نقش باقی ہے
ہمہ وقت مٹی کے جھکڑ اپنے جلو میں جو امراض لائے ہیں، ان کا ذکر لاہورئیے کرتے ہیں۔
سڈنی سے آئے دوست کا اصرار تھا کہ لاہور کی اورنج ٹرین تو بوجوہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ رہی لیکن مَیں اِس کے ابتدائی ڈھانچے ہی کی ڈاکیومنٹری بناناچاہتا ہُوں تاکہ ریکارڈ رہے؛ چنانچہ ہم دونوں بھاری بھر کم کیمرے اٹھائے اسلام آباد سے لاہور پہنچے۔ ٹھوکر نیاز بیگ سے لے کر لاہور ریلوے اسٹیشن تک کئی شاٹ لیے۔ دن کی روشنی میں بھی اور رات کے وقت بھی۔ دونوں اوقات کے دوران گرد باد نے ہماری ہمت اور ارادے بار بار توڑ دینا چاہے لیکن یہ ایڈونچر ہم نے مکمل کرکے ہی چھوڑی۔ کئی کہانیاں دیکھیں بھی اور سنیں بھی۔ ان میں امید بھی تھی اور آنسو بھی۔ اچھے دنوں کی امید میں بیس پچیس کلو میٹر کا یہ اُدھڑا فاصلہ لوگ بہ امر مجبوری روزانہ طے کر رہے ہیں۔
ہمہ وقت مٹی کے جھکڑ اپنے جلو میں جو امراض لائے ہیں، ان کا ذکر لاہورئیے کرتے ہیں۔ ٹھوکر نیاز بیگ سے اقبال ٹاؤن چوک، یتیم خانہ چوک، سمن آباد چوک، چوبرجی، جی پی او، لکشمی چوک اور پھر لاہور ریلوے اسٹیشن تک کے کئی پھیروں نے تھکایا تو بہت لیکن یہ ایک یادگار تجربہ تھا۔عدلیہ کے ایک فیصلے نے بڑھتا ہُوا آگے کا سفر روک رکھا ہے۔بہت زیادہ اکھاڑ پچھاڑ کے بعد ہی تعمیرات کا کام روکنا تھا تو مناسب یہی تھا کہ ابتدا ہی میں سارے جھگڑے ٹنٹے نبٹا دیے جاتے۔ کاش، ایسا ہو سکتا۔
مَیں نے ایک عرصہ تک چوک سمن آباداور چوبرجی چوک کے آس پاس (ریواز گارڈن اورشام نگرمیں) زندگی بتائی ہے۔ اب اس علاقے کو دیکھا تو پہچان ہی نہ سکا۔ مٹی کے اُٹھتے بگولوں، لاتعداد گہرے کھڈوں، آسمان سے باتیں کرتے گرڈروں، سریوں اور سنگ وآہن سے تیار کردہ گم سم کھڑے بلند ستونوں کے عقب میں ابھی تو محض تصور کی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے کہ مبینہ اور موعودہ اورنج ٹرین کیسے فراٹے بھرتی ہُوئی ان علاقوں سے گزرا کریگی اور لوگ جناب میاں شہباز شریف کو دعائیں دے رہے ہوں گے۔
گجومتہ تا شاہدرہ کے ستائیس کلو میٹر پر میٹرو کی لال آرام دہ اور ماڈرن بسوں میں سفر کرنیوالوں کی طرف سے شہباز شریف کو دعائیں تو یقیناپہلے ہی مل رہی ہوں گی۔ اورنج ٹرین کے لیے ابھی تو یہ اکھاڑ پچھاڑ المیہ داستان ہے لیکن اِسی کے باطن سے آفتابِ ترقی کے طلوع ہونے کی نوید بھی سنائی جا رہی ہے۔ یعنی خونِ صد ہزار انجم سے سحر ضرور پیدا ہوگی۔
ایک دوپہر ہمدمِ ِ دیرینہ نعیم احمد نے لنچ پر بلایا۔ لاہور کے ثقیل اور لذیز کھانے اب ہمارے لیے اپنی کشش کھو چکے ہیںکہ ڈاکٹروں کی طرف سے بڑی بڑی وارننگ مل چکی ہے۔ اب تو ان اشتہا انگیز کھانوں کا صرف ذکر سُن کر لطف اٹھایا جا سکتا ہے؛چنانچہ برادرم نعیم احمد سے کہا: لکشمی چوک کے بس وہی سادہ چنے کھا کر پیٹ کا آتش کدہ ٹھنڈہ نہ کرلیں جو چنے شہید بے نظیر بھٹو کو بھی بہت مرغوب تھے؟ یوں اس بہانے اُس بہادر خاتون کو بھی یاد کر لیں گے۔
