شفاف دھات بنا لی گئی
انوکھے میٹیریل سے بنے عدسے عینک، کیمرے اور دیگر آلات میں استعمال ہوں گے۔
عینک کے عدسے پلاسٹک یا شیشے کے بنے ہوتے ہیں، لیکن مستقبل میں دھاتی عدسوں والی عینکیں دست یاب ہوں گی ! دھات سے عدسوں کا بنایا جانا عجیب معلوم ہوتا ہے مگر ٹیکنالوجی کے اس دور میں کوئی بھی بات ناممکن نہیں رہی۔ ان گنت وہ اشیاء ہمارے زیراستعمال ہیں جن کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اسی طرح بہت جلد آپ دھاتی عدسوں والی عینکیں استعمال کررہے ہوں گے۔
شفاف دھاتی میٹیریل تخلیق کرنے کا کارنامہ ہارورڈ یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے انجام دیا ہے۔ انھوں نے ٹائٹینیئم ڈائی آکسائیڈ نامی دھات کو شیشے کے مانند شفاف بنادیا جس میں سے روشنی بہ آسانی گزرسکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ماہرین نے نینوٹیکنالوجی سے کام لیتے ہوئے ٹائٹینیئم ڈائی آکسائیڈ کے نینوپلرز کو اس طرح ترتیب دیا کہ ان میں سے روشنی کی شعاعیں بہ آسانی گزر جائیں۔ درحقیقت اس میٹیریل میں سے روایتی شیشے کی نسبت روشنی کی زیادہ مقدار گزرتی ہے، اور اس کی سطح سے ٹکرا کر بالکل منعکس نہیں ہوتی۔
محققین کہتے ہیں کہ دھاتی میٹیریل سے بنے عدسے عام شیشوں والے عدسوں کے مقابلے میں کئی گنا باریک اور کم وزن ہوں گے۔ ان عدسوں کا استعمال صرف عینکوں تک محدود نہیں ہوگا بلکہ کیمروں، موبائل فون سمیت دیگر متعدد آلات اور اشیاء میں روایتی عدسوں کی جگہ لیں گے۔
سائنس دانوں نے عدسے کا ابتدائی ورژن گذشتہ برس کے وسط میں تیار کرنے کا اعلان کیا تھا، مگر اس وقت یہ صرف ایک رنگ کو فوکس کرسکتا تھا۔ اگر اسے کیمرے میں استعمال کیا جاتا تو پھر ایک وقت میں ایک ہی رنگ کی تصاویر حاصل ہوتی۔ چند ماہ کے دوران دھاتی عدسے کو نیلے سے لے کر سبز تک رنگوں کی پوری طیف سے ہم آہنگ کردیا گیا۔ محققین کا دعویٰ ہے کہ دھاتی عدسوں کی مدد سے کھینچی گئی تصاویر عام عدسوں کے ذریعے کھینچی گئی تصویروں کی نسبت زیادہ صاف، واضح اور تفصیلی ہوں گی۔
بعض اوقات روایتی عدسوں والے کیمروں سے کھینچی گئی تصاویر دھندلا جاتی ہیں یا تصویر میں موجود اجسام کے کنارے رنگین ہوجاتے ہیں۔ یہ بصری مشکل لونی انحراف (chromatic aberration ) کہلاتی ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت جنم لیتا ہے جب ایک عدسے سے روشنی کے رنگ مختلف رفتار سے سفر کرتے ہوئے گزر رہے ہوں۔ دھاتی عدسوں کے استعمال سے یہ مشکل بھی حل ہوجائے گی۔
خردبین اور موبائل فون سے لے کر لیپ ٹاپ اور دوسرے آلات میں نصب کیمروں میں لونی انحراف کے سدباب کے لیے ایک سے زائد عدسے لگائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا وزن اور دبازت بڑھ جاتی ہے۔ تاہم دھاتی عدسے کے ساتھ کوئی اور عدسہ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، کیوں کہ اس کی تخلیق کے دوران نینوپلرز کو ترتیب دیتے وقت لونی انحراف کا سدباب کردیا گیا ہے۔
