دماغ تیز کرنے کا نسخہ
کافی عرصے تک ’’ڈگری کا جعلی نوٹ‘‘ چلانے کی کوشش کرتے رہے لیکن کہیں بھی نہیں چلا۔
ایک بادشاہ نے ایک اللہ والے بزرگ کے پاس جا کرکہا کہ میرے پیروں میں تکلیف ہے جس کی وجہ سے کاروبار سلطنت کو پوری توجہ نہیں دے پا رہا ہوں، آپ دعا کیجیے کہ میری یہ تکلیف رفع ہو جائے، بزرگ نے فرمایا حضور کاروبار سلطنت میں پیروں کے بجائے ''سر'' کا استعمال کیا کیجیے، لیکن اس بزرگ کی یہ نصیحت کسی نے آج تک نہیں سنی ہے اور کاروبار سلطنت میں سر کا استعمال کم ہوتے ہوتے اس درجہ پر آ گیا ہے کہ کسی کا سر اگر خالی کدو بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔
ایک بچپن کی کہانی یاد آگئی ہمارے ساتھ ایک لڑکا پڑھتا تھا جو بہت ہی نالائق اور پھسڈی تھا ایسی کوئی جماعت نہیں تھی جس میں وہ تین چار بار فیل ہونے کا اعزاز حاصل نہ کرتا، پرائمری تک تو خیر ٹھیک تھا اس کا باپ اساتذہ کے ہاتھ پیر پکڑ کر پاس کروا لیتا تھا لیکن ہائی اسکول میں بھی جب وہ پانچویں جماعت میں تین مرتبہ فیل ہو گیا تو اس کا باپ ایک دن ہمارے پاس آیا بولا بیٹا تم کیا کھاتے ہو؟ کہ ہر جماعت میں پاس ہو جاتے ہو اور ایک میرا وہ بیٹا ہے کہ میں اسے بادام کھلاتا ہوں مکھن گھی اور بالائیاں سب کچھ کھلاتا ہوں تاکہ اس کا دماغ تیز ہو جائے لیکن کچھ بھی فرق نہیںپڑ رہا ہے اس لیے تمہارے پاس آیا ہوں کہ تم جو کچھ کھاتے ہو وہ مجھے بھی بتا دو کہ میں اس نالائق کو کھلاؤں؟ بہت سمجھایا کہ کوئی ایسی خاص چیز ہم نہیں کھاتے لیکن وہ مصر تھا کہ کچھ تو ایسا ہے جو ہم کھاتے ہیں اور جس سے دماغ تیز ہوتا ہے۔
کافی دیر تک وہ پوچھتا رہا اور ہم بتاتے رہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے لیکن وہ مان کر نہیں دے رہا تھا آخر میں بولا۔ چلو اتنا تو کر سکتے ہو کہ کسی ایسے نسخے کا پتہ چلاؤ جس سے دماغ تیز ہوتا ہے، بات آئی گئی ہو گئی وہ لڑکا اسکول ہی میں رہا اور ہم کالج میں چلے گئے کافی عرصے بعد اس شخص سے سرراہے ملاقات ہوئی تو ہم نے یونہی اسے بتا دیا کہ فلاں فلاں چیز سے دماغ تیز ہوتا ہے اس پر وہ بولا۔ بیٹا اب اس کی ضرورت نہیں ہے میں نے اسے اپنے ماموں کے ساتھ لگا دیا ہے۔
اس کا ماموں دوسرے گاؤں میں تھا اور لیڈری کا پیشہ کرتا تھا ہمارے خیال میں تو لیڈری بڑے ذہین لوگوں کا کام ہوتا تھا لیکن اس بات کا اظہار جب اس شخص سے کیا تو وہ ہنس کر بولا اس کا ماموں بھی ایسا ہی تھا پڑھائی اور دوسرے تمام کاموں میں ناکام ہو کر اس نے لیڈری شروع کی تھی اور آج پورے علاقے کا کامیاب ترین انسان ہے، بنگلہ گاڑی نوکر چاکر اور سارا عیش و آرام اسے میسر ہے بہت ساری جائیداد بھی خرید لی ہے،کارخانے ہیں ٹھیکے ہیں جن کے لیے اس نے چودہ پندرہ جماعت کے ملازم رکھے ہوئے ہیں، میں نے گنا ہے پورے چھ ملازم تو اس کے ایسے ہیں جو سولہ جماعتوں سے بھی زیادہ پڑھے ہوئے انجینئر وغیرہ ہیں، اچھا ہوا نسخہ بتانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی کہ اس نے خود ہی سب سے زیادہ تیر بہدف نسخہ تلاش کر لیا تھا سچ تو یہ ہے کہ خود ہمارا جی بھی چاہنے لگا کہ اس نسخے پر عمل کریں لیکن بدقسمتی سے ہمارا کوئی نالائق ماموں تھا ہی نہیں، اس لیے پڑھائی میں مغز کھپاتے رہے بعد از خرابی بسیار ڈگری حاصل کی لیکن ادھر ادھر دیکھا تو ساری دنیا کے سارے دروازوں دیواروں اور کھڑکیوں پر نو ویکنسی کا چمکتا ہوا بورڈ نظرآیا، کسی نے کہا ہے کہ
