اک داستانِ الم ہے
سیہون میں درگاہ لعل شہباز قلندر میں ہونے والے خود کش حملے نے ذہن کو ماؤف کردیا ہے
PESHAWAR:
سیہون میں درگاہ لعل شہباز قلندر میں ہونے والے خود کش حملے نے ذہن کو ماؤف کردیا ہے۔ 90کے قریب معصوم افراد کی زندگیوں کا خاتمہ۔3 سو کے لگ بھگ لوگ زخمی ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ایک ایساقصبہ جس میںاس درویش کا مزار ہو جس کے عقیدت مند پورے جنوبی ایشیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جہاں روزانہ عوام کا ٹھٹھ لگا رہتا ہے، جب کہ عرس کے دنوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ وہاں جدید سہولیات سے آراستہ کوئی اسپتال نہیں۔
درگاہ کے اطراف میں فوری طبی سہولیات فراہم کرنے کا کوئی جدید طبی مرکز نہیں۔یہ صورتحال اس وقت زیادہ تکلیف دہ ہوجاتی ہے، جب کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے۔ معاملہ صرف ایک شہر یا قصبے کا نہیں، بلکہ پورے ملک میں یہی صورتحال ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جن ممالک کی قیادتیں کوتاہ بین، موقع پرست اورسیاسی عزم وحوصلہ سے عاری ہوں، وہاں عوام مسلسل مسائل و مصائب کی چکی میں پستے رہتے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔
پاکستان دنیا کے اس خطے میں ہے جومختلف نوعیت کی قدرتی آفات کی زد میں رہتا ہے۔ جن میں زلزلے، طوفانی بارشیں اورسیلاب وغیرہ شامل ہیں۔ گزشتہ 40برس سے حکمرانوں اور منصوبہ سازوںکی غلط پالیسیوں اورحکمت عملیوںکے باعث مذہبی جنونیت اور متشدد فرقہ واریت کے گرداب میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ جس کی وجہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے بم دھماکوں، خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ روزکا معمول بن گئے ہیں۔اس دوران دیگر سنگین جرائم خاص کر بینک ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان اور انسانی اسمگلنگ کی شرح میں بھی ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اسٹریٹ کرائم اور چوری چکاریاں اس کے سوا ہیں۔
گزشتہ صدی میں رونما ہونے والے واقعات سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر اپنی توجہ صرف حالیہ صدی کے 17برسوں پر مرکوزرکھیں تو بہت سے تلخ حقائق سامنے آتے ہیں جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے، تو ایکسپریس ٹریبون کی 29 مارچ 2015میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 2001سے دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کی تعداد 80ہزارہوگئی تھی۔ جس میں 2015 میں 1,009 اور 2016سے وسط فروری 2017کے دوران نشانہ بننے والے 973 افراد کو بھی شامل کرلیا جائے تو تعداد82ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔
8اکتوبر2005کا قیامت خیز زلزلہ،اس کے بعد بلوچستان میں زلزلہ اور 2010 اور2011میں سیلابوں سے ہونے والا جانی نقصان بھی ہزاروں کی تعداد میں ہے، لیکن حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ ملک میں ٹریفک سمیت مختلف حادثات میں غیر فطری طور پر مرنے والوں کی تعداد درج بالا اعداد و شمار سے تقریباً دگنی ہے۔ ان تمام فطری اور غیر فطری حادثات اور سانحات میں بڑی تعداد میں ہونے والاجانی نقصان اس بات کا غماز ہے کہ ملک کا انتظامی ڈھانچہ فرسودگی کی آخری انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ جس کا سبب حکمران اشرافیہ کی کوتاہ بینی، نااہلی اورموقع پرستی ہے جو اپنے مخصوص مفادات کی خاطر بہتر حکمرانی کی راہ میں مسلسل رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