میکلوڈ روڈ پر واقع اُس ریستوران پر پہنچے تو وہاں چار پانچ صحافیوں سے بھی ملاقات ہو گئی، شائد اس لیے کہ یہاں سے لاہور پریس کلب زیادہ دُور نہیں ہے۔ اِسی سڑک پر مشہور اخبار ''مشرق'' کا بھی دفتر ہُوا کرتا تھا۔ کیا شاندار اور عوامی جریدہ تھا جسے یونین کے عہدیداروں نے ڈس لیا۔ اب اُس کا نام صرف چند دلوں میں زندہ رہ گیا ہے۔ یہ بھی نقش برآب ہونے والا ہے۔
میکلوڈ روڈ کبھی سینماؤں کا مرکز ہُوا کرتا تھا۔ نجانے کتنی فلمیں ہم نے وہاں جا کر دیکھی ہوں گی!یادوں کے کئی نقش دل پر اُبھر آئے۔ بے دھیانی میں ادھر اُدھر نگاہ دوڑائی۔ بہت سے سینما ہال تجارتی پلازوں میں بدل چکے ہیں۔ جو دو ایک بچ گئے ہیں، وہاں ہمارے ''دشمن ملک'' کی فلموں کے سائن بورڈز آویزاں تھے۔ہمارے ایک سابق ـ''نیک دل آمر''کے لیے دل سے دعا نکلی کہ وہ بھی تو اِس دشمن ملک کے اداکاروں کے عاشق تھے، ہمارے یہ سابق نیک دل حکمران اپنے گھر اِسی ملک کے اداکاروں کو مہمان ٹھہراتے تھے۔ جو شئے بادشاہ کو پسند ہو، وہ رعایا کو مرغوب اور محبوب کیوں نہ ہو؟
محبّی نعیم احمد دانشور ہیں۔ایک قومی اخبار میں ایک مخصوص اور متعینہ موضوع پرکالم لکھتے ہیں۔ وہی اب اُن کا تخصص اور پہچان بن گیا ہے۔ ایک جریدہ بھی مرتب کرتے ہیں جس میں نظریہ پاکستان، قائد اعظم، علامہ اقبال اور تحریک ِ پاکستان کے نقوش کو زندہ رکھنے اور بانیانِ پاکستان کا حیات آفریں پیغام نئی نسل تک پہنچانے کی مقدور بھراور بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔
بھارتی ثقافتی اور فلمی یلغار کے اِن ایام میں یہ سعی لاریب قابلِ قدر اور غیر معمولی خدمت ہے۔اپنے دفتر لے گئے۔ لاہور کی کلاسیکی مال روڈ پر بنا یہ دفتر اپنی ایک شان رکھتا ہے۔ چائے ہم نے مگر اُن کے دفتری کمرے میں بیٹھ کر نہ پینے کا فیصلہ کیا۔ سرما کی دمکتی اور سنہری دھوپ ہمیں اشارے کرکے اپنی طرف بلا رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ اس نعمتِ کُبریٰ کا کفرانِ نعمت مت کرو؛ چنانچہ ہم اُٹھ کر باہر لان میں آگئے۔ کونے میں چائے کا ایک ٹھیلہ لگا تھا۔ ڈسپوزیبل پیالوں میں دہکتی اور بھاپ اڑاتی چائے آئی تو رُو پہلی دھوپ میں زیادہ نکھار آگیا۔
ہم مخملیں گھاس کے دلنشیں قطعہ پر بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور میری یا دوں کا سلسلہ کہیں اور جُڑ گیا تھا۔ گھاس کی خنکی جسم میں یوں دھیرے دھیرے سرائیت کر رہی تھی جیسے مارفین کا انجیکشن آہستہ آہستہ رگوں میں اُترتا جاتا ہے۔ مَیں نے نعیم کو بتایا یہ لان جس کی ہری ہری گھاس کے غالیچے پر ہم بیٹھے ہیں، اس کے عقب میں ایک شاندار کوٹھی ہُوا کرتی تھی۔ اُس میں ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کا دفتر قائم تھاجہاں ہمیں مولانا محمد حنیف ندوی صاحب، مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب، جناب سراج منیر صاحب، ڈاکٹر رشید جالندھری صاحب ایسے صاحبانِ کمال اور ذی علم شخصیات سے ملنے، اُن کی دست بوسی کرنے اور اُن کی دلکشا باتیں سننے کے بیشمار مواقع ملے۔
