پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششیں ناکام
ایکو ممالک کو اس وقت دہشت گردی سمیت دیگر بہت سے چیلنجز درپیش ہیں
وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے ہفتے کو میڈیا کو اقتصادی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ایکو کا 13 واں سربراہی اجلاس یکم مارچ کو شیڈول کے مطابق اسلام آباد میں ہو گا' دس میں سے سات رکن ممالک نے شرکت کی یقین دہانی کرائی ہے جب کہ افغانستان اور آذربائیجان نے ابھی تک تصدیق نہیں کی تاہم افغانستان نے اپنا وزیر خارجہ بھیجنے کی تصدیق کی ہے۔
سربراہی اجلاس سے قبل بھارت کا پاکستان کو تنہا کرنے کا منصوبہ ناکام ہو گیا' برکس اجلاس میں بھی اس کو منہ کی کھانا پڑی تھی' پاکستان کے اسلامی دنیا' چین اور باقی ممالک کے ساتھ تعلقات سب کے سامنے ہیں' سارک کو دوبارہ بحال دیکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں یکم مارچ کو اقتصادی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس جس کا موضوع ''علاقائی ترقی کے لیے روابط کا فروغ'' منعقد ہو رہا ہے' مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے مطابق بھارت نے اس سربراہی اجلاس کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ دنیا میں پاکستان کو تنہا کیا جا سکے' بھارت کے اس ایجنڈے کی تکمیل میں افغانستان بھی برابر کا شراکت دار دکھائی دیتا ہے اس نے اس کانفرنس میں اپنا سربراہ بھیجنے کے بجائے وزیر خارجہ کو بھیجنے پر اکتفا کیا ہے' اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان دہشت گردی اور سرحدوں پر کشیدگی کے حوالے سے جو تناؤ موجود ہے' اس کا تقاضا تھا کہ افغانستان کے سربراہ مملکت اجلاس میں شریک ہوتے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے اور دہشت گردی کے حوالے سے جنم لینے والے مسائل کے حل کے لیے جامع میکنزم تشکیل دیا جاتا۔
چند روز پیشتر پاکستان میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے مظاہر کے سبب پاک افغان سرحد کو بند کر دیا گیا' اب سرتاج عزیز نے یہ عندیہ دیا ہے کہ ایک دو روز میں پاک افغان سرحد کو کھول دیا جائے گا۔ اقتصادی تعاون تنظیم میں دس ایشیائی ممالک پاکستان' افغانستان' آذربائیجان' ایران' قازقستان' کرغزستان' تاجکستان' ترکمانستان' ازبکستان اور ترکی شامل ہیں' یہ تنظیم 1985میں ایران' پاکستان اور ترکی نے مل کر قائم کی' جس نے علاقائی تنظیم برائے ترقی (آر سی ڈی) کی جگہ لی جو 1962ء میں قائم ہوئی اور 1979ء میں اپنی سرگرمیاں ختم کر بیٹھی' 1992ء میں افغانستان سمیت سات ایشیائی ممالک کو اس تنظیم کا رکن بنایا گیا۔
سرتاج عزیز کے مطابق سربراہی اجلاس میں رکن ممالک کے درمیان روابط' تجارت' توانائی' سیاحت' سرمایہ کاری' صنعت' معیشت' ترقی' پیداوار' سماجی فلاح اور ماحولیات کے شعبوں میں تعاون کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوگی' ای سی او تنظیم کی طویل المدتی تین ترجیحات ہیں جن میں ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے انفرااسٹرکچر کی بہتری' تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے سہولیات فراہم کرنا اور خطے کے توانائی کے وسائل کا موثر استعمال شامل ہے۔
ایکو ممالک کو اس وقت دہشت گردی سمیت دیگر بہت سے چیلنجز درپیش ہیں' یہ ممالک ان چیلنجز پر قابو پانے کی بھرپور استعداد رکھتے ہیں ضرورت مشترکہ پلیٹ فارم پر جامع میکنزم تشکیل دینے کی ہے' ایکو ممالک کے درمیان باہمی روابط اور تجارتی تعلقات جس قدر مضبوط و مستحکم ہوں گے اتنا ہی ان ممالک میں ترقی اور خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ ایکو ممالک کے درمیان اعلیٰ فوجی لیول' انٹیلی جنس لیول' سیاسی لیول' وزارت خارجہ لیول سمیت مختلف لیول پر میکنزم تشکیل دیا جائے۔
پاکستان اور افغانستان کو یہ بخوبی ادراک ہو چکا ہے کہ دہشت گرد ان کے مشترکہ دشمن ہیں جن کی بیخ کنی کے لیے باہمی تعاون ناگزیر ہو چکا ہے لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں جس سے دہشت گردوں کو تقویت مل رہی ہے۔
ای سی او کانفرنس کی کامیابی کے بعد پاکستان کے اعتماد میں اضافہ ہو گا اور اس کی کوشش ہو گی کہ وہ جلد از جلد سارک سربراہ کانفرنس کا انعقاد بھی یقینی بنائے۔ لیکن دوسری جانب بھارت عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کے مذموم منصوبے بنا رہا ہے' برکس اجلاس میں بھی اسے منہ کی کھانا پڑی تھی جب شریک ممالک نے یہ موقف اختیار کیا کہ دوطرفہ معاملات کو کثیرالجہتی فورم پر زیربحث نہ لایا جائے۔
