رات کی سیاہی
ہر وہ چیز جو کسی بھی انسان میں نشہ پیدا کردے اور وہ اپنے حواس کھو بیٹھے مذہب اسلام میں حرام ہے
ہر وہ چیز جو کسی بھی انسان میں نشہ پیدا کردے اور وہ اپنے حواس کھو بیٹھے مذہب اسلام میں حرام ہے۔ حواس کھو دینے والا نشہ اس لیے بھی حرام ہے کہ انسان کو خود پتا نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے۔ عزت بے عزتی سب بھلا دینے والا نشہ مختلف اقسام میں دستیاب ہے جو جمعہ داروں سے لے کر وزرا تک میں پایا جاسکتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی اوپر تک۔ طارق جمیل صاحب اپنے ایک بیان میں کہتے ہیں کہ ان کے پاس جب لوگ اپنی اس عادت کو چھڑانے کے لیے آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بہت ہی عجیب لگتا ہے کہ جب ہماری پارٹی ہو اور ہم نہ پئیں جب کہ دوسرے اس کا استعمال کر رہے ہوں۔
آرٹیفیشل زندگی کے اسٹائل نے عام لوگوں سے لے کر خاص لوگوں تک کو متاثر کیا ہے۔ جو کام پہلے زمانوں میں چھپ کر ہوتے تھے اب وہ فیشن کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ پہلے جن کاموں کو جن چیزوں کو برائی سمجھا جاتا تھا اب ان کو فیشن کا نام دے کر شامل کرلیا گیا ہے۔ جن کاموں کو پہلے بے شرمی سمجھا جاتا تھا ان کاموں کو اسمارٹنس کا نام دے دیا گیا ہے، عام و خاص سب کو آسانیاں ہوگئی ہیں اور سب کے سب اسمارٹ دنیا کا حصہ بن کر زیادہ خوش ہونے لگے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے سائیڈ افیکٹ ان کی زندگی کو کھوکھلا کیے دے رہے ہیں، اب یہ نہ گھر کے ہیں اور نہ باہر کے۔
ایک افراتفری بھری ہے زندگیوں میں، جو لوگ شراب اور دوسری نشہ آور اشیا کا استعمال کر رہے ہیں، نہ صرف وہ نشے کے عادی ہو رہے ہیں بلکہ وہ لوگ جو اپنی اوقات سے زیادہ پا رہے ہیں۔ اپنی اوقات سے زیادہ حاصل کر بیٹھے ہیں، وہ بھی نشے میں چور نظر آتے ہیں۔ جن کے پاس ان کی اوقات سے زیادہ طاقت ہے وہ بھی نشے میں ہیں اور جن کے پاس ان کی اوقات سے بڑے عہدے ہیں وہ بھی نشے میں ہیں اور یہ تمام لوگ ایسی افراتفری پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں، جس کے اثرات بہت دیر تک قائم رہنے کا باعث بنیں گے۔
یہی مختلف نشے انسان کی شخصیت کو بدل کر رکھ دیتے ہیں بلکہ اس کا شجرہ نسب بھی بدل دیتے ہیں۔ اس کے اپنے ان سے الگ ہوجاتے ہیں، کبھی کبھی ایسے اجڑتے ہیں کہ پھر بس ہی نہیں پاتے۔ مگر ایک آرٹیفیشل زندگی کا فوبیا ایسے سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ عام و خاص سب کے سب ہی اس طرز کے غلام نظر آتے ہیں۔
