ترقی پسند پاکستان پر حملہ
انتظامیہ نے بجلی کی مرکزی لائن پرکنڈا لگاکر مزار کو روشن کیا تھا۔
مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی، سیکیورٹی، بنیادی طبی سہولتوں کی کمی اورکرپشن نے لعل شہباز قلندرکے مزار پر دھماکے میں 100 کے قریب افراد کی جانیں لے لیں۔اخباری خبروں میں بتایا جارہا ہے کہ لاہور، پشاور اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی لہرکے بعد پورے ملک میں حساس مقامات کی سیکیورٹی بڑھانے کی ہدایات جاری ہوئی تھیں۔
لعل شہباز قلندر کا مزار ایک عوامی جگہ ہے جہاں روزانہ ہزاروں افراد حاضری دینے آتے ہیں۔ پھر جمعرات کو تو دھمال اور قوالی محفلوں میں ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں۔ فروری کے مہینے میں سندھ میں سردی کا زورکم ہو جاتا ہے، لوگوں کو فروری اور مارچ کے مہینوں میں سیہون کا موسم بہتر محسوس ہوتا ہے۔دہشت گرد ماضی میں سندھ اوربلوچستان کے مزاروں کو دہشت گردی کا نشانہ بناچکے ہیں، یوں لعل شہباز قلندرکے مزار پر سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات متوقع تھے مگر ضلع انتظامیہ کی ترجیحات میں قلندرکے مزار کی سیکیورٹی شامل نہیں تھی۔ کسی وزیر یا اہم شخصیت کی آمد بھی متوقع نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مزار پر پولیس والے موجود نہیں تھے۔ خواتین کے داخلی دروازے پر تو کوئی خاتون پولیس اہلکار تعینات نہیں تھی۔
محکمہ اوقاف والے کہتے ہیں کہ انھوں نے دوخواتین کا تقررکیا ہوا ہے جن کے ذمے خواتین زائرین کے سامان کی تلاشی لینا ہے مگر شاید ہجو م میں وہ بھی کہیں کھوگئیں۔ سیہون میں شام 7:00 بجے بجلی کی لوڈشیدنگ شروع ہوتی ہے۔ متعلقہ عملہ پہلے سے جنریٹر کو آن نہیں کرتا اس لیے جنریٹر بھی اس دن نہیں چلا۔
ایک ٹی وی چینل کے رپورٹر نے لوڈ شیڈنگ کے بارے میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا کہ سابق وزیراعظم پرویزاشرف نے ایک علیحدہ فیڈر بجلی کی فراہمی کو برقرار رکھنے کے لیے مختص کرایا تھا ، اس طرح مزار کی بجلی کی سپلائی بند نہیں ہوتی مگر مزار سے متعلق کئی خاندانوں نے اس فیڈر سے اپنے گھروں کے کنکشن منسلک کردیے تھے۔ یہ خاندان بجلی کے بل کی ادائیگی کی روایت پر یقین نہیں رکھتے۔اس لیے درگاہ کا بل 3 کروڑ روپے سے تجاوزکرگیا تھا۔ درگاہ کی انتظامیہ کے پاس 3 کروڑ روپے نہیں تھے، لہٰذا بجلی منقطع کردی تھی۔
انتظامیہ نے بجلی کی مرکزی لائن پرکنڈا لگاکر مزار کو روشن کیا تھا۔ جب گزشتہ دفعہ مزارپر قلندر کا عرس ہوا تھا اور وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ مزار پر تشریف لائے تھے تو کنڈے کی بجلی سے کام چل رہا تھا۔محکمہ بجلی والے اس لائن کی بجلی لوڈشیڈنگ کے شیڈول کے مطابق بندکرتے ہیں، اس بناء پر جمعرات 16 فروری کو ٹھیک 7:00 بجے مزارکی بجلی بند ہوگئی۔ خودکش حملہ آور اندھیرے میں بغیر کسی رکاوٹ کے مزار کے احاطہ گولڈن گیٹ میں داخل ہوا اور خود کو بم سے اڑادیا۔ خودکش حملہ آور کی جیکٹ میں شامل بارود اور بال بیئرنگ کے ٹکڑے زائرین کے جسموں میں داخل ہوگئے۔