اکتوبر2005کے زلزلے میں بیشتر جانیں اس لیے ضایع ہوئیں، کیونکہ پاکستان میں ایسے جدید آلات بشمول طاقتور کرینیں اورٹرالر وغیرہ نہیں تھے، جن کی مدد سے زمین بوس ہونے والی عمارتوں کو تیزی سے کاٹ کر ان میں پھنسے افراد کو باہر نکالاجا سکتا ۔ یہی کچھ صورتحال گزشتہ دنوں گڈانی میں شپ بریکنگ کے دوران جہاز میں لگنے والی آگ کے دوران سامنے آئی۔ بیشتر اموات اس لیے ہوئیں کہ جہاز میں پھنسے مزدوروں کو نکالنے کا کوئی مناسب بندوبست نہیں تھا۔ اس علاقے میں جہاں کئی ہزار مزدور کام کرتے ہیں، جدید سہولیات سے آراستہ اسپتال یا فوری طبی امداد کا قائم کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔
اکتوبر2005کے زلزلے میں ریاستی کسمپرسی کے ان گنت مظاہر سامنے آئے تھے۔ اس دوران بڑے پیمانے پر بیرونی امداد بھی آئی، مگر وہ امداد کہاں گئی؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ حکومت نے ان12برسوں میں قدرتی آفات سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ اس کا بھی کسی کوکوئی علم نہیں ہے۔ زلزلے کے بعد ڈزاسٹر مینجمنٹ کا ادارہ ضرور قائم ہوا، مگر اس کی اہلیت اور فعالیت کا بھانڈا 2010کے سیلاب میں پھوٹ گیا جب حکومت کو سیلاب زدگان کی امداد کے لیے ایک بار پھر فوج کی طرف دیکھنا پڑا۔ جہاں تک متاثرین کے لیے فوری طبی امداد کا معاملہ ہے تو وہ بھی شرمناک حد تک فرسودگی کا شکار ہے۔
اگر تاج برطانیہ کی متحدہ ہندوستان میں صحت کے شعبے میں کارکردگی کا پاکستان کی حکومتوں کی70برس کی کارکردگی کے ساتھ سرسری سا تقابلی جائزہ لیں، تو شرمناک شواہد سامنے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر 1860سے1930کے دوران پورے برٹش انڈیا کے ہرضلع ہیڈکوارٹر میں جدید سہولیات سے آراستہ سول اسپتال قائم ہوچکا تھا۔ ہر قصبے میں 20سے30بستروں پر مشتمل اسپتالوں کا جال بچھایا جاچکا تھا، جب کہ تین سے چار دیہاتوں کے کلسٹر پر ایک ڈسپنسری قائم کردی گئی تھی۔
دوسری طرف عالمی ادارہ صحت (WHO)کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں2006تک برطانوی دور کے سرکاری اسپتالوں کی تعداد میں صرف11فیصد اضافہ ہوا ہے، جب کہ اس وقت تک آبادی ڈھائی گنا ہوگئی تھی۔ علاوہ ازیں اسپتالوں میں مہیا کی جانے والی سہولیات میں بتدریج ابتری آئی ہے۔ چند بڑے شہروں میں سرکاری اسپتال میں کسی حد تک جدید طبی سہولیات ضرور موجود ہیں، مگر وہاں کرپشن، بدعنوانیاں اور احتساب نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیاجاتا ہے۔
چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں حالات انتہائی دگرگوں ہیں۔ وہاں اکثر ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسپتالوں میں کتے لوٹ رہے ہیں۔ معالج اور دیگر عملہ بھی غیرذمے دارانہ رویوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ادویات کی خریداری میں اربوں روپے کی خرد برد اس کے سواہے۔ جس کی وجہ سے مریضوں کو اسپتالوں سے ادویات نہیں مل پاتیں۔ حد یہ ہے کہ انھیں مرہم پٹی تک بازار سے خریدنا پڑتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شہرچھوٹے ہوں یا بڑے ہر جگہ سرکاری اسپتال اورڈسپنسریاں حکومتی نااہلی اور عدم دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت بنی ہوئی ہیں۔