اِسی دفتر میں ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ایسا فلسفی اور ماہرِ کلامِ مولانا روم اور ماہرِ اقبالیات فروکش ہُوا کرتا تھا۔ مَیں نے لمبی سانس سینے میں بھر کر سوچا: یا خدایا، علم وہنر کا نُور بکھیرنے والی یہ ہستیاں کہاں چلی گئیں؟ میرے معصوم دل دوست نے بتایا کہ یہ دفتر اب بھی بروئے کار ہے، دیکھنا ہے تو اُدھر چلتے ہیں۔
ہم اٹھے اور عقبی جانب چل دیے۔ قدیم اور سالخوردہ پیڑوں کے عین وسط میں ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کی پرانی عمارت اپنی اِک شان سے ایستادہ ہے۔ دفتر مگر بند ہو چکا تھااور سنسانی کا وہاں راج تھا۔ البتہ اندر سے سر جھکا کر نکلتے ہُوئے قاضی جاوید صاحب مل گئے۔ ہمارے ملک کے نامور دانشور، فلسفی اور کئی کتابوں کے مصنف۔ مدتوں بعد ملے تھے لیکن ایک نظر میں پہچان لیا۔ وہیں کھڑے کھڑے مرحوم ''امروز'' کی باتیں ہونے لگیں جہاں ہم دونوں آرٹیکل رائٹر تھے۔
قاضی صاحب چیک دار کوٹ، نکٹائی اور ووسٹرڈ کی پتلون میں ملبوس تھے۔ پاؤں میں سیاہ تسموں والے جوتے۔ پھر وہ بھی رخصت ہو گئے اور ہم اُس عمارت میں داخل ہو گئے جہاں میرے دوست نعیم صاحب ملازمت کرتے ہیں۔ عمارت کے داخلی ہال کے عین وسط میں لکڑی کی وہ تاریخی کرسی رکھی ہے جس پر بیٹھ کر حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے کبھی لائلپور(اب فیصل آباد)میں منعقدہ ایک جلسے کی صدارت فرمائی تھی۔
یوں لگا جیسے پاکستان کے محسنِ اعظم ابھی ابھی اُس کُرسی سے اُٹھ کر کہیں باہر تشریف لے گئے ہیں۔ہال کمرے کے وسط میں اُن کے وجود کی خوشبو محسوس کی جاسکتی تھی۔ ہال کا اندرونی حصہ بانیانِ پاکستان کی نادر تصویروں سے سجایا گیا ہے اور سامنے کا لان اُن کے اقوال زریں سے مزیّن۔بالائی مال روڈ پر پاکستانیت کا یہ ایک عجب جہان آباد کیا گیا ہے۔ خدا سلامت رکھے۔
ہمہ وقت مٹی کے جھکڑ اپنے جلو میں جو امراض لائے ہیں، ان کا ذکر لاہورئیے کرتے ہیں۔ ٹھوکر نیاز بیگ سے اقبال ٹاؤن چوک، یتیم خانہ چوک، سمن آباد چوک، چوبرجی، جی پی او، لکشمی چوک اور پھر لاہور ریلوے اسٹیشن تک کے کئی پھیروں نے تھکایا تو بہت لیکن یہ ایک یادگار تجربہ تھا۔عدلیہ کے ایک فیصلے نے بڑھتا ہُوا آگے کا سفر روک رکھا ہے۔بہت زیادہ اکھاڑ پچھاڑ کے بعد ہی تعمیرات کا کام روکنا تھا تو مناسب یہی تھا کہ ابتدا ہی میں سارے جھگڑے ٹنٹے نبٹا دیے جاتے۔ کاش، ایسا ہو سکتا۔
مَیں نے ایک عرصہ تک چوک سمن آباداور چوبرجی چوک کے آس پاس (ریواز گارڈن اورشام نگرمیں) زندگی بتائی ہے۔ اب اس علاقے کو دیکھا تو پہچان ہی نہ سکا۔ مٹی کے اُٹھتے بگولوں، لاتعداد گہرے کھڈوں، آسمان سے باتیں کرتے گرڈروں، سریوں اور سنگ وآہن سے تیار کردہ گم سم کھڑے بلند ستونوں کے عقب میں ابھی تو محض تصور کی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے کہ مبینہ اور موعودہ اورنج ٹرین کیسے فراٹے بھرتی ہُوئی ان علاقوں سے گزرا کریگی اور لوگ جناب میاں شہباز شریف کو دعائیں دے رہے ہوں گے۔
