دہشتگردی کی لہر اور بیرونی ہاتھ
جہاں جذب ومستی میں دھمال ڈالی جارہی تھی، وہاں نوحہ غم گونج اٹھا
ISLAMABAD:
پہلے وطن عزیزکے قلب زندہ دلان شہر لاہور، پھر کوئٹہ، پشاور، مہمند ایجنسی، شب قدر اور اب انسان دوستی کا درس دینے والے صوفیوں کی دھرتی پر صوفی بزرگ حضرت شیخ عثمان مروندی المعروف سخی لعل شہباز قلندر کی آخری آرام گاہ سیہون شریف میں جنونیوں نے زندگی کی رمق موت کی زردی میں بدل دی۔ 92 سے زائد مرد وخواتین و بچے فنا سے گزر کر جاودانی بقا پاگئے۔
جہاں جذب ومستی میں دھمال ڈالی جارہی تھی، وہاں نوحہ غم گونج اٹھا، درگاہ لعل شہباز قلندر پر خودکش حملے میں سیکڑوں خاک نشینوں کا خون بہا اور تڑپ تڑپ کر جان دینے والوں کی موت سے یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ سیاسی وارثوں نے پدری وپسری وزارت اعلیٰ کے باوجود سیہون شریف میں نہ تو اسپتال بنایا اور نہ ہی سڑکیں، بے بس لوگ صوفی بزرگ کی درگاہ پر ایمبولینس کے منتظر رہے، تنگ گلیاں، انفرا اسٹرکچر غائب ہونے سے گاڑیوں کو لاشیں لے جانے میں مشکلات کا سامنا رہا، دردناک افراتفری دیکھی گئی۔
ایک ہفتے سے بھی کم مدت میں دہشتگردی کی متعدد ہولناک وارداتوں سے اہل وطن غمزدہ ہیں، پوری قوم کے اعصاب جھنجھنا اٹھے ہیں، ملک بھر میں ایک ہیجان برپا ہے، پاکستان اس وقت غم و غصے میں ڈوبا ہوا ہے، دہشتگردی کی حالیہ لہر ہماری اس کمزوری کا ثبوت ہے کہ حالات معمولی سے بہتر ہوتے ہی ہم اطمینان کرنے لگتے ہیں، آپریشن کے دوران عیار دشمن نے معنی خیز خاموشی اختیار کررکھی تھی اور موقع ملتے ہی اہل وطن کے قتل عام کے لیے سرگرم ہوگئے۔
یہ تو طے ہے کہ دہشتگرد قوتیں جوابی حملے کررہی ہیں، جس ترتیب سے ملک بھر میں دہشتگردی کی وارداتیں ہوئیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کسی چھوٹے موٹے گروہ کا کام نہیں، بلکہ بیرونی قوتیں ملوث ہیں اور دہشتگردوں کا باہمی رابطے کا نظام بھی بدستور قائم ہے۔ فرعون کی نسل کے یہ لوگ پاتال کے وہ بدبودار کیڑے ہیں، جن کی نسلیں اندھیروں میں جنم لیتی ہیں، جس کے سبب یہ روشنی کے دشمن بن کر ہر دور، ہر عہد اور ہر زمانے میں نکلتے رہے ہیں اور نکلتے رہیں گے۔
ایسے میں رحمت ہیں ہمارے محافظین، جنھوں نے قبر کے گڑھے تک ان کے تعاقب کا ارادہ کر رکھا ہے اور وہ اس فرض وعہد کو پورا کرنے کی خاطر قربانیاں دینے سے بھی پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں، ان ظالموں کا شکار کرنے والے بہادر فوجیوں پر ٹھنڈے اسٹوڈیوز میں بیٹھے سرد جذبات رکھنے والے مایہ ناز تجزیہ نگار اپنے دوراندیشانہ انگاروں کے ساتھ بڑی شدت سے برس رہے ہیں، اسکرینوں سے چنگھاڑتی آوازیں آرہی ہیں کہ کہاں گئے وہ دعوے کہ 80 فیصد دہشتگردی ختم ہوگئی ہے، شرپسند فرار ہورہے ہیں، آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا، وغیرہ وغیرہ۔ آخر ہم اس قدرجذباتی کیوں ہوجاتے ہیں؟