اسی لیے رب العزت نے ہر طرح کے نشے کو حرام قرار دیا ہے کہ ماضی، حال اور مستقبل سب بہتر رہے، مگر کیا کیجیے کہ ہم ایسی اکڑی ہوئی گردن چاہتے ہیں، ایسی اکڑی ہوئی ریڑھ کی ہڈی چاہتے ہیں جو جھکنے کے قابل ہی نہ ہو، ایسا نشہ چاہتے ہیں جو 24 گھنٹے سر چڑھ کر بولے۔ صرف میری بات سنی جائے، مانی جائے، بس اس کے علاوہ کچھ میرے خلاف ہو تو گردنیں اڑا دی جائیں، گھروں میں آگ لگا دی جائے، وہ کسی بھی شکل میں ہو اور اس کا طریقہ کار کچھ بھی ہو۔
نشے کے کچھ اسٹائل آپ کے لیے کچھ اس طرح شاید آپ سمجھ سکیں۔
٭ رشوت کو چائے پانی کا نام دے دیا جائے، سیوریج کے پانی سے سبزیاں اگائی جائیں، مردار گدھوں اور کتوں کا گوشت کئی ہوٹلوں سے پکڑا جائے۔
٭ ملتان میں جعلی خون کی بوتلیں پکڑی جائے۔ ملک میں بکنے والا دودھ مختلف مضر صحت کیمیکلز کا مرکب ہو۔
٭ ڈاکٹر گردے نکال کر بیچ دیں۔
٭گڑ، چینی اور شکر کا مرکب شہد بناکر بیچا جائے۔
٭ بلوچستان کے ایک بائیس گریڈ کے افسر کے گھر سے ایک ارب روپے کے قریب کیش برآمد ہو، اسی افسر کے ڈیفنس کراچی میں 8 بنگلے بھی دریافت ہوچکے ہوں، اسی بلوچستان میں جانور اور انسان ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتا ہے، میلوں سفر کے بعد اگر گھاٹ مل جائے تو۔
٭عوام کے علاج کے لیے اسپتال خستہ حال، نہ ڈاکٹر نہ دوائیں، اور حکمران وقت علاج کروانے ملک سے باہر جائیں۔
٭ اس ملک میں بھتہ نہ ملنے پر تین سو انسانوں کو زندہ جلادیا جائے۔
٭ ٹھیکیدار ناقص میٹریل استعمال کرکے بلڈنگیں کھڑی کردے، اور زلزلے سے مرنے والوں کو اللہ پر ڈال دیا جائے۔
٭ اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کا 60 فیصد بجٹ صرف ایک شہر پہ لگا دیا جائے اور عوام چوں تک نہ کریں، جو جس شہر سے وزیر بنتا ہے اسی کو کھنڈر بنا دیتا ہے۔
٭ تین کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، آدھی سے زیادہ آبادی کم خوراکی کی وجہ سے پنپ نہیں پاتی۔
٭ ہر ماں کو اب بچہ پیدا کرنے کے لیے آپریشن کی ضرورت پڑتی ہے۔ نارمل ڈلیوری کو روک کر آپریشن کو ATM مشین بنالیا جائے۔
اور اسی طرح کی لاتعداد مثالیں ہمارے اردگرد چوبیس گھنٹے نظر آتی ہیں۔ نجانے کب اور کیسے یہ نشہ اترے گا اور ہم نارمل زندگی کی طرف پلٹیں گے۔
کیسا ظلم ہے کیسی اندھیر نگری ہے کہ آئینہ دیکھیں تو اپنے آپ سے شرم آئے۔ کیسے جی رہے ہیں اور کیسے مر رہے ہیں، نہ دنیا اور نہ آخرت۔ بس نشے کے گھونٹ پی پی کر مست ڈول رہے ہیں۔ ایک دھمال ہے، ایک گونج ہے، چاروں طرف بکھری لاشیں نہ سر کا پتا نہ تن کا، صرف کچرے کا ڈھیر، نہ دعا نہ تدفین۔کچھ لاکھوں کے چیک، ورثا بے بس، ناتواں اور ظلم اور نشے سے چور، ہاتھوں میں پڑے دستانے۔
