محبت کا امرت
انا اورمحبت ایک دوسرے کا تضاد ہیں
انا اورمحبت ایک دوسرے کا تضاد ہیں۔ جہاں انا ہوگی، وہاں محبت کے رنگ پھیکے پڑجاتے ہیں۔ جدید معاشرے انا کے جال میں الجھے ہوئے ہیں۔ تعریف کے خانے بھی،انا کی مختلف صورتیں ہیں۔ حل انتشار میں ہرگز نہیں ملتا۔ حل کی خاطر،ارتکاز کو حاصل کرنا پڑتا ہے۔شاہ لطیف کی شاعری کی نرالی رمز،انا کے زہرکو محبت کے امرت میں ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔
زہرکو مارکے شہد بنائیں، بیٹھ توان کے پاس
زہرآئے وہ راس' بھربھر پیالے پی
ضد یا غرور بھی انا کے مختلف روپ ہیں۔ ذات کی نفی یا من مارنے کی کوشش سے میٹافورسس (تبدیلی) کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔جس کے بعد آنکھوں پر پڑے دوئی کے بادل چھٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ ہائبرنیشن کے بعد کا منظر ہے، جب گہری برف کی دھند سورج کی تپش سے پگھلنے لگتی ہے۔ بے رنگ منظر سبزہ اوڑھ لیتے ہیں۔ درختوں پر پرندے چہچہانے لگتے ہیں اورتاحد نظررنگا رنگ پھول کھلتے دکھائی دیتے ہیں۔یہ زندگی سے بھرپورمنظر ہے۔ یہ سورج تبدیلی کا استعارہ ہے۔برف کی بے حسی کی نفی کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح بے حسی کے خاتمے پر،احساس کی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔
بقول شاہ کے ''میں'' کا نشہ انسان کے اندر بستا ہے۔ جو اسے دنیا ومافیہا سے بے خبرکردیتا ہے۔ لیکن خود شناسی کا جوہر بھی انسان کے اندرپنپتا ہے۔ انا (بے خبری) اورخود شناسی (خودآگہی) انسان کے اندرکی دوصورتیں ہیں۔ جس طرح آنسو اور مسکراہٹ مختلف کیفیات کا ردعمل ہیں۔ دونوں ہی رنگ بیک وقت انسان کے اندر بستے ہیں۔کبھی ایک رنگ غالب آجاتا ہے توکبھی دوسرا حاوی ہونے لگتا ہے۔ انسان کسی بھی راہ کا انتخاب خودکرتا ہے۔ یہ خود شعوری کا کرشمہ ہے۔ جس کی بنا پر تخلیقی سوچ پروان چڑھتی ہے۔
انسان چاہے ظاہری آنکھ سے دنیا کو پرکھ سکتا ہے۔ اس پرکھ میں فہم وادراک کا ہونا ضدکی نفی ہے۔ پرکھ کا توازن دانائی کی دین ہے۔
انا، فریب کا لامتناہی سلسلہ ہے۔خود فریبی کا قیدخانہ ہے۔ توقعات انسان کو دکھ میں مبتلا کردیتی ہیں گر پوری نہ ہوں۔ شاہ فرماتے ہیں:
اگر چہرہ اجلا ہے مگر قلب سیاہ
زباں پر خوبصورت باتیں ہوں
دل میں مگر اس کے برعکس صورتحال
تو روشن راستے معدوم ہوجاتے ہیں
انسان کو جو کچھ بھی میسر ہے، وہ اس کے قلب کے اجلے پن کی دین ہے۔ یہ مت سمجھنا کہ قلب کی سیاہی منزل کا نشان بتاسکے گی۔ گوہر مقصود پانے کے لیے ویسا ہی معیار اپنانا پڑتا ہے۔ وجود کا ورق دھو کے معرفت حاصل ہوتی ہے۔یہ منافق لوگ جن کی نشاندہی شاہ لطیف کرتے ہیں، ہر دور میں پائے جاتے ہیں۔ انھوں نے تاریک اعمال پر روشن چہرے سجا رکھے ہیں۔ ان کے سجدے عمل کی تاثیر سے خالی ہیں۔ یہ لوگ ذات کی محبت میں مبتلا ہیں۔ خود پسند شخص کو اپنے سوا کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا۔وہ مستقل محبت کی نفی کرتا رہتا ہے۔کیونکہ محبت، عاجزی سکھاتی ہے۔ ذات کی نفی کا دوسرا نام ہے۔ یہ رمز سمجھاتے ہوئے لطیف فرماتے ہیں۔
کہنے سے کیا حاصل' بات سمجھ نادان
ٹوٹے گی وہ کمان' جس کو زور سے کھینچو
