سرکاری اسکول دو سال سے بند
ضلع دادو کی تحصیل جوہی میں آدھے سے زیادہ سرکاری اسکول گزشتہ 2 سال سے بند ہیں۔
تعلیمی اداروں کی تباہی اور بندش کسی بھی معاشرے کے شعور کی موت کے لیے کافی ہوتا ہے۔
اس ہی لیے ترقی کی خواہش رکھنے والی اقوام اپنی ترجیحات میں تعلیمی اداروں کے قیام اور ان کی فعالیت پر بھر پور توجہ دیتی ہیں لیکن بہت سے پس ماندہ علاقوں کی طرح سندھ کے ضلع دادو کی تحصیل جوہی میں تعلیمی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ علاقے کے آدھے سے زیادہ سرکاری اسکول گزشتہ 2 سال سے بند ہیں، جب کہ بہت سے اسکولوں میں اساتذہ فرنیچر اور دیگر سہولیات سے محروم زمین پر بیٹھ کر درس وتدریس کی ذمہ داریاں ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
دادو میں تعلیم کی اس صورت حال پر نئے آنے والے ضلعی افسر تعلیم شیر زمان سومرو نے مختلف یونین کونسلوں کا اچانک دورہ کیا، اور یونین کونسل کمال خان، ڈرگھ بالا، بہالپور، پھلجی کے گرلز اسکولوں پیر مشائخ، اللہ بچایو پنہور، اللہ رکھیو چنہ، کمال خان میں اکثر اسکولوں میں فرنیچر کی کمی، اساتذہ کی مسلسل غیرحاضری پر ایس ڈی او، ایجوکیشن جوہی عبدالحکیم جمالی سے وضاحت طلب کی۔
اساتذہ تنظیم پ ٹ الف جوہی کے صدر عزیز اللہ سومرو نے انکشاف کیا کہ ایس ڈی او تعلیم نے مبینہ طور پر سرکاری اسکولوں کے لیے آنے والا فرنیچر نجی اسکولوں کو فروخت کر دیا، جس کے باعث بہت سے اسکولوں میں اساتذہ اور طلبہ زمین پر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ ایس ڈی او نے اسکولوں کی فلاح و بہبود کے لیے آنے والے ایس ایم سی فنڈز میں بھی بڑے پیمانے پر ہیر پھیر کی ہے، فنڈز اسکول مینجمنٹ کمیٹی کے ذریعے خرچ کرنے کے بجائے فرضی ناموں سے ہڑپ کر لیے گئے ہیں، جس میں بینک منیجر کی ملی بھگت بھی شامل ہے۔ ہڑپ کی گئی اس رقم کی مالیت کروڑوں میں ہے، جب کہ 100 سے زاید ریٹائرڈ اساتذہ کی جگہ ان کے بچوں کو بھرتی کرنے کے بجائے 5 لاکھ روپے رشوت کے عوض دوسرے اساتذہ بھرتی کیے گئے۔
اساتذہ تنظیم کے ان الزامات پر خلعی افسر تعلیم شیر زمان سومرو نے جلد اس سلسلے میں کمیٹی تشکیل دینے کا عندیہ دیا اور یقین دلایا کہ ترجیحی بنیادوں پر اسکولوں کی بندش سمیت ان تمام معاملات کی تحقیقات کرائی جائے گی تاکہ خرد برد کی گئی سرکاری رقوم حقیقی مصارف میں لائی جا سکیں۔
دادو میں تعلیم اور سرکاری تعلیمی اداروں کی اس شرم ناک صورت حال پر اگرچہ نئے آنے والے ضلعی افسر تعلیم شیر زمان سومرو نے ترجیحی بنیادوں پر کارروائی کا عندیہ دیا ہے بلکہ اساتذہ تنظیم سے ملاقات کر کے تعلیم سے متعلق ان کے مسائل اور تعلیم کی موجودہ صورت حال پر ان کا موقف بھی لیا، لیکن ان کا اصل امتحان میدان عمل میں ہے کہ وہ کس قدر جلد اور کس پیمانے پر اپنے وعدے وفا کر پاتے ہیں یا نہیں۔
