دہشت گردی کی نئی لہر

ملک بھر میں 5 دنوں میں مسلسل 9 دہشت گرد حملے، 100 سے زائد افراد شہید، 300 سے زائد زخمی ہوئے

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

GENEVA/LONDON:
ملک بھر میں 5 دنوں میں مسلسل 9 دہشت گرد حملے، 100 سے زائد افراد شہید، 300 سے زائد زخمی ہوئے، حکومت نے اعلان کیا کہ دہشت گردوں کے خلاف بے رحم آپریشن کیا جائے، اس اعلان کا مطلب کچھ سمجھ نہیں آیا، سوال پیدا ہوا کہ کیا اس سے قبل رحم پر مبنی آپریشن جاری تھا؟

نیشنل ایکشن پلان کے تحت تو پہلے ہی فیصلہ کیا جاچکا تھا کہ اب دہشت گردوں سے کوئی رعایت نہیں کی جائے گی، پھر بھلا ایسا بیان جس سے یہ تناظر ابھرے کہ اب تک رحمانہ آپریشن جاری تھا آخر دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا اس سے اس تاثرکو تقویت نہیں مل رہی جس کے تناظر میں جنرل راحیل شریف بار بار یہ گلہ کرتے رہے کہ ''فوج نے تو اپنا کام کردیا ہے اور خلوص نیت سے کررہی ہے لیکن نیشنل ایکشن پلان کا وہ حصہ تشنہ تکمیل ہے جس پر سیاسی حکومتوں کو عمل کرنا تھا؟'' لہٰذا اب حکومت نے بے رحم آپریشن کا فیصلہ کرلیا ہے۔

بہرحال دہشت گردی کی آگ میں جھلستی اس قوم کے لیے کیا صرف دعوے اور بہلاوے ہی کافی ہیں؟ ہر بار یہی سننے کو ملتا ہے کہ یہ بھاگتے دہشت گردکی بزدلانہ کارروائی ہے،اس سال دہشت گردی کا خاتمہ کردیا جائے گا،آخری دہشت گرد تک جنگ جاری رہے گی، دہشت گردوں کو بھاگنے نہیں دیں گے،کسی صورت ملک میں دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی،خون کے آخری قطرے تک کا حساب لیں گے، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو عبرت کا نشان بنا دیں گے، ہم نے ملک سے دہشت گردی ختم کردی ہے اور اب ایک سال کے اندراندر لوڈ شیڈنگ بھی ختم کردیں گے۔

پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا تک ہر طرف ان ہی حکومتی دعوؤں، دلاسوں اور بہلاؤں کی گونج بلند بانگ سنائی دے رہی ہے لیکن رسمی اورروایتی بیانات سن سن کر اب قوم تنگ آچکی ہے اس کے کان پک گئے ہیں اوراعتبار، اعتماد اوراطمینان اب مسلسل متزلزل ہوتا جا رہا ہے ہر واقعے کے بعد ہر لاش کے بدلے چند لاکھ معاوضے کا اعلان کردیا جاتا ہے جب کہ انسانی جان بیش قیمت ہے اور ہر جان کا تحفظ حکومت کا اولین فریضہ ہے، ہم نے دہشت گردی کے عفریت کو قابو میں لانے کے لیے پھانسی کی سزا بحال کی اورکئی دہشت گردوں کو پھانسی دے کر کیفرکردار تک بھی پہنچایا، لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ وہ حملہ آور جو ''خودکش'' ہوں کیا انھیں صرف پھانسی کے نام پر ڈرایا اور قابوکیا جاسکتا ہے؟ یقینا نہیں۔

لہٰذا اس ضمن میں تمام تر تاریخی اور زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے صدق دل کے ساتھ ملک وقوم کے وسیع ترین مفاد میں ٹھوس بنیادوں پر اہم ترین اقدام اٹھانے اور ان پر پوری شد ومد کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے، نیشنل ایکشن پلان کا وہ حصہ جس کا تعلق حکومت سے ہے، اس پر پوری صداقت اور ایمانداری سے عمل کرنا ہوگا، نیکٹاکو فعال بنانا، مدارس کی رجسٹریشن، دہشت گردوں کے خلاف کومبنگ آپریشن، دہشت گرد تنظیموں کی بندش، انتہا پسند مذہبی رہنماؤں کو پابند سلاسل کرنا، فرقہ بندی کی بیخ کنی کرنا، دہشت گردوں کے ہمراہ ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ،ان کی مالی اور ہرطرح کی امداد کو روکنا، بھارت اورافغانستان سے اپنی سرحدوں کو مکمل محفوظ بنانا وغیرہ یہ سب نیشنل ایکشن پلان کا وہ حصہ ہے جو تاحال عملدرآمد کا منتظر ہے جس پر عمل کیے بغیر بے رحم آپریشن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔

اس اعلان کی تکمیل کے لیے اس پر عملدرآمد ضروری ہے، صرف زبانی دعوے اورجمع خرچ عمل کا نعم البدل نہیں ہوسکتے۔ قومی سلامتی کا تحفظ ایک بڑا چیلنج ہے، ایسے مواقعے پر معمول سے ہٹ کر فیصلے کرنے ہی پڑتے ہیں جس کے لیے عسکری اورسیاسی قیادت کا باہمی رابطہ، تعاون اوراعتماد نیزدونوں کا ایک صفحے پر ہونا لازمی امر ہے۔


