نظام تعلیم اور معیار تعلیم
٭ طالب علم
٭ استاد
٭ نصاب
٭درسی کتب
دوسری جنگ عظیم کے بعد تعلیم کے میدان میں تعلیمی نفسیات اور نفسیات اطفال میں ترقی کے باعث انقلابی تبدیلیاں آئیں۔ تعلیم کے نئے طریقے متعارف ہوئے جن میں Montesoori kinder garten اور Play-way method کے خالص نفسیاتی طریقوں نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے۔
اطالوی خاتون ماریہ مانٹی سوری نے اپنی زندگی چھوٹے بچوں کی ایسی تعلیم کے طریقوں کو متعارف کرانے کے لیے وقف کردی کہ جس کے نتیجے میں بچہ تعلیم گاہ سے بھاگنے کے بجائے اس کی طرف دوڑ کر جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کھیل کھیل میں تعلیم کے نت نئے طریقے وضع ہوئے۔ ماریہ مانٹی سوری اپنی وفات سے چند ماہ قبل 1953ء میں پاکستان بھی تشریف لائیں اور اپنے طریقہ تعلیم کے لیے لیکچرز بھی دیے۔ انہوںنے بھی تعلیم کے لیے قدرتی طریقے پر زور دیا۔
سگمنڈ فرائڈ کے لائق ترین شاگرد الفریڈ ریڈلر نے واضح کیا تھا کہ ہر بچے کی زندگی کے پہلے پانچ سال اس کی آیندہ زندگی کو بڑی حد تک متاثر کرتے ہیں۔ نفسیات اطفال کے جدید ماہرین بچے کی پیدایش سے بارہ سال کی عمر تک ذہن و کردار کے حوالے سے مطالعہ کرتے اور مشورے دیتے ہیں (طلبا کو مشورے دینے کے لیے ابتدائی تعلیمی مراکز Child guidance clinics کا قیام ترقی یافتہ ممالک میں انتہائی کام یاب تجربہ ثابت ہوا تھا) ان ماہرین کے نزدیک پانچ سے سات سال کے درمیان بچہ کتابوں کے بجائے عملی چیزوں سے زیادہ سیکھتا ہے وہ اپنی ٹیچر کی نقالی عمدگی سے کرتا ہے۔ اب ٹیچر اس کو لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری یاد کرائے یا پھر ''بابا بلیک شیپ اور ہمپٹی ڈمٹی'' کا رٹّا لگوائے، دونوں کے لیے بچہ بہترین نقال ثابت ہوتا ہے۔
قدیم اور جدید ماہرین نفسیات اور ماہرین تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے ہے کہ بچے کی پرائمری تعلیم کی ابتدا پانچ سے چھ سال کے درمیان ہونی چاہیے اور سیکنڈری تعلیم کی ابتدا 10 اور 11 سال کے درمیان اور ذریعہ تعلیم مادری زبان میں ہونا چاہیے خاص طور سے پرائمری تعلیم کے لیے یہ 'بنیادی ضرورت' ہے۔ زبان کے اثرات بچے پر کسی بھی بات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عمر کے اس حصے میں جب بچہ اسکول جانا شروع کرتا ہے تو وہ ذہنی، جسمانی اور جذباتی ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے جس میں اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اپنی فطری استعداد کے مطابق سیکھے۔ جب بچے پر دباؤ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہن، سمجھ اور عقل و حافظے کی استعداد اور فطرت کے خلاف تعلیم حاصل کرے تو اس کے نتیجے میں سیکھنے کا عمل جبری ہو جاتا ہے اور بچے اسکول سے بھاگنے لگتے ہیں۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں بچوں کی عمر کے مطابق تعلیم دینے والے ماہر اساتذہ کی بہت کمی ہے پھر دوسری زبان (انگریزی) کا بھوت عوام و خواص، دونوں کے ذہنوں میں گھس بیٹھا ہے۔ انگریزی کو پہلی کلاس سے متعارف کرایا جارہا ہے، جب کہ حالت یہ ہے کہ انگریزی پڑھانے والے بیشتر اساتذہ کا تلفظ تک درست نہیں۔
برطانوی تعلیمی مشیر جان کلاگ نے بھی واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ طالب علم کو لازمی اپنی زبان میں تعلیم دینی چاہیے کیوں کہ غیر زبان میں تعلیم دینے سے طلبا اور اساتذہ کا بہت سا قیمتی وقت ترجموں کی نذر ہو جاتا ہے جس کے بعد بھی بچے مفہوم کے لحاظ سے غبی رہتے ہیں لیکن رٹے کی بنیاد پر امتحان پاس کر لیتے ہیں جو کسی بھی علم کا مقصود نہیں۔ جو علم ذہن کو شعوری روشنی نہ بخشے وہ اند ھیرے میں ہی رہتا ہے۔ جان کلاگ کا بھی یہی موقف تھا کہ ایسی پالیسی جو بدیسی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لیے وضع کی جائے وہ تعلیم کو ایک مجبوری کا عمل بنا سکتی ہے۔ یہ اہم نکتہ ہے جس پر والدین اور تعلیمی ماہرین کو خصوصی غور کرنا چاہیے۔