اگرچہ سیہون میں اندھیرا تھا مگر امدادی ٹیمیں کسی نہ کسی طرح دھماکے کی جگہ پہنچ گئیں۔ زخمی تعداد میں زیادہ تھے اور ایمبولینسوں کی تعداد انتہائی کم تھی۔ سیہون ،دادو اور اطراف کے شہروں میں کوئی بڑا سرکاری اسپتال جدید سہولتوں سے لیس نہیں ہے۔ سیہون میں 50 بستروں کا ایک چھوٹا اسپتال ہے۔ اس اسپتال میں ایمرجنسی آپریشن کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں ماہر ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل عملہ بھی نہیں ہے۔یہاں سے قریب ترین جدید اسپتال لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو میں واقع ہے اس لیے زخمیوں کو جامشورو منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا۔
لاڑکانہ کی چانڈکا میڈیکل یونیورسٹی اور نواب شاہ میں بے نظیر یونیورسٹی اسپتال ہے۔ ان شہروں کا سفرکم از کم 3 گھنٹے ہے۔ اس صورتحال میں زخمی مریضوں کی اکثریت بہت دیر میں جامشورو پہنچ پائی اور پھر ان اسپتالوں میں بھی اسٹیٹ آف آرٹ ٹیکنالوجی نہ ہونے کے برابر ہے۔ جمعرات کو ہونے والے دھماکے میں فوری طور پر مرنے والے افراد میں سے بیشتر امداد بروقت نہ ملنے کی وجہ سے جاں بحق ہوئے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ اگر ان شہروں میں ٹراما سینٹر تعمیر کیا جاتا تو اس دھماکے میں مرنے والے افراد کی تعداد کم ہوجاتی۔
آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے بعد وفاق نے صوبوں کے فنڈز میں خاطرخواہ اضافہ کیا۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں شامل اضافی بجٹ تعلیم اورصحت کے شعبوں پر خرچ ہوتا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت 2008سے حکومتوں میں شامل ہے مگر طبعی سہولتوں کی فراہمی کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے۔ چھوٹے اور بڑے شہروں میں نہ نئے اسپتال قائم ہوئے نہ اسپتالوں میں دستیاب سہولتوں کو بہتر بنایا گیا۔کراچی کے سول اسپتال میں 2007میں ایک ٹراما سینٹر کی تعمیر شروع ہوئی۔ یہ ٹراما سینٹر 2016 میں جزوی طور پر فعال ہوا۔
اندرونِ سندھ کوئی ٹراما سینٹر تعمیر نہ ہوسکا۔ ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل عملے کو بموں کے دھماکوں سے متاثر افراد کو فوری طبی امداد فراہم کرنے کی تربیت نہیں دی گئی جس کے نتیجے میں لعل شہباز قلندرکے مزار پر دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کی زندگیاں نہیں بچائی جاسکیں۔ قلندر کے مزار پر حملہ سندھ اور وفاقی حکومتوں کی ناکامی ہے۔ گولہ بارود دیگر صوبوں سے آیا، شاید خودکش حملہ آور بھی افغانی تھی۔ سندھ پولیس اور وفاقی ادارے دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو روکنے میں ناکام رہے۔ دھماکے میں شہید ہونے والے زائرین کے جسموں کے اعضاء کوکچرے میں پھینکنے کا معاملہ بھی افسوس ناک ہے۔
وزیراعلیٰ کی معذرت اچھا اقدام ہے مگر ذمے دار افراد کے خلاف کارروائی ہونا ضروری ہے۔ قلندرکے مزار پر آنے والے زائرین کی ایک بڑی تعداد کا تعلق پنجاب سے ہوتا ہے۔ زائرین میں ہندو اور سکھ مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس دھماکے میں کئی ہندو زائرین بھی ہلاک ہوئے۔ قلندرکے مزار پر حملہ برداشت اور تمام مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پر یقین رکھنے والوں پر حملہ ہے۔
