ہمارا اپنا جنازہ
سیاسی قوت تنگ دائرے میں مرکوز کردی گئی ہے اور اسے ان لوگوں کے لیے مزید دولت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
عظیم ایپک ٹیٹس نے کہا تھا ''کسی انسان کے لیے اس چیز کو جاننا ناممکن ہے جس کے متعلق سوچتا ہو کہ وہ اسے پہلے سے معلوم ہے'' جب کہ اگاتھون کہتا ہے ''صرف ایک چیز دیوتاؤں کے بس میں نہیں، ماضی کو منسوخ کرنا''۔ اس لیے ہم اپنے گزشتہ کل کو منسوخ نہیں کرسکتے۔ ہماری نالائقیاں، نااہلیاں، کوتاہیاں، غلطیاں ہمارے ساتھ ہی زندہ رہیں گی، ہم ان کو کسی بھی صورت کبھی مردہ نہیں کر سکیں گے۔
ہم انھیں جتنا چاہیں برا بھلا کہہ لیں، جتنا چاہیں اپنے کو کوس لیں، اب کچھ بدلنے والا نہیں ہے، کیونکہ یہ ہمار اپنا جنازہ ہے، اس سے ہم دور نہیں بھاگ سکتے ہیں، اس کا منہ تو ہمیں دیکھنا ہی پڑے گا۔ اور ہم کیوں نہ دیکھیں، یہ ہمارا اپنا ہی چہرہ تو ہے۔ ہم یہاں تک پہنچے کیسے ہیں؟ ہم کو یہ سوال چاہے کتنا ہی برا کیوں نہ لگے، لیکن ہمیں آج اس ہی سوال کا سامنا ہے۔ وہ لوگ جنھیں اس قسم کے حالات کا سامنا ہے، جیسا کہ ہمیں ہے، وہ ہی بتا سکتے ہیں کہ ان حالات میں زندگی گزارنا کیسا ہوتا ہے۔ خساروں میں، خوف اور بدگمانیوں میں، دہشت اور وحشت کے سایوں میں دن رات بسر کرنا کیسا ہوتا ہے۔
ڈبیلو بی ٹیٹس نے کہا تھا ''لمبے عرصے کی قربانی دل پتھر کردیتی ہے''۔ اسی لیے ہمارے سماج میں اب صرف پتھر باقی رہ گئے ہیں، انسان مر چکے ہیں اور پتھروں سے چیخنے، چلانے، رونے اور حرکت کی امید کے کیا معنی ہوسکتے ہیں۔ ذہن میں رہے جس جگہ پر انسان مر جاتے ہیں پھر اس جگہ پر چمگادڑیں قبضہ کرلیتی ہیں اور انسانیت کی بے لباس، ننگی، ادھڑی، زخموں سے چور لاش بیچ چوراہے پر پڑی ہوئی ہوتی ہے اور لاش کے پاس بیوہ عقل سر پر خاک ڈالے، روتی، چلاتی، بین اور گریا کرتی، ماتم کررہی ہوتی ہے اور اس کے چاروں طرف چمگادڑیں چیخ رہی ہوتی ہیں اور اندھیرے قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں۔ اب آپ ہی اپنے دل پر ہاتھ دھر کر بتا دیں کیا یہ ہی منظر آج پاکستان کا نہیں بنا ہوا ہے۔ آئیں اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ منظر بنتے کیوں ہیں۔
سب سے پہلے ہم اس بات پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ مصر کے لوگ مبارک کی حکومت کے خلاف کیوں کھڑے ہوئے، نیہا حامد جو قاہرہ میں ایک اشتہاراتی ایجنسی میں چوبیس سالہ کارکن ہے، اس بارے میں کہ اس نے تحریر چوک میں کیوں مظاہرہ کیا، اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا ''ہم بدعنوانی، ظلم اور کمتر تعلیم کا شکار ہیں، ہم ایک بدعنوان نظام کے تحت زندگی بسر کررہے ہیں، جسے لازماً تبدیل ہونا چاہیے''۔ چوک میں موجود ایک اور شخص فارمیسی کے بیس سالہ طالب علم معصب الشامی نے اس کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے کہا ''میں امید کرتا ہوں کہ اس سال کے اخیر تک ہمارے ہاں ایک منتخب حکومت ہوگی اور یہ کہ ہمہ گیر آزادیوں کا اطلاق ہوگا اور ہم اس بدعنوانی کا خاتمہ کردیں گے، جس نے اس ملک پر قبضہ کیا ہوا ہے''۔