انگلش میڈم اسکولوں میں صرف صاحب ثروت، اعلا سرکاری عہدیداران، جاگیرداروں اور وڈیروں کی اولادیں تعلیم حاصل کر رہی ہیں جب کہ غیر معیاری نام نہاد انگریزی میڈیم اسکول گلی گلی، کوچے کوچے، تعلیم کی حرمت کو پامال کر رہے ہیں اور سادہ لوح عوام کو انگلش میڈیم کے نام پر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ اگر انگلش میڈیم اسکول معیاری تعلیم دے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مادری زبان میں یہ نا ممکن ہے۔ جاپان، جرمنی، فرانس، چین، مشرق وسطیٰ اور بھارت میں ابتدائی تعلیم مادری زبانوں میں ہی دی جاتی ہے۔ انگریزی تعلیم (ایک زبان کے طور پر) سیکنڈری سطح سے شروع ہوتی ہے۔
حقیقت میں مادری زبان میں ابتدائی تعلیم بچے کے ذہن، فہم، حافظے کی استعداد اور فطرت کے مطابق ہے۔ آزادی سے قبل کے نظام تعلیم کو سامنے رکھیں تو اس میں ایک تسلسل تھا۔ پرائمری تک مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے سیکنڈری میں بہ آسانی نہ صرف انگریزی سیکھتے تھے بلکہ اس میں مہارت کا یہ حال تھا کہ ان کو کالج اور یونیورسٹی میں انگریزی میں تعلیم حاصل کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ مولانا محمد علی جوہر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی۔اے میں پورے ملک میں اول آئے اور انگریزی میں تاریخ ساز نمبر (صد فیصد) لے کر ایک ریکارڈ قائم کیا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ معیاری تعلیم کا سہرا ان محترم اساتذہ کے سر ہے جو ہر مضمون کے ساتھ انصاف کرتے تھے اور تعلیم محض امتحان پاس کرنے کے لیے نہیں بلکہ حقیقی آگاہی کے لیے دیتے تھے۔
ہم کسی موثر تعلیمی حکمت عملی نہ ہونے کے باعث بہت وقت ضایع کر چکے، اب جلد ازجلد طالب علم کے لیے ایسی پالیسیاں اپنانی چاہئیں جو سیکھنے اور تعلیم کے تقاضوں کو پورا کرتی ہوں۔
کسی بھی قوم کی بنیادی ضرورت یہ ہے کہ معاشرے کے ذہین افراد تدریس کی طرف آئیں۔ جب کہ ہمارے یہاں یہ بات زبان زد عام ہے ''جس کو کوئی اور کام نہیں ملا وہ استاد بھرتی ہوگیا۔'' تاکہ دال روٹی کا انتظام ہو سکے۔ ہمارے اساتذہ کو جو تعلیم سرٹیفکیٹ/ ڈگری/ ماسٹرز کے تعلیمی پروگرامز کے تحت دی جاتی ہے وہ بنیادی طور پر ان کو پڑھانے کی تکنیک یا طریقہ تعلیم کے لیے تیار نہیں کرتی۔ Teacher education institutions عام طور سے نام نہاد مجلسی انداز (Transmission model) کے اصول پر ٹیچرز کو تعلیم دیتے ہیں جہاں ان کی حیثیت انفعالی (Passive) ہوتی ہے۔ نتیجے میں جب یہ عملی میدان میں آتے ہیں تو ان کی بڑی تعداد طلبا کو بامعنی تعلیم دینے سے قاصر رہتی ہے۔
ٹریننگ کے ذریعے ہی ایک استاد پیشہ ورانہ ترقی کے نتیجے میں بہتر پلاننگ کے ساتھ طلبا کو تعلیم دے سکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں مستقبل کے اساتذہ کی ذہانت، فطری میلان اور رویے کے بارے میں اطمینان بخش رپورٹ کے بعد معاشرتی پس منظر اور جسمانی، ذہنی و نفسیاتی صحت کے بارے میں ماہرین کی ٹیم فیصلہ کرتی ہے پھر امیدوار کو ٹریننگ کے مختلف طریقوں سے استفادے کا موقع دیا جاتا ہے۔ مثلاً Critical friendship کا طریقہ نئے ٹیچر کی ٹریننگ کے لیے سب سے زیادہ کام یاب ہے۔ اس طریقے میں سینئر ٹیچر اور ٹرینی ٹیچر کے درمیان دوستی کے معاہدہ کے تحت دوران لیکچر ٹیچر کلاس میں موجود رہتا ہے اور بعد میں اپنے دوست کو اس کی خامیوں سے آگاہی اور مشورے دیتا ہے ٹریننگ کے دیگر طریقوں میں Co-operative learning inquiry based learning اور Montors کے طریقے بھی ترقی یافتہ ملکوں میں مقبول ہیں۔
