مردم شماری کیلئے تمام فریقین کے تحفظات دور کرنا ہوں گے

کوئٹہ میں منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں سیاسی رہنماؤں کی گفتگو۔

کوئٹہ میں منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں سیاسی رہنماؤں کی گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

ملک بھر میں آئندہ ماہ مردم شماری ہونے جارہی ہے جو مختلف حلقوں میں زیر بحث ہے۔ بلوچستان میں اس حوالے سے سیاسی ،قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے بھی مختلف بیانات آرہے ہیں۔ بعض حلقوں کی جانب سے مردم شماری پر تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے جبکہ کچھ جماعتوں نے اپنے موقف کے دفاع کیلئے عدالت سے بھی رجوع کیا ہے۔

اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئٹہ میں ''ایکسپریس فورم'' کا انعقاد کیا گیا جس میں صوبے کی نمائندہ جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اُن کے ساتھ ہونے والی گفتگو پیش خدمت ہے۔

نوابزادہ حاجی میر لشکری رئیسانی (ممتاز قبائلی وسیاسی رہنما)

مردم شماری کے دوجزو ہوتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں خانہ شماری اور پھر مردم شماری کی جاتی ہے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ کس علاقے میں کتنے گھر ہیں، ان میں کتنے مالک ہیں اور کتنے لوگوں کے پاس اپنا گھر نہیں ہے اور پھر ان اعدادو شمار کے مطابق ریاست پالیسی بناتی ہے۔ آئین پاکستان میں یہ ہدایت ہے کہ مردم شماری کی جائے تاکہ لوگوں کے مسائل حل ہوسکیں۔

پاکستان میں ایسے بہت سارے معاملات ہیں جو لوگوں کے فائدے کے بھی ہیں اور نقصان کے بھی، کئی ایسے معاملات ہیں جنہیں سیاسی و اہل فکر لوگ مشکوک نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جب ان کے پس منظر میں جائیں تو تعجب ہوتا ہے۔ بعض ممالک نے مردم شماری و دیگر اعدادو شمار کے لیے جدید میکانزم بنایا ہے، جس طرح ہمارے ہاں نادرا کا محکمہ ہے جس کے پاس لوگوں کا ڈیٹا موجود ہے۔

مردم شماری سے ریاست کے پاس لوگوں کی تعداد اور ان کے رہن سہن کی تفصیل آجاتی ہے جس کے بعد کسی بھی علاقے کے حوالے سے سوشل ،اکنامک و سٹرٹیجک پالیسی بنائی جاتی ہے اور مختلف علاقوں کے لیے خصوصی کوٹہ بھی مختص کیا جاتا ہے۔ لوگوں کی ملازمت کیلئے اقدامات کیے جاتے ہیں، اس میں معذوروں اور خواتین کا کوٹہ بھی مختص کیا جاتا ہے تاکہ ان کا معیار زندگی بہتر ہوسکے۔

خانہ شماری کے بعد بے گھر افراد کا ڈیٹا حکومت کے پاس آجاتا ہے لیکن حیرت ہے کہ بے گھر افراد کیلئے ہاؤسنگ منسٹری نے کبھی منصوبہ بندی نہیں کی اور نہ ہی بے گھر افراد کو کوئی گھر بنا کردیئے گئے۔ جہاں مردم شماری کے بعد لوگوں کے لیے منصوبہ بندی ضروری ہے وہیں آئین پاکستان لوگوں کے اس حق کا دفاع بھی کرتا ہے کہ کوئی بھی شخص مردم شماری سے باہر نہ رہے اور کسی غیر ملکی چاہے وہ بنگالی، افغانی، ایرانی یا کسی دوسرے ملک سے تعلق رکھتا ہو،ا سے کسی پاکستانی کے حق نہ مارنے دیا جائے۔