گجومتہ تا شاہدرہ کے ستائیس کلو میٹر پر میٹرو کی لال آرام دہ اور ماڈرن بسوں میں سفر کرنیوالوں کی طرف سے شہباز شریف کو دعائیں تو یقیناپہلے ہی مل رہی ہوں گی۔ اورنج ٹرین کے لیے ابھی تو یہ اکھاڑ پچھاڑ المیہ داستان ہے لیکن اِسی کے باطن سے آفتابِ ترقی کے طلوع ہونے کی نوید بھی سنائی جا رہی ہے۔ یعنی خونِ صد ہزار انجم سے سحر ضرور پیدا ہوگی۔
ایک دوپہر ہمدمِ ِ دیرینہ نعیم احمد نے لنچ پر بلایا۔ لاہور کے ثقیل اور لذیز کھانے اب ہمارے لیے اپنی کشش کھو چکے ہیںکہ ڈاکٹروں کی طرف سے بڑی بڑی وارننگ مل چکی ہے۔ اب تو ان اشتہا انگیز کھانوں کا صرف ذکر سُن کر لطف اٹھایا جا سکتا ہے؛چنانچہ برادرم نعیم احمد سے کہا: لکشمی چوک کے بس وہی سادہ چنے کھا کر پیٹ کا آتش کدہ ٹھنڈہ نہ کرلیں جو چنے شہید بے نظیر بھٹو کو بھی بہت مرغوب تھے؟ یوں اس بہانے اُس بہادر خاتون کو بھی یاد کر لیں گے۔
میکلوڈ روڈ پر واقع اُس ریستوران پر پہنچے تو وہاں چار پانچ صحافیوں سے بھی ملاقات ہو گئی، شائد اس لیے کہ یہاں سے لاہور پریس کلب زیادہ دُور نہیں ہے۔ اِسی سڑک پر مشہور اخبار ''مشرق'' کا بھی دفتر ہُوا کرتا تھا۔ کیا شاندار اور عوامی جریدہ تھا جسے یونین کے عہدیداروں نے ڈس لیا۔ اب اُس کا نام صرف چند دلوں میں زندہ رہ گیا ہے۔ یہ بھی نقش برآب ہونے والا ہے۔
میکلوڈ روڈ کبھی سینماؤں کا مرکز ہُوا کرتا تھا۔ نجانے کتنی فلمیں ہم نے وہاں جا کر دیکھی ہوں گی!یادوں کے کئی نقش دل پر اُبھر آئے۔ بے دھیانی میں ادھر اُدھر نگاہ دوڑائی۔ بہت سے سینما ہال تجارتی پلازوں میں بدل چکے ہیں۔ جو دو ایک بچ گئے ہیں، وہاں ہمارے ''دشمن ملک'' کی فلموں کے سائن بورڈز آویزاں تھے۔ہمارے ایک سابق ـ''نیک دل آمر''کے لیے دل سے دعا نکلی کہ وہ بھی تو اِس دشمن ملک کے اداکاروں کے عاشق تھے، ہمارے یہ سابق نیک دل حکمران اپنے گھر اِسی ملک کے اداکاروں کو مہمان ٹھہراتے تھے۔ جو شئے بادشاہ کو پسند ہو، وہ رعایا کو مرغوب اور محبوب کیوں نہ ہو؟
محبّی نعیم احمد دانشور ہیں۔ایک قومی اخبار میں ایک مخصوص اور متعینہ موضوع پرکالم لکھتے ہیں۔ وہی اب اُن کا تخصص اور پہچان بن گیا ہے۔ ایک جریدہ بھی مرتب کرتے ہیں جس میں نظریہ پاکستان، قائد اعظم، علامہ اقبال اور تحریک ِ پاکستان کے نقوش کو زندہ رکھنے اور بانیانِ پاکستان کا حیات آفریں پیغام نئی نسل تک پہنچانے کی مقدور بھراور بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔
بھارتی ثقافتی اور فلمی یلغار کے اِن ایام میں یہ سعی لاریب قابلِ قدر اور غیر معمولی خدمت ہے۔اپنے دفتر لے گئے۔ لاہور کی کلاسیکی مال روڈ پر بنا یہ دفتر اپنی ایک شان رکھتا ہے۔ چائے ہم نے مگر اُن کے دفتری کمرے میں بیٹھ کر نہ پینے کا فیصلہ کیا۔ سرما کی دمکتی اور سنہری دھوپ ہمیں اشارے کرکے اپنی طرف بلا رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ اس نعمتِ کُبریٰ کا کفرانِ نعمت مت کرو؛ چنانچہ ہم اُٹھ کر باہر لان میں آگئے۔ کونے میں چائے کا ایک ٹھیلہ لگا تھا۔ ڈسپوزیبل پیالوں میں دہکتی اور بھاپ اڑاتی چائے آئی تو رُو پہلی دھوپ میں زیادہ نکھار آگیا۔