نفرت سے کبھی نفرت کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ نفرت کو محبت کے امرت سے زائل کرنے کا ہنر سیکھنا پڑتا ہے کیونکہ محبت روشنی ہے۔
نفرت کے اندھیرے کواپنے اندر جذب کرلیتی ہے، لیکن لوگ یہ بات نہیں سمجھتے وہ شک کا زہر ایک دوسرے کی زندگیوں میں گھولتے ہیں اور ایک دن اپنے ہی زہر سے مرجاتے ہیں۔
جس ادارے سے میں منسلک ہوں وہاں کے لوگ آئے دن لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ وہ اس ٹوہ میں لگے رہتے ہیں کہ کسے زیادہ فائدہ مل رہا ہے۔کون مراعات لے رہا ہے اور پرکھتے رہتے ہیں کہ کون کیسا ہے، اچھا ہے یا برا ہے۔ ہر وقت گمان کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ گمان جو ہر برائی کی جڑ ہے، مگر کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ اس پر جو فرض عائد ہے، اسے وہ کس سچائی سے ادا کر رہا ہے۔ کہیں وہ اپنے فرض یا عائد کردہ ذمے داری سے غافل تو نہیں ہے۔ تھوڑا کام کرکے لوگ خوب جتلاتے ہیں۔ ایسا ماحول جس میں غیبت، چغلی یا چرب زبانی کے ماہر موجود ہوں۔ روح کا گلاب مرجھا جاتا ہے۔ ایک غیرمنطقی سرد لڑائی، دن کی تمام تر تازگی کو نگل جاتی ہے۔
بقول شاہ سائیں کے:
بات کہی ہو یا نہ کہی ہو'دل سے اسے بھلا
آٹھوں پہر حلیمی کا' خودکو درس سکھا
جیون گزار دے اپنا' سرکو تو نہڑا
مفتی من میں بیٹھا' پھرکیا حاجت ہو قاضی کی
ایک پورا دن ہم غیبتوں اور شکایتوں کی نذرکردیتے ہیں۔ یہ رویے گھر سے شروع ہوکر باہرکی دنیا تک جاکر ختم ہوتے ہیں۔ چندگھڑیاں سکون کی خاطر ٹیلی ویژن آن کرتے ہیں، تو وہاں بھی غیبت اورگمان کے انوکھے کھیل دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے ڈراما، اسکرین پلے ہوا کرتا تھا اب وہ خبروں کا حصہ بن چکا ہے۔ ڈرامائی لہجے اورانداز وقت کی ضرورت بن چکے ہیں۔ جتنا کرخت اور ڈراؤنا لہجا ہوگا، ایک جم غفیر ٹیلی ویژن کے اردگرد جمع ہوگا۔ میٹھے اورمنطقی لہجے جیتے جاگتے ڈراموں کے شور میں دب جاتے ہیں۔ چیخوگے تو کہیں جاکر دوسرے کو آواز آپ کی سنائی دے گی۔ یوں چیخنے اور چلانے کی روایتیں تشکیل دی گئیں۔ شستہ اور محبت بھرے لہجے غائب ہوگئے۔ شک اور نفرت سکہ رائج الوقت ہوگئے۔
یہ حقیقت ہے کہ بری روایتوں کے خلاف لڑا جاتا ہے۔ انھیں وقت پر ختم کردیا جاتا ہے۔ اچھا مشورہ صدقہ جاریہ ہے، یہ پودا لگانے کے مترادف ہے۔ اچھے مشورے اورسوچ کی ہریالی کا ذائقہ ہرآنے والی نسل محسوس کرتی ہے۔آپ خوبصورت سوچ کے بیج احساس کی زمین میں بوئیں،آنے والی نسل کے سر پر محبت کی چھاؤں نگہبانی کرے گی۔محبتوں کے سفیروں کی ہم قدر نہیں کرتے۔ انھیں تحفظ نہیں فراہم کرتے، اگر ایسا ہوتا توقلندرکے مزار پر محبتوں کے پرخچے یوں نہ اڑتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ مزارات توہم پرستی کا سرچشمہ ہیں۔
یہ بات کہنے والے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ دکھی انسانیت کے لیے ہر مہینے وہ آمدن کا کتنا حصہ وقف کرتے ہیں۔ یہ مزارات جو دکھی انسانوں کی پناہ گاہیں ہیں یہ اپنا دکھ سنانے، صوفیوں کے مزارات پر جمع ہوتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ صوفی سوچ محبت کا ردعمل ہے۔ جو یقین لے کر جاتے ہیں وہی انھیں شفا دیتا ہے۔ یہ یقین جو انھیں آج کے انسان سے نہیں مل پایا۔ لہٰذا اس محبوب سے رجوع کرتے ہیں، جس کے آستان پر فقط محبتوں کے پھول نچھاورکیے جاتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے محبت کا امرت انھیں انسانوں کے جنگل میں کہیں نہیں ملے گا۔