کوئی شک نہیں کہ پاک فوج نے بڑی حد تک دہشتگردوں کی بیخ کنی کردی ہے مگر ایک طرف بھارت مختلف راستوں سے اپنے ایجنٹ پاکستان بھیج رہا ہے تو دوسری جانب افغانستان کی طرف سے بار بار لشکروں، خودکش بمباروں سمیت دہشتگردوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، تحریک طالبان، جماعت الاحرار اور داعش کے لوگ افغانستان میں بیٹھ کر ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں، دہشتگردی کی موجودہ لہر میں سو فیصد بیرونی ہاتھ ملوث ہے، بلاشبہ ہماری سیکیورٹی وخارجہ پالیسیاں ناقص رہی ہیں اور ان کو درست کرنے کے اقدامات کی ضرورت ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخی وجغرافیائی حالات اور سپرپاورز کی گریٹ گیم کی وجہ سے پاکستان ایک ایسی دلدل میں پھنسا ہوا ہے کہ ہمیں بیرونی طاقتوں کے ایما پر کی جانے والی ان بزدلانہ کارروائیوں کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔
امریکا، بھارت، اسرائیل اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستان میں ہر صورت افراتفری پھیلانا چاہتی ہیں، ان کے پاس بے پناہ وسائل، جدید ترین ٹیکنالوجی، راہ گم گشتہ لوگوں کی بڑی تعداد ہے، افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں، افغانستان کے ساتھ سیکڑوں میل لمبا آسانی سے پار کیے جانے والا بارڈر ہے۔ یہ چاروں ممالک کسی نہ کسی کدورت کی وجہ سے ہمارے یہاں تباہی پھیلانے پر تلے ہوئے ہیں، جب کہ پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے، محدود وسائل، ٹیکنالوجی میں بھی پیچھے ہیں، اس کے باوجود حکومت اور سیکیورٹی ادارے جس طرح ملک وقوم کی حفاظت کررہے ہیں، وہ قابل ستائش ہے۔
بلاشبہ فوج نے اپنے حصے کا کام کردیا اور کررہی ہے، مگر نیشنل ایکشن پلان کا وہ حصہ تشنہ تکمیل ہے جس پر سیاسی حکومتوں کو عمل کرنا تھا۔ ایک ہفتے پہلے تک ہماری سیاسی قیادت ایک ہی نعرہ لگارہی تھی کہ ملک سے دہشتگردی ختم کردی اور اب لوڈشیڈنگ ختم کریں گے، مگر دہشتگردی کی حالیہ لہر نے ان دعوؤں کی قلعی کھول کر یہ واضح کردیا ہے کہ حکومتی حکمت عملی اور کارکردگی میں بنیادی نقائص موجود ہیں، جنھیں دورکرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی، دہشتگردی اور انتہاپسندی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے مگر حکمران اسے کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھ رہے، تمام تر وقت اپنی کرسیاں بچانے اور اگلے الیکشن جیتنے کے منصوبے بنانے پر صرف کیا جارہا ہے، حقائق سے آنکھیں چرانا بہادری ہے اور نہ ہی مسئلے کا حل ہے۔
دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ کا فیصلہ کن معرکہ لڑنے کا وقت آگیا ہے، سانحہ پشاور کے بعد دہشتگردوں کی کمر توڑی گئی اور اب درگاہ لعل شہباز قلندرؒ پر حملے کے بعد دہشتگردوں کو دفن کیا جائے گا۔قوم کو مکمل اعتماد میں لے کر سمجھائیں کہ یہ مختصر نہیں طویل جنگ ہے، جسے اس وقت تک جیتا نہیں جاسکتا جب تک قوم کا ایک ایک فرد حکومت کے شانہ بشانہ کھڑا نہیں ہوگا، دہشتگردی کے اس عفریت سے ہم سب کو مل کر لڑنا ہوگا۔ آج جو نفرت کی آگ دہکا رہے ہیں ہمیں ان کے خلاف سینہ سپر ہونا پڑے گا، جس کو بھی گھٹن کی اس فضا سے نکل کر آزاد فضا میں سانس لینا ہے، وہ ضرور لڑے گا۔ اٹھو، ظلم کی فصل کو کھیتوں میں اگانے والوں کے ہر خوشہ نفرت کو جلادو، اندھیرے چھٹ رہے ہیں، روشنی بڑھ رہی ہے، یہ تاریکیوں کو فتح کرنے کی گھڑی ہے، امن وآشتی کی بانہیں پھیلائے آگے بڑھو تو سہی کہ کامیابی قدم چومنے کے لیے مدت سے کھڑی ہے۔
