کل جماعتی کانفرنس بلانے کا حکومتی فیصلہ
تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو اس کانفرنس میں مدعو کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
شدید سردی کے اس موسم میں کینیڈا سے آئے ہوئے شیخ الاسلام کی طرف سے لانگ مارچ کی کال نے سیاسی درجہ حرارت میں بدرجہ اتم اضافہ کردیا ہے،لانگ مارچ کی کال کی بدولت سیاسی جماعتوں کے قائدین کے درمیان ہنگامی رابطوں کا آغاز ہوگیا ہے۔
روایتی حریف جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان جمہوریت اور جمہوری نظام کو بچانے کیلئے اچانک ہم آہنگی دیکھی جارہی ہے اور دونوں جماعتوں کے قائدین کے درمیان اعلیٰ ترین سطح پر حالیہ رابطوں میں یہ اتفاق رائے دیکھاگیا ہے کہ جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کے لئے کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیاجائے گا اور جمہوریت کیلئے ہرقربانی دی جائے گی۔ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف،اے این پی کے صدر اسفند یار ولی خان،چوہدری شجاعت حسین،چوہدری پرویزالٰہی اوردیگر سیاسی قائدین کے ساتھ رابطے کئے ہوئے ہیں۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ باخبر حلقوں کے مطابق وزیراعظم نے عام انتخابات کے التوا کی قیاس آرائیوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے میاں نوازشریف کو اس امر کی یقین دہانی کرادی ہے کہ دستور کے مطابق عام انتخابات وقت پر ہوں گے اور انتخابات شفاف اور غیرجانبدارانہ ہوں گے۔ ڈاکٹرطاہرالقادری کی طرف سے 14مارچ کو اسلام آباد کی طرف کئے جانے والے لانگ مارچ کی وجہ سے سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔
بیشترسیاسی جماعتیں اس لانگ مارچ پر شدید تحفظات کا اظہار کررہی ہیں اوراس لانگ مارچ کو آئندہ عام انتخابات کے راستے میں رکاوٹ سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ وفاقی حکومت نے لانگ مارچ کو نہ روکنے کا فیصلہ کرلیا ہے، یہ خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے کہ لانگ مارچ سے جہاں عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے وہاں سیاسی حلقوں کے مطابق عام انتخابات تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں۔ حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں لانگ مارچ کی حمایت کررہی ہیں۔ حکمران جماعت پیپلزپارٹی کے قائدین اپنی حلیف جماعتوں مسلم لیگ(ق) اور ایم کیو ایم کو لانگ مارچ میں شرکت نہ کرنے پر آمادہ کررہے ہیں۔لانگ مارچ کے معاملے پر بیشتر سیاسی جماعتیں منقسم ہوگئی ہیں۔مسلم لیگ(ن) کے قائدین کا یہ موقف ہے کہ اگرڈاکٹر طاہرالقادری کا لانگ مارچ پرامن ہوگا تو مسلم لیگ(ن) کو اعتراض نہیں ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنے اعلانات کے برعکس لانگ مارچ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے یا نہیں۔
وفاقی دارالحکومت ملک کے دیگر شہروں کی طرح شدید سردی کی لپیٹ میں ہے۔ اسلام آباد میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گرچکا ہے۔شدید دھند کی وجہ سے نظام زندگی مفلوج ہوچکا ہے۔ اس شدید سردی کے موسم میں لانگ مارچ کے شرکاء کا اسلام آباد پہنچنا اور قیام وطعام ایک مشکل مرحلہ اور بڑا چیلنج ہوگا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری یہ واضح کرچکے ہیں کہ لانگ مارچ کی کال واپس نہیں لی جائے گی اور یہ لانگ مارچ ہر صورت ہوگا۔ صدرمملکت آصف علی زرداری کی ہدایت پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف ماہ رواں کے آخر میں کل جماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو اس کانفرنس میں مدعو کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ کہاجارہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات،نگران حکومت اور انتخابی اصلاحات سمیت دیگر اہم معاملات پر مشاورت کی غرض سے یہ کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے گی۔ زیادہ تر سیاسی جماعتیں اس کانفرنس میں مشروط شرکت پر آمادگی ظاہر کررہی ہیں۔ وزیراعظم نے کابینہ کے بعض سینئر ارکان کو سیاسی رابطوں کا ٹاسک دے دیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) سمیت دیگر جماعتوں کے سرکردہ قائدین یہ کہہ رہے ہیں کہ اگرایجنڈا تعمیری ہوگا اور مقاصد جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کے ہوں گے تو لامحالہ تمام جماعتیں شرکت کریں گی۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ اور ممتاز بلوچ رہنما محمودخان اچکزئی کی وفاقی دارالحکومت میں ملاقات کو سیاسی حلقے خاصی اہمیت دے رہے ہیں۔
محمودخان اچکزئی میاں نوازشریف سے ملاقات کرچکے ہیں۔ محمود خان اچکزئی نگران وزیراعظم کے اس وقت مضبوط ترین امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے پہلے کچھ نام نگران وزیراعظم کیلئے شارٹ لسٹ کئے تھے تو محمودخان اچکزئی کا نام بھی اس فہرست میں شامل تھا تاہم محمود خان نے اپنا نام نگران وزیراعظم کے طور پر سامنے آنے کے بعد واضح کہاتھا کہ وہ نگران وزیراعظم بننے کے خواہش مند نہیں ہیں۔ اسلام آباد کے باخبر سیاسی حلقے یہ بات حددرجہ وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ محمودخان اچکزئی کو مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے بعض مشترکہ دوستوں نے نگران وزیراعظم کی ذمہ داریاں سنبھالنے پر آمادہ کرلیا ہے، انہیں آمادہ کرنے کیلئے پیپلزپارٹی کے دو رہنمائوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ حتمی وثوق سے یہ نہیں کہاجاسکتا کہ وہی نگران وزیراعظم ہوں گے۔
یہ ایک اہم حقیقت ہے کہ ملک کی بیشتر سیاسی جماعتیں محمودخان اچکزئی کے نام پر متفق ہیں۔ محمود خان اچکزئی کی شخصیت، کردار، سیاسی خدمات اورساکھ اورا ہلیت پر دو رائے ہرگز نہیں ہوسکتیں۔ وہ محب وطن بلوچ رہنما کے طور پر شفاف شخصیت رکھنے والے ممتاز سیاستدان ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانافضل الرحمن واضح طور پر محمودخان اچکزئی کے نام پر تحفظات رکھتے ہیں۔ بلوچستان میں جے یو آئی (ف) اورپختونخواہ ملی عوامی پارٹی دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اور صوبے میں بیشتر سیٹوں پر دونوں جماعتوں کے درمیان ون ٹو ون مقابلہ ہوتا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کی قیادت کا موقف یہ ہے کہ اچکزئی ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور وہ غیرجانبدار نہیں ہوسکتے۔ باور کیاجارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مولانافضل الرحمن وزیراعظم راجہ پرویزاشرف اور صدر آصف علی زرداری کے ساتھ اس معاملہ پر تحفظات کا اظہار کریں گے۔
دوسری طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان میں آئندہ عام انتخابات کیلئے سیکورٹی پلان کی تیاری کیلئے غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا جس میں فیصلہ ہوا کہ پولنگ اسٹیشنوں پر فوج تعینات کی جائے گی۔الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم نے شروع میں کہاتھا کہ تمام پولنگ اسٹیشنوں پر فوج تعینات کی جائے گی۔ پاک فوج کے حکام کیلئے تمام پولنگ اسٹیشنوں پر فوج کی تعیناتی بظاہر ممکن شاید اس لئے نہیں لگ رہی ہے کیونکہ فوج اس وقت کئی محاذوں پر لڑرہی ہے اور اتنی بڑی تعداد میں فوج کے نوجوانوں کی تعیناتی ممکن نہیں ہوگی۔
پاک فوج نے یہ عزم دہرایا ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے دوران فوج الیکشن کمیشن کی ہرممکن حمایت اور تعاون کرے گی۔ حالیہ کور کمانڈرز کانفرنس میں یہ فیصلہ کیاگیا ہے کہ انتخابات کے وقت لاء اینڈ آرڈر کے سلسلے میں فوج الیکشن کمیشن کی سپورٹ کرے گی۔ پاک فوج کی ڈاکٹرائن پالیسی پر نظرثانی کے فیصلے پر بھی تجزیے کئے جارہے ہیں،دہشت گردی یقیناً اس وقت سب سے بڑا خطرہ ہے اور مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