تحریر چوک میں احتجاج کرنے والوں نے حکومت کی بدعنوانی، عوامی خدمات مہیا کرنے میں اس کی نااہلیت اور ملک میں مواقع کی مساوات کی عدم موجودگی کے خلاف یک زبان ہو کر آواز اٹھائی۔ انھوں نے خاص طور پر حکومتی دباؤ اور سیاسی حقوق کی عدم موجودگی کی شکایت کی، جیسا کہ محمد البرادی جوکہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر ہیں، نے 13 جنوری 2011ء کو ٹوئٹر پر لکھا ''تیونس، دباؤ+ سماجی انصاف کا عدم وجود+ پرامن تبدیلی کے لیے راستوں سے محرومی= ٹکٹکاتا ہوا بم''۔ تحریر چوک میں جمع ہونے والے مصریوں کا تصور یہ تھا کہ درحقیقت مصر اس وجہ سے غریب ہے کہ اس پر ایک محدود طبقہ اشرافیہ نے حکومت کی ہے، جس نے معاشرے کی تنظیم وسیع تر عوام کی قیمت پر محض اپنے فائدے کے لیے کی ہے۔
سیاسی قوت تنگ دائرے میں مرکوز کردی گئی ہے اور اسے ان لوگوں کے لیے مزید دولت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو پہلے ہی اس پر قابض ہیں، فائدہ وہ اٹھاتے رہے اور خسارہ عوام کے حصے میں ہی آتا رہا۔ مڈل ایسٹ، افریقہ، لاطینی امریکا، مشرقی ممالک کی تقریباً تمام ریاستیں ان ہی اسباب کی بنا پر غریب ہیں، جن اسباب کی بنا پر مصر غریب ہے۔ ان ممالک میں یہ بات عام شہریوں کے لیے انتہائی مشکل ہے کہ وہ سیاسی قوت حاصل کرلیں اور اس طریقہ کار کو تبدیل کردیں جس پر ان کے معاشرے کام کررہے ہیں، جب کہ امریکا، برطانیہ، یورپ کے ممالک، جاپان، چین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک اس لیے امیر ہیں کہ ان کے شہریوں نے ان طبقات اشرافیہ کا تختہ الٹ دیا، جن کا طاقت پر کنٹرول تھا اور ایک ایسا معاشرہ تخلیق کیا جہاں سیاسی حقوق کی تقسیم بہت وسیع پیمانے پر کی گئی، جہاں حکومت شہریوں کے آگے جواب دہ اور ذمے دار تھی اور جہاں لوگ وسیع پیمانے پر معاشی مواقع سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔
یاد رہے انسان پر سب سے شدید حملہ ناانصافی کا ہوتا ہے، جس سے اس قدر تباہی پھیلتی ہے کہ تصور بھی محال ہے، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ حملہ انسان کی عزت نفس پر ہوتا ہے۔ انسان ہر چیز برداشت کرسکتا ہے لیکن اس کے لیے اپنی عزت نفس کی بے حرمتی قابل برداشت نہیں ہے۔ آج دنیاکے تمام بدعنوان ممالک میں جو آگ لگی ہوئی ہے اس کی بنیادی وجہ ناانصافی ہے۔
بدعنوانی، ناانصافی کی ماں ہے اور جذبات پر فالج پڑجانا، احساسات کا مردہ ہوجانا، اداروں کوکینسر ہوجانا، خوابوں کو کوڑھ لگ جانا، حوصلوں کوپولیو ہوجانا، ناانصافی کے ناجائز بچے ہیں اور جس قوم کے جذبات، احساسات، ادارے، خواب اور حوصلے اپاہج اور بیمار ہوجاتے ہیں پھر وہ پاکستانی قوم بن جاتی ہے۔ پھر آپ کتنے ہی مباحثے کرلیں، کتنے ہی مذاکرات اور سیمینار منعقد کرلیں، کتنی ہی بے تکی فضول اور بیہودہ گفتگو ٹی وی پر بیٹھ کر کیوں نہ کرلیں، کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔ اور یوں ہی خودکش حملے ہوتے رہیں گے، کرپشن، لوٹ مار ہوتی رہے گی، بدعنوانی ہوتی رہی گی، ناانصافی، ظلم ہوتے رہیں گے اور لوگ مردہ ہوتے رہیں گے۔ ان پر چمگاڈریں اسی طرح سے جمع ہوتی رہیں گی اور اندھیرے اسی طرح سے قہقہے لگاتے رہیں گے۔
