عمران شخصی مقبولیت کے زور پر الیکشن جیت سکتے ہیں

پیپلز پارٹی،ن لیگ،ایم کیو ایم،ق لیگ اور اے این پی بھی واضح لائن اختیار کر کے سیاسی میدان میں پوری رفتار سے دوڑ رہے ہیں

پاکستان کو بدلنے کی دعویدار تحریک انصاف کے رہنما یونین کونسل کی سطح پر ایک دوسرے سے معرکہ آراء ہیں۔ فوٹو: اے پی پی/فائل

طاہر القادری کے لانگ مارچ نے سیاست میں ہلچل پیدا کر رکھی ہے، طاہر القادری غلط ہیں یا صحیح، اس بحث میں الجھے بغیر یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ آج کل میڈیا کی ڈارلنگ ہیں۔

کون ہے جس نے طاہر القادری اور ان کے لانگ مارچ پر اچھے برے بیان نہ دیے ہوں۔ ن لیگ نے تو طاہر القادری پر ایسے ہی حملے کئے ہیں جیسے عمران خان پر کئے تھے۔ ایم کیو ایم' ق لیگ اور تحریک انصاف نے ان کے مطالبات کی حمایت کی۔ ایم کیو ایم نے تو لانگ مارچ میں شریک ہونے کا اعلان کر رکھا ہے اور ق لیگ بھی شیخ الاسلام کے نقطہ نظر سے اتفاق کی حد تک ان کے ساتھ ہے۔ تحریک انصاف کی پوزیشن نیم ڈرون نیم بروں والی ہے۔ تحریک انصاف کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ایک سٹینڈ لیتی ہے اور پھر اگر مگر کا شکار ہو جاتی ہے۔ تحریک انصاف نے لاہور میں تاریخ ساز جلسہ کر کے سیاست میں جوطوفان برپا کیا تھا وہ اب پر سکون ہو چکا ہے۔''تبدیلی''کے حوالے سے موضوع گفتگو عمران خان نہیں بلکہ طاہر القادری بن چکے ہیں۔

پیپلز پارٹی، ن لیگ، ایم کیو ایم، ق لیگ اور اے این پی بھی واضح لائن اختیار کر کے سیاسی میدان میں پوری رفتار سے دوڑ رہے ہیں لیکن تحریک انصاف سیاسی دوڑ میں آخری نمبروں پر چلی گئی ہے۔تحریک انصاف کی طرز سیاست کا تجزیہ کیا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کی قیادت نے میاں نواز شریف کو ٹارگٹ کیا یا صدر زرداری پر تبرا کیا' دہشت گردی کے حوالے سے تحریک انصاف کا موقف عوامی رائے کے برعکس رہا' خان صاحب نے ڈرون حملوں کے خلاف مارچ کیاجو بے فائدہ رہا' اگر وہ ایک برس قبل طاہر القادری والا راستہ اختیار کر لیتے تو آج سیاسی منظر نامہ مختلف ہوتا۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں تحریک انصاف الگ تھلگ ہو چکی ہے' اب ساری سیاسی جماعتیں لانگ مارچ کے تناظر میں پالیسی اختیار کر رہی ہیں' کوئی طاہر القادری کے مطالبات کی حمایت کر رہا ہے تو کوئی کھل کر مخالفت لیکن تحریک انصاف کہیں کھڑی نظر نہیں آتی۔ یوں دکھائی دیتا ہے طاہر القادری کا لانگ مارچ کچھ نہ کچھ لے کر ہی ختم ہو گا' سارا معاملہ نگران سیٹ اپ کا ہے۔