دہشت گردی کی نئی لہر نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے، پانچ دنوں میں دہشت گردی کی نو کارروائیوں میں تقریباً سو سے زائد افراد شہید جب کہ سیکڑوں زخمی ہوئے ان نوکارروائیوں میں لاہور اور سیہون میں خودکش دھماکے بڑے حملے شمارکیے جارہے ہیں۔لاہور حملے میں ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن مبین اورایس ایس پی آپریشنز لاہور زاہد محمود گوندل سمیت 15 افراد شہید اور 90 کے قریب زخمی ہوئے جب کہ سیہون میں لعل شہبازقلندرؒ کے مزار پر ہونے والے خودکش حملے میں اب تک 76 شہید جب کہ سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں جن میں سے کئی کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے ان حملوں کے بعد ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کی جانب سے سخت بیانات سامنے آئے ہیں، وزیر اعظم نے اسے پاکستان کے مستقبل پر حملہ قرار دیا ہے جب کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دہشت گردوں سے فوری انتقام لینے کا اعلان کیا ہے۔

گزشتہ ایک دہائی میں ملک بھر کی تین درجن درگاہیں دہشت گردی کا نشانہ بنی ہیں۔اسلامی ریسرچ سینٹرکے مطابق 2005 سے تاحال درگاہوں پر 29 حملوں کے نتیجے میں 209 افراد جاں بحق جب کہ 560 زخمی ہوچکے ہیں جب کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں دہشت گرد کارروائیوں پر نظر رکھنے والے تھنک ٹینک، ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق پاکستان میں 2003 سے 2016 تک 13 سال کے دوران دہشت گرد کارروائیوں اور بم دھماکوں میں 21 ہزار چار سو اناسی شہری اور چھ ہزار چھ سو تریسٹھ سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔

اسی عرصے کے دوران 33 ہزار 345 دہشت گرد ہلاک کیے گئے۔ ہلاکتوں کے حوالے سے 2011-12 اور 2013 مہلک ترین سال تھے، تھنک ٹینک کے مطابق پاکستان میں 2002 سے 16 فروری 2017 تک 451 خودکش دھماکوں میں چھ ہزار نو سو پینتالیس افراد شہید ہوئے۔ ان میں سیہون شریف کی مذکورہ بالا 88 شہادتیں بھی شامل ہیں۔

پیشگی الرٹ کے باوجود لاہور اور سندھ کو ہم دہشت گردی سے نہیں بچاسکے،خودکش حملہ آور اپنے سہولت کاروں کی مدد سے افغانستان سے طویل سفر طے کرکے، تمام ایجنسیوں اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کو دھوکا دے کر تمام ناکے عبورکرکے بارودی سازوسامان کے ساتھ لاہور اور اندرون سندھ باآسانی داخل ہوکر ہمیشہ کی طرح اپنے ہدف کو دیدہ دلیری کے ساتھ نشانہ بناکر حکومت وریاست کو بہت واضح پیغام دے گئے کہ ابھی ملک سے دہشت گردی ختم نہیں ہوئی، نا ہی مستقبل قریب میں اس کے فوری خاتمے کا کوئی امکان ہی ہے نیز موجود حالات میں فی الحال دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ممکن بھی نہیں، دہشت گردی کی نئی لہر بتا رہی ہے کہ دہشت گردی کے سائے بتدریج پھیل رہے ہیں۔

حکمرانوں کو بھارت اور دہشت گردی کے خلاف اپنا واضح اور دو ٹوک نقطہ نظر اورلائحہ عمل پیش کرنا اور نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا ہوگا، شاخیں نہیں جڑکوکاٹنا ہوگا،اصل محرکات کا بھرپورجائزہ لے کر ان کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا، وقتی خاموشی دائمی کامیابی اور پائیدارامن کی ضمانت نہیں، یہ خودکو دھوکے میں ڈالنے والی بات ہے، جب تک دہشت گردی کے بنیادی محرکات کا سدباب نہ کیا جائے گا تب تک دہشت گردوں کا قلع قمع محال ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے،عارضی وقفوں کو ابدی فتح قرار دینا گویا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔

وطن عزیزمیں جاری آپریشن بلاتفریق ہونا چاہیے اوراس کا دائرہ فوری طور پر ملک گیرسطح پر وسیع کردینا چاہیے، عزت، جان، مال، آبروکا تحفظ پنجاب کے عوام کا بھی حق ہے اور یہ حق یہاں پر بھی ایک بڑے اورکامیاب آپریشن کا متقاضی ہے، قوم کی تمام تر توقعات سیاسی اورعسکری قیادت سے وابستہ ہیں، ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور دنیا میں تسلیم کی جانے والی باصلاحیت و باکمال انٹیلی جنس ایجنسیاں دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لیے بھرپور سرگرم ہیں۔اس ضمن میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی کی بھی اشدضرورت ہے۔
Load Next Story