روایتی حریف جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان جمہوریت اور جمہوری نظام کو بچانے کیلئے اچانک ہم آہنگی دیکھی جارہی ہے اور دونوں جماعتوں کے قائدین کے درمیان اعلیٰ ترین سطح پر حالیہ رابطوں میں یہ اتفاق رائے دیکھاگیا ہے کہ جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کے لئے کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیاجائے گا اور جمہوریت کیلئے ہرقربانی دی جائے گی۔ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف،اے این پی کے صدر اسفند یار ولی خان،چوہدری شجاعت حسین،چوہدری پرویزالٰہی اوردیگر سیاسی قائدین کے ساتھ رابطے کئے ہوئے ہیں۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ باخبر حلقوں کے مطابق وزیراعظم نے عام انتخابات کے التوا کی قیاس آرائیوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے میاں نوازشریف کو اس امر کی یقین دہانی کرادی ہے کہ دستور کے مطابق عام انتخابات وقت پر ہوں گے اور انتخابات شفاف اور غیرجانبدارانہ ہوں گے۔ ڈاکٹرطاہرالقادری کی طرف سے 14مارچ کو اسلام آباد کی طرف کئے جانے والے لانگ مارچ کی وجہ سے سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔
بیشترسیاسی جماعتیں اس لانگ مارچ پر شدید تحفظات کا اظہار کررہی ہیں اوراس لانگ مارچ کو آئندہ عام انتخابات کے راستے میں رکاوٹ سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ وفاقی حکومت نے لانگ مارچ کو نہ روکنے کا فیصلہ کرلیا ہے، یہ خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے کہ لانگ مارچ سے جہاں عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے وہاں سیاسی حلقوں کے مطابق عام انتخابات تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں۔ حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں لانگ مارچ کی حمایت کررہی ہیں۔ حکمران جماعت پیپلزپارٹی کے قائدین اپنی حلیف جماعتوں مسلم لیگ(ق) اور ایم کیو ایم کو لانگ مارچ میں شرکت نہ کرنے پر آمادہ کررہے ہیں۔لانگ مارچ کے معاملے پر بیشتر سیاسی جماعتیں منقسم ہوگئی ہیں۔مسلم لیگ(ن) کے قائدین کا یہ موقف ہے کہ اگرڈاکٹر طاہرالقادری کا لانگ مارچ پرامن ہوگا تو مسلم لیگ(ن) کو اعتراض نہیں ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنے اعلانات کے برعکس لانگ مارچ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے یا نہیں۔
وفاقی دارالحکومت ملک کے دیگر شہروں کی طرح شدید سردی کی لپیٹ میں ہے۔ اسلام آباد میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گرچکا ہے۔شدید دھند کی وجہ سے نظام زندگی مفلوج ہوچکا ہے۔ اس شدید سردی کے موسم میں لانگ مارچ کے شرکاء کا اسلام آباد پہنچنا اور قیام وطعام ایک مشکل مرحلہ اور بڑا چیلنج ہوگا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری یہ واضح کرچکے ہیں کہ لانگ مارچ کی کال واپس نہیں لی جائے گی اور یہ لانگ مارچ ہر صورت ہوگا۔ صدرمملکت آصف علی زرداری کی ہدایت پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف ماہ رواں کے آخر میں کل جماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو اس کانفرنس میں مدعو کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ کہاجارہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات،نگران حکومت اور انتخابی اصلاحات سمیت دیگر اہم معاملات پر مشاورت کی غرض سے یہ کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے گی۔ زیادہ تر سیاسی جماعتیں اس کانفرنس میں مشروط شرکت پر آمادگی ظاہر کررہی ہیں۔ وزیراعظم نے کابینہ کے بعض سینئر ارکان کو سیاسی رابطوں کا ٹاسک دے دیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) سمیت دیگر جماعتوں کے سرکردہ قائدین یہ کہہ رہے ہیں کہ اگرایجنڈا تعمیری ہوگا اور مقاصد جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کے ہوں گے تو لامحالہ تمام جماعتیں شرکت کریں گی۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ اور ممتاز بلوچ رہنما محمودخان اچکزئی کی وفاقی دارالحکومت میں ملاقات کو سیاسی حلقے خاصی اہمیت دے رہے ہیں۔
محمودخان اچکزئی میاں نوازشریف سے ملاقات کرچکے ہیں۔ محمود خان اچکزئی نگران وزیراعظم کے اس وقت مضبوط ترین امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے پہلے کچھ نام نگران وزیراعظم کیلئے شارٹ لسٹ کئے تھے تو محمودخان اچکزئی کا نام بھی اس فہرست میں شامل تھا تاہم محمود خان نے اپنا نام نگران وزیراعظم کے طور پر سامنے آنے کے بعد واضح کہاتھا کہ وہ نگران وزیراعظم بننے کے خواہش مند نہیں ہیں۔ اسلام آباد کے باخبر سیاسی حلقے یہ بات حددرجہ وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ محمودخان اچکزئی کو مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے بعض مشترکہ دوستوں نے نگران وزیراعظم کی ذمہ داریاں سنبھالنے پر آمادہ کرلیا ہے، انہیں آمادہ کرنے کیلئے پیپلزپارٹی کے دو رہنمائوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ حتمی وثوق سے یہ نہیں کہاجاسکتا کہ وہی نگران وزیراعظم ہوں گے۔
یہ ایک اہم حقیقت ہے کہ ملک کی بیشتر سیاسی جماعتیں محمودخان اچکزئی کے نام پر متفق ہیں۔ محمود خان اچکزئی کی شخصیت، کردار، سیاسی خدمات اورساکھ اورا ہلیت پر دو رائے ہرگز نہیں ہوسکتیں۔ وہ محب وطن بلوچ رہنما کے طور پر شفاف شخصیت رکھنے والے ممتاز سیاستدان ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانافضل الرحمن واضح طور پر محمودخان اچکزئی کے نام پر تحفظات رکھتے ہیں۔ بلوچستان میں جے یو آئی (ف) اورپختونخواہ ملی عوامی پارٹی دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اور صوبے میں بیشتر سیٹوں پر دونوں جماعتوں کے درمیان ون ٹو ون مقابلہ ہوتا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کی قیادت کا موقف یہ ہے کہ اچکزئی ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور وہ غیرجانبدار نہیں ہوسکتے۔ باور کیاجارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مولانافضل الرحمن وزیراعظم راجہ پرویزاشرف اور صدر آصف علی زرداری کے ساتھ اس معاملہ پر تحفظات کا اظہار کریں گے۔
دوسری طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان میں آئندہ عام انتخابات کیلئے سیکورٹی پلان کی تیاری کیلئے غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا جس میں فیصلہ ہوا کہ پولنگ اسٹیشنوں پر فوج تعینات کی جائے گی۔الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم نے شروع میں کہاتھا کہ تمام پولنگ اسٹیشنوں پر فوج تعینات کی جائے گی۔ پاک فوج کے حکام کیلئے تمام پولنگ اسٹیشنوں پر فوج کی تعیناتی بظاہر ممکن شاید اس لئے نہیں لگ رہی ہے کیونکہ فوج اس وقت کئی محاذوں پر لڑرہی ہے اور اتنی بڑی تعداد میں فوج کے نوجوانوں کی تعیناتی ممکن نہیں ہوگی۔
پاک فوج نے یہ عزم دہرایا ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے دوران فوج الیکشن کمیشن کی ہرممکن حمایت اور تعاون کرے گی۔ حالیہ کور کمانڈرز کانفرنس میں یہ فیصلہ کیاگیا ہے کہ انتخابات کے وقت لاء اینڈ آرڈر کے سلسلے میں فوج الیکشن کمیشن کی سپورٹ کرے گی۔ پاک فوج کی ڈاکٹرائن پالیسی پر نظرثانی کے فیصلے پر بھی تجزیے کئے جارہے ہیں،دہشت گردی یقیناً اس وقت سب سے بڑا خطرہ ہے اور مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