اس ہی لیے ترقی کی خواہش رکھنے والی اقوام اپنی ترجیحات میں تعلیمی اداروں کے قیام اور ان کی فعالیت پر بھر پور توجہ دیتی ہیں لیکن بہت سے پس ماندہ علاقوں کی طرح سندھ کے ضلع دادو کی تحصیل جوہی میں تعلیمی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ علاقے کے آدھے سے زیادہ سرکاری اسکول گزشتہ 2 سال سے بند ہیں، جب کہ بہت سے اسکولوں میں اساتذہ فرنیچر اور دیگر سہولیات سے محروم زمین پر بیٹھ کر درس وتدریس کی ذمہ داریاں ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
دادو میں تعلیم کی اس صورت حال پر نئے آنے والے ضلعی افسر تعلیم شیر زمان سومرو نے مختلف یونین کونسلوں کا اچانک دورہ کیا، اور یونین کونسل کمال خان، ڈرگھ بالا، بہالپور، پھلجی کے گرلز اسکولوں پیر مشائخ، اللہ بچایو پنہور، اللہ رکھیو چنہ، کمال خان میں اکثر اسکولوں میں فرنیچر کی کمی، اساتذہ کی مسلسل غیرحاضری پر ایس ڈی او، ایجوکیشن جوہی عبدالحکیم جمالی سے وضاحت طلب کی۔
اساتذہ تنظیم پ ٹ الف جوہی کے صدر عزیز اللہ سومرو نے انکشاف کیا کہ ایس ڈی او تعلیم نے مبینہ طور پر سرکاری اسکولوں کے لیے آنے والا فرنیچر نجی اسکولوں کو فروخت کر دیا، جس کے باعث بہت سے اسکولوں میں اساتذہ اور طلبہ زمین پر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ ایس ڈی او نے اسکولوں کی فلاح و بہبود کے لیے آنے والے ایس ایم سی فنڈز میں بھی بڑے پیمانے پر ہیر پھیر کی ہے، فنڈز اسکول مینجمنٹ کمیٹی کے ذریعے خرچ کرنے کے بجائے فرضی ناموں سے ہڑپ کر لیے گئے ہیں، جس میں بینک منیجر کی ملی بھگت بھی شامل ہے۔ ہڑپ کی گئی اس رقم کی مالیت کروڑوں میں ہے، جب کہ 100 سے زاید ریٹائرڈ اساتذہ کی جگہ ان کے بچوں کو بھرتی کرنے کے بجائے 5 لاکھ روپے رشوت کے عوض دوسرے اساتذہ بھرتی کیے گئے۔
اساتذہ تنظیم کے ان الزامات پر خلعی افسر تعلیم شیر زمان سومرو نے جلد اس سلسلے میں کمیٹی تشکیل دینے کا عندیہ دیا اور یقین دلایا کہ ترجیحی بنیادوں پر اسکولوں کی بندش سمیت ان تمام معاملات کی تحقیقات کرائی جائے گی تاکہ خرد برد کی گئی سرکاری رقوم حقیقی مصارف میں لائی جا سکیں۔
دادو میں تعلیم اور سرکاری تعلیمی اداروں کی اس شرم ناک صورت حال پر اگرچہ نئے آنے والے ضلعی افسر تعلیم شیر زمان سومرو نے ترجیحی بنیادوں پر کارروائی کا عندیہ دیا ہے بلکہ اساتذہ تنظیم سے ملاقات کر کے تعلیم سے متعلق ان کے مسائل اور تعلیم کی موجودہ صورت حال پر ان کا موقف بھی لیا، لیکن ان کا اصل امتحان میدان عمل میں ہے کہ وہ کس قدر جلد اور کس پیمانے پر اپنے وعدے وفا کر پاتے ہیں یا نہیں۔