تحریک آزادیٔ فلسطین اور تیسرا انتفاضہ
تحریک آزادی ٔ فلسطین کی تاریخ میں پہلا انتفاضہ 1987میں شروع ہوا اور 1993 میں اختتام پذیر ہوا۔
تحریک آزادی فلسطین کا آغاز تو اسی دن سے ہو گیا تھا جس دن برطانوی استعمار نے بالفور اعلامیے کی حمایت کرتے ہوئے فلسطین کی تقسیم کا آغاز کیا تھا۔ پھر اسی طرح 1948 میں پندرہ مئی تاریخ کا بد ترین دن ثابت ہوا جس نے فلسطینیوں کی اپنی سر زمین پر ایک سرطان ریاست کے وجود کو جنم دیا۔ غاصب اسرائیل کے وجود کے دن سے ہی سر زمین انبیا ء علیہم السلام پر بسنے والے فلسطینی غاصب اسرائیل اور صیہونیوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بننا شروع ہوئے، حتیٰ کہ وہ وقت بھی آن پہنچا جب نہ صرف صیہونیوں نے فلسطینیوں کے قتل عام پر اکتفا کیا بلکہ ان کو اپنی ہی سرزمین اور وطن اور گھروں سے بے دخل کرنا شروع کر دیا۔
آزادیٔ فلسطین کے لیے کئی ایک جنگیں بھی لڑی گئیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عربوں کی بڑی طاقت ہونے کے باوجود بھی عرب ممالک اسرائیل کو شکست دینے میں ناکام رہے اور الٹا اپنے ہی ممالک کی سر زمینیں اسرائیل کے قبضے میں دے بیٹھے جو تا حال اسرائیل کے غاصبانہ قبضے میں ہیں۔ مثال کے طور پر مصر میں سینا کا علاقہ، شام میں جولان کی پہاڑیاں، اسی طرح جنوبی لبنان کا بڑا حصہ جسے بعد میں 2000 میں حزب اللہ لبنان نے اسرائیلی شکنجے سے آزاد کروایا تھا۔
آزادی فلسطین کے لیے جہاں یہ جنگیں لڑی گئیں وہاں فلسطینی عوام نے بھی اپنے حقوق کے غصب کیے جانے پر خاموشی اختیار نہیں کی۔ فلسطینیوں نے جس جدوجہد کا آغاز کیا اسے ''انتفاضہ'' کہا جاتا ہے۔ ''انتفاضہ '' یعنی عوامی تحریک۔ فلسطین کی آزادی کی تحریکوں میں انتفاضہ فلسطین کی تحریک انتہائی مقبول اور کار گر ثابت ہوئی۔
پہلا انتفاضہ:
تحریک آزادی ٔ فلسطین کی تاریخ میں پہلا انتفاضہ 1987میں شروع ہوا اور 1993 میں اختتام پذیر ہوا۔ یہ فلسطینی عوام کی ایک ایسی انقلابی تحریک تھی جو تاریخ میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی نابودی کے ایک پیش خیمہ کے طور پر یاد کی جائے گی۔ اس تحریک کا آغاز جبالیہ کے ایک مہاجر کیمپ سے ہوا اور پھر یہ تحریک دیکھتے ہی دیکھتے غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی قدس سمیت پورے فلسطین میں پھیل گئی۔ انتفاضہ فلسطین کے آغاز میں فلسطینیوں نے پر امن احتجاج، سول نافرمانی اور غاصب اسرائیل سے برات کے اظہار کے ساتھ کیا۔ فلسطینی عوام کے انتفاضہ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ فلسطینی عوام اتحاد کے ساتھ ایک مقصد کے لیے جد وجہد کر رہے تھے اور آپس میں متحد تھے۔
پہلے انتفاضہ میں فلسطینیوں نے ہڑتالوں اور پر امن احتجاجوں کے ذریعے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا۔ فلسطینی عوام نے عہد کر لیا کہ وہ غاصب اسرائیل کو ٹیکس ادا نہیں کریں گے۔ تحریک آزادیٔ فلسطین کے پہلے انتفاضہ کو کچلنے کے لیے غاصب اسرائیل نے فوج اور اسلحے سمیت بھاری گولہ بارود کا سہارا لیا لیکن فلسطینیوں نے اس کے جواب میں ''پتھر'' سے مزاحمت کی۔ فلسطینیوں نے انتفاضہ کے دوران جو سب سے زیادہ ہتھیار کا استعمال کیا وہ صرف ''پتھر'' تھا۔ یقینا آپ نے بھی ایسی تصاویر دیکھی ہوں گی جن میں فلسطینی بچے، جوان اور خواتین اسرائیلی ٹینکوں کے سامنے تنِ تنہا کھڑے ہیں اور پتھروں کی مدد سے اپنا دفا ع کر رہے ہیں۔