پہلے وطن عزیزکے قلب زندہ دلان شہر لاہور، پھر کوئٹہ، پشاور، مہمند ایجنسی، شب قدر اور اب انسان دوستی کا درس دینے والے صوفیوں کی دھرتی پر صوفی بزرگ حضرت شیخ عثمان مروندی المعروف سخی لعل شہباز قلندر کی آخری آرام گاہ سیہون شریف میں جنونیوں نے زندگی کی رمق موت کی زردی میں بدل دی۔ 92 سے زائد مرد وخواتین و بچے فنا سے گزر کر جاودانی بقا پاگئے۔
جہاں جذب ومستی میں دھمال ڈالی جارہی تھی، وہاں نوحہ غم گونج اٹھا، درگاہ لعل شہباز قلندر پر خودکش حملے میں سیکڑوں خاک نشینوں کا خون بہا اور تڑپ تڑپ کر جان دینے والوں کی موت سے یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ سیاسی وارثوں نے پدری وپسری وزارت اعلیٰ کے باوجود سیہون شریف میں نہ تو اسپتال بنایا اور نہ ہی سڑکیں، بے بس لوگ صوفی بزرگ کی درگاہ پر ایمبولینس کے منتظر رہے، تنگ گلیاں، انفرا اسٹرکچر غائب ہونے سے گاڑیوں کو لاشیں لے جانے میں مشکلات کا سامنا رہا، دردناک افراتفری دیکھی گئی۔
ایک ہفتے سے بھی کم مدت میں دہشتگردی کی متعدد ہولناک وارداتوں سے اہل وطن غمزدہ ہیں، پوری قوم کے اعصاب جھنجھنا اٹھے ہیں، ملک بھر میں ایک ہیجان برپا ہے، پاکستان اس وقت غم و غصے میں ڈوبا ہوا ہے، دہشتگردی کی حالیہ لہر ہماری اس کمزوری کا ثبوت ہے کہ حالات معمولی سے بہتر ہوتے ہی ہم اطمینان کرنے لگتے ہیں، آپریشن کے دوران عیار دشمن نے معنی خیز خاموشی اختیار کررکھی تھی اور موقع ملتے ہی اہل وطن کے قتل عام کے لیے سرگرم ہوگئے۔
یہ تو طے ہے کہ دہشتگرد قوتیں جوابی حملے کررہی ہیں، جس ترتیب سے ملک بھر میں دہشتگردی کی وارداتیں ہوئیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کسی چھوٹے موٹے گروہ کا کام نہیں، بلکہ بیرونی قوتیں ملوث ہیں اور دہشتگردوں کا باہمی رابطے کا نظام بھی بدستور قائم ہے۔ فرعون کی نسل کے یہ لوگ پاتال کے وہ بدبودار کیڑے ہیں، جن کی نسلیں اندھیروں میں جنم لیتی ہیں، جس کے سبب یہ روشنی کے دشمن بن کر ہر دور، ہر عہد اور ہر زمانے میں نکلتے رہے ہیں اور نکلتے رہیں گے۔
ایسے میں رحمت ہیں ہمارے محافظین، جنھوں نے قبر کے گڑھے تک ان کے تعاقب کا ارادہ کر رکھا ہے اور وہ اس فرض وعہد کو پورا کرنے کی خاطر قربانیاں دینے سے بھی پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں، ان ظالموں کا شکار کرنے والے بہادر فوجیوں پر ٹھنڈے اسٹوڈیوز میں بیٹھے سرد جذبات رکھنے والے مایہ ناز تجزیہ نگار اپنے دوراندیشانہ انگاروں کے ساتھ بڑی شدت سے برس رہے ہیں، اسکرینوں سے چنگھاڑتی آوازیں آرہی ہیں کہ کہاں گئے وہ دعوے کہ 80 فیصد دہشتگردی ختم ہوگئی ہے، شرپسند فرار ہورہے ہیں، آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا، وغیرہ وغیرہ۔ آخر ہم اس قدرجذباتی کیوں ہوجاتے ہیں؟