آئین اس حق کا تحفظ بھی کرتاہے کہ مردم شماری کے بعد وسائل کی منصفانہ تقسیم کی جائے اور کسی کے حق پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے۔اگر مردم شماری میںغیر ملکیوں کوشمار، غریب صوبے کے وسائل کو استعمال اور بلوچوں کے وہ علاقے جہاں انسرجنسی کی وجہ سے لوگ گھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں، ان کی گنتی نہ ہوتو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔جب یہاں غیر ملکیوں کی بات ہوتی ہے تو لوگوں کا فوکس افغانیوں پر ہوتاہے۔ افغان کو لوگ پشتون سے تعبیر نہ کریں کیونکہ افغانی ایک انٹرنیشنل حدود میں رہتے ہیں، انہیں افغان کہاجاتاہے بھلے وہ کسی بھی قوم اورنسل سے تعلق رکھتے ہوں۔

پاکستان 75 ارب ڈالر کا قرض دار ہے،چند سال بعد یہ قرض 100ارب روپے تک پہنچ جائے گا اورجونہی پاکستان پر بین الاقوامی ادارے دباؤ ڈالیں گے اور پابندیاں لگیں گی تو دوہری شہریت رکھنے والے یہ افغان ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ کر افغانستان واپس چلے جائیں گے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ افغانیوںکو یہاں رہنا چاہیے پھر شاید وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارڈر کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ ہمارے وسائل پہلے ہی محدود ہیں، ہم کرپشن کا شکار ہیںاور اب دوسرے لوگوں کو بھی شریک کیا جارہا ہے۔ میرے نزدیک یہ یہاں موجود قدیم اقوام کی حق تلفی ہوگی اگر غیر ملکیوں کو مردم شماری میں شامل کیا گیا۔

بارکھان کوہلو سے لیکر مکران اور کئی اضلاع سے انسرجنسی کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کر گئے ہیں۔ وہاں لوگ اپنے گھروں میں نہیں ہیں، جب ان کی گنتی نہیں ہوگی تو آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔ اس طرح سے شفاف اور منصفانہ مردم شماری نہیں ہوگی۔ جرگہ ہمارا قدیم تاریخی ورثہ ہے۔ جرگے میں پشتون، بلوچ سٹیلرز، ہزارہ اور صوبے میں بسنے والے قدیم قبائل نے جرگہ بلایا کہ مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے۔

فاٹا اور خیبر پختونخوا کے حوالے سے ہمارا بھی مطالبہ ایک ہو، اگر ہم فاٹا کو علیحدہ صوبہ بناتے ہیں تو اس کے انفراسٹرکچر کو دس سے پندرہ سال لگیں گے اور وہ ہمارے بھائی قومی دھارے میں شامل ہونے کی بجائے کٹے ہوئے رہیں گے جو بڑا خطرناک ہے۔ اگر ریاست اس صوبے کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتی ہے تو جرگے کی سفارشات پر عمل درآمد کرے تاکہ شفاف مردم شماری ہو اور لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔

سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی (مرکزی سینئر نائب صدر بلوچستان نیشنل پارٹی،مینگل)

مردم شماری ضروری ہے اور کوئی بھی اس کی مخالفت نہیں کرتا لیکن ہمارے کچھ تحفظات ہیں ،انہیں دور کیا جائے۔ مردم شماری کا مقصد رجسٹریشن ، سوشل، اکنامک، پولیٹیکل تقسیم، اسمبلی اور بلدیاتی نشستوں میں اضافہ ہے۔ ہمارے یہاں جن اداروں نے رجسٹریشن کرنی تھی ان کی کارکردگی بہتر نہیں رہی ۔ نادرا کے مطابق بلوچستان کے بلوچ بیلٹ میں 43فیصد بلوچ آبادی کی رجسٹریشن ہوچکی ہے جبکہ 57فیصد کی رجسٹریشن باقی ہے جبکہ پشتون بیلٹ میں 95فیصد رجسٹریشن ہوشکی ہے۔ جب تک 57فیصد بلوچ آبادی کی رجسٹریشن نہیں ہوگی، انہیں مراعات کس طرح ملیں گی۔ بلوچستان میں شورش چلی آرہی ہے۔