ہم مخملیں گھاس کے دلنشیں قطعہ پر بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور میری یا دوں کا سلسلہ کہیں اور جُڑ گیا تھا۔ گھاس کی خنکی جسم میں یوں دھیرے دھیرے سرائیت کر رہی تھی جیسے مارفین کا انجیکشن آہستہ آہستہ رگوں میں اُترتا جاتا ہے۔ مَیں نے نعیم کو بتایا یہ لان جس کی ہری ہری گھاس کے غالیچے پر ہم بیٹھے ہیں، اس کے عقب میں ایک شاندار کوٹھی ہُوا کرتی تھی۔ اُس میں ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کا دفتر قائم تھاجہاں ہمیں مولانا محمد حنیف ندوی صاحب، مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب، جناب سراج منیر صاحب، ڈاکٹر رشید جالندھری صاحب ایسے صاحبانِ کمال اور ذی علم شخصیات سے ملنے، اُن کی دست بوسی کرنے اور اُن کی دلکشا باتیں سننے کے بیشمار مواقع ملے۔
اِسی دفتر میں ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ایسا فلسفی اور ماہرِ کلامِ مولانا روم اور ماہرِ اقبالیات فروکش ہُوا کرتا تھا۔ مَیں نے لمبی سانس سینے میں بھر کر سوچا: یا خدایا، علم وہنر کا نُور بکھیرنے والی یہ ہستیاں کہاں چلی گئیں؟ میرے معصوم دل دوست نے بتایا کہ یہ دفتر اب بھی بروئے کار ہے، دیکھنا ہے تو اُدھر چلتے ہیں۔
ہم اٹھے اور عقبی جانب چل دیے۔ قدیم اور سالخوردہ پیڑوں کے عین وسط میں ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کی پرانی عمارت اپنی اِک شان سے ایستادہ ہے۔ دفتر مگر بند ہو چکا تھااور سنسانی کا وہاں راج تھا۔ البتہ اندر سے سر جھکا کر نکلتے ہُوئے قاضی جاوید صاحب مل گئے۔ ہمارے ملک کے نامور دانشور، فلسفی اور کئی کتابوں کے مصنف۔ مدتوں بعد ملے تھے لیکن ایک نظر میں پہچان لیا۔ وہیں کھڑے کھڑے مرحوم ''امروز'' کی باتیں ہونے لگیں جہاں ہم دونوں آرٹیکل رائٹر تھے۔
قاضی صاحب چیک دار کوٹ، نکٹائی اور ووسٹرڈ کی پتلون میں ملبوس تھے۔ پاؤں میں سیاہ تسموں والے جوتے۔ پھر وہ بھی رخصت ہو گئے اور ہم اُس عمارت میں داخل ہو گئے جہاں میرے دوست نعیم صاحب ملازمت کرتے ہیں۔ عمارت کے داخلی ہال کے عین وسط میں لکڑی کی وہ تاریخی کرسی رکھی ہے جس پر بیٹھ کر حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے کبھی لائلپور(اب فیصل آباد)میں منعقدہ ایک جلسے کی صدارت فرمائی تھی۔
یوں لگا جیسے پاکستان کے محسنِ اعظم ابھی ابھی اُس کُرسی سے اُٹھ کر کہیں باہر تشریف لے گئے ہیں۔ہال کمرے کے وسط میں اُن کے وجود کی خوشبو محسوس کی جاسکتی تھی۔ ہال کا اندرونی حصہ بانیانِ پاکستان کی نادر تصویروں سے سجایا گیا ہے اور سامنے کا لان اُن کے اقوال زریں سے مزیّن۔بالائی مال روڈ پر پاکستانیت کا یہ ایک عجب جہان آباد کیا گیا ہے۔ خدا سلامت رکھے۔