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
کافی عرصے تک ''ڈگری کا جعلی نوٹ'' چلانے کی کوشش کرتے رہے لیکن کہیں بھی نہیں چلا، اب اس مقام پر سوچئے کہ ہم نے کیا کیا ہو گا؟ اس شخص کے غبی بیٹے کے لیے تو کوئی نسخہ ہم تلاش نہیں کر پائے لیکن ہمارے مرض کا نسخہ اس کے بیٹے کے پاس نکل آیا یعنی
جگ میں آکر ادھر ادھا دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
آج کل ہم ایک اچھے جاب پرہیں لیکن اس جاب کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں صرف اتنا کرنا پڑا کہ اپنے اس نالائق ہم سبق کے پاس گئے اور وہ ہمیں اپنے ماموں کے پاس لے گیا جو اب ایک منتخب نمایندہ تھا اور اس کے پاس وہ نسخہ کیمیا تھا جو ہمیں درکار تھا، اب آپ ہی بتایئے کہ وہ بزرگ کتنا غلط تھا جس نے کاروبار سلطنت کے لیے پیروں کے بجائے ''سر'' سے کام لینے کا مشورہ دیا تھا ویسے اتنے زمانے میں تھوڑا سا فرق یہ پڑا ہے کہ کاروبار سلطنت کے لیے پیروں کے ساتھ ساتھ منہ اور زبان سے بھی کام لینا ضروری ہو گیا لیکن شرط یہ ہے کہ جس مقام پر یہ منہ اور زبان ہو اس کے گرد نواح اگر کوئی ''سر''بھی ہو تو وہ بالکل خالی ہونا چاہیے تاکہ منہ اور زبان کے خاص الخاص مشیر شیطان کو وہاں کارخانہ لگانے میں سہولت ہو، اب ڈاکٹروں کا ایک مکالمہ جو ایک لیڈر کے سر سے گولی نکالنے کے لیے آپریشن کر رہے تھے، جونیئر ڈاکٹر نے سینئر ڈاکٹر سے کہا ۔ ڈاکٹر صاحب ذرا احتیاط سے ۔ گولی بالکل دماغ کے قریب ہے، کہیں دماغ کو نقصان نہ پہنچے، سینئر بولا ... ایسی کوئی بات نہیں میں ایسے کئی کیس آپریٹ کر چکا ہوں ایسے سروں میں وہ چیز ہوتی ہی نہیں جس کا تم نام لے رہے ہو۔
ایک بچپن کی کہانی یاد آگئی ہمارے ساتھ ایک لڑکا پڑھتا تھا جو بہت ہی نالائق اور پھسڈی تھا ایسی کوئی جماعت نہیں تھی جس میں وہ تین چار بار فیل ہونے کا اعزاز حاصل نہ کرتا، پرائمری تک تو خیر ٹھیک تھا اس کا باپ اساتذہ کے ہاتھ پیر پکڑ کر پاس کروا لیتا تھا لیکن ہائی اسکول میں بھی جب وہ پانچویں جماعت میں تین مرتبہ فیل ہو گیا تو اس کا باپ ایک دن ہمارے پاس آیا بولا بیٹا تم کیا کھاتے ہو؟ کہ ہر جماعت میں پاس ہو جاتے ہو اور ایک میرا وہ بیٹا ہے کہ میں اسے بادام کھلاتا ہوں مکھن گھی اور بالائیاں سب کچھ کھلاتا ہوں تاکہ اس کا دماغ تیز ہو جائے لیکن کچھ بھی فرق نہیںپڑ رہا ہے اس لیے تمہارے پاس آیا ہوں کہ تم جو کچھ کھاتے ہو وہ مجھے بھی بتا دو کہ میں اس نالائق کو کھلاؤں؟ بہت سمجھایا کہ کوئی ایسی خاص چیز ہم نہیں کھاتے لیکن وہ مصر تھا کہ کچھ تو ایسا ہے جو ہم کھاتے ہیں اور جس سے دماغ تیز ہوتا ہے۔
کافی دیر تک وہ پوچھتا رہا اور ہم بتاتے رہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے لیکن وہ مان کر نہیں دے رہا تھا آخر میں بولا۔ چلو اتنا تو کر سکتے ہو کہ کسی ایسے نسخے کا پتہ چلاؤ جس سے دماغ تیز ہوتا ہے، بات آئی گئی ہو گئی وہ لڑکا اسکول ہی میں رہا اور ہم کالج میں چلے گئے کافی عرصے بعد اس شخص سے سرراہے ملاقات ہوئی تو ہم نے یونہی اسے بتا دیا کہ فلاں فلاں چیز سے دماغ تیز ہوتا ہے اس پر وہ بولا۔ بیٹا اب اس کی ضرورت نہیں ہے میں نے اسے اپنے ماموں کے ساتھ لگا دیا ہے۔
