یہ اپنی اپنی قسمت ہے
گجرات کے ایک خوش مزاج شاعر تھے استاد امام دین گجراتی
KOHAT:
گجرات کے ایک خوش مزاج شاعر تھے استاد امام دین گجراتی، ایک خوش مزاج انسان جو اپنی مخصوص شاعری سے سننے والوں میں خوشی کا ایک پیغام بن کر زندہ رہے اور حضور پاکؐ کی محبت میں گم رہے۔میرے پاس ان کی مصدقہ شاعری کا کوئی نمونہ موجود نہیں کہ پیش کرسکوں لیکن وہ بالعموم شاعرانہ وزن سے بے نیاز ہوکر شعر کہتے تھے مثلاً لاہور میں علامہ اقبال سے ملاقات کے لیے آئے تو اس ملاقات کو کچھ یوں بیان کیا کہ ہم بھی گئے ملنے علامہ اقبال سے وہ حقہ بھی پیتے جاتے تھے اور گلاں بھی کرتے جاتے تھے نال و نال، یہ تھے ہمارے علامہ اقبال۔ گجرات کے استاد یوں تو ایک تُک بند شاعر دکھائی دیتے ہیں اور وہ اکثر شاعری بھی بظاہر تُک بندی سے ہی کرتے تھے لیکن ان کے اندر ایک بلا کا شاعر بھی زندہ اور جوان تھا اور جب وہ کسی خاص موڈ میں ہوتا تو شاعری میں کمال دکھایا کرتا:
محمدؐ کا جہاں پر آستاں ہے
زمین کا اتنا ٹکڑا آسماں ہے
اس جذبے اور حضور پاکؐ سے محبت کے عالم میں ہمارا یہ دیہاتی شاعر حضورؐ کے ساتھ اپنے ایمان اور الفت کی شدت کو بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔گجرات کے اس شاعر کی یاد ایسی آئی کہ اس سے زیادہ ایک لفظ تک نہ لکھ سکا اور جو شاعر بظاہر ایک شعر بھی وزن میں نہیں کہہ سکتا اس نے کسی عالم وارفتگی میں حضور پاکؐ کی نعتیں لکھیں اور اپنے آپ کو زندہ کرگیا۔ استاد کی یاد مجھے گاؤں کے ایک کاشت کار نے دلائی جو کسی زمانے میں ایک مدرسے میں پڑھتا تھا اور مولوی صاحب اپنے دل دار قسم کے شاگردوں کو اک اوپری زندگی کی نئی راہیں دکھلاتے تھے۔
مولوی صاحب ایک ایسے دینی مدرسے میں زیر تعلیم رہے جہاں کچھ لوگ روشن خیال اور شاعر بھی تھے اور شاعری ہی اپنی عزت سمجھتے تھے۔ مولوی صاحب کہلانے والے ایسے شاعر جب صبح تلاوت کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ شروع کرتے تو مسجد کے ملحقہ اس حجرے میں ایک ایسی کیفیت پیدا ہوتی جسے بیان نہیںکیاجاسکتا، اس کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے یا پھر اس نادر قسم کی کیفیت کو خدا کلام کی قدرت دے تو اسے بیان کیا جاسکتا ہے۔
میں گزشتہ دنوں گاؤں گیا تو وہاں چند لوگوں نے زیارتوں کی پرانی خواہش کا ذکر کیا اور مجھ سے باہر جانے کا راستہ معلوم کیا لیکن یہ راستہ ان سب کو پہلے سے معلوم تھا اور جیب بھی خالی نہیں تھی لیکن ان دیہات کے ان پڑھ لوگوں کو ساتھ کون لے جائے اور انھیں کہاں کہاں لے جاکر ان کی تسکین کرے! آپ کو شاید علم نہ ہو کہ دیہات کی زندگی میں کسی کی سب سے بڑی خواہش مکہ و مدینہ کی زیارت کی خواہش ہے اور ایسے ہی کتنے گیت ہیں جو ان لوگوں کی زبان پر جاری رہتے ہیں۔
اس دفعہ میں گیا تو ایک نیم بزرگ نے کہا کہ ''مدینے جاواں تے میں بچھداں ہاں'' یعنی میں صرف تب ہی بچ سکتاہوںجب ایک بار مدینہ منورہ کی زیارت کرلوں۔ ہمارے دیہات کے بزرگ اور دوسرے صاحب حیثیت سب سے بڑی یہی خواہش رکھتے ہیں کہ وہ اس زندگی میں حضور پاکؐ کے روزے کی زیارت کرلیں۔