تحریک آزادی ٔ فلسطین کے پہلے انتفاضہ کے دوران غاصب اسرائیل نے 1500کے قریب فلسطینیوں کو قتل کر دیا جب کہ جواب میں فلسطینیوں نے 200 سے زائد اسرائیلی فوجیوں پر حملے کیے اور ان کو جہنم رسید کیا۔ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے انتفاضہ کے 6 سال کے دوران ایک لاکھ پچاس ہزار سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار بھی کر لیا تھا۔
اس موقعے پر یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ اس سے قبل 1982 میں غاصب اسرائیل نے لبنان پر بھی قبضہ کر لیا تھا اور وہاں پر موجود فلسطینی مہاجرین پر صبرا اور شتیلا کے مقامات پر انسانیت سوز مظالم کی انتہا کی تھی اور اسی طرح فلسطینیوں کی تنظیم پی ایل او کی اعلیٰ قیادت کو فلسطین سے جلا وطن ہو کر تیونس میں پناہ لینا پڑی تھی۔
اسی تحریک کے دوران 1988کو 19اپریل کے روز ایک فلسطینی رہنما ابو جہاد کو تیونس میں قتل کیا گیا۔ دوسری جانب انتفاضہ فلسطین نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ غاصب صیہونی اسرائیل کے خلاف مجرمانہ خاموشی ختم کر ے اور فلسطینیوں کو ان کے حقوق دیے جائیں۔ فلسطینی انتفاضہ کے نتیجے میں ہی 1988میں ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی بڑی تعداد نے اسرائیل کی زبردست مذمت کی اور اس کے خلاف قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔ بالآخر 1993 میں فلسطینی عوام کا پہلا انتفاضہ اختتام پذیر ہوا۔
دوسرا انتفاضہ:
تحریک آزادی ٔ فلسطین کی تاریخ دوسرا انتفاضہ اس وقت شروع ہوا جب کیمپ ڈیوڈ مذاکرات میں فلسطینی اتھارٹی کے چیئر مین یاسر عرفات نے امریکی شرائط کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسرا انتفاضہ 29 ستمبر2000 میں شروع ہو اور 2005میں اختتام پذیر ہوا۔ دوسرے انتفاضہ کا آغاز اس دن سے ہوا جس دن جمعے کو اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے بیت المقدس کا دورہ کرنے کا اعلان کیا۔ فلسطینیوں نے مسجد اقصیٰ میں پہنچ کر زبردست احتجاج کیا اور حتیٰ المقدور کوشش کی کہ صیہونی وزیر اعظم کو مسجد اقصیٰ میں داخلے سے روکا جائے۔ اس جدوجہد میں پولیس اور اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے چار فلسطینی شہید ہوئے۔ فلسطینی عوام کے اس دوسرے انتفاضہ کو ''اقصیٰ انتفاضہ'' بھی کہا جاتا ہے۔
اسی روز غاصب صیہونی افواج کی فائرنگ سے 200 سے زیادہ فلسطینی مسجد اقصیٰ (قبلہ اول بیت المقدس) کے دفاع کے لیے زخمی ہوئے تھے۔ اسی روز ہی ایک اور واقعہ میں ایک پرانے شہر میں تین مزید فلسطینی بھی اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے شہید ہوئے۔ اس دن کے خاتمے پر کل 7 فلسطینی شہید اور 300 سے زائد زخمی ہو چکے تھے جب کہ فلسطینیوں کے ساتھ جھڑپوں میں 70 سے زائد اسرائیلی فوجی بھی زخمی ہوئے۔
دوسرے ہی روز غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی عوام کا سمندر سڑکوں پر نکل آیا اور غاصب اسرائیل کی جارحیت کے خلاف سراپا احتجاج بن گیا۔ اس احتجاج کو روکنے کے لیے صیہونی فورسز نے فلسطینیوں پر براہ راست فائرنگ کی۔ ان مظاہروں کے آغاز کے پانچویں دن تک 50 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے جب کہ دو ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔
مظاہروں کے دروان ایک کیمرہ مین نے ایک فلسطینی نوجوان محمد الدرہ کی وہ فوٹیج بنائی جب وہ اپنے والد کے ساتھ تھا اور اس کو اسرائیلی فوجیوں نے براہ راست فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ اسی دوران ایمنسٹی انٹر نیشنل کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ دوسرے انتفاضہ کے پہلے ایک ماہ میں اسرائیلی فورسز نے فلسطینیوں کا بد ترین قتل عام کیا ہے۔
