عزت دار

امریکا اپنے عہد کے زریں سال گزارتے گزارتے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دور میں آ کھڑا ہوا ہے۔

shehla_ajaz@yahoo.com

حالیہ امریکا پوری دنیا پر واضح کردینا چاہتا ہے کہ وہ ایک عظیم ملک ہے، جس میں اس قدر توانائی اور دولت کے ذخیرے ہیں کہ جس کی وجہ سے دنیا بھر سے لوگ اس میں بسنے اورسونے کے ڈالرز کمانے کی سوچتے ہیں۔

امریکا ایک مغرور اورانا پرست چوہدری کی طرح اپنی اور دوسروں کی زمینوں پر کام کرنے والے کمیوں کو پال کر انھیں مختلف انداز اورناموں سے امداد فراہم کرکے نہ صرف ان پر بلکہ ان کی نسلوں پر احسان عظیم کر رہا ہے اور پچھلی تمام گزر جانے والی حکومتوں نے جس طرح ان تمام غریب پسماندگی کے شکار ممالک کی امداد کی ہے انھیں پالتے پوستے رہے ہیں لیکن اس دور حکومت میں اب ایسا نہیں چلنے والا۔ یہ نیا قانون ٹرمپ کے دورکی عظیم داستانوں میں سے گنا جائے گا۔

ایسے عجیب دور میں جب پوری دنیا امریکا میں ہونے والی تمام سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ امریکا دی گریٹ مائی باپ اب کیا کرنے والے ہیں۔ ایسے میں نیو یارک میں ہونے والے بین الپارلیمانی مباحثے میں شرکت کے لیے پاکستان سے جانے والے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے بڑا عجب کر دکھایا، جب ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری اور سینیٹر صلاح الدین ترمذی نے تیرہ سے چودہ فروری تک اس بین الپارلیمانی مباحثے میں شرکت کرنا تھی۔ اس کے لیے امریکی ویزہ ضروری تھا۔

اب ظاہر ہے کہ دونوں معززصاحبان ریمنڈ ڈیوس تو تھے نہیں کہ بناء کسی کاغذی کارروائی کے صاحب امریکا سدھارگئے تھے۔ بہر حال یہ تذکرہ ہے پاکستانی حضرات کا لیکن اس ویزے کے اجرا کے لیے تاخیر بڑھتی ہی جارہی تھی شاید پہلے سے ہی طے تھا کہ کسی بھی ایسے صاحب کو امریکی حدود میں داخل نہ ہونے دیا جائے گا کہ جس کے نام کے ساتھ کسی بھی طرح سے اسلام سے شناخت کا بڑا واضح ثبوت موجود ہو۔ کہاں کہ مولانا غفور حیدری، سرتا پا ٹرمپ انتظامیہ کے لیے کسی نادیدہ دشمن کی علامتیں اتم موجود ... پریشانیاں ہیں تو بے چارے ان کارندوں کے لیے جو اپنی حکومت کے لیے سرجھکا کرکام کرتے ہیں تمام اصول وضوابط اب ایک جانب اور ٹرمپ سرکارکی نئی مہر زیر ایک جانب بے چارے کارندے کرے توکیا کریں۔ ویسے بھی سننے میں آیا ہے کہ بہت سے پیدائشی گورے یا کالے امریکی (ہر اعتبار سے) اپنی قومیت کو تبدیل کروا رہے ہیں۔

بڑھتا ہوا یہ رجحان اب ٹیکسزکی بڑھتی شرح یا بوجھ ہو یا احتجاج اس سے ہمیں کیا سروکار بات تو اتنی سی ہے کہ لاکھوں تنخواہ دار اپنی سرکار کے حکم کے خلاف جائیں توکیسے؟ لہٰذا حربہ وہی دیسی اپنایا اور دیر پہ دیر۔ نہ وجہ نہ شکایت۔ اس پر ایک مہر اورکہ سینیٹر صلاح الدین ترمذی کو ویزہ جاری کردیاگیا۔ ادھر سے نہ سہی پر ادھر سے تو واضح ہونے ہی لگا کہ مولانا صاحب کے ویزے کے اجرا میں تاخیر جان بوجھ کرکی جا رہی ہے۔ اب کیا ہوگا؟