اس کا ماموں دوسرے گاؤں میں تھا اور لیڈری کا پیشہ کرتا تھا ہمارے خیال میں تو لیڈری بڑے ذہین لوگوں کا کام ہوتا تھا لیکن اس بات کا اظہار جب اس شخص سے کیا تو وہ ہنس کر بولا اس کا ماموں بھی ایسا ہی تھا پڑھائی اور دوسرے تمام کاموں میں ناکام ہو کر اس نے لیڈری شروع کی تھی اور آج پورے علاقے کا کامیاب ترین انسان ہے، بنگلہ گاڑی نوکر چاکر اور سارا عیش و آرام اسے میسر ہے بہت ساری جائیداد بھی خرید لی ہے،کارخانے ہیں ٹھیکے ہیں جن کے لیے اس نے چودہ پندرہ جماعت کے ملازم رکھے ہوئے ہیں، میں نے گنا ہے پورے چھ ملازم تو اس کے ایسے ہیں جو سولہ جماعتوں سے بھی زیادہ پڑھے ہوئے انجینئر وغیرہ ہیں، اچھا ہوا نسخہ بتانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی کہ اس نے خود ہی سب سے زیادہ تیر بہدف نسخہ تلاش کر لیا تھا سچ تو یہ ہے کہ خود ہمارا جی بھی چاہنے لگا کہ اس نسخے پر عمل کریں لیکن بدقسمتی سے ہمارا کوئی نالائق ماموں تھا ہی نہیں، اس لیے پڑھائی میں مغز کھپاتے رہے بعد از خرابی بسیار ڈگری حاصل کی لیکن ادھر ادھر دیکھا تو ساری دنیا کے سارے دروازوں دیواروں اور کھڑکیوں پر نو ویکنسی کا چمکتا ہوا بورڈ نظرآیا، کسی نے کہا ہے کہ
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
کافی عرصے تک ''ڈگری کا جعلی نوٹ'' چلانے کی کوشش کرتے رہے لیکن کہیں بھی نہیں چلا، اب اس مقام پر سوچئے کہ ہم نے کیا کیا ہو گا؟ اس شخص کے غبی بیٹے کے لیے تو کوئی نسخہ ہم تلاش نہیں کر پائے لیکن ہمارے مرض کا نسخہ اس کے بیٹے کے پاس نکل آیا یعنی
جگ میں آکر ادھر ادھا دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
آج کل ہم ایک اچھے جاب پرہیں لیکن اس جاب کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں صرف اتنا کرنا پڑا کہ اپنے اس نالائق ہم سبق کے پاس گئے اور وہ ہمیں اپنے ماموں کے پاس لے گیا جو اب ایک منتخب نمایندہ تھا اور اس کے پاس وہ نسخہ کیمیا تھا جو ہمیں درکار تھا، اب آپ ہی بتایئے کہ وہ بزرگ کتنا غلط تھا جس نے کاروبار سلطنت کے لیے پیروں کے بجائے ''سر'' سے کام لینے کا مشورہ دیا تھا ویسے اتنے زمانے میں تھوڑا سا فرق یہ پڑا ہے کہ کاروبار سلطنت کے لیے پیروں کے ساتھ ساتھ منہ اور زبان سے بھی کام لینا ضروری ہو گیا لیکن شرط یہ ہے کہ جس مقام پر یہ منہ اور زبان ہو اس کے گرد نواح اگر کوئی ''سر''بھی ہو تو وہ بالکل خالی ہونا چاہیے تاکہ منہ اور زبان کے خاص الخاص مشیر شیطان کو وہاں کارخانہ لگانے میں سہولت ہو، اب ڈاکٹروں کا ایک مکالمہ جو ایک لیڈر کے سر سے گولی نکالنے کے لیے آپریشن کر رہے تھے، جونیئر ڈاکٹر نے سینئر ڈاکٹر سے کہا ۔ ڈاکٹر صاحب ذرا احتیاط سے ۔ گولی بالکل دماغ کے قریب ہے، کہیں دماغ کو نقصان نہ پہنچے، سینئر بولا ... ایسی کوئی بات نہیں میں ایسے کئی کیس آپریٹ کر چکا ہوں ایسے سروں میں وہ چیز ہوتی ہی نہیں جس کا تم نام لے رہے ہو۔