اس شورش اور اس کے تدارک کیلئے ہونے والے اقدامات کی وجہ سے لوگ اپنے علاقے چھوڑ کر چلے گئے ہیںجنہیں آج تک آئی ڈی پیز تسلیم نہیں کیا گیا۔ پابندی کی وجہ سے کوئی این جی او ان تک نہیں پہنچ سکی۔ یہ لوگ سندھ اور پنجاب کے بارڈر پر پڑے ہوئے ہیں ۔ مری، بگٹی ، کاہان اور میوند کے علاقے خالی پڑے ہیں ۔ آواران میں جب زلزلہ آیا تو سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے وہاں کے لوگ بھی نقل مکانی کرگئے۔ مستونگ ،قلات، خضدار کے علاوہ مکران ڈویژن کی دو تحصیلیں خالی ہوگئی ہیں۔

افغانستان میرا دوسرا گھر ہے، جب یہاں کسی کو تکلیف ہوتی ہے تو وہاں محسوس کی جاتی ہے۔ ہم کہتے ہیں غیر ملکی مہاجرین جن میں پشتون، بلوچ افغانستان کے بلوچ ،ایران کے بلوچ، بنگالی اور انڈین سب کو باعزت طور پر واپس ان کے ممالک میں بھجوا دیا جائے، انہیں رجسٹریشن کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہاں پر 40لاکھ افغان ہیں جو ہمارے سسٹم کا حصہ بن چکے ہیں۔ کوئٹہ تفتان، کراچی، حیدر آباد، سکھر،ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں یہ لوگ کاروبار کررہے ہیں۔

1.1ملین، یو این میں رجسٹرڈ ہیںاور بعض لوگ کوششیں کررہے ہیں یہ ہمارے سسٹم کا حصہ بن جائیں۔ مردم شماری کے حوالے سے 1931ء سے 1998ء تک کا ریکارڈ سب کے سامنے ہے۔ گزشتہ مردم شماری کے مطابق ایک ڈسٹرکٹ میں ان کی آبادی ایک لاکھ 10 ہزار ،تھی جب اسے دوبارہ شمار کرایا گیا تویہ آبادی ساڑھے21 لاکھ ہوگئی جو بہت بڑا اضافہ ہے۔ اس کی وجہ سے مقامی بلوچ اورپشتون، سماجی ،معاشی اور اخلاقی مسائل میں دھنس گئے ہیں۔

سی پیک کی وجہ سے ڈیمو گرافک تبدیلی آ رہی ہے، اگر تبدیلی کا سلسلہ جاری رہا تو مسائل پیدا ہوتے رہیں گے ۔ مجھے ان تمام لوگوں سے محبت ہے جو بلوچستان میں رہتے ہیں لیکن میری حیثیت ختم نہیں ہونی چاہیے۔ بلوچستان کے مسائل اور وسائل کے مالک بلوچستان کے عوام ہیں۔ غیر ملکی تارکین وطن ،نوشکی اور دالبندین میں افغان ہیں۔ ایک ہلمند، افغانستان اور نیم روز سے بھی بلوچ آگئے ہیں۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان لائن آف کنٹرول ہے، ان میں سے اگر کوئی یہ کہے کہ لوگوں کی دونوں اطراف رجسٹریشن ہونی چاہیے تو یہ درست نہیں ہوگا ۔اگر ہم اس چیز کو لے کر چلیں کہ میں بارڈر کو نہیں مانتا ، ڈیورنڈ لائن اور گولڈ اسمتھ لائن کو نہیں مانتا تو اس طرح مسائل پیدا ہوں گے۔ اگر میں کہوں کہ ایرانی بلوچوں کی رجسٹریشن یہاں بھی کی جائے تو پھر سرحدیں نہیں ہونی چاہئیں۔

نصر اللہ زیرے (رکن صوبائی اسمبلی کوئٹہ ورہنما پشتونخواملی عوامی پارٹی)

