دوستی کا معیار اور حقوق

دوستی پاک، صاف اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کی جائے تو دنیا میں کامیابی اور آخرت میں سربلندی کی علامت ہے۔

دوستی پاک، صاف اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کی جائے تو دنیا میں کامیابی اور آخرت میں سربلندی کی علامت ہے۔ فوٹو: فائل

اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیکرِ اُنس و محبت بنایا ہے۔ دنیا میں اس کے کچھ خونیں رشتے ہیں اور کچھ قلبی، قلبی رشتوں میں ایک عظیم رشتہ دوستی کا ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے کسی بااعتماد دوست سے تمام معاملات میں تبادلۂ خیال کرکے فرحت محسوس کرتے ہوئے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتا ہے۔

باہمی دوستی کے اسباب

ایک مسلمان کے دل میں دوسرے مسلمان کی محبت اور دوستی کی خواہش کے چند اسباب ہیں۔ پہلا سبب حسن و جمال ہے کہ حسین انسان سے محبت اور دوستی کا خواہاں، ہر شخص ہوتا ہے۔ دوسرا سبب مال ہے کہ مال دار سے ہر شخص کو فطری طور پر محبت ہوجاتی ہے۔ تیسرا سبب ہم وطنی ہے کہ ہم وطن دو اشخاص پردیس میں فطری طور پر ایک دوسرے سے مانوس ہوجاتے ہیں اور ان میں محبّت و اخوّت پیدا ہوجاتی ہے۔ چوتھا سبب ہم قوم ہونا ہے کہ ایک قوم کے لوگ خونیں تعلق کی بنا پر فطری طور پر ایک دوسرے کے ہم درد بن جاتے ہیں۔ پانچواں سبب پارسائی اور پاک بازی ہے کہ پارسا اور پاک باز انسان سے مسلمانوں کو قلبی کشش ہوتی ہے۔

مذکورہ بالا سب اقسام کی دوستی شرعاً محمود ہے، اگر وہ شرعی حدود و ضوابط میں ہو۔ لیکن آخری قسم کی دوستی شریعت کی نظر میں بہت عزیز اور پسندیدہ ہے۔ نیک انسان سے دوستی دنیا و آخرت کے فوائد کے حصول میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے، اور جب اس دوستی کی بنیاد محض رضائے الہٰی ہو، تو پھر اس کے فوائد و ثمرات کا سلسلہ لامتناہی طوالت اختیار کر لیتا ہے۔

دوستی شریعت کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے:

''نہ تو اندھے پر کچھ گناہ ہے اور نہ لنگڑے پر اور نہ بیمار پر اور نہ خود تم پر کہ اپنے گھروں سے کھانا کھاؤ یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا اس گھر سے جس کی کنجیاں تمہارے ہاتھ میں ہوں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے (اور اس کا بھی) تم پر کچھ گناہ نہیں کہ سب مل کر کھانا کھاؤ یا جدا جدا۔ اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے (گھر والوں کو) سلام کیا کرو۔ (یہ) خدا کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔ اس طرح خدا اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو۔'' (سورۃ النور)

شان نزول: اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ حضور اکرم ﷺ کے ساتھ جہاد کو جاتے تو معذور صحابہؓ کو جو بہ وجہ عذر جہاد میں شرکت نہیں کرسکتے تھے، انہیں اپنے گھروں کی چابیاں دے جاتے تھے کہ وہ ان کے گھروں کی دیکھ بھال رکھیں اور انہیں اجازت دے جاتے تھے کہ کھانے پینے کی چیزیں نکال کر کھائیں پئیں۔ لیکن یہ حضرات ان اشیاء کے کھانے پینے میں بہت حرج محسوس کرتے تھے، تو ان کے متعلق یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ (بہ حوالہ: نورالعرفان)


اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے جہاں رشتے داروں کا تفصیل سے ذکر فرمایا، وہاں دوستوں کا بھی ذکر فرمایا اور دوستوں کو رشتے داروں کے حکم میں رکھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت دوستی کے رشتے کا بھی لحاظ کرتی ہے۔

نیکوں کی دوستی کا آخرت میں فائدہ:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ''بلا شبہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا میری بزرگی کے سبب سے جو لوگ ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں وہ کہاں ہیں۔۔۔ ؟ آج میں انہیں اپنے سایے میں بساؤں گا۔ آج میرے سایے کے سوا کوئی سایہ نہیں۔'' ( رواہ مسلم)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : '' میری عظمت کے سبب ایک دوسرے سے محبت رکھنے والے لوگ نورانی منبروں پر ہوں گے ۔ ان پر نبی اور شہید رشک کریں گے۔'' (مشکوٰۃ جلد 2)

حضرت سیدنا عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے ہیں، جو نہ نبی ہیں اور نہ شہید۔ ان پر انبیاء و شہداء قیامت کے روز ان کے اس مرتبے کی وجہ سے رشک کریں گے جو انہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک حاصل ہوگا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ آپ ہمیں بتائیں کہ یہ لوگ کون ہوں گے ؟ آپؐ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت رکھتے تھے۔ بغیر اس کے کہ ان کی آپس میں کوئی رشتے داری تھی یا وہ ایک دوسرے کو مال دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی قسم ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور وہ نورانی منبروں پر ہوں گے ان کو کوئی خوف نہیں ہوگا، جب کہ دیگر لوگ خوف زدہ ہو ں گے، لیکن وہ غمگین اور خوف زدہ نہیں ہوں گے۔ پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: '' خبردار بے شک اللہ تعالیٰ کے اولیاء پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔'' (مشکوٰۃ جلد 2)

بدکاروں کی دوستی نقصان دہ ہے

شریعت نے جہاں نیکوں کی دوستی کے فوائد بیان کیے، وہاں یہ بھی بتایا کہ بدکاروں کی دوستی نقصان دہ ہوتی ہے۔ چناں چہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' اچھے اور بُرے دوست کی مثالیں کستوری اٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی مثالوں جیسی ہیں۔ کستوری اٹھانے والا تجھے مفت کستوری دے دے گا یا تو اس سے کستوری خرید لے گا، یا تُو اس سے خوش بو پائے گا اور بھٹی جلانے والا یا تو تیرے کپڑے جلائے گا یا تُو اس سے بدبو پائے گا۔'' (بخاری و مسلم)

لہٰذا دوستی پاک، صاف اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کی جائے تو دنیا میں کامیابی اور آخرت میں سربلندی کی علامت ہے۔

 
Load Next Story