کوئی شک نہیں کہ پاک فوج نے بڑی حد تک دہشتگردوں کی بیخ کنی کردی ہے مگر ایک طرف بھارت مختلف راستوں سے اپنے ایجنٹ پاکستان بھیج رہا ہے تو دوسری جانب افغانستان کی طرف سے بار بار لشکروں، خودکش بمباروں سمیت دہشتگردوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، تحریک طالبان، جماعت الاحرار اور داعش کے لوگ افغانستان میں بیٹھ کر ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں، دہشتگردی کی موجودہ لہر میں سو فیصد بیرونی ہاتھ ملوث ہے، بلاشبہ ہماری سیکیورٹی وخارجہ پالیسیاں ناقص رہی ہیں اور ان کو درست کرنے کے اقدامات کی ضرورت ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخی وجغرافیائی حالات اور سپرپاورز کی گریٹ گیم کی وجہ سے پاکستان ایک ایسی دلدل میں پھنسا ہوا ہے کہ ہمیں بیرونی طاقتوں کے ایما پر کی جانے والی ان بزدلانہ کارروائیوں کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔
امریکا، بھارت، اسرائیل اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستان میں ہر صورت افراتفری پھیلانا چاہتی ہیں، ان کے پاس بے پناہ وسائل، جدید ترین ٹیکنالوجی، راہ گم گشتہ لوگوں کی بڑی تعداد ہے، افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں، افغانستان کے ساتھ سیکڑوں میل لمبا آسانی سے پار کیے جانے والا بارڈر ہے۔ یہ چاروں ممالک کسی نہ کسی کدورت کی وجہ سے ہمارے یہاں تباہی پھیلانے پر تلے ہوئے ہیں، جب کہ پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے، محدود وسائل، ٹیکنالوجی میں بھی پیچھے ہیں، اس کے باوجود حکومت اور سیکیورٹی ادارے جس طرح ملک وقوم کی حفاظت کررہے ہیں، وہ قابل ستائش ہے۔
بلاشبہ فوج نے اپنے حصے کا کام کردیا اور کررہی ہے، مگر نیشنل ایکشن پلان کا وہ حصہ تشنہ تکمیل ہے جس پر سیاسی حکومتوں کو عمل کرنا تھا۔ ایک ہفتے پہلے تک ہماری سیاسی قیادت ایک ہی نعرہ لگارہی تھی کہ ملک سے دہشتگردی ختم کردی اور اب لوڈشیڈنگ ختم کریں گے، مگر دہشتگردی کی حالیہ لہر نے ان دعوؤں کی قلعی کھول کر یہ واضح کردیا ہے کہ حکومتی حکمت عملی اور کارکردگی میں بنیادی نقائص موجود ہیں، جنھیں دورکرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی، دہشتگردی اور انتہاپسندی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے مگر حکمران اسے کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھ رہے، تمام تر وقت اپنی کرسیاں بچانے اور اگلے الیکشن جیتنے کے منصوبے بنانے پر صرف کیا جارہا ہے، حقائق سے آنکھیں چرانا بہادری ہے اور نہ ہی مسئلے کا حل ہے۔
دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ کا فیصلہ کن معرکہ لڑنے کا وقت آگیا ہے، سانحہ پشاور کے بعد دہشتگردوں کی کمر توڑی گئی اور اب درگاہ لعل شہباز قلندرؒ پر حملے کے بعد دہشتگردوں کو دفن کیا جائے گا۔قوم کو مکمل اعتماد میں لے کر سمجھائیں کہ یہ مختصر نہیں طویل جنگ ہے، جسے اس وقت تک جیتا نہیں جاسکتا جب تک قوم کا ایک ایک فرد حکومت کے شانہ بشانہ کھڑا نہیں ہوگا، دہشتگردی کے اس عفریت سے ہم سب کو مل کر لڑنا ہوگا۔ آج جو نفرت کی آگ دہکا رہے ہیں ہمیں ان کے خلاف سینہ سپر ہونا پڑے گا، جس کو بھی گھٹن کی اس فضا سے نکل کر آزاد فضا میں سانس لینا ہے، وہ ضرور لڑے گا۔ اٹھو، ظلم کی فصل کو کھیتوں میں اگانے والوں کے ہر خوشہ نفرت کو جلادو، اندھیرے چھٹ رہے ہیں، روشنی بڑھ رہی ہے، یہ تاریکیوں کو فتح کرنے کی گھڑی ہے، امن وآشتی کی بانہیں پھیلائے آگے بڑھو تو سہی کہ کامیابی قدم چومنے کے لیے مدت سے کھڑی ہے۔