مردم شماری آئینی و قانونی ضرورت ہے۔ یہ ہر دس سال بعد ہونی چاہیے لیکن اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کے بعد 18،19سال بعد ملک میں مردم شماری ہورہی ہے، ہم اسے خوش آئند سمجھتے ہیں۔ مردم شماری کے حوالے سے وفاق نے تیاریاں مکمل کرلی ہیں، 18 مارچ سے ہمارے صوبے میں مردم شماری ہوگی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ پورے ملک میں صاف وشفاف مردم شماری کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے جس میں پشتون عوام بھی حصہ لیں گے۔

ہم امید کرتے ہیں کہ مردم شماری کے بعد وسائل کی منصفانہ تقسیم ہوگی اور ہر قسم کی منصوبہ بندی کیا جائے گی ۔ سینیٹ اور وفاق میں نشستیں بھی اسی کے باعث زیادہ ہونگی۔ مردم شماری ہوگی تو وسائل کی تقسیم بہتر طریقے سے ہوگی۔ بجٹ اور این ایف سی ایوارڈ میں ہمارا حصہ زیادہ ہوگا، اسی لیے ہم مردم شماری کی حمایت کرتے ہیں۔ عوام سے بھی اپیل ہے کہ وہ درست اعداد و شمار بتائیں۔

اگرچہ چند ایک چیزوں پر ہمیں تحفظات ہیں کیونکہ ماضی میں سردار اخترمینگل جب خود وزیراعلیٰ تھے تو اس وقت چالیس لاکھ افغان کڈوال تھے جو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مہاجر کیمپوں میں موجود تھے۔ آج یہ تمام کیمپ خالی ہوچکے ہیں۔ یو این ایچ سی آر کی بھی یہ رپورٹ ہے کہ اس وقت پورے ملک میں افغان کڈوال کی تعداد 13لاکھ ہے جن کو نادرا نے شناختی کارڈ جاری ہوچکے ہیں، ان میں سے سات لاکھ رجسٹرڈ ہوں گے۔

سیفران کے مطابق ہمارے صوبے میں ان کی رجسٹرڈ تعداد 3لاکھ ہے جبکہ 2سے ڈھائی لاکھ غیر رجسٹرڈ ہیں۔ ہمارے صوبے میں 80ء کی دہائی میں شہر کی آبادی کیا تھی، ماضی کے ادوار میں ہزاروں پشتون عوام کو مردم شماری سے خارج کیا گیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ صاف و شفاف مردم شماری ہو۔ پشتون، بلوچ مشترکہ کمیشن بنایاجائے۔


نادرا کے پاس پورا ڈیٹا بیس ہے جسے اس کے مطابق ٹھیک کیا جائے۔ مردم شماری آئینی و قانونی ہے عمل ہے ، ضرور ہونی چاہیے۔ اس وقت ہمارے صوبے کا بجٹ 290ارب روپے ہے اور یہ بڑا صوبہ ہے۔ اس کی آبادی اب بڑھ چکی ہے۔کسی جماعت نے مردم شماری کا بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ شفاف طریقے سے مردم شماری ہو اور کوئی شخص اس میں رہ نہ جائے۔

اصغر خان اچکزئی (صوبائی صدر عوامی نیشنل پارٹی)

مردم شماری یقینا ایک حساس مسئلہ ہے تا ہم اسے یہاںمتنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مردم شماری کا دس سال بعد کیا جانا ضروری ہے مگر افسوس ہے کہ ہمارے ہاں مردم شماری 18 سے 21سال بعد ہوتی ہے۔ حکومت مردم شماری کرانا نہیں چاہتی مگر سپریم کورٹ کے حکم پر ہورہی ہے۔ میرے نزدیک مردم شماری پر باقاعدہ کمیٹی بنائی جائے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ چند روز قبل ایک انگلش اخبار میں تجزیہ تھا کہ ایک صوبے کی وجہ سے مردم شماری نہیں ہوگی۔