سندھ میں حالت مزید ابتری کا شکار ہے۔ کراچی صوبے کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہے۔ یہاں انگریز نے سول اسپتال اس وقت قائم کیا تھا جب اس کی آبادی پونے چار لاکھ تھی۔ قیام پاکستان کے بعد وفاقی دارالحکومت بنا تو جناح میڈیکل سینٹر قائم ہوا۔ 1970کے عشرے میں بلدیہ عظمیٰ کراچی نے عباسی شہید اسپتال قائم کیا۔ بھٹو دورمیں لیاری جنرل اسپتال قائم ہوا۔ یوں شہر میں کوئی درجن بھر سرکاری اسپتال ہیں۔ مگر سبھی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ شہر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے تجاوزکرچکی ہے۔
اصولی طور پر کراچی ڈویژن کے ہر ضلع میں ایک سول اسپتال قائم کیا جانا چاہیے تھا، مگرکسے ضرورت ہے۔ دیگر اضلاع کو چھوڑیے، لاڑکانہ، دادو اورخیرپور اضلاع کی بات کرتے ہیں۔ لاڑکانہ نے دو وزرائے اعظم اس ملک کو دیے۔ خیر پور سے دو وزرائے اعلیٰ جب کہ دادو سے قیام پاکستان کے بعد کوئی نصف درجن سیاستدان وزارت اعلیٰ کی مسند پر متمکن ہوئے، مگر ان اضلاع میں طبی سہولیات کی حالت زار قابل رحم ہے۔
سیہون جس کے بارے میں اوپر لکھا جاچکا ہے کہ لعل شہباز قلندر کی درگاہ کی وجہ سے یہ قصبہ اندرون ملک ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے عقیدت مندوں کی نگاہوں کا مرکز ہے۔ مگرنہ تو وفاقی اور نہ ہی کسی صوبائی حکومت کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ اس قصبے میں جہاں سال بھر زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے، جدید سہولیات سے آراستہ کوئی بڑا اسپتال قائم کردیں۔
مزار کے احاطے یا اس کے اطراف میںفوری طبی امداد کا کوئی بڑا طبی مرکز بنا دیں، جہاں فوری طبی امداد کی جدید سہولیات میسر ہوں۔ مگر شاید یہ ہماری حکمران اشرافیہ کی ترجیح نہیں ہے۔ان کا مطمع نظر تو صرف اس ملک کے وسائل کی بے دریغ لوٹ مار ہے۔ایسے ماحول میں اچھی حکمرانی اوربہترشہری سہولیات تک عوام کی رسائی کی تمنا محض دیوانے کا خواب ہوکر رہ گیا ہے۔لہٰذا اس کے سوا اورکیا کہہ سکتے ہیںکہ اک داستان الم ہے،کیا کیا بیاں ہو اس کا۔
سیہون میں درگاہ لعل شہباز قلندر میں ہونے والے خود کش حملے نے ذہن کو ماؤف کردیا ہے۔ 90کے قریب معصوم افراد کی زندگیوں کا خاتمہ۔3 سو کے لگ بھگ لوگ زخمی ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ایک ایساقصبہ جس میںاس درویش کا مزار ہو جس کے عقیدت مند پورے جنوبی ایشیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جہاں روزانہ عوام کا ٹھٹھ لگا رہتا ہے، جب کہ عرس کے دنوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ وہاں جدید سہولیات سے آراستہ کوئی اسپتال نہیں۔
درگاہ کے اطراف میں فوری طبی سہولیات فراہم کرنے کا کوئی جدید طبی مرکز نہیں۔یہ صورتحال اس وقت زیادہ تکلیف دہ ہوجاتی ہے، جب کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے۔ معاملہ صرف ایک شہر یا قصبے کا نہیں، بلکہ پورے ملک میں یہی صورتحال ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جن ممالک کی قیادتیں کوتاہ بین، موقع پرست اورسیاسی عزم وحوصلہ سے عاری ہوں، وہاں عوام مسلسل مسائل و مصائب کی چکی میں پستے رہتے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔
پاکستان دنیا کے اس خطے میں ہے جومختلف نوعیت کی قدرتی آفات کی زد میں رہتا ہے۔ جن میں زلزلے، طوفانی بارشیں اورسیلاب وغیرہ شامل ہیں۔ گزشتہ 40برس سے حکمرانوں اور منصوبہ سازوںکی غلط پالیسیوں اورحکمت عملیوںکے باعث مذہبی جنونیت اور متشدد فرقہ واریت کے گرداب میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ جس کی وجہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے بم دھماکوں، خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ روزکا معمول بن گئے ہیں۔اس دوران دیگر سنگین جرائم خاص کر بینک ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان اور انسانی اسمگلنگ کی شرح میں بھی ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اسٹریٹ کرائم اور چوری چکاریاں اس کے سوا ہیں۔