بے چین دلوں سے سوال تو اٹھ رہا تھا کہ امریکا دی گریٹ سے کیسے کہیں کیا کہیں اور کیوں کرکہیں پر جناب سلام ہے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کو کہ جنھوں نے اپنے رویے اور مناسب انداز سے بتادیا کہ پاکستان میں جمہوریت کتنی بھی اونچی یا نیچی پینگوں میں جھول رہی ہو لیکن حکومت پاکستان اپنے حقوق رکھتی ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے ان کے اس انداز اور تاخیری حربے کا سخت نوٹس لیا اور نہ صرف احتجاجاً پاکستانی وفد کا دورہ امریکا منسوخ کردیا بلکہ امریکی حکام کی وضاحت تک سینیٹ کے امریکی سفارت خانے سے تعلقات معطل کردیے۔


چیئرمین صاحب کا کہنا تھا کہ جب تک امریکا وضاحت نہیں کرے گا، سینیٹ کا کوئی وفد امریکا کا دورہ نہیں کرے گا نہ ہی امریکا سے آئے گا کوئی وفد، اور نہ ہی امریکی کانگریس کے رکن یا سفارت کار کا سینیٹ میں خیر مقدم کیا جائے گا۔

رضا ربانی کے اس جرأت مندانہ بیان کی قدرکی جانی چاہیے کیونکہ ایسے حالات میں جب امریکا اپنی طاقت کے نشے میں چور عجیب وغریب فیصلوں سے نہ صرف پوری دنیا بلکہ اندرون امریکا بھی ناگواری کی فضا قائم کرتا چلا جارہا ہے۔ احساس دلانا ضروری تھا کہ پاکستان ایک کمزور اور چھوٹا ملک ضرور ہے لیکن بس سرمسٹر پریذیڈنٹ ... کہنے کے لیے ابھی ڈونلڈ ٹرمپ کو وقت چاہیے، تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ سفارتی ادب آداب کیا ہوتے ہیں اور امریکا میں اپنی راج دہانی قائم کرے کہ وہ دنیا بھر میں حکومت کرنے کا تصور بھی نہ کریں کیونکہ ایسا اب اتنا آسان نہیں ہے۔

یہ بھی درست ہے کہ پچھلی امریکی حکومتوں نے اپنی شاطرانہ چالوں اورکھیل سے عراق، لیبیا، شام، یمن، فلسطین، نائیجیریا اور صومالیہ کے علاوہ افغانستان سے لے کر پاکستان تک جس جس طرح اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس سے ان ممالک میں معاشی اور سلامتی کے مسائل پیدا ہوئے ہیں، ایک طویل عرصہ چھوٹے ممالک اور خاص کر مسلمان ملکوں میں ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ جس سے ان کی سلامتی پر سوال اٹھتے رہے۔

یہاں تک کہ روس جیسے بڑے عظیم ہاتھی کو قابو میں رکھنے کے لیے جس اقتصادی طوفان کو ابھارا گیا کہ پیوٹن بہت کچھ کرنے کے باوجود بھی تلملاتے ہی رہے کہ ان پر کریمیا کے بحران اور فوجی طاقت سے مسلط ہونے کی سزا پر روبل کی قدر میں اس قدرکمی مسلط کردی گئی کہ روسی عوام اپنے ہی خول میں مقید ہوگئے کچھ اسی قسم کی کارروائی 2012ء میں ایران پر بھی مسلط کی گئی تھی جب مرکزی بینک پر تیل کی لین دین پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

امریکا اپنے عہد کے زریں سال گزارتے گزارتے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دور میں آ کھڑا ہوا ہے کہ جس نے اسے مضبوط کشتی میں تو سوارکرادیا ہے لیکن اس کے بادبان نہیں ہیں۔ بغیر بادبان کے یہ کشتی اپنی انا، غرور اور فریب میں کدھر بہتے بہتے جا نکلتی ہے۔ خدا جانے، لیکن اس کشتی کو دیکھنے والے یہ سمجھ لیں کہ اب انھیں تین رانی کشتی تیار کرنا ہوگی جس میں اتحاد، اخوت اور اعتبار کے بادبان لگانے ہوں گے۔ اپنے فیصلوں میں اپنوں سے مشاورت کرنے کے بعد اس میں آزاد رہنا ہوگا۔

ایک دوسرے کے ڈھکے چھپے بیک کرنے والے یہ جان لیں کہ عوام اب بہرے نہیں ہے ان کے کان بھی ہیں،آنکھیں بھی ہیں، دماغ بھی ہیں یہ سوچتی بھی ہیں اور عمل کرنا بھی خوب جانتی ہے۔ یہ ہمارا ملک ہے ہمیں اس کی سلامتی اور عزت قائم رکھنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ سازشوں کے لیے پانی پر پل نہیں بنانا ہوگا،اپنی تمام ترصلاحیتوں کواچھے کاموں کے لیے استعمال کریں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے لیے نہیں۔
Load Next Story