان انگیزی اور مقدس رشتوں کا تقدّس پامال کرنے کی مذموم روش چھوڑنا ہوگی۔
بی بی سی اور سی این این کے اینکر کسی بھی موضوع پر بڑی عرق ریزی اور تحقیق کے بعد بحث کرتے ہیں اسی لیے موضوع کے بارے میں ان کی معیاری گفتگو سنکر ہر شخص متاثر ہوتا ہے۔ مگر ہمارے اکثر اینکر موضوع کے بارے میں بہت سطحی معلومات کے ساتھ بحث کا الاؤ بھڑکا دیتے ہیں۔
یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے وہ کراچی میں ہونے والے مختلف آپریشنز، پولیس کے نظام میں اصلاحات ، پولیس آرڈر 2002کے فوائد و نقصانات، سیاسی مداخلت کی جہتیں، پولیس لیڈر شپ کے تقاضے، پولیس پر چیک اور کنٹرول، پبلک سیفٹی کمیشن جیسے اہم موضوعات پر پڑھے سنے بغیر ہی تیر اندازی کررہے ہوتے ہیں، برسوں پہلے جب میں نیشنل پولیس اکیڈیمی میں نوجوان افسروں کو تربیّت دیتا تھا سیدطلعت حسین نے پولیس آرڈر پر پروگرام کی میزبانی کرنا تھی وہ میرے پاس آئے اور گھنٹوں بیٹھ کر موضوع کے مختلف زاویوں پر تبادلہِ خیال کرتے رہے۔
کل ایک معقول اینکر کہہ رہا تھا کہ ''پہلے پبلک سیفٹی کمیشن ہوتے تھے اب پولیس پر کوئی چیک نہیں رہا''۔ اَرے بھائی کب ہوتے تھے؟ پبلک سیفٹی کمیشن تو نہ بن سکے نہ چل سکے اور نہ وہ چل سکتے تھے، کیونکہ وہ چلنے کے قابل ہی نہ تھے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو پڑھنے اور تحقیق کرکے بات کرنے کی عادت ڈالے۔آمین
چارسدہ میں محافظوں نے جس بے مثال جرأت کا مظاہرہ کیا ، یہ پختون محافظوں کے شایان شان ہے، ان سے یہی توقع تھی۔ انھیں سلام، اس واقعہ پر پھر تحریر کروں گا۔