سنیں اور کچھ لمحوں کے لیے ہی سوچیں کتنا برا ہے یہ نشہ، حرام ہی حرام کہ یہی فرمان اللہ ہے جو قیامت تک کے لیے ہے، حساب و کتاب تو برحق ہے، روز حشر سب کو سب کا کیا ہوا مل جائے گا۔ اور اب تو اس دنیا میں نظر آتی ہے وہ نہ نظر آنے والی عدالتیں جو اپنے فیصلے برحق کرتی ہیں نہ دیر ہے نہ اندھیر۔ سب کو سب کا کیا ہوا ملے گا، پھر یہ سارے نشے آنکھوں سے اتریں گے دھول مٹی کا میدان، گرماہٹ، گھپ اندھیرا، رات کی سیاہی اور نہ جانے کتنے سانپ بچھو سے لپٹے ہوئے جسم۔ اللہ ہم سب پر رحم فرمائے۔
آرٹیفیشل زندگی کے اسٹائل نے عام لوگوں سے لے کر خاص لوگوں تک کو متاثر کیا ہے۔ جو کام پہلے زمانوں میں چھپ کر ہوتے تھے اب وہ فیشن کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ پہلے جن کاموں کو جن چیزوں کو برائی سمجھا جاتا تھا اب ان کو فیشن کا نام دے کر شامل کرلیا گیا ہے۔ جن کاموں کو پہلے بے شرمی سمجھا جاتا تھا ان کاموں کو اسمارٹنس کا نام دے دیا گیا ہے، عام و خاص سب کو آسانیاں ہوگئی ہیں اور سب کے سب اسمارٹ دنیا کا حصہ بن کر زیادہ خوش ہونے لگے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے سائیڈ افیکٹ ان کی زندگی کو کھوکھلا کیے دے رہے ہیں، اب یہ نہ گھر کے ہیں اور نہ باہر کے۔
ایک افراتفری بھری ہے زندگیوں میں، جو لوگ شراب اور دوسری نشہ آور اشیا کا استعمال کر رہے ہیں، نہ صرف وہ نشے کے عادی ہو رہے ہیں بلکہ وہ لوگ جو اپنی اوقات سے زیادہ پا رہے ہیں۔ اپنی اوقات سے زیادہ حاصل کر بیٹھے ہیں، وہ بھی نشے میں چور نظر آتے ہیں۔ جن کے پاس ان کی اوقات سے زیادہ طاقت ہے وہ بھی نشے میں ہیں اور جن کے پاس ان کی اوقات سے بڑے عہدے ہیں وہ بھی نشے میں ہیں اور یہ تمام لوگ ایسی افراتفری پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں، جس کے اثرات بہت دیر تک قائم رہنے کا باعث بنیں گے۔
یہی مختلف نشے انسان کی شخصیت کو بدل کر رکھ دیتے ہیں بلکہ اس کا شجرہ نسب بھی بدل دیتے ہیں۔ اس کے اپنے ان سے الگ ہوجاتے ہیں، کبھی کبھی ایسے اجڑتے ہیں کہ پھر بس ہی نہیں پاتے۔ مگر ایک آرٹیفیشل زندگی کا فوبیا ایسے سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ عام و خاص سب کے سب ہی اس طرز کے غلام نظر آتے ہیں۔
اسی لیے رب العزت نے ہر طرح کے نشے کو حرام قرار دیا ہے کہ ماضی، حال اور مستقبل سب بہتر رہے، مگر کیا کیجیے کہ ہم ایسی اکڑی ہوئی گردن چاہتے ہیں، ایسی اکڑی ہوئی ریڑھ کی ہڈی چاہتے ہیں جو جھکنے کے قابل ہی نہ ہو، ایسا نشہ چاہتے ہیں جو 24 گھنٹے سر چڑھ کر بولے۔ صرف میری بات سنی جائے، مانی جائے، بس اس کے علاوہ کچھ میرے خلاف ہو تو گردنیں اڑا دی جائیں، گھروں میں آگ لگا دی جائے، وہ کسی بھی شکل میں ہو اور اس کا طریقہ کار کچھ بھی ہو۔
نشے کے کچھ اسٹائل آپ کے لیے کچھ اس طرح شاید آپ سمجھ سکیں۔