یہ انتفاضہ کی تحریک چلتی رہی اور اسی طرح 2005 میں اختتام پذیر ہو گئی۔ اس انتفاضہ کے اختتام کے بارے میں مبصرین کی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ چند مبصرین کا کہنا کہ تحریک آزادی ٔ فلسطین کا دوسرا انتفاضہ نومبر 2004میں اس وقت اختتام پذیر ہوا جب فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین یاسر عرفات انتقال کر گئے۔ بعض مبصرین کی رائے میں فلسطینیوں کا دوسرا انتفاضہ اس وقت اختتام پذیر ہوا جب یاسر عرفات کی وفات کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے نئے صدر محمود عباس نے 2005 میں شرم الشیخ کانفرنس میں شرکت کی۔
بہر حال آزادیٔ فلسطین کی تحریک کے دوسرے انتفاضہ کا اختتام تقریباً پانچ ہزار فلسطینیوں کے قتل کے بعد ہوا جب کہ اس انتفاضہ میں اسرائیل کو بھی بھاری نقصان اٹھا نا پڑا اور 1200سے زائد اسرائیلی فوجی اس انتفاضہ میں واصل جہنم ہوئے۔
تیسرا انتفاضہ:
دوسرے انتفاضہ کے اختتام کے بعد 2006 میں فلسطین کے اندر ہونے والے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے الفتح کے ساتھ مقابلے میں 45 کے مقابلے میں 74 نشستیں حاصل کر کے واضح برتری حاصل کی جب کہ 13نشستیں دیگر آزاد امیدواروں کو حاصل ہوئیں۔ اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی کامیابی کے ساتھ ہی امریکا اور یورپی یونین کو بہت بڑا دھچکا لگا کہ جنہوں نے پہلے ہی حماس کو دہشت گرد قرار دیا ہوا تھا تا کہ فلسطین کے معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق چلایا جا سکے۔
تاہم عالمی دہشت گرد امریکا اور اس کی حواری یورپی یونین نے فلسطین کو دی جانے والی امداد یہ کہہ کر بند کر دی کہ حماس کو امداد نہیں دی جا سکتی۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکا اور یورپی یونین نے انتخابات کے نتائج کو ماننے سے بھی انکار کر دیا۔ آج تک امریکا اور یورپی یونین نے حماس کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔
البتہ جہاں تک بات تیسرے انتفاضہ کی ہے تو میرا خیال ہے کہ تیسرا انتفاضہ شروع ہو چکا ہے جو اسرائیل کی مکمل نابودی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گا۔ حماس کی انتخابات میں کامیابی ہی فلسطینیوں کے تیسرے انتفاضہ کا آغاز تھا جب کہ اسی طرح بعد میں حماس نے غاصب صیہونی اسرائیل کے حملے کا مقابلہ کیا اور 22 روز تک بھرپور جنگ کے بعد اسرائیل کو بد ترین شکست سے رسوا کرتے ہوئے غزہ سے باہر نکال دیا۔
اسی طرح حماس نے اسرائیلی کمانڈر گیلاد شالیط کو پانچ سال تک اپنے قبضے میں رکھنے کے بعد ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی صیہونی جیلوں سے رہا کروایا۔ گزشتہ دنوں صیہونی ریاست اسرائیل کے سابقہ وزیر اعظم یہود اولمرٹ نے اسرائیلی حکام کو خبر دار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ہم تیسرے انتفاضہ کو دیکھ رہے ہیں اور مجھے نہیں معلوم کہ یہ کس وقت ایک آتش فشاں کے طور پر اسرائیل کو اڑا دے''۔
آزادیٔ فلسطین کے لیے کئی ایک جنگیں بھی لڑی گئیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عربوں کی بڑی طاقت ہونے کے باوجود بھی عرب ممالک اسرائیل کو شکست دینے میں ناکام رہے اور الٹا اپنے ہی ممالک کی سر زمینیں اسرائیل کے قبضے میں دے بیٹھے جو تا حال اسرائیل کے غاصبانہ قبضے میں ہیں۔ مثال کے طور پر مصر میں سینا کا علاقہ، شام میں جولان کی پہاڑیاں، اسی طرح جنوبی لبنان کا بڑا حصہ جسے بعد میں 2000 میں حزب اللہ لبنان نے اسرائیلی شکنجے سے آزاد کروایا تھا۔