افغان حکومت اگر حقیقی معنوں میں خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ چاہتی ہے تو اسے بھارت کے ہاتھوں کھلونا بننے کے بجائے اپنے مفادات اور علاقائی امن کو ترجیح دیتے ہوئے ایکو کانفرنس میں صدر یا وزیراعظم کی سطح پر شرکت کرنا چاہیے۔ پاک افغان حکومتوں کے درمیان باہمی روابط جتنے مضبوط ہوں گے اس خطے کے امن' اقتصادی ترقی اور سماجی بہبود کے لیے اتنا ہی سود مند ثابت ہوں گے۔
سربراہی اجلاس سے قبل بھارت کا پاکستان کو تنہا کرنے کا منصوبہ ناکام ہو گیا' برکس اجلاس میں بھی اس کو منہ کی کھانا پڑی تھی' پاکستان کے اسلامی دنیا' چین اور باقی ممالک کے ساتھ تعلقات سب کے سامنے ہیں' سارک کو دوبارہ بحال دیکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں یکم مارچ کو اقتصادی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس جس کا موضوع ''علاقائی ترقی کے لیے روابط کا فروغ'' منعقد ہو رہا ہے' مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے مطابق بھارت نے اس سربراہی اجلاس کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ دنیا میں پاکستان کو تنہا کیا جا سکے' بھارت کے اس ایجنڈے کی تکمیل میں افغانستان بھی برابر کا شراکت دار دکھائی دیتا ہے اس نے اس کانفرنس میں اپنا سربراہ بھیجنے کے بجائے وزیر خارجہ کو بھیجنے پر اکتفا کیا ہے' اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان دہشت گردی اور سرحدوں پر کشیدگی کے حوالے سے جو تناؤ موجود ہے' اس کا تقاضا تھا کہ افغانستان کے سربراہ مملکت اجلاس میں شریک ہوتے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے اور دہشت گردی کے حوالے سے جنم لینے والے مسائل کے حل کے لیے جامع میکنزم تشکیل دیا جاتا۔
چند روز پیشتر پاکستان میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے مظاہر کے سبب پاک افغان سرحد کو بند کر دیا گیا' اب سرتاج عزیز نے یہ عندیہ دیا ہے کہ ایک دو روز میں پاک افغان سرحد کو کھول دیا جائے گا۔ اقتصادی تعاون تنظیم میں دس ایشیائی ممالک پاکستان' افغانستان' آذربائیجان' ایران' قازقستان' کرغزستان' تاجکستان' ترکمانستان' ازبکستان اور ترکی شامل ہیں' یہ تنظیم 1985میں ایران' پاکستان اور ترکی نے مل کر قائم کی' جس نے علاقائی تنظیم برائے ترقی (آر سی ڈی) کی جگہ لی جو 1962ء میں قائم ہوئی اور 1979ء میں اپنی سرگرمیاں ختم کر بیٹھی' 1992ء میں افغانستان سمیت سات ایشیائی ممالک کو اس تنظیم کا رکن بنایا گیا۔
سرتاج عزیز کے مطابق سربراہی اجلاس میں رکن ممالک کے درمیان روابط' تجارت' توانائی' سیاحت' سرمایہ کاری' صنعت' معیشت' ترقی' پیداوار' سماجی فلاح اور ماحولیات کے شعبوں میں تعاون کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوگی' ای سی او تنظیم کی طویل المدتی تین ترجیحات ہیں جن میں ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے انفرااسٹرکچر کی بہتری' تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے سہولیات فراہم کرنا اور خطے کے توانائی کے وسائل کا موثر استعمال شامل ہے۔
ایکو ممالک کو اس وقت دہشت گردی سمیت دیگر بہت سے چیلنجز درپیش ہیں' یہ ممالک ان چیلنجز پر قابو پانے کی بھرپور استعداد رکھتے ہیں ضرورت مشترکہ پلیٹ فارم پر جامع میکنزم تشکیل دینے کی ہے' ایکو ممالک کے درمیان باہمی روابط اور تجارتی تعلقات جس قدر مضبوط و مستحکم ہوں گے اتنا ہی ان ممالک میں ترقی اور خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ ایکو ممالک کے درمیان اعلیٰ فوجی لیول' انٹیلی جنس لیول' سیاسی لیول' وزارت خارجہ لیول سمیت مختلف لیول پر میکنزم تشکیل دیا جائے۔
پاکستان اور افغانستان کو یہ بخوبی ادراک ہو چکا ہے کہ دہشت گرد ان کے مشترکہ دشمن ہیں جن کی بیخ کنی کے لیے باہمی تعاون ناگزیر ہو چکا ہے لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں جس سے دہشت گردوں کو تقویت مل رہی ہے۔
ای سی او کانفرنس کی کامیابی کے بعد پاکستان کے اعتماد میں اضافہ ہو گا اور اس کی کوشش ہو گی کہ وہ جلد از جلد سارک سربراہ کانفرنس کا انعقاد بھی یقینی بنائے۔ لیکن دوسری جانب بھارت عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کے مذموم منصوبے بنا رہا ہے' برکس اجلاس میں بھی اسے منہ کی کھانا پڑی تھی جب شریک ممالک نے یہ موقف اختیار کیا کہ دوطرفہ معاملات کو کثیرالجہتی فورم پر زیربحث نہ لایا جائے۔
افغان حکومت اگر حقیقی معنوں میں خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ چاہتی ہے تو اسے بھارت کے ہاتھوں کھلونا بننے کے بجائے اپنے مفادات اور علاقائی امن کو ترجیح دیتے ہوئے ایکو کانفرنس میں صدر یا وزیراعظم کی سطح پر شرکت کرنا چاہیے۔ پاک افغان حکومتوں کے درمیان باہمی روابط جتنے مضبوط ہوں گے اس خطے کے امن' اقتصادی ترقی اور سماجی بہبود کے لیے اتنا ہی سود مند ثابت ہوں گے۔