٭ رشوت کو چائے پانی کا نام دے دیا جائے، سیوریج کے پانی سے سبزیاں اگائی جائیں، مردار گدھوں اور کتوں کا گوشت کئی ہوٹلوں سے پکڑا جائے۔
٭ ملتان میں جعلی خون کی بوتلیں پکڑی جائے۔ ملک میں بکنے والا دودھ مختلف مضر صحت کیمیکلز کا مرکب ہو۔
٭ ڈاکٹر گردے نکال کر بیچ دیں۔
٭گڑ، چینی اور شکر کا مرکب شہد بناکر بیچا جائے۔
٭ بلوچستان کے ایک بائیس گریڈ کے افسر کے گھر سے ایک ارب روپے کے قریب کیش برآمد ہو، اسی افسر کے ڈیفنس کراچی میں 8 بنگلے بھی دریافت ہوچکے ہوں، اسی بلوچستان میں جانور اور انسان ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتا ہے، میلوں سفر کے بعد اگر گھاٹ مل جائے تو۔
٭عوام کے علاج کے لیے اسپتال خستہ حال، نہ ڈاکٹر نہ دوائیں، اور حکمران وقت علاج کروانے ملک سے باہر جائیں۔
٭ اس ملک میں بھتہ نہ ملنے پر تین سو انسانوں کو زندہ جلادیا جائے۔
٭ ٹھیکیدار ناقص میٹریل استعمال کرکے بلڈنگیں کھڑی کردے، اور زلزلے سے مرنے والوں کو اللہ پر ڈال دیا جائے۔
٭ اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کا 60 فیصد بجٹ صرف ایک شہر پہ لگا دیا جائے اور عوام چوں تک نہ کریں، جو جس شہر سے وزیر بنتا ہے اسی کو کھنڈر بنا دیتا ہے۔
٭ تین کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، آدھی سے زیادہ آبادی کم خوراکی کی وجہ سے پنپ نہیں پاتی۔
٭ ہر ماں کو اب بچہ پیدا کرنے کے لیے آپریشن کی ضرورت پڑتی ہے۔ نارمل ڈلیوری کو روک کر آپریشن کو ATM مشین بنالیا جائے۔
اور اسی طرح کی لاتعداد مثالیں ہمارے اردگرد چوبیس گھنٹے نظر آتی ہیں۔ نجانے کب اور کیسے یہ نشہ اترے گا اور ہم نارمل زندگی کی طرف پلٹیں گے۔
کیسا ظلم ہے کیسی اندھیر نگری ہے کہ آئینہ دیکھیں تو اپنے آپ سے شرم آئے۔ کیسے جی رہے ہیں اور کیسے مر رہے ہیں، نہ دنیا اور نہ آخرت۔ بس نشے کے گھونٹ پی پی کر مست ڈول رہے ہیں۔ ایک دھمال ہے، ایک گونج ہے، چاروں طرف بکھری لاشیں نہ سر کا پتا نہ تن کا، صرف کچرے کا ڈھیر، نہ دعا نہ تدفین۔کچھ لاکھوں کے چیک، ورثا بے بس، ناتواں اور ظلم اور نشے سے چور، ہاتھوں میں پڑے دستانے۔
سنیں اور کچھ لمحوں کے لیے ہی سوچیں کتنا برا ہے یہ نشہ، حرام ہی حرام کہ یہی فرمان اللہ ہے جو قیامت تک کے لیے ہے، حساب و کتاب تو برحق ہے، روز حشر سب کو سب کا کیا ہوا مل جائے گا۔ اور اب تو اس دنیا میں نظر آتی ہے وہ نہ نظر آنے والی عدالتیں جو اپنے فیصلے برحق کرتی ہیں نہ دیر ہے نہ اندھیر۔ سب کو سب کا کیا ہوا ملے گا، پھر یہ سارے نشے آنکھوں سے اتریں گے دھول مٹی کا میدان، گرماہٹ، گھپ اندھیرا، رات کی سیاہی اور نہ جانے کتنے سانپ بچھو سے لپٹے ہوئے جسم۔ اللہ ہم سب پر رحم فرمائے۔