اب لوگوں کے پاس خرچ بھی ہوتا ہے اور وہ اس راہ میں خرچ کرنا بھی جانتے ہیں لیکن وہ کسی نہ کسی وجہ سے جا نہیں پاتے۔ ان کا کوئی عزیز رشتہ دار ایسا نہیں جو انھیں ان کی منزل مقصود تک لے جائے اور اس کی زیارت کرا دے۔ بہرکیف یہ تو آنحضرتؐ کے ہرپیروکار کی خواہش ہے لیکن اس خواہش کی تکمیل کے لیے آپ کو وسائل کی ضرورت ہے اور وسیلہ صرف روپیہ پیسہ نہیں کوئی رہنما بھی چاہیے جو ان کی خواہش پوری کرسکے۔
میں کسی کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا تھا اور نہ ہی میرے پاس ان کی رہنمائی کا کوئی ذریعہ تھا۔ بقول ایک بزرگ کہ کوئی لے جائے یا نہ لے جائے۔ قدرت لے جائے گی اور میری اس سفر کی تمنا میرے راستے صاف کردے گی اور میں ایک دن وہاں جا پہنچوں جہاں سے میرے لیے لوٹنے کا بھی کوئی امکان ہوگا یا نہیں۔ جب ایک نہ ایک دن جان دینی ہی ہے تو پھر اس سے مقدس مقام اور کون سا ہوسکتا ہے۔
میرے پاس اب رقم بھی محفوظ ہے اور میں جب سے جوان اور کمانے کے قابل ہوا ہوں تب سے یہ رقم جوڑ رہا ہوں اور اب میں اپنی منزل تک پہنچنے کی سعادت پاسکتا ہوں لیکن سچ کہا گیا ہے کہ کسی قسمت والے کو اس مقام کی زیارت ہوتی ہے اور کون جانتا ہے میں ویسا قسمت والا ہوں یا نہیں اور پھر نہ جانے میرے خدا کو کیا منظور ہے اور آنحضرتؐ میری زیارت قبول فرماتے ہیں یا نہیں۔
گجرات کے ایک خوش مزاج شاعر تھے استاد امام دین گجراتی، ایک خوش مزاج انسان جو اپنی مخصوص شاعری سے سننے والوں میں خوشی کا ایک پیغام بن کر زندہ رہے اور حضور پاکؐ کی محبت میں گم رہے۔میرے پاس ان کی مصدقہ شاعری کا کوئی نمونہ موجود نہیں کہ پیش کرسکوں لیکن وہ بالعموم شاعرانہ وزن سے بے نیاز ہوکر شعر کہتے تھے مثلاً لاہور میں علامہ اقبال سے ملاقات کے لیے آئے تو اس ملاقات کو کچھ یوں بیان کیا کہ ہم بھی گئے ملنے علامہ اقبال سے وہ حقہ بھی پیتے جاتے تھے اور گلاں بھی کرتے جاتے تھے نال و نال، یہ تھے ہمارے علامہ اقبال۔ گجرات کے استاد یوں تو ایک تُک بند شاعر دکھائی دیتے ہیں اور وہ اکثر شاعری بھی بظاہر تُک بندی سے ہی کرتے تھے لیکن ان کے اندر ایک بلا کا شاعر بھی زندہ اور جوان تھا اور جب وہ کسی خاص موڈ میں ہوتا تو شاعری میں کمال دکھایا کرتا:
محمدؐ کا جہاں پر آستاں ہے
زمین کا اتنا ٹکڑا آسماں ہے
اس جذبے اور حضور پاکؐ سے محبت کے عالم میں ہمارا یہ دیہاتی شاعر حضورؐ کے ساتھ اپنے ایمان اور الفت کی شدت کو بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔گجرات کے اس شاعر کی یاد ایسی آئی کہ اس سے زیادہ ایک لفظ تک نہ لکھ سکا اور جو شاعر بظاہر ایک شعر بھی وزن میں نہیں کہہ سکتا اس نے کسی عالم وارفتگی میں حضور پاکؐ کی نعتیں لکھیں اور اپنے آپ کو زندہ کرگیا۔ استاد کی یاد مجھے گاؤں کے ایک کاشت کار نے دلائی جو کسی زمانے میں ایک مدرسے میں پڑھتا تھا اور مولوی صاحب اپنے دل دار قسم کے شاگردوں کو اک اوپری زندگی کی نئی راہیں دکھلاتے تھے۔