گزشتہ صدی میں رونما ہونے والے واقعات سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر اپنی توجہ صرف حالیہ صدی کے 17برسوں پر مرکوزرکھیں تو بہت سے تلخ حقائق سامنے آتے ہیں جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے، تو ایکسپریس ٹریبون کی 29 مارچ 2015میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 2001سے دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کی تعداد 80ہزارہوگئی تھی۔ جس میں 2015 میں 1,009 اور 2016سے وسط فروری 2017کے دوران نشانہ بننے والے 973 افراد کو بھی شامل کرلیا جائے تو تعداد82ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔
8اکتوبر2005کا قیامت خیز زلزلہ،اس کے بعد بلوچستان میں زلزلہ اور 2010 اور2011میں سیلابوں سے ہونے والا جانی نقصان بھی ہزاروں کی تعداد میں ہے، لیکن حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ ملک میں ٹریفک سمیت مختلف حادثات میں غیر فطری طور پر مرنے والوں کی تعداد درج بالا اعداد و شمار سے تقریباً دگنی ہے۔ ان تمام فطری اور غیر فطری حادثات اور سانحات میں بڑی تعداد میں ہونے والاجانی نقصان اس بات کا غماز ہے کہ ملک کا انتظامی ڈھانچہ فرسودگی کی آخری انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ جس کا سبب حکمران اشرافیہ کی کوتاہ بینی، نااہلی اورموقع پرستی ہے جو اپنے مخصوص مفادات کی خاطر بہتر حکمرانی کی راہ میں مسلسل رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
اکتوبر2005کے زلزلے میں بیشتر جانیں اس لیے ضایع ہوئیں، کیونکہ پاکستان میں ایسے جدید آلات بشمول طاقتور کرینیں اورٹرالر وغیرہ نہیں تھے، جن کی مدد سے زمین بوس ہونے والی عمارتوں کو تیزی سے کاٹ کر ان میں پھنسے افراد کو باہر نکالاجا سکتا ۔ یہی کچھ صورتحال گزشتہ دنوں گڈانی میں شپ بریکنگ کے دوران جہاز میں لگنے والی آگ کے دوران سامنے آئی۔ بیشتر اموات اس لیے ہوئیں کہ جہاز میں پھنسے مزدوروں کو نکالنے کا کوئی مناسب بندوبست نہیں تھا۔ اس علاقے میں جہاں کئی ہزار مزدور کام کرتے ہیں، جدید سہولیات سے آراستہ اسپتال یا فوری طبی امداد کا قائم کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔
اکتوبر2005کے زلزلے میں ریاستی کسمپرسی کے ان گنت مظاہر سامنے آئے تھے۔ اس دوران بڑے پیمانے پر بیرونی امداد بھی آئی، مگر وہ امداد کہاں گئی؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ حکومت نے ان12برسوں میں قدرتی آفات سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ اس کا بھی کسی کوکوئی علم نہیں ہے۔ زلزلے کے بعد ڈزاسٹر مینجمنٹ کا ادارہ ضرور قائم ہوا، مگر اس کی اہلیت اور فعالیت کا بھانڈا 2010کے سیلاب میں پھوٹ گیا جب حکومت کو سیلاب زدگان کی امداد کے لیے ایک بار پھر فوج کی طرف دیکھنا پڑا۔ جہاں تک متاثرین کے لیے فوری طبی امداد کا معاملہ ہے تو وہ بھی شرمناک حد تک فرسودگی کا شکار ہے۔
اگر تاج برطانیہ کی متحدہ ہندوستان میں صحت کے شعبے میں کارکردگی کا پاکستان کی حکومتوں کی70برس کی کارکردگی کے ساتھ سرسری سا تقابلی جائزہ لیں، تو شرمناک شواہد سامنے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر 1860سے1930کے دوران پورے برٹش انڈیا کے ہرضلع ہیڈکوارٹر میں جدید سہولیات سے آراستہ سول اسپتال قائم ہوچکا تھا۔ ہر قصبے میں 20سے30بستروں پر مشتمل اسپتالوں کا جال بچھایا جاچکا تھا، جب کہ تین سے چار دیہاتوں کے کلسٹر پر ایک ڈسپنسری قائم کردی گئی تھی۔