ہم مردم شماری کے خلاف نہیں ہیں لیکن ہمیں اس پر تحفظات ہیں ، ہم چاہتے ہیں کہ انہیں ہر صورت دور کیا جائے۔ لاکھوں آئی ڈی پیز آج بھی بنوں میں آباد ہیں، ریاست اپنے وسائل ان پر بھی استعمال کرے تاکہ کوئی بھی مردم شماری سے محروم نہ رہے۔ افغان جرائم پیشہ لوگ نہیں ہیں بلکہ اس خطے میں سازش کھیلی گئی جس کے تحت ایک دوسرے کو لڑایا گیا اور یہاں قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ آج کوئی کسی کو قندہاری کہتا ہے تو کسی کو کچھ اور۔ پشتون بھی خود آج یہاں نہیں ہیں۔ آج ہزاروں کی تعداد میں بلوچ بھی آباد ہیں۔

میرے نزدیک افغان عوام کو جرائم سے جوڑنا قابل افسوس ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جو حقیقی معنوں میں یہاں کا باشندہ نہ ہوں، بلا شبہ اسے شامل نہ کیا جائے۔ افغان مسئلہ 79ء میں پیدا ہوا، 98ء میں ہم میں سے کسی نے نہیں کہا کہ مردم شماری نہ کرائی جائے۔ اب اگر 10 لاکھ افغان مہاجرین کی رجسٹریشن ہوجاتی ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ اس سے اسمبلی کی نشستیں زیادہ ہوں گی۔ مردم شماری اس وقت اتنا حساس معاملہ نہیں مگر ہمارا مسئلہ یہاں گرتی ہوئی لاشیں اور چیک پوسٹیں ہیں۔

لاہور میں کوئی واقعہ ہوتا ہے تو واہگہ بارڈر پر آلو، ٹماٹر کی درآمد جاری رہتی ہے لیکن افغان بارڈر کیوں بند کیا جاتا ہے۔ پشتونوں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں؟90 فیصد پشتون افغان سرحدوں کی بندش سے بے روزگار ہورہے ہیں ۔ ایک اور مسئلہ تو پانچ سال بعد گوادر کی آبادی کا ہے، جو دوسرا کراچی بنتا جارہا ہے، اس سے مسائل پیدا ہوں گے۔ سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے کمیشن رپورٹ کی صوبائی حکومت نے مخالفت کی ،ہم نے سانحہ آٹھ اگست میں کئی لاشیں اٹھائی ہیں،اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مردم شماری کروائے کیونکہ یہ ہمارا آئینی و قانونی حق ہے۔

ڈاکٹر اسحاق بلوچ (مرکزی رہنما نیشنل پارٹی)

گزشتہ دنوں مردم شماری کے حوالے سے ایک گرینڈ جرگہ ہوا جس میں صوبے کی تمام سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ سب نے مردم شماری کوتسلیم کیا اور اس کا اعلامیہ تھا کہ اہل بلوچستان کی اس حوالے سے ایک آواز ہونی چاہیے۔ 98ء میں بھی مردم شماری کی گئی، اسے بھی دیکھا جائے کیونکہ اس میں جو جہاں موجود ہیں انہیںوہاں ہی شمار کیا گیا ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ 1980ء کی دہائی میں افغانستان سے جتنے بھی لوگ آئے تھے اب یہاں ان کی یہ تیسری نسل ہے۔

1980ء میں بلوچستان کی آبادی تیس لاکھ سے کم تھی جو کہ 1998ء میں 50سے60لاکھ ہوگئی۔ کوئٹہ کی آبادی بڑھتی رہی جو اب لاہور او رپشاور سے بھی زیادہ ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ مردم شماری ہو کیونکہ اس سے اعداد و شمار آجاتے ہیں کہ خواندگی کی شرح کیا ہے، کتنے لوگوں کے پاس گھر ہیں، کتنے مکان کچے، پکے ہیں اور کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ دوسری اہم بات جو میں کہنا چاہتا ہوں 80ء کی دہائی میں جتنے بھی لوگ افغانستان سے آئے ان کیلئے لفظ افغان استعمال کیاجارہاہے لیکن اب ہم یہ لفظ بھی استعمال نہیں کرتے۔

