لانگ مارچ…پردے کے پیچھے کون

پیپلز پارٹی کے اتحادیوں کو ’’دوستوں‘‘ نے ہی بتایا کہ ان سے بالا ہی بالا نگران سیٹ اپ کے لیے گیم چل رہی ہے۔

latifch910@yahoo.com

مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے تاہم یہ یاد رکھنے والی بات ہے کہ قومی اسمبلی میں اسے سادہ اکثریت حاصل نہیں ہے، اسے حکومت قائم رکھنے کے لیے ایم کیو ایم' ق لیگ اور اے این پی کی حمایت چاہیے۔ یوں مرکز میں جو حکومت چل رہی ہے ، وہ مخلوط ہے۔گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر پیپلز پارٹی ہے ، باقی سیٹوں پر اتحادی بیٹھے ہیں۔ سندھ اور خیبر پختونخوا کی بھی یہی صورتحال ہے۔

بلوچستان کی تو بات ہی نرالی ہے' وہاں کسی پارٹی کی نہیں بلکہ طاقتور دھڑوں اور سرداروں کی حکومت ہے اور الحمد للہ سارے ہی اقتدار میں ہیں۔ایک یار محمد رند کا نام اپوزیشن ہے۔ پنجاب میں ن لیگ برسراقتدار ہے مگر اسے بھی اتحادیوں کی ضرورت ہے۔ 2008ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں مرکز اور صوبوں میں جو حکومتی سیٹ اپ قائم ہوا، وہ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت کامیابی سے چلا آ رہا ہے اور آئینی مدت پوری کرنے والا ہے۔

اب اصل مسئلہ نگران حکومتیں قائم کرنے کا ہے۔بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مابین نگران وزیراعظم پر بیک ڈور ڈپلومیسی چل رہی ہے۔ خاصے دن پہلے اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار نے متوقع نگران وزیراعظم کا اشارہ بھی دیا تھا، یار لوگوں نے ناصر اسلم زاہد کے نام پر انگلی رکھ دی، اب محمود خان اچکزئی کا بطور نگران وزیراعظم نام سامنے آ یا ہے' اچکزئی صاحب خود بھی کسی ٹی وی پروگرام میں اشارہ دے چکے ہیں کہ اگر ذمے داری ڈالی گئی تو وہ اس کے لیے تیار ہیں۔ مرکز کے ساتھ ساتھ چاروں صوبوں میں بھی نگران سیٹ اپ قائم ہونا ہے۔

یہ وہ صورتحال ہے جس میں پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعتوں میں اضطراب اور فکر مندی پیدا ہونا لازمی ہے۔ ایم کیو ایم' ق لیگ اور اے این پی کا یہ سوچنا فطری بات ہے کہ ان کی حمایت کے بغیر پیپلز پارٹی اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکتی تھی' لہٰذا نگران سیٹ اپ میں ان کے مفادات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔انھیں یہ قابل قبول نہیں ہوسکتا ہے کہ نگران سیٹ اپ کا فیصلہ ان کی مشاورت اور تائید کے بغیر ہو۔


تحریک انصاف ، جماعت اسلامی اور جے یوآئی بھی یہی چاہیں گی کہ جو سیٹ اپ بھی بنے وہ ان کے مخالف نہ جائے ۔ ان حالات میں طاہر القادری کا ظہور ہوا ہے۔قادری صاحب آرام سکون سے اپنا کام کررہے تھے، آخر انھوں نے عین نگران حکومت کے قیام کے شور میں خروج کا اعلان کیوں کیا؟ ایم کیو ایم اور ق لیگ نے فوری طور پر طاہر القادری کے مطالبات کی حمایت کیوں کی؟ ایم کیو ایم اور ق لیگ کی قیادت اقتدار کی راہداریوں میں چلنے پھرنے والے لوگوں پر مشتمل ہے' ان کے اعلانات یا اقدامات وقتی یا جذباتی نہیں ہو سکتے' ان کے پیچھے کچھ اہم اہداف ہوں گے ورنہ انھیں کیا ضرورت ہے کہ وہ طاہر القادری کے ساتھ جلسے کریں یا ان سے مذاکرات کریں؟

لگتا یہی ہے کہ سارا کھٹراگ نگران سیٹ اپ میں اپنے اپنے مہرے فٹ کرانے کے لیے رچایا جا رہا ہے۔ طاہر القادری نے 14 جنوری کو جو لانگ مارچ کرنا ہے' اس سے پہلے جناب الطاف حسین نے سیاسی ڈرون حملے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔ ہمارے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے ہو رہے ہیں' یہ تو ہلاکت خیز ہی ہوتے ہیں تاہم جناب الطاف حسین کا کہنا ہے کہ ان کا سیاسی ڈرون حملہ خوشگوار حیرت کا تحفہ ہو گا۔

اب یہ سرپرائز کیا ہو گا؟ عوام کے پاس تو انتظار کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے' البتہ صدر آصف علی زرداری اس خوشگوار حملے کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ڈرون اپنے اڈے سے پرواز کر ہی نہ پائے اور معاملات طے ہو جائیں' یہ بھی تو ایک خوشگوار تحفہ ہی ہوگا۔ جہاں تک طاہر القادری کے لانگ مارچ کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں عرض صرف اتنی کرنی ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی والے لانگ مارچ کرنے کے پرانے کھلاڑی ہیں' انھیںمعلوم ہے کہ لانگ مارچ کیسے کیا جاتا ہے اور کس مقام پر پہنچ کر اسے ختم کردیا جاتا ہے۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انھیں یہ بھی پتہ ہے کہ لانگ مارچ کا ریفری کون ہوتا ہے؟ اس کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے' اگر کوئی فیصلے کے خلاف احتجاج کرے تو اسے میدان سے باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ لہٰذا میاں صاحب کو بھی پتہ ہے اور صدر صاحب بھی علم رکھتے ہیں کہ طاہر القادری کے لانگ مارچ کی وسل کس کے پاس ہے؟ اصل نکتہ یہ ہے کہ نگران سیٹ اپ کے لیے جو راز دارانہ سرگرمیاں ہو رہی تھیں' وہ ڈرائنگ رومز سے نکل کر گلی محلے کا موضوع بن گئی ہیں۔

بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے اتحادیوں کو ''دوستوں'' نے ہی بتایا کہ ان سے بالا ہی بالا نگران سیٹ اپ کے لیے گیم چل رہی ہے' اگر اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتے ہو تو کر لو۔ اقتدار کا کھیل تو گلیڈی ایٹرز کی طرح کھیلا جاتا ہے'کوئی کسی کا دوست یا اتحادی نہیں ہوتا۔ اتحاد اور اختلاف وقت کی پیدوار ہوتے ہیں۔ طاہر القادری کے پردے میں کون کون چھپا ہے' انھیں تلاش کرنا مجھ جیسے عامی کے بس کی بات نہیں لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کو پتہ نہ ہو' اب شاید اچکزئی صرف عام انتخابات میں رکن اسمبلی بننے کے لیے حصہ لیں گے۔ نگران وزیراعظم کوئی اور ہو سکتا ہے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ معین قریشی کی روح کسی اور جسم میں حلول کر کے آ جائے، المیہ یہ ہو گا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو بھی اسے ماننا پڑے گا۔
Load Next Story