ایک اخبارکی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان کے علاقے جھل مگسی اور وڈھ میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں اب بھی موجود ہیں۔ سندھ کی انسداد دہشت گردی کے یونٹ کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں دہشت گردوں کے لشکر متحرک ہیں جن کے کالعدم تنظیموں سے قریبی تعلقات ہیں اور یہ لشکر کالعدم تنظیموں کے افراد کو پناہ دیتے ہیں۔ گزشتہ سال شکارپورکی امام بارگاہ اور شاہ نورانی کے مزار پر خودکش حملہ کرنے والے خضدار سے آئے تھے۔ حیدرآباد میں عید پر حملہ کرنے والے فرد نے اپنی گرفتاری کے بعد ان حقائق کی تصدیق کی تھی۔
بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹرعبدالمالک نے ان لشکروں کے خلاف کارروائی کی تھی مگر اب یہ لشکر پھرد ہشت گردی میں ملوث ہیں مگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر ان عناصرکو نظراندازکیا جارہا ہے۔ پھر سب سے اہم معاملہ مذہبی انتہاپسندی کا ہے۔ اندرونِ سندھ کالعدم تنظیموں سے منسلک مدارس کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ یہ عناصر مزاروں اور امام بارگاہوں کو خاص طور پر نشانہ بناتے ہیں۔ معاملہ صرف مدرسوں کی اصلاحات کی نہیں بلکہ انتہاپسند ذہن کی پیداوار کو روکنے کا بھی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ مذہبی انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کو افغانستان سے مدد ملتی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان، قبائلی علاقوں، پنجاب ، خیبر پختون خواہ اور سندھ میں بھی دہشت گردوں کی کمین گاہیں اب بھی موجود ہیں جنہوں نے ایک صوفی بزرگ کے مزار کو نشانہ بنایا۔
حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ دھماکے کے دوسرے دن زائرین پھر قلندر کے مزار پرگئے اور روایتی دھمال ہوا۔ زائرین کا عزم امن، مفاہمت اور روشن خیالی عوام کے لیے تقویت کا باعث ہے۔ وزیر اعظم نے درست فرمایا ہے کہ قلندر کے مزار پر حملہ ترقی پسند پاکستان پر حملہ ہے۔
لعل شہباز قلندر کا مزار ایک عوامی جگہ ہے جہاں روزانہ ہزاروں افراد حاضری دینے آتے ہیں۔ پھر جمعرات کو تو دھمال اور قوالی محفلوں میں ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں۔ فروری کے مہینے میں سندھ میں سردی کا زورکم ہو جاتا ہے، لوگوں کو فروری اور مارچ کے مہینوں میں سیہون کا موسم بہتر محسوس ہوتا ہے۔دہشت گرد ماضی میں سندھ اوربلوچستان کے مزاروں کو دہشت گردی کا نشانہ بناچکے ہیں، یوں لعل شہباز قلندرکے مزار پر سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات متوقع تھے مگر ضلع انتظامیہ کی ترجیحات میں قلندرکے مزار کی سیکیورٹی شامل نہیں تھی۔ کسی وزیر یا اہم شخصیت کی آمد بھی متوقع نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مزار پر پولیس والے موجود نہیں تھے۔ خواتین کے داخلی دروازے پر تو کوئی خاتون پولیس اہلکار تعینات نہیں تھی۔
محکمہ اوقاف والے کہتے ہیں کہ انھوں نے دوخواتین کا تقررکیا ہوا ہے جن کے ذمے خواتین زائرین کے سامان کی تلاشی لینا ہے مگر شاید ہجو م میں وہ بھی کہیں کھوگئیں۔ سیہون میں شام 7:00 بجے بجلی کی لوڈشیدنگ شروع ہوتی ہے۔ متعلقہ عملہ پہلے سے جنریٹر کو آن نہیں کرتا اس لیے جنریٹر بھی اس دن نہیں چلا۔