بلوچ اور پشتون اپنے لوگوں کے ساتھ آئے ہیں۔ پاکستان میں ان کی تعداد تقریباً 3فیصد ہے ، اس طرح30 لاکھ لوگ پاکستان آئے۔ 1980ء میں کوئٹہ کی آبادی 3 لاکھ50ہزار کے قریب تھی جو 1998ء میں 7 لاکھ 50 ہزار ہوگئی یعنی دو گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا۔ مردم شماری کا جو ریکارڈ موجود ہے اس کے مطابق کوئٹہ میں آبادی میںا ضافے کی شرح 4.6 جبکہ لاہور میں3.6 فیصد ہے۔ کوئٹہ ایک ملٹی نیشنل شہر ہے۔ یہاں بہت ساری قومیت کے لوگ رہتے ہیں، میری بھی رجسٹریشن یہاں کی نہیں ہے۔

میرا ووٹ خاران، خان صاحب کا چمن میں ہے۔ اس فورم میں جتنے لوگ شریک ہیںزیادہ تر کی رجسٹریشن یہاں کی نہیں ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کی بات کریں تو سب سے زیادہ اربنائزیشن اسلام آباد میں ہوئی ہے جس کی شرح 5.1 فیصد ہے جبکہ کوئٹہ دوسرے نمبر پر ہے۔ مردم شماری کیلئے اب تک جو اقدامات کئے گئے ہیں ان پر بات کریں تو اس حوالے سے بجٹ مختص ہوچکا ہے۔ فوج کی جانب سے دو لاکھ ٹروپس دیئے جائیں گے جس کا فیصلہ ہوچکا ہے۔

الیکشن ہو یا مردم شماری، پاکستان میں اس کیلئے تربیت یافتہ لوگ نہیں ہیں۔ ہم اساتذہ پرانحصار کرتے ہیں، جب وہ بائیکاٹ کردیں تو پیرامیڈیکل اسٹاف پر انحصار کیا جاتا ہے اور اگر یہ بھی بائیکاٹ کردیں تو ہم لیویز کے سپاہیوں سے کام لیا جاتا ہے۔ان چیزوں کیلئے اقدامات کرنا ریاست کی ذمہ دار ہے۔حکومت نے بے شمار کوڈ بنائے ہیں جبکہ کوئٹہ کے200پولنگ اسٹیشن ہوں گے۔ ان کیلئے کم از کم200 تربیت یافتہ لوگ ہونے چاہئیں جو ''سینس کمیشن'' کے باقاعدہ ممبرہوں۔ ان کے ساتھ معاون سٹاف اساتذہ ہوں یا کوئی بھی ہو وہ انہیں جوابدہ ہوگا۔

ڈی جی نادرا یہ کہہ چکے ہیں کہ80ہزار شناختی کارڈ بلاک ہوچکے ہیں جبکہ کچھ افسران بھی زیرتفتیش ہیں اور گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ جب نادرا میں ایسے مسائل ہوں گے تو لوگوں کی شناخت کیسے ہوگی۔ ڈیورنڈ لائن اور گولڈ اسمتھ لائن حقیقت ہیں اوراپنی جگہ پر موجود ہیں لیکن ان کلچر ایک ہی ہے۔ میری والدہ بڑیچ ہیں جبکہ میں نوشکی کے بڑیچوں اور شوراوک کے بڑیچوں کو بھی جانتاہوں۔ بنگالی یا کسی اورمختلف قومیت کے لوگوں کو تو پہچانا جاسکتا ہے لیکن نوشکی اور شوراوک کے بڑیچوں میں کیسے پہچان کی جائے گی۔

1951ء سے 1998ء تک مردم شماری کا جائزہ لیں،1951ء میں آبادی میں اضافہ 2.5 فیصد رہا جبکہ 1998ء میں 2.7فیصدتھا لیکن 3 فیصد کو عبور نہیں کیا۔ 1998ء میں کوئٹہ کی آبادی7لاکھ تھی، اگر آبادی میںا ضافے کے حساب سے دیکھیں تو حالیہ آبادی 25لاکھ بنتی ہے۔ اگر کوئی اربنائز ہوگیا ہے تو اس کے شناختی کارڈ میں موجودہ پتہ اور مستقل پتہ درج ہے اور یہ ریکارڈ نادرا کے پاس موجود ہے۔