طاہر القادری نگران سیٹ اپ میں جن سٹیک ہولڈرز کی نمائندگی چاہتے ہیں انہیں کچھ نہ کچھ مل جائے گا لیکن اندیشہ ہے کہ تحریک انصاف کو کچھ نہیں ملے گا۔ اگر نگران سیٹ اپ میں پیپلز پارٹی' ن لیگ' ایم کیو ایم' ق لیگ' اے این پی اور اسٹیبلشمنٹ کو اپنا اپنا حصہ مل جاتا ہے تو آئندہ عام انتخابات میں جو کچھ ہو گا' اسے سمجھنے کے لئے زیادہ عقل یا دانشمندی کی ضرورت نہیں ہے۔ عام انتخابات کے بعد جو سیٹ اپ بنے گا' وہ انہی قوتوں پر مشتمل ہو گا جو نگران حکومت میں شامل ہوں گے۔ ممکنہ طور پر عام انتخابات میں تحریک انصاف کا مستقبل زیادہ روشن نظر نہیں آتا۔ خان صاحب کو شاید اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ محض شخصی مقبولیت کی بنا پر الیکشن نہیں جیتے جاتے' الیکشن جتوانے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ڈی سی او چاہے اپنا نہ ہو لیکن مخالف بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح ایس ایس پی' ایس ایچ او اور پٹواری تک کا اپنا اپنا کردار ہوتا ہے' آخر میں پولنگ عملے کی باری آتی ہے' انہی معاملات کو طے کرنے کے لئے ہر جماعت چاہتی ہے کہ نگران سیٹ اپ میں ان کے آدمی ہوں' طاہر القادری سے جو قوتیں لانگ مارچ کروا رہی ہیں' ان کا مقصد بھی یہی ہے لیکن تحریک انصاف کو شاید ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ملکی سیاست بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے لیکن تحریک انصاف کا سونامی تنظیمی الیکشن کے بھنور میں جکڑا ہوا ہے۔

پاکستان کو بدلنے کی دعویدار تحریک انصاف کے رہنما یونین کونسل کی سطح پر ایک دوسرے سے معرکہ آراء ہیں۔ خان صاحب شاید دانستہ طور پر اس بات سے انجان بنے ہوئے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں انتخابات خواہ وہ عام ہوں یا تنظیمی ان میں ایک دوسرے کے خلاف دل میں پیدا ہونے والی کدورت اور ناراضگیاں ختم نہیں ہوتی ہیں۔تنظیمی الیکشن کے حوالے سے تحریک انصاف کا سب سے بڑا دنگل پنجاب میں لگا ہوا ہے۔ اس کا مرکز لاہور ہے جہاں کاغذات نامزدگی جمع کروائے جا چکے ہیں ۔ عبدالعلیم خان اور احسن رشید کی قیادت میں بننے والے یونیٹی گروپ کو فی الوقت برتری حاصل دکھائی دیتی ہے تاہم اعجاز چوہدری اور میاں محمود الرشید گروپ کی صورتحال اندازوں کے برعکس کافی بہتر ہے۔اس گروپ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے چوہدری اصغر گجر کے مطابق انہوں نے این اے 120 کی5 یونین کونسلز 67, 68, 69, 70,71 میں بلا مقابلہ کامیابی حاصل کر لی ہے۔ کھوکھر برادران بھی بہتر پوزیشن میں ہیں۔

احسن رشید اور عبدالعلیم خان میں سے عبدالعلیم خان اور ان کے ساتھیوں نے کئی ہفتوں کی محنت کے بعد تنظیمی الیکشن میں خود کو بہت مضبوط ثابت کیا ہے۔ احسن رشید کے ساتھی بھی اپنی پوزیشن کو بہتر بنانے کی جستجو کر رہے ہیں ۔ یونیٹی گروپ لاہور میں اپنی حیثیت تسلیم کروانے والے جمشید اقبال چیمہ تنظیمی الیکشن میں اپنے حلقہ این اے 24 کی 11 یونین کونسلز میں واضح برتری حاصل کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس حلقے میں سے پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر اعتزاز احسن کی اہلیہ بشری اعتزاز قومی اسمبلی جبکہ مسلم لیگ(ق) کے حاجی امداد حسین صوبائی اسمبلی کی نشست پر امیدوار ہیں۔

مسلم لیگ(ن) کے موجودہ ایم این اے شیخ روحیل اصغر آئندہ الیکشن بھی یہیں سے لڑیں گے۔2008 ء کے الیکشن میں شیخ روحیل اصغر نے 71 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ پیپلز پارٹی نے ایک غیر معروف ممبر ایاز عمران کو ٹکٹ دیا تھا جس نے کچھ نہ کر کے بھی 23 ہزار ووٹ لئے تھے۔اس وقت صورتحال یکسر مختلف ہے اور پیپلز پارٹی،مسلم لیگ(ن) اور مسلم لیگ(ق) کے امیدواروں کی موجودگی میں جمشید اقبال چیمہ ڈارک ہارس ثابت ہو سکتے ہیں۔
Load Next Story