ایک ٹی وی چینل کے رپورٹر نے لوڈ شیڈنگ کے بارے میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا کہ سابق وزیراعظم پرویزاشرف نے ایک علیحدہ فیڈر بجلی کی فراہمی کو برقرار رکھنے کے لیے مختص کرایا تھا ، اس طرح مزار کی بجلی کی سپلائی بند نہیں ہوتی مگر مزار سے متعلق کئی خاندانوں نے اس فیڈر سے اپنے گھروں کے کنکشن منسلک کردیے تھے۔ یہ خاندان بجلی کے بل کی ادائیگی کی روایت پر یقین نہیں رکھتے۔اس لیے درگاہ کا بل 3 کروڑ روپے سے تجاوزکرگیا تھا۔ درگاہ کی انتظامیہ کے پاس 3 کروڑ روپے نہیں تھے، لہٰذا بجلی منقطع کردی تھی۔
انتظامیہ نے بجلی کی مرکزی لائن پرکنڈا لگاکر مزار کو روشن کیا تھا۔ جب گزشتہ دفعہ مزارپر قلندر کا عرس ہوا تھا اور وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ مزار پر تشریف لائے تھے تو کنڈے کی بجلی سے کام چل رہا تھا۔محکمہ بجلی والے اس لائن کی بجلی لوڈشیڈنگ کے شیڈول کے مطابق بندکرتے ہیں، اس بناء پر جمعرات 16 فروری کو ٹھیک 7:00 بجے مزارکی بجلی بند ہوگئی۔ خودکش حملہ آور اندھیرے میں بغیر کسی رکاوٹ کے مزار کے احاطہ گولڈن گیٹ میں داخل ہوا اور خود کو بم سے اڑادیا۔ خودکش حملہ آور کی جیکٹ میں شامل بارود اور بال بیئرنگ کے ٹکڑے زائرین کے جسموں میں داخل ہوگئے۔
اگرچہ سیہون میں اندھیرا تھا مگر امدادی ٹیمیں کسی نہ کسی طرح دھماکے کی جگہ پہنچ گئیں۔ زخمی تعداد میں زیادہ تھے اور ایمبولینسوں کی تعداد انتہائی کم تھی۔ سیہون ،دادو اور اطراف کے شہروں میں کوئی بڑا سرکاری اسپتال جدید سہولتوں سے لیس نہیں ہے۔ سیہون میں 50 بستروں کا ایک چھوٹا اسپتال ہے۔ اس اسپتال میں ایمرجنسی آپریشن کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں ماہر ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل عملہ بھی نہیں ہے۔یہاں سے قریب ترین جدید اسپتال لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو میں واقع ہے اس لیے زخمیوں کو جامشورو منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا۔
لاڑکانہ کی چانڈکا میڈیکل یونیورسٹی اور نواب شاہ میں بے نظیر یونیورسٹی اسپتال ہے۔ ان شہروں کا سفرکم از کم 3 گھنٹے ہے۔ اس صورتحال میں زخمی مریضوں کی اکثریت بہت دیر میں جامشورو پہنچ پائی اور پھر ان اسپتالوں میں بھی اسٹیٹ آف آرٹ ٹیکنالوجی نہ ہونے کے برابر ہے۔ جمعرات کو ہونے والے دھماکے میں فوری طور پر مرنے والے افراد میں سے بیشتر امداد بروقت نہ ملنے کی وجہ سے جاں بحق ہوئے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ اگر ان شہروں میں ٹراما سینٹر تعمیر کیا جاتا تو اس دھماکے میں مرنے والے افراد کی تعداد کم ہوجاتی۔
آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے بعد وفاق نے صوبوں کے فنڈز میں خاطرخواہ اضافہ کیا۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں شامل اضافی بجٹ تعلیم اورصحت کے شعبوں پر خرچ ہوتا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت 2008سے حکومتوں میں شامل ہے مگر طبعی سہولتوں کی فراہمی کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے۔ چھوٹے اور بڑے شہروں میں نہ نئے اسپتال قائم ہوئے نہ اسپتالوں میں دستیاب سہولتوں کو بہتر بنایا گیا۔کراچی کے سول اسپتال میں 2007میں ایک ٹراما سینٹر کی تعمیر شروع ہوئی۔ یہ ٹراما سینٹر 2016 میں جزوی طور پر فعال ہوا۔
