شام کے کالجاہم تعلیمی ضرورت

شام کے کالجوں کا وجود ان طلبہ کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں جو دن بھر اپنے پیشہ ورانہ امور میں مصروف رہتے ہیں۔

صرف امتحان میں کام یابی کے خیال نے ہمارے تعلیمی نظام کو نہایت تشویش ناک صورت حال سے دوچار کیا ہے۔ فوٹو : فائل

شہر کی ایک مرکزی شاہ راہ پر ساتھ ساتھ واقع ایک سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے کا تضاد تعلیمی نظام کی تفریق کا نوحہ کہہ رہا تھا۔

نجی تعلیمی ادارہ اپنی کسی غیر نصابی سرگرمی کے باعث سورج ڈھلنے کے بعد بھی بقئہ نور بنا تھا اور طلبہ کی رونقیں ایک الگ ہی بہار دکھا رہی تھیں جب کہ صرف ایک دیوار کے ذریعے جدا ہونے والے سرکاری تعلیمی ادارے میں شام کی شفٹ کا وقت ہوئے ایک گھنٹے سے زاید وقت ہو چکا تھا لیکن صورت حال کچھ اور ہی احوال کہہ رہی تھی۔

تعلیمی اداروں کی رونقیں براہ راست معاشرے کی علم دوستی اور ترقی کا پیمانہ ہوتی ہیں، بقول شخصے ''جب تعلیمی اداروں میں دن ڈھلنے کے بعد بھی طالبانِ علم اساتذہ کے سامنے دانش کی باتیں حاصل کرنے کے لیے دوزانو ہوں تو سمجھ لیجیے کہ وہ قوم ترقی حاصل کرنے اور اسے برقرار رکھنے کا سلیقہ جان گئی ہے۔'' ہمارے یہاں اگرچہ تعلیم کی صورت حال نہایت ابتر ہے اور تمام تعلیمی شعبوں میں وسائل کی کمی اور ایک بحران کی سی کیفیت ہے۔

جس میں بدعنوانی اور بے ایمانی کے عمل دخل نے معاملات کو اور بھی بگاڑ دیا ہے۔ ایسے میں بعض حلقوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ شہر کے درجن بھر سے زائد کالجوں میں شام کی شفٹ ختم کر کے اسے صبح کی شفٹ میں منتقل کر دیا جائے، جب کہ شام کے کالجوں کا وجود ان طلبہ کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں جو دن بھر اپنے پیشہ ورانہ امور میں مصروف رہتے ہیں اور شام میں آکر ایک باقاعدہ طالب علم کی حیثیت سے اپنی تعلیمی ضروریات پوری کر لیتے ہیں، لیکن عملاً شام کے کالج فقط غیر تدریسی سرگرمیوں کا ہی مرکز و محور دکھائی دیتے ہیں جہاں طلبہ کی آمدورفت فقط فارمز اور فیسیں جمع کرانا ہی رہ گیا ہے۔ شام کے کالجوں کے اوقات شام ساڑھے چار تا آٹھ بجے ہے۔ جس میں شہر کے خراب حالات اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے رہی سہی کسر نکال دی ہے، جس کے بعد تدریسی عمل میں تسلسل جاری نہیں رہ پاتا۔


اگر شام کے اوقات میں چلنے والے کالجوں میں درس وتدریس کا عمل باقاعدگی سے جاری نہیں تو ہونا تو یہ چاہیے کہ اسے معمول پر لانے کے لیے تگ و دو کی جائے تاکہ تعلیمی اداروں کی رونقیں بحال رہ سکیں، ناں کہ انہیں سرے سے ہی ختم کر دیا جائے! کیوں کہ مجموعی طور پر ہمارے ملک میں تعلیم کے لیے وقف کیے جانے والے وسائل کی بہت زیادہ کمی ہے لہٰذا ایک سے زائد شفٹوں کی موجودگی تعلیمی ترقی کے لیے نہایت ضروری اور وقت کا تقاضا ہے۔

اگر شام کے کالجوں میں طلبہ کی کم حاضری کی بنیاد پر انہیں صبح میں منتقل کیا جاتا ہے تو پھر طلبہ کی حاضری کے حوالے سے صبح کے کالجوں کی حالت بھی کوئی حوصلہ افزا نہیں۔ فقط امتحانی نقطہ نگاہ سے نصاب کے مخصوص حصوں کی تدریس اور صرف ایک ماہ قبل پڑھ کر کام یاب ہونے کے خیال کے باعث سال بھر پڑھنے کو غیر ضروری تصور کر لیا گیا ہے۔ جا بجا ایسے تعلیمی ادارے،کوچنگ اور ٹیوشن سینٹرموجود ہیں جو مختلف کالج اساتذہ کے ناموں کے ذریعے اپنی تشہیر کرتے ہیں اور مہنگی فیسوں کے عوض امتحان میں کام یابی کا کلیہ رٹا دیتے ہیں۔

شام کے کالجوں کے حوالے سے قائم کمیٹی میں شامل گورنمنٹ نیشنل کالج کے پرنسپل پروفیسر وسیم عادل نے بتایا کہ کالجوں میں دوسری شفٹ کا آغاز اس وقت کیا گیا جب طالب علموں کو پرائیوٹ امیدوار کی حیثیت سے امتحان دینے کی اجازت نہیں تھی، بعد ازاں یہ پابندی ختم کر دی گئی اور آرٹس اور کامرس کے بہت سے شعبہ جات میں باقاعدہ امیدواروں کے ساتھ ساتھ بیرونی امیدوار کی حیثیت سے بھی امتحان دینے کی سہولت دے دی گئی، لیکن اس کے باوجود شام کے کالجوں کا سلسلہ جاری رکھا تاکہ طلبہ اپنی سہولت کے مطابق صبح یا شام کے وقت کے کالج میں تعلیم حاصل کرسکیں۔

شام کے کالجوں کا موازنہ اگر صبح کے کالجوں سے کیا جائے تو مرکزی داخلہ پالیسی کے تحت دیے جانے والے داخلوں میں شام کے کالجوں میں نہایت کم نمبروں پر کام یاب ہونے والے طلبہ کو بھی داخلے دے دیے جاتے ہیں، جن کی اکثریت فقط تعلیمی اسناد اور ڈگری کا حصول چاہتی ہے تاکہ ملازمت کے دوران ملنے والی مراعات اور فواید حاصل کیے جا سکیں، جس سے تعلیم کے حوالے سے ہماری مجموعی سوچ اور فکر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

تعلیمی اداروں کی ویرانیت اور فقط امتحان میں کام یابی کے خیال نے ہمارے تعلیمی نظام کو نہایت تشویش ناک صورت حال سے دوچار کیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی معیار کو بڑھانے کی خاطر شام کے ہی نہیں صبح کے بھی مختلف کالجوں میں طلبہ کی حاضری اور بھر پور تدریسی سرگرمیوں کے لیے عملی اقدام کیے جائیں، تاکہ طلبہ اپنی مصروفیت کی مناسبت سے صبح یا شام کی شفٹ میں داخلہ لے کر باقاعدہ طالب علم کی حیثیت سے اپنی تعلیم کو بہ خیرو خوبی مکمل کریں ناں کہ انہیں فقط رجسٹریشن آفس بنا کر رکھ دیا جائے ۔
Load Next Story