آزادی فلسطین کے لیے جہاں یہ جنگیں لڑی گئیں وہاں فلسطینی عوام نے بھی اپنے حقوق کے غصب کیے جانے پر خاموشی اختیار نہیں کی۔ فلسطینیوں نے جس جدوجہد کا آغاز کیا اسے ''انتفاضہ'' کہا جاتا ہے۔ ''انتفاضہ '' یعنی عوامی تحریک۔ فلسطین کی آزادی کی تحریکوں میں انتفاضہ فلسطین کی تحریک انتہائی مقبول اور کار گر ثابت ہوئی۔
پہلا انتفاضہ:
تحریک آزادی ٔ فلسطین کی تاریخ میں پہلا انتفاضہ 1987میں شروع ہوا اور 1993 میں اختتام پذیر ہوا۔ یہ فلسطینی عوام کی ایک ایسی انقلابی تحریک تھی جو تاریخ میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی نابودی کے ایک پیش خیمہ کے طور پر یاد کی جائے گی۔ اس تحریک کا آغاز جبالیہ کے ایک مہاجر کیمپ سے ہوا اور پھر یہ تحریک دیکھتے ہی دیکھتے غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی قدس سمیت پورے فلسطین میں پھیل گئی۔ انتفاضہ فلسطین کے آغاز میں فلسطینیوں نے پر امن احتجاج، سول نافرمانی اور غاصب اسرائیل سے برات کے اظہار کے ساتھ کیا۔ فلسطینی عوام کے انتفاضہ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ فلسطینی عوام اتحاد کے ساتھ ایک مقصد کے لیے جد وجہد کر رہے تھے اور آپس میں متحد تھے۔
پہلے انتفاضہ میں فلسطینیوں نے ہڑتالوں اور پر امن احتجاجوں کے ذریعے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا۔ فلسطینی عوام نے عہد کر لیا کہ وہ غاصب اسرائیل کو ٹیکس ادا نہیں کریں گے۔ تحریک آزادیٔ فلسطین کے پہلے انتفاضہ کو کچلنے کے لیے غاصب اسرائیل نے فوج اور اسلحے سمیت بھاری گولہ بارود کا سہارا لیا لیکن فلسطینیوں نے اس کے جواب میں ''پتھر'' سے مزاحمت کی۔ فلسطینیوں نے انتفاضہ کے دوران جو سب سے زیادہ ہتھیار کا استعمال کیا وہ صرف ''پتھر'' تھا۔ یقینا آپ نے بھی ایسی تصاویر دیکھی ہوں گی جن میں فلسطینی بچے، جوان اور خواتین اسرائیلی ٹینکوں کے سامنے تنِ تنہا کھڑے ہیں اور پتھروں کی مدد سے اپنا دفا ع کر رہے ہیں۔
تحریک آزادی ٔ فلسطین کے پہلے انتفاضہ کے دوران غاصب اسرائیل نے 1500کے قریب فلسطینیوں کو قتل کر دیا جب کہ جواب میں فلسطینیوں نے 200 سے زائد اسرائیلی فوجیوں پر حملے کیے اور ان کو جہنم رسید کیا۔ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے انتفاضہ کے 6 سال کے دوران ایک لاکھ پچاس ہزار سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار بھی کر لیا تھا۔
اس موقعے پر یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ اس سے قبل 1982 میں غاصب اسرائیل نے لبنان پر بھی قبضہ کر لیا تھا اور وہاں پر موجود فلسطینی مہاجرین پر صبرا اور شتیلا کے مقامات پر انسانیت سوز مظالم کی انتہا کی تھی اور اسی طرح فلسطینیوں کی تنظیم پی ایل او کی اعلیٰ قیادت کو فلسطین سے جلا وطن ہو کر تیونس میں پناہ لینا پڑی تھی۔
اسی تحریک کے دوران 1988کو 19اپریل کے روز ایک فلسطینی رہنما ابو جہاد کو تیونس میں قتل کیا گیا۔ دوسری جانب انتفاضہ فلسطین نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ غاصب صیہونی اسرائیل کے خلاف مجرمانہ خاموشی ختم کر ے اور فلسطینیوں کو ان کے حقوق دیے جائیں۔ فلسطینی انتفاضہ کے نتیجے میں ہی 1988میں ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی بڑی تعداد نے اسرائیل کی زبردست مذمت کی اور اس کے خلاف قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔ بالآخر 1993 میں فلسطینی عوام کا پہلا انتفاضہ اختتام پذیر ہوا۔