ملک میں لاکھوں لوگ رہ رہے ہیں لیکن حکومت کے پاس ان کا ڈیٹا نہیں ہے اور وہ لوگ جو اپنے علاقے چھوڑ چکے ہیں ان کو واپس لانا بہت ضروری ہے۔ انہیں آباد کرنے کیلئے لائحہ عمل بنایا جائے لیکن اس حوالے سے کوئی پلاننگ نہیں کی گئی۔ کوئٹہ کا کلچر خوبصورت ہے لیکن یہاں بہت سارے علاقوں میں مسائل ہیں۔ جن علاقوں میں فورسز پر حملے ہوتے ہیں وہاں مردم شماری کی ٹیمیں کیسے جائیں گی، انہیں کس طرح تحفظ دیا جائے گا۔1971ء میں بنگلہ دیش کی آبادی 52 فیصد تھی لیکن اب اس کی پاپولیشن گروتھ 101 فیصد ہے جبکہ ہماری 3 فیصد ہے۔

1998ء میں اس شہر کی آبادی7لاکھ تھی لیکن اب اگر وہ 50 لاکھ ہو جائے تو یہ کیسے ممکن ہے۔ 1988ء اوراس کے بعد جتنے مہاجر یہاں آئے، بلوچستان کی آبادی ان سے کم تھی لہٰذا ان چیزوں کیلئے اقدامات کرنا ضروری ہیں۔ میرے نزدیک لوگوں میں اعتماد کی فضاء پیداکرکے مردم شماری کرائی جائے۔ اگر اس مردم شماری میں کوئی ڈیموگرافک تبدیلی آئی تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی اور آرٹیکل 28 ہر شخص کو حق دیتا ہے کہ وہ اپنے کلچر اور اپنی شناخت کیلئے آواز اٹھائے۔ اس سے تعصب پیدا ہوگا لہٰذا ایسی غلط فہمیاں پیدا نہیں ہونی چاہئیں۔

بسم اللہ کاکڑ (سابق صوبائی وزیر و رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)

ملک میں مردم شماری کا اعلان سپریم کورٹ کے کہنے پر کیا گیا اور شاید ہماری حکومتوں میں اتنی قابلیت نہیں تھی کہ ہر دس سال کے بعد آئینی طو رپر اپنے ملک میں آبادی کا مکمل ڈیٹا حاصل کر سکیں۔ حکومت کو عوام کی بنیادی ضروریات کی فراہمی و دیگر چیزوں کا تعین کرنے کیلئے افراد کی اصل تعداد معلوم کرنا ضروری ہے جو مردم شماری سے ہی ممکن ہے۔ اس اعدادو شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کتنے ہسپتال، اسکول، پانی و دیگر چیزوں کی ضرورت ہے۔

کوئی بھی جماعت مردم شماری کی اہمیت اور ضرورت سے انکاری نہیں لیکن مردم شماری کے اعلان بعد سے بعض حلقوں کی جانب سے مردم شماری کو متنازعہ بن کر اور نفرت کی فضاء پیدا کرکے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جو افسوناک ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مردم شماری کے اس عمل کو متنازعہ نہ بننے دیا جائے۔ اس حوالے سے ہم نے حاجی لشکری رئیسانی اوردیگر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی جس کے بعد سب اس بات پر متفق ہوئے کہ مردم شماری اہم بھی ہے اور ضرورت بھی لیکن اس پر بعض تحفظات جائز ہیں۔