زہرکو مارکے شہد بنائیں، بیٹھ توان کے پاس
زہرآئے وہ راس' بھربھر پیالے پی
ضد یا غرور بھی انا کے مختلف روپ ہیں۔ ذات کی نفی یا من مارنے کی کوشش سے میٹافورسس (تبدیلی) کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔جس کے بعد آنکھوں پر پڑے دوئی کے بادل چھٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ ہائبرنیشن کے بعد کا منظر ہے، جب گہری برف کی دھند سورج کی تپش سے پگھلنے لگتی ہے۔ بے رنگ منظر سبزہ اوڑھ لیتے ہیں۔ درختوں پر پرندے چہچہانے لگتے ہیں اورتاحد نظررنگا رنگ پھول کھلتے دکھائی دیتے ہیں۔یہ زندگی سے بھرپورمنظر ہے۔ یہ سورج تبدیلی کا استعارہ ہے۔برف کی بے حسی کی نفی کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح بے حسی کے خاتمے پر،احساس کی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔
بقول شاہ کے ''میں'' کا نشہ انسان کے اندر بستا ہے۔ جو اسے دنیا ومافیہا سے بے خبرکردیتا ہے۔ لیکن خود شناسی کا جوہر بھی انسان کے اندرپنپتا ہے۔ انا (بے خبری) اورخود شناسی (خودآگہی) انسان کے اندرکی دوصورتیں ہیں۔ جس طرح آنسو اور مسکراہٹ مختلف کیفیات کا ردعمل ہیں۔ دونوں ہی رنگ بیک وقت انسان کے اندر بستے ہیں۔کبھی ایک رنگ غالب آجاتا ہے توکبھی دوسرا حاوی ہونے لگتا ہے۔ انسان کسی بھی راہ کا انتخاب خودکرتا ہے۔ یہ خود شعوری کا کرشمہ ہے۔ جس کی بنا پر تخلیقی سوچ پروان چڑھتی ہے۔
انسان چاہے ظاہری آنکھ سے دنیا کو پرکھ سکتا ہے۔ اس پرکھ میں فہم وادراک کا ہونا ضدکی نفی ہے۔ پرکھ کا توازن دانائی کی دین ہے۔
انا، فریب کا لامتناہی سلسلہ ہے۔خود فریبی کا قیدخانہ ہے۔ توقعات انسان کو دکھ میں مبتلا کردیتی ہیں گر پوری نہ ہوں۔ شاہ فرماتے ہیں:
اگر چہرہ اجلا ہے مگر قلب سیاہ
زباں پر خوبصورت باتیں ہوں
دل میں مگر اس کے برعکس صورتحال
تو روشن راستے معدوم ہوجاتے ہیں
انسان کو جو کچھ بھی میسر ہے، وہ اس کے قلب کے اجلے پن کی دین ہے۔ یہ مت سمجھنا کہ قلب کی سیاہی منزل کا نشان بتاسکے گی۔ گوہر مقصود پانے کے لیے ویسا ہی معیار اپنانا پڑتا ہے۔ وجود کا ورق دھو کے معرفت حاصل ہوتی ہے۔یہ منافق لوگ جن کی نشاندہی شاہ لطیف کرتے ہیں، ہر دور میں پائے جاتے ہیں۔ انھوں نے تاریک اعمال پر روشن چہرے سجا رکھے ہیں۔ ان کے سجدے عمل کی تاثیر سے خالی ہیں۔ یہ لوگ ذات کی محبت میں مبتلا ہیں۔ خود پسند شخص کو اپنے سوا کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا۔وہ مستقل محبت کی نفی کرتا رہتا ہے۔کیونکہ محبت، عاجزی سکھاتی ہے۔ ذات کی نفی کا دوسرا نام ہے۔ یہ رمز سمجھاتے ہوئے لطیف فرماتے ہیں۔
کہنے سے کیا حاصل' بات سمجھ نادان
ٹوٹے گی وہ کمان' جس کو زور سے کھینچو
نفرت سے کبھی نفرت کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ نفرت کو محبت کے امرت سے زائل کرنے کا ہنر سیکھنا پڑتا ہے کیونکہ محبت روشنی ہے۔
نفرت کے اندھیرے کواپنے اندر جذب کرلیتی ہے، لیکن لوگ یہ بات نہیں سمجھتے وہ شک کا زہر ایک دوسرے کی زندگیوں میں گھولتے ہیں اور ایک دن اپنے ہی زہر سے مرجاتے ہیں۔