ہارورڈ یونی ورسٹی کے ٹیکنالوجی ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے دھاتی عدسے کو پیٹنٹ کروانے کے لیے درخواست دائر کردی ہے اور اس کی تجارتی پیمانے پر پیداوار کے لیے اقدامات بھی شروع کردیے ہیں۔
شفاف دھاتی میٹیریل تخلیق کرنے کا کارنامہ ہارورڈ یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے انجام دیا ہے۔ انھوں نے ٹائٹینیئم ڈائی آکسائیڈ نامی دھات کو شیشے کے مانند شفاف بنادیا جس میں سے روشنی بہ آسانی گزرسکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ماہرین نے نینوٹیکنالوجی سے کام لیتے ہوئے ٹائٹینیئم ڈائی آکسائیڈ کے نینوپلرز کو اس طرح ترتیب دیا کہ ان میں سے روشنی کی شعاعیں بہ آسانی گزر جائیں۔ درحقیقت اس میٹیریل میں سے روایتی شیشے کی نسبت روشنی کی زیادہ مقدار گزرتی ہے، اور اس کی سطح سے ٹکرا کر بالکل منعکس نہیں ہوتی۔
محققین کہتے ہیں کہ دھاتی میٹیریل سے بنے عدسے عام شیشوں والے عدسوں کے مقابلے میں کئی گنا باریک اور کم وزن ہوں گے۔ ان عدسوں کا استعمال صرف عینکوں تک محدود نہیں ہوگا بلکہ کیمروں، موبائل فون سمیت دیگر متعدد آلات اور اشیاء میں روایتی عدسوں کی جگہ لیں گے۔
سائنس دانوں نے عدسے کا ابتدائی ورژن گذشتہ برس کے وسط میں تیار کرنے کا اعلان کیا تھا، مگر اس وقت یہ صرف ایک رنگ کو فوکس کرسکتا تھا۔ اگر اسے کیمرے میں استعمال کیا جاتا تو پھر ایک وقت میں ایک ہی رنگ کی تصاویر حاصل ہوتی۔ چند ماہ کے دوران دھاتی عدسے کو نیلے سے لے کر سبز تک رنگوں کی پوری طیف سے ہم آہنگ کردیا گیا۔ محققین کا دعویٰ ہے کہ دھاتی عدسوں کی مدد سے کھینچی گئی تصاویر عام عدسوں کے ذریعے کھینچی گئی تصویروں کی نسبت زیادہ صاف، واضح اور تفصیلی ہوں گی۔
بعض اوقات روایتی عدسوں والے کیمروں سے کھینچی گئی تصاویر دھندلا جاتی ہیں یا تصویر میں موجود اجسام کے کنارے رنگین ہوجاتے ہیں۔ یہ بصری مشکل لونی انحراف (chromatic aberration ) کہلاتی ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت جنم لیتا ہے جب ایک عدسے سے روشنی کے رنگ مختلف رفتار سے سفر کرتے ہوئے گزر رہے ہوں۔ دھاتی عدسوں کے استعمال سے یہ مشکل بھی حل ہوجائے گی۔
خردبین اور موبائل فون سے لے کر لیپ ٹاپ اور دوسرے آلات میں نصب کیمروں میں لونی انحراف کے سدباب کے لیے ایک سے زائد عدسے لگائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا وزن اور دبازت بڑھ جاتی ہے۔ تاہم دھاتی عدسے کے ساتھ کوئی اور عدسہ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، کیوں کہ اس کی تخلیق کے دوران نینوپلرز کو ترتیب دیتے وقت لونی انحراف کا سدباب کردیا گیا ہے۔
ہارورڈ یونی ورسٹی کے ٹیکنالوجی ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے دھاتی عدسے کو پیٹنٹ کروانے کے لیے درخواست دائر کردی ہے اور اس کی تجارتی پیمانے پر پیداوار کے لیے اقدامات بھی شروع کردیے ہیں۔