ہمارے اسکولوں کے کلاس رومز میں یک طرفہ ٹریفک نظر آتی ہے جہاں ہر استاد اپنی ذہنی سطح کے مطابق پڑھاتا نظر آتا ہے اور عام طور پر سے تیار شدہ نوٹس (مواد) سے سالہا سال گزارہ کرتا ہے۔ اکثر اساتذہ اپنی کوتاہیوں کا الزام طلبا، والدین نصابی کتب اور امتحان کے طریقے کار پر ڈال کر بے فکر ہو جاتے ہیں۔
تعلیم کا جدید طریقہ مکالمہ ہے،استاد اگر طلبا کو پڑھائے جانے والے موضوع پر ''سوال جواب'' کا طریقہ اختیار کرے تو یقینا اس طرح استاد اور طالب علم دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہوں گے۔ لگے بندھے کلاس نوٹس لکھنا انتہائی غلط طریقہ ہے۔ طلبا کو خود نوٹس بنانے کی ترغیب دینی چاہیے۔
نصابی لحاظ سے بھی ہمارا نظام تعلیم مختلف زمروں میں بٹا ہوا ہے، جب کہ قیام پاکستان سے قبل پورے ہندوستان میں یک ساں نصاب تعلیم تھا۔ اتنے وسیع و عریض ملک میں کہیں چلے جائیں آپ کو چکرورتی کا ارتھ میٹک (جے۔کے چکرورتی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں پروفیسر تھے) WREN کی جومیٹری، الجبرا اور Johnson کا جغرافیہ مل جائے گا۔ معیار تعلیم اتنا بلند تھا کہ جس نے میٹرک میں چکرورتی کو پڑھ لیا وہ MSc تک ریاضی میں کام یاب ہوتا چلا جائے گا۔
اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہمارا نصاب تعلیم آئے دن تجربات کی زد پر رہتا ہے۔ اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں ہر سال تبدیلی سے معیار تو کیا بلند ہوتا، اساتذہ اور طلبا کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوا، پھر مستزاد یہ کہ مددگار کتب (Helping Books) کے نام پر طلبہ و طالبات کو مہنگی کتب خریدنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔
نصابی کتب کو قومی امنگوں اور بین الاقوامی تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے، جب کہ موجودہ کورس قومی اور بین الاقوامی تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے ساتھ ہی نصابی کتب کا معیار پست ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی ماہرین تعلیم میٹرک اور O لیول کے نصاب کا تقابلی جائزہ لیں اور ہماری قومی ضروریات کے مطابق جلدازجلد قومی سطح کا فوری نافذ ہونے والا نصاب تیار کریں، جو طلبا اور نصاب کے درمیان ایک ہم آہنگی اور توازن برقرار رکھے ہوئے ہو اور ایسی تعلیم فراہم کرے جس میں بنیادی تعلیم نہایت مضبوط ہو۔
امتحانی طریقہ کار میں تبدیلی اساتذہ اور طلبا دونوں کے لیے فائدہ مند ہوگی، آٹھویں جماعت تک سالانہ نظام کو سہ ماہی کر دیا جائے۔ کورس کو پڑھائی کے تین مرحلوں میں تقسیم کر دیا جائے (یونٹ ایک تا تین)۔ ایک یونٹ تین ماہ کا ہو جس میں منظور شدہ کورس پڑھایا جائے اور امتحان میں کام یابی کے بعد ہی طالب علم کو دوسرے یونٹ میں ترقی دی جائے گی۔ اس طرح جو طالب علم فائنل یونٹ میں فیل ہوگا اس کو دوباہ اسی یونٹ کا امتحان دینا ہوگا، جس کے لیے گرمی کی چھٹیوں کے فوری بعد انتظام ہونا چاہیے۔ اس طرح طالب علم کا قیمتی سال ضایع ہونے سے بچ جائے گا۔ تین ماہ کے طریقہ امتحان کے باعث طلبا پر امتحانات کا نفسیاتی دباؤ کم ہوگا۔ طلبا کی قابلیت کو بڑھانے اور نقل کے رجحان کی نفی کے لیے معروضی (Objective) سوالات کا طریقہ پوری دنیا میں مقبول ہے اس لیے ہر مضمون کی مناسب سے زیادہ سے زیادہ سوالات معروضی نوعیت کے ہونے چاہئیں تاکہ مکمل نصاب سے انصاف ہوسکے۔