ہم انھیں جتنا چاہیں برا بھلا کہہ لیں، جتنا چاہیں اپنے کو کوس لیں، اب کچھ بدلنے والا نہیں ہے، کیونکہ یہ ہمار اپنا جنازہ ہے، اس سے ہم دور نہیں بھاگ سکتے ہیں، اس کا منہ تو ہمیں دیکھنا ہی پڑے گا۔ اور ہم کیوں نہ دیکھیں، یہ ہمارا اپنا ہی چہرہ تو ہے۔ ہم یہاں تک پہنچے کیسے ہیں؟ ہم کو یہ سوال چاہے کتنا ہی برا کیوں نہ لگے، لیکن ہمیں آج اس ہی سوال کا سامنا ہے۔ وہ لوگ جنھیں اس قسم کے حالات کا سامنا ہے، جیسا کہ ہمیں ہے، وہ ہی بتا سکتے ہیں کہ ان حالات میں زندگی گزارنا کیسا ہوتا ہے۔ خساروں میں، خوف اور بدگمانیوں میں، دہشت اور وحشت کے سایوں میں دن رات بسر کرنا کیسا ہوتا ہے۔
ڈبیلو بی ٹیٹس نے کہا تھا ''لمبے عرصے کی قربانی دل پتھر کردیتی ہے''۔ اسی لیے ہمارے سماج میں اب صرف پتھر باقی رہ گئے ہیں، انسان مر چکے ہیں اور پتھروں سے چیخنے، چلانے، رونے اور حرکت کی امید کے کیا معنی ہوسکتے ہیں۔ ذہن میں رہے جس جگہ پر انسان مر جاتے ہیں پھر اس جگہ پر چمگادڑیں قبضہ کرلیتی ہیں اور انسانیت کی بے لباس، ننگی، ادھڑی، زخموں سے چور لاش بیچ چوراہے پر پڑی ہوئی ہوتی ہے اور لاش کے پاس بیوہ عقل سر پر خاک ڈالے، روتی، چلاتی، بین اور گریا کرتی، ماتم کررہی ہوتی ہے اور اس کے چاروں طرف چمگادڑیں چیخ رہی ہوتی ہیں اور اندھیرے قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں۔ اب آپ ہی اپنے دل پر ہاتھ دھر کر بتا دیں کیا یہ ہی منظر آج پاکستان کا نہیں بنا ہوا ہے۔ آئیں اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ منظر بنتے کیوں ہیں۔
سب سے پہلے ہم اس بات پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ مصر کے لوگ مبارک کی حکومت کے خلاف کیوں کھڑے ہوئے، نیہا حامد جو قاہرہ میں ایک اشتہاراتی ایجنسی میں چوبیس سالہ کارکن ہے، اس بارے میں کہ اس نے تحریر چوک میں کیوں مظاہرہ کیا، اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا ''ہم بدعنوانی، ظلم اور کمتر تعلیم کا شکار ہیں، ہم ایک بدعنوان نظام کے تحت زندگی بسر کررہے ہیں، جسے لازماً تبدیل ہونا چاہیے''۔ چوک میں موجود ایک اور شخص فارمیسی کے بیس سالہ طالب علم معصب الشامی نے اس کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے کہا ''میں امید کرتا ہوں کہ اس سال کے اخیر تک ہمارے ہاں ایک منتخب حکومت ہوگی اور یہ کہ ہمہ گیر آزادیوں کا اطلاق ہوگا اور ہم اس بدعنوانی کا خاتمہ کردیں گے، جس نے اس ملک پر قبضہ کیا ہوا ہے''۔