جس ادارے سے میں منسلک ہوں وہاں کے لوگ آئے دن لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ وہ اس ٹوہ میں لگے رہتے ہیں کہ کسے زیادہ فائدہ مل رہا ہے۔کون مراعات لے رہا ہے اور پرکھتے رہتے ہیں کہ کون کیسا ہے، اچھا ہے یا برا ہے۔ ہر وقت گمان کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ گمان جو ہر برائی کی جڑ ہے، مگر کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ اس پر جو فرض عائد ہے، اسے وہ کس سچائی سے ادا کر رہا ہے۔ کہیں وہ اپنے فرض یا عائد کردہ ذمے داری سے غافل تو نہیں ہے۔ تھوڑا کام کرکے لوگ خوب جتلاتے ہیں۔ ایسا ماحول جس میں غیبت، چغلی یا چرب زبانی کے ماہر موجود ہوں۔ روح کا گلاب مرجھا جاتا ہے۔ ایک غیرمنطقی سرد لڑائی، دن کی تمام تر تازگی کو نگل جاتی ہے۔
بقول شاہ سائیں کے:
بات کہی ہو یا نہ کہی ہو'دل سے اسے بھلا
آٹھوں پہر حلیمی کا' خودکو درس سکھا
جیون گزار دے اپنا' سرکو تو نہڑا
مفتی من میں بیٹھا' پھرکیا حاجت ہو قاضی کی
ایک پورا دن ہم غیبتوں اور شکایتوں کی نذرکردیتے ہیں۔ یہ رویے گھر سے شروع ہوکر باہرکی دنیا تک جاکر ختم ہوتے ہیں۔ چندگھڑیاں سکون کی خاطر ٹیلی ویژن آن کرتے ہیں، تو وہاں بھی غیبت اورگمان کے انوکھے کھیل دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے ڈراما، اسکرین پلے ہوا کرتا تھا اب وہ خبروں کا حصہ بن چکا ہے۔ ڈرامائی لہجے اورانداز وقت کی ضرورت بن چکے ہیں۔ جتنا کرخت اور ڈراؤنا لہجا ہوگا، ایک جم غفیر ٹیلی ویژن کے اردگرد جمع ہوگا۔ میٹھے اورمنطقی لہجے جیتے جاگتے ڈراموں کے شور میں دب جاتے ہیں۔ چیخوگے تو کہیں جاکر دوسرے کو آواز آپ کی سنائی دے گی۔ یوں چیخنے اور چلانے کی روایتیں تشکیل دی گئیں۔ شستہ اور محبت بھرے لہجے غائب ہوگئے۔ شک اور نفرت سکہ رائج الوقت ہوگئے۔
یہ حقیقت ہے کہ بری روایتوں کے خلاف لڑا جاتا ہے۔ انھیں وقت پر ختم کردیا جاتا ہے۔ اچھا مشورہ صدقہ جاریہ ہے، یہ پودا لگانے کے مترادف ہے۔ اچھے مشورے اورسوچ کی ہریالی کا ذائقہ ہرآنے والی نسل محسوس کرتی ہے۔آپ خوبصورت سوچ کے بیج احساس کی زمین میں بوئیں،آنے والی نسل کے سر پر محبت کی چھاؤں نگہبانی کرے گی۔محبتوں کے سفیروں کی ہم قدر نہیں کرتے۔ انھیں تحفظ نہیں فراہم کرتے، اگر ایسا ہوتا توقلندرکے مزار پر محبتوں کے پرخچے یوں نہ اڑتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ مزارات توہم پرستی کا سرچشمہ ہیں۔
یہ بات کہنے والے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ دکھی انسانیت کے لیے ہر مہینے وہ آمدن کا کتنا حصہ وقف کرتے ہیں۔ یہ مزارات جو دکھی انسانوں کی پناہ گاہیں ہیں یہ اپنا دکھ سنانے، صوفیوں کے مزارات پر جمع ہوتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ صوفی سوچ محبت کا ردعمل ہے۔ جو یقین لے کر جاتے ہیں وہی انھیں شفا دیتا ہے۔ یہ یقین جو انھیں آج کے انسان سے نہیں مل پایا۔ لہٰذا اس محبوب سے رجوع کرتے ہیں، جس کے آستان پر فقط محبتوں کے پھول نچھاورکیے جاتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے محبت کا امرت انھیں انسانوں کے جنگل میں کہیں نہیں ملے گا۔