مہاجرین کے حوا لے سے جو تعداد بتائی جارہی ہے، میرے نزدیک اس کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پاس شماریات کا محکمہ موجود ہے اور ہم اس فیصلے پر متفق ہیں کہ مردم شماری منصفانہ اور شفاف ہو۔ یہاں بہت سے قبائل آباد ہیں جن کا چالیس سال قبل یہاں وجود نہیں تھا، ان کے تحفظات کو سامنے رکھا جائے۔بلوچستان میں افغان مہاجرین کا اندراج ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس میں افغان کا لفظ استعمال کرنا، پشتونوں کی طرف اشارہ تھا۔ یہاں پر جو مہاجر ہیں ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ غیرملکی لوگ ہیں چاہے وہ بلوچ ، ایرانی یاافغانستان سے آئے ہوئے پشتون ہوں مگر افغان مہاجر ین کی دل آزاری ہوئی ہے۔

آج بھی افغانستان میں بلوچ موجود ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امن و امان ہے۔ افغان کو یہاں کافی تعداد میں لایا گیا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہماری معیشت پربوجھ ہیں جبکہ میں ایسا نہیں سمجھتا بلکہ افغان، بلوچستان اور پاکستان کی معیشت میں 75فیصد کردار ادا کررہے ہیں۔ہم اس چیز پر متفق ہیں کے کسی بھی غیر ملکی کا اندراج مردم شماری میں نہ ہو۔ یہ سب سیاسی پارٹیوں کافیصلہ ہے اور آج بھی کئی پارٹیاں بشمول پشتونخوا میپ مردم شماری کی مخالفت نہیں کررہی ہیں بلکہ شروع دنوں میں مخالفت اس بات پر کی گئی کہ غیر ملکیوں کو مردم شماری کا حصہ نہ بنایاجائے چاہے وہ پشتون، بلوچ ، سرائیکی ، ایرانی ، سندھی یا کسی بھی زبان سے تعلق رکھتے ہوں۔

بلوچستان کے بعض اضلاع میں ناساز گار حالات کی وجہ سے وہاں پر عوام کا رہنا مشکل ہوگیا تھا اور وہ دیگر علاقوں میں نقل مکانی کرچکے ہیں جنہیں آئی ڈی پیز کہتے ہیں ۔ ہم ان کی تعداد پربات نہیں کرتے کہ وہ پانچ لاکھ ہیں یا پندرہ لاکھ، لیکن اس مسئلے کا تدارک کیا جائے اور جو آئی ڈی پیز ملک کے دیگرعلاقوں یا صوبوں میں رہائش پذیر ہیں انہیں مردم شماری کا حصہ بنایا جائے تاکہ وہ اپنے علاقوں میں دوبارہ آباد ہو جائیں جس کے لیے پالیسی بنانا انتہائی ضروری ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ ہم منصفانہ اور شفاف مردم شماری چاہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیامسائل کو حل کئے بغیر صاف شفاف مردم شماری ممکن ہے؟ ریاست ان مسائل کے تدارک کے لیے اقدامات کرے۔ کسی سیاسی جماعت نے مردم شماری کے بائیکاٹ کی بات کی اور نہ ہی ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا تاہم کچھ اعداد و شمار کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔میں یہ نہیں کہوں گا کہ 2 لاکھ افغانوں کا اندراج ہے، یہاں پر کوئی قیامت آئے گی، دوسیٹیں بڑھیں گی تو کیا ہوگا۔

آج دُنیا میں پرندوں کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس پرندے کی دُنیا میں یہ تعداد ہے، اس جانور کی آج دُنیا میں یہ تعداد ہے، کسی ملک کے جنگلات میں کتنے درخت ہیں لہٰذا جب ان چیزوں کا شمار ہوسکتا ہے تو انسانوں کا کیوں نہیں۔ یہ ایک اعتماد کی بات ہے کہ ہم اعتماد قائم کریں۔ بلوچستان میں 25 جماعتیںہیں، ہر ایک کی سوچ اور فکر میں فرق ہوگا لیکن اس کیلئے ہم مل بیٹھ کر ، ایک دوسرے کانظریہ سن سکتے ہیں۔ ہم نے مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کی رائے لی اور پھر اعلامیہ جا ر ی کیاجو پورے بلوچستان کے عوام کی آواز ہے۔
Load Next Story