دوسری طرف عالمی ادارہ صحت (WHO)کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں2006تک برطانوی دور کے سرکاری اسپتالوں کی تعداد میں صرف11فیصد اضافہ ہوا ہے، جب کہ اس وقت تک آبادی ڈھائی گنا ہوگئی تھی۔ علاوہ ازیں اسپتالوں میں مہیا کی جانے والی سہولیات میں بتدریج ابتری آئی ہے۔ چند بڑے شہروں میں سرکاری اسپتال میں کسی حد تک جدید طبی سہولیات ضرور موجود ہیں، مگر وہاں کرپشن، بدعنوانیاں اور احتساب نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیاجاتا ہے۔
چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں حالات انتہائی دگرگوں ہیں۔ وہاں اکثر ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسپتالوں میں کتے لوٹ رہے ہیں۔ معالج اور دیگر عملہ بھی غیرذمے دارانہ رویوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ادویات کی خریداری میں اربوں روپے کی خرد برد اس کے سواہے۔ جس کی وجہ سے مریضوں کو اسپتالوں سے ادویات نہیں مل پاتیں۔ حد یہ ہے کہ انھیں مرہم پٹی تک بازار سے خریدنا پڑتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شہرچھوٹے ہوں یا بڑے ہر جگہ سرکاری اسپتال اورڈسپنسریاں حکومتی نااہلی اور عدم دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت بنی ہوئی ہیں۔
سندھ میں حالت مزید ابتری کا شکار ہے۔ کراچی صوبے کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہے۔ یہاں انگریز نے سول اسپتال اس وقت قائم کیا تھا جب اس کی آبادی پونے چار لاکھ تھی۔ قیام پاکستان کے بعد وفاقی دارالحکومت بنا تو جناح میڈیکل سینٹر قائم ہوا۔ 1970کے عشرے میں بلدیہ عظمیٰ کراچی نے عباسی شہید اسپتال قائم کیا۔ بھٹو دورمیں لیاری جنرل اسپتال قائم ہوا۔ یوں شہر میں کوئی درجن بھر سرکاری اسپتال ہیں۔ مگر سبھی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ شہر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے تجاوزکرچکی ہے۔
اصولی طور پر کراچی ڈویژن کے ہر ضلع میں ایک سول اسپتال قائم کیا جانا چاہیے تھا، مگرکسے ضرورت ہے۔ دیگر اضلاع کو چھوڑیے، لاڑکانہ، دادو اورخیرپور اضلاع کی بات کرتے ہیں۔ لاڑکانہ نے دو وزرائے اعظم اس ملک کو دیے۔ خیر پور سے دو وزرائے اعلیٰ جب کہ دادو سے قیام پاکستان کے بعد کوئی نصف درجن سیاستدان وزارت اعلیٰ کی مسند پر متمکن ہوئے، مگر ان اضلاع میں طبی سہولیات کی حالت زار قابل رحم ہے۔
سیہون جس کے بارے میں اوپر لکھا جاچکا ہے کہ لعل شہباز قلندر کی درگاہ کی وجہ سے یہ قصبہ اندرون ملک ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے عقیدت مندوں کی نگاہوں کا مرکز ہے۔ مگرنہ تو وفاقی اور نہ ہی کسی صوبائی حکومت کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ اس قصبے میں جہاں سال بھر زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے، جدید سہولیات سے آراستہ کوئی بڑا اسپتال قائم کردیں۔
مزار کے احاطے یا اس کے اطراف میںفوری طبی امداد کا کوئی بڑا طبی مرکز بنا دیں، جہاں فوری طبی امداد کی جدید سہولیات میسر ہوں۔ مگر شاید یہ ہماری حکمران اشرافیہ کی ترجیح نہیں ہے۔ان کا مطمع نظر تو صرف اس ملک کے وسائل کی بے دریغ لوٹ مار ہے۔ایسے ماحول میں اچھی حکمرانی اوربہترشہری سہولیات تک عوام کی رسائی کی تمنا محض دیوانے کا خواب ہوکر رہ گیا ہے۔لہٰذا اس کے سوا اورکیا کہہ سکتے ہیںکہ اک داستان الم ہے،کیا کیا بیاں ہو اس کا۔