تحریر چوک میں احتجاج کرنے والوں نے حکومت کی بدعنوانی، عوامی خدمات مہیا کرنے میں اس کی نااہلیت اور ملک میں مواقع کی مساوات کی عدم موجودگی کے خلاف یک زبان ہو کر آواز اٹھائی۔ انھوں نے خاص طور پر حکومتی دباؤ اور سیاسی حقوق کی عدم موجودگی کی شکایت کی، جیسا کہ محمد البرادی جوکہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر ہیں، نے 13 جنوری 2011ء کو ٹوئٹر پر لکھا ''تیونس، دباؤ+ سماجی انصاف کا عدم وجود+ پرامن تبدیلی کے لیے راستوں سے محرومی= ٹکٹکاتا ہوا بم''۔ تحریر چوک میں جمع ہونے والے مصریوں کا تصور یہ تھا کہ درحقیقت مصر اس وجہ سے غریب ہے کہ اس پر ایک محدود طبقہ اشرافیہ نے حکومت کی ہے، جس نے معاشرے کی تنظیم وسیع تر عوام کی قیمت پر محض اپنے فائدے کے لیے کی ہے۔
سیاسی قوت تنگ دائرے میں مرکوز کردی گئی ہے اور اسے ان لوگوں کے لیے مزید دولت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو پہلے ہی اس پر قابض ہیں، فائدہ وہ اٹھاتے رہے اور خسارہ عوام کے حصے میں ہی آتا رہا۔ مڈل ایسٹ، افریقہ، لاطینی امریکا، مشرقی ممالک کی تقریباً تمام ریاستیں ان ہی اسباب کی بنا پر غریب ہیں، جن اسباب کی بنا پر مصر غریب ہے۔ ان ممالک میں یہ بات عام شہریوں کے لیے انتہائی مشکل ہے کہ وہ سیاسی قوت حاصل کرلیں اور اس طریقہ کار کو تبدیل کردیں جس پر ان کے معاشرے کام کررہے ہیں، جب کہ امریکا، برطانیہ، یورپ کے ممالک، جاپان، چین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک اس لیے امیر ہیں کہ ان کے شہریوں نے ان طبقات اشرافیہ کا تختہ الٹ دیا، جن کا طاقت پر کنٹرول تھا اور ایک ایسا معاشرہ تخلیق کیا جہاں سیاسی حقوق کی تقسیم بہت وسیع پیمانے پر کی گئی، جہاں حکومت شہریوں کے آگے جواب دہ اور ذمے دار تھی اور جہاں لوگ وسیع پیمانے پر معاشی مواقع سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔
یاد رہے انسان پر سب سے شدید حملہ ناانصافی کا ہوتا ہے، جس سے اس قدر تباہی پھیلتی ہے کہ تصور بھی محال ہے، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ حملہ انسان کی عزت نفس پر ہوتا ہے۔ انسان ہر چیز برداشت کرسکتا ہے لیکن اس کے لیے اپنی عزت نفس کی بے حرمتی قابل برداشت نہیں ہے۔ آج دنیاکے تمام بدعنوان ممالک میں جو آگ لگی ہوئی ہے اس کی بنیادی وجہ ناانصافی ہے۔
بدعنوانی، ناانصافی کی ماں ہے اور جذبات پر فالج پڑجانا، احساسات کا مردہ ہوجانا، اداروں کوکینسر ہوجانا، خوابوں کو کوڑھ لگ جانا، حوصلوں کوپولیو ہوجانا، ناانصافی کے ناجائز بچے ہیں اور جس قوم کے جذبات، احساسات، ادارے، خواب اور حوصلے اپاہج اور بیمار ہوجاتے ہیں پھر وہ پاکستانی قوم بن جاتی ہے۔ پھر آپ کتنے ہی مباحثے کرلیں، کتنے ہی مذاکرات اور سیمینار منعقد کرلیں، کتنی ہی بے تکی فضول اور بیہودہ گفتگو ٹی وی پر بیٹھ کر کیوں نہ کرلیں، کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔ اور یوں ہی خودکش حملے ہوتے رہیں گے، کرپشن، لوٹ مار ہوتی رہے گی، بدعنوانی ہوتی رہی گی، ناانصافی، ظلم ہوتے رہیں گے اور لوگ مردہ ہوتے رہیں گے۔ ان پر چمگاڈریں اسی طرح سے جمع ہوتی رہیں گی اور اندھیرے اسی طرح سے قہقہے لگاتے رہیں گے۔