مولوی صاحب ایک ایسے دینی مدرسے میں زیر تعلیم رہے جہاں کچھ لوگ روشن خیال اور شاعر بھی تھے اور شاعری ہی اپنی عزت سمجھتے تھے۔ مولوی صاحب کہلانے والے ایسے شاعر جب صبح تلاوت کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ شروع کرتے تو مسجد کے ملحقہ اس حجرے میں ایک ایسی کیفیت پیدا ہوتی جسے بیان نہیںکیاجاسکتا، اس کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے یا پھر اس نادر قسم کی کیفیت کو خدا کلام کی قدرت دے تو اسے بیان کیا جاسکتا ہے۔
میں گزشتہ دنوں گاؤں گیا تو وہاں چند لوگوں نے زیارتوں کی پرانی خواہش کا ذکر کیا اور مجھ سے باہر جانے کا راستہ معلوم کیا لیکن یہ راستہ ان سب کو پہلے سے معلوم تھا اور جیب بھی خالی نہیں تھی لیکن ان دیہات کے ان پڑھ لوگوں کو ساتھ کون لے جائے اور انھیں کہاں کہاں لے جاکر ان کی تسکین کرے! آپ کو شاید علم نہ ہو کہ دیہات کی زندگی میں کسی کی سب سے بڑی خواہش مکہ و مدینہ کی زیارت کی خواہش ہے اور ایسے ہی کتنے گیت ہیں جو ان لوگوں کی زبان پر جاری رہتے ہیں۔
اس دفعہ میں گیا تو ایک نیم بزرگ نے کہا کہ ''مدینے جاواں تے میں بچھداں ہاں'' یعنی میں صرف تب ہی بچ سکتاہوںجب ایک بار مدینہ منورہ کی زیارت کرلوں۔ ہمارے دیہات کے بزرگ اور دوسرے صاحب حیثیت سب سے بڑی یہی خواہش رکھتے ہیں کہ وہ اس زندگی میں حضور پاکؐ کے روزے کی زیارت کرلیں۔
اب لوگوں کے پاس خرچ بھی ہوتا ہے اور وہ اس راہ میں خرچ کرنا بھی جانتے ہیں لیکن وہ کسی نہ کسی وجہ سے جا نہیں پاتے۔ ان کا کوئی عزیز رشتہ دار ایسا نہیں جو انھیں ان کی منزل مقصود تک لے جائے اور اس کی زیارت کرا دے۔ بہرکیف یہ تو آنحضرتؐ کے ہرپیروکار کی خواہش ہے لیکن اس خواہش کی تکمیل کے لیے آپ کو وسائل کی ضرورت ہے اور وسیلہ صرف روپیہ پیسہ نہیں کوئی رہنما بھی چاہیے جو ان کی خواہش پوری کرسکے۔
میں کسی کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا تھا اور نہ ہی میرے پاس ان کی رہنمائی کا کوئی ذریعہ تھا۔ بقول ایک بزرگ کہ کوئی لے جائے یا نہ لے جائے۔ قدرت لے جائے گی اور میری اس سفر کی تمنا میرے راستے صاف کردے گی اور میں ایک دن وہاں جا پہنچوں جہاں سے میرے لیے لوٹنے کا بھی کوئی امکان ہوگا یا نہیں۔ جب ایک نہ ایک دن جان دینی ہی ہے تو پھر اس سے مقدس مقام اور کون سا ہوسکتا ہے۔
میرے پاس اب رقم بھی محفوظ ہے اور میں جب سے جوان اور کمانے کے قابل ہوا ہوں تب سے یہ رقم جوڑ رہا ہوں اور اب میں اپنی منزل تک پہنچنے کی سعادت پاسکتا ہوں لیکن سچ کہا گیا ہے کہ کسی قسمت والے کو اس مقام کی زیارت ہوتی ہے اور کون جانتا ہے میں ویسا قسمت والا ہوں یا نہیں اور پھر نہ جانے میرے خدا کو کیا منظور ہے اور آنحضرتؐ میری زیارت قبول فرماتے ہیں یا نہیں۔