شاہ زیب کیس عدالتوں میں پیش کی گئی پولیس رپورٹوں میں واضح تضاد

پولیس ایسی کارروائی کرنا چاہتی ہے جس سے عدالت کو مطمئن کرکے معاملہ سردخانے میں ڈالا جاسکے

فوٹو ایکسپریس

ڈی ایس پی اورنگزیب کے 20 سالہ بیٹے شاہ زیب کے مقدمہ قتل میں پولیس کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان اور کراچی میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت 03میں تضادات کا شکارعلیحدہ علیحدہ رپورٹیں پیش کی گئی ہیں۔

بادی النظر میں لگتا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب سے واقعے کا ازخود نوٹس لینے کے بعد پولیس ایسی کاغذی کارروائی کرنا چاہتی ہے جس سے عدالت کو مطمئن کرکے معاملے کو سرد خانے میں ڈالا جاسکے۔ سپریم کورٹ میں اپنی کارکردگی ظاہر کرنے کے لیے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر پولیس نے ملزمان کے اثاثے منجمد کردینے کی درخواست بھی ریکارڈ پر پیش کی۔

تفصیلات کے مطابق 24/25دسمبر کی درمیانی شب درخشاں پولیس اسٹیشن کی حدود میں ڈی ایس پی اورنگزیب کے بیٹے شاہ زیب کوقتل کیاگیالیکن پولیس نے کوئی موثرکارروائی نہیں کی تاہم 4جنوری کو سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود کارروائی کے بعد جب آئی جی سندھ سے اس مقدمے کے متعلق رپورٹ طلب کی گئی تو پہلے آئی جی سندھ سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوئے۔ عدالت کی جانب سے پیر کو دوبارہ طلب کرنے پر آئی جی سندھ کی ہدایت پر پولیس سرگرم ہوگئی اور ایسے اقدامات کیے جس سے ظاہر کیا جاسکے کہ پولیس اس مقدمے میںپیش رفت کیلیے انتہائی فعال ہے۔

اس ضمن میں 5جنوری کو ایڈیشنل آئی جی اقبال محمود کی دستخط شدہ رپورٹ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پیش کی گئی جس میں دعویٰ کیاگیاکہ پولیس نے اندرون سندھ مورو ضلع نوشہرو فیروز سے 4 ملزمان کوگرفتار کیاجن میں تین نامزد ملزمان نواب سراج تالپور،سجاد تالپور، ان کے خانساماں غلام مرتضیٰ لاشاری اور انھیں سہولتیں فراہم کرنے والے ملزم نواب امداد تالپور شامل تھے۔ دوسری طرف پیر کوانسداددہشت گردی کی خصوصی عدالت میں صرف 3 ملزمان کوپیش کیاگیا اور نواب امدادتالپور کو پیش نہیں کیاگیا، خصوصی عدالت کونواب امدادتالپورکے بارے میں آگاہ نہیںکیاگیاکہ انھی کیوں پیش نہیں کیا گیا کیا۔




وہ تاحال گرفتار ہیں یا انھیں رہا کردیاگیااور رہا کیا گیا تو کس بنیاد پر رہا کیاگیا۔ اسکے علاوہ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق5جنوری کو حیدرآباد سے بھی نواب امداد تالپور کے دوبیٹوں صدرالدین اور سہراب کے ساتھ ساتھ ان کے چچا سائیں ڈینوخاصخیلی کوحراست میںلیا گیاتھا۔کراچی سے بھی عارف لوند، وقار لوند اور عبدالخالق کوتحویل میں لینے کی رپورٹ دی گئی تھی لیکن پیر کوان تمام ملزمان کے بارے میں عدالت میں نہیں بتایاگیاکہ یہ کہاں اور کس حیثیت میں ہیں؟۔

دوسری جانب پولیس نے ہفتہ کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 94 کے تحت ملزمان کے بینک اکاونٹس منجمد کرنے کی درخواست بھی عدالت میں پیش کرنے کی کوشش کی تھی تاہم اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر عبدالمعروف نے پولیس کوبتایاکہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت یا سیشن عدالت کو یہ اختیارنہیں کہ وہ کسی ملزم کے خلاف ضابطہ فوجداری کی دفعہ 87/88 کی کارروائی ( اشتہاری ملزم ) کیے بغیر ان کے اکاونٹس اور جائیداد کے متعلق حکم جاری کرسکے۔ سرکاری وکیل نے پولیس کایہ موقف مستردکردیا کہ سانحہ بلدیہ ٹائون گارمنٹس فیکٹری میں مالکان ارشد بھائیلہ اور دیگر کے اکاونٹس منجمد کردیے گئے تھے۔

عبدالمعروف نے موقف اختیارکیا کہ وہ اکائونٹس سندھ ہائیکورٹ نے منجمد کیے تھے اور بنیادی حقوق کے آرٹیکل 199کے تحت ہائیکورٹس کولامحدوداختیارحاصل ہوتے ہیں۔ پیر کو پولیس نے اکائونٹس منجمد کرانے کے لیے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع نہیںکیا بلکہ ان دستاویزات کی بنیاد پر سپریم کورٹ کومطمئن کرنے کے لیے آئی جی سندھ فیاض لغاری اور محکمے کے تمام سینئر افسران سپریم کورٹ اسلام آباد پہنچ گئے تھے۔
Load Next Story