اندرونِ سندھ کوئی ٹراما سینٹر تعمیر نہ ہوسکا۔ ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل عملے کو بموں کے دھماکوں سے متاثر افراد کو فوری طبی امداد فراہم کرنے کی تربیت نہیں دی گئی جس کے نتیجے میں لعل شہباز قلندرکے مزار پر دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کی زندگیاں نہیں بچائی جاسکیں۔ قلندر کے مزار پر حملہ سندھ اور وفاقی حکومتوں کی ناکامی ہے۔ گولہ بارود دیگر صوبوں سے آیا، شاید خودکش حملہ آور بھی افغانی تھی۔ سندھ پولیس اور وفاقی ادارے دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو روکنے میں ناکام رہے۔ دھماکے میں شہید ہونے والے زائرین کے جسموں کے اعضاء کوکچرے میں پھینکنے کا معاملہ بھی افسوس ناک ہے۔
وزیراعلیٰ کی معذرت اچھا اقدام ہے مگر ذمے دار افراد کے خلاف کارروائی ہونا ضروری ہے۔ قلندرکے مزار پر آنے والے زائرین کی ایک بڑی تعداد کا تعلق پنجاب سے ہوتا ہے۔ زائرین میں ہندو اور سکھ مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس دھماکے میں کئی ہندو زائرین بھی ہلاک ہوئے۔ قلندرکے مزار پر حملہ برداشت اور تمام مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پر یقین رکھنے والوں پر حملہ ہے۔
ایک اخبارکی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان کے علاقے جھل مگسی اور وڈھ میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں اب بھی موجود ہیں۔ سندھ کی انسداد دہشت گردی کے یونٹ کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں دہشت گردوں کے لشکر متحرک ہیں جن کے کالعدم تنظیموں سے قریبی تعلقات ہیں اور یہ لشکر کالعدم تنظیموں کے افراد کو پناہ دیتے ہیں۔ گزشتہ سال شکارپورکی امام بارگاہ اور شاہ نورانی کے مزار پر خودکش حملہ کرنے والے خضدار سے آئے تھے۔ حیدرآباد میں عید پر حملہ کرنے والے فرد نے اپنی گرفتاری کے بعد ان حقائق کی تصدیق کی تھی۔
بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹرعبدالمالک نے ان لشکروں کے خلاف کارروائی کی تھی مگر اب یہ لشکر پھرد ہشت گردی میں ملوث ہیں مگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر ان عناصرکو نظراندازکیا جارہا ہے۔ پھر سب سے اہم معاملہ مذہبی انتہاپسندی کا ہے۔ اندرونِ سندھ کالعدم تنظیموں سے منسلک مدارس کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ یہ عناصر مزاروں اور امام بارگاہوں کو خاص طور پر نشانہ بناتے ہیں۔ معاملہ صرف مدرسوں کی اصلاحات کی نہیں بلکہ انتہاپسند ذہن کی پیداوار کو روکنے کا بھی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ مذہبی انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کو افغانستان سے مدد ملتی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان، قبائلی علاقوں، پنجاب ، خیبر پختون خواہ اور سندھ میں بھی دہشت گردوں کی کمین گاہیں اب بھی موجود ہیں جنہوں نے ایک صوفی بزرگ کے مزار کو نشانہ بنایا۔
حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ دھماکے کے دوسرے دن زائرین پھر قلندر کے مزار پرگئے اور روایتی دھمال ہوا۔ زائرین کا عزم امن، مفاہمت اور روشن خیالی عوام کے لیے تقویت کا باعث ہے۔ وزیر اعظم نے درست فرمایا ہے کہ قلندر کے مزار پر حملہ ترقی پسند پاکستان پر حملہ ہے۔