دوسرا انتفاضہ:
تحریک آزادی ٔ فلسطین کی تاریخ دوسرا انتفاضہ اس وقت شروع ہوا جب کیمپ ڈیوڈ مذاکرات میں فلسطینی اتھارٹی کے چیئر مین یاسر عرفات نے امریکی شرائط کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسرا انتفاضہ 29 ستمبر2000 میں شروع ہو اور 2005میں اختتام پذیر ہوا۔ دوسرے انتفاضہ کا آغاز اس دن سے ہوا جس دن جمعے کو اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے بیت المقدس کا دورہ کرنے کا اعلان کیا۔ فلسطینیوں نے مسجد اقصیٰ میں پہنچ کر زبردست احتجاج کیا اور حتیٰ المقدور کوشش کی کہ صیہونی وزیر اعظم کو مسجد اقصیٰ میں داخلے سے روکا جائے۔ اس جدوجہد میں پولیس اور اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے چار فلسطینی شہید ہوئے۔ فلسطینی عوام کے اس دوسرے انتفاضہ کو ''اقصیٰ انتفاضہ'' بھی کہا جاتا ہے۔
اسی روز غاصب صیہونی افواج کی فائرنگ سے 200 سے زیادہ فلسطینی مسجد اقصیٰ (قبلہ اول بیت المقدس) کے دفاع کے لیے زخمی ہوئے تھے۔ اسی روز ہی ایک اور واقعہ میں ایک پرانے شہر میں تین مزید فلسطینی بھی اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے شہید ہوئے۔ اس دن کے خاتمے پر کل 7 فلسطینی شہید اور 300 سے زائد زخمی ہو چکے تھے جب کہ فلسطینیوں کے ساتھ جھڑپوں میں 70 سے زائد اسرائیلی فوجی بھی زخمی ہوئے۔
دوسرے ہی روز غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی عوام کا سمندر سڑکوں پر نکل آیا اور غاصب اسرائیل کی جارحیت کے خلاف سراپا احتجاج بن گیا۔ اس احتجاج کو روکنے کے لیے صیہونی فورسز نے فلسطینیوں پر براہ راست فائرنگ کی۔ ان مظاہروں کے آغاز کے پانچویں دن تک 50 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے جب کہ دو ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔
مظاہروں کے دروان ایک کیمرہ مین نے ایک فلسطینی نوجوان محمد الدرہ کی وہ فوٹیج بنائی جب وہ اپنے والد کے ساتھ تھا اور اس کو اسرائیلی فوجیوں نے براہ راست فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ اسی دوران ایمنسٹی انٹر نیشنل کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ دوسرے انتفاضہ کے پہلے ایک ماہ میں اسرائیلی فورسز نے فلسطینیوں کا بد ترین قتل عام کیا ہے۔
یہ انتفاضہ کی تحریک چلتی رہی اور اسی طرح 2005 میں اختتام پذیر ہو گئی۔ اس انتفاضہ کے اختتام کے بارے میں مبصرین کی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ چند مبصرین کا کہنا کہ تحریک آزادی ٔ فلسطین کا دوسرا انتفاضہ نومبر 2004میں اس وقت اختتام پذیر ہوا جب فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین یاسر عرفات انتقال کر گئے۔ بعض مبصرین کی رائے میں فلسطینیوں کا دوسرا انتفاضہ اس وقت اختتام پذیر ہوا جب یاسر عرفات کی وفات کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے نئے صدر محمود عباس نے 2005 میں شرم الشیخ کانفرنس میں شرکت کی۔
بہر حال آزادیٔ فلسطین کی تحریک کے دوسرے انتفاضہ کا اختتام تقریباً پانچ ہزار فلسطینیوں کے قتل کے بعد ہوا جب کہ اس انتفاضہ میں اسرائیل کو بھی بھاری نقصان اٹھا نا پڑا اور 1200سے زائد اسرائیلی فوجی اس انتفاضہ میں واصل جہنم ہوئے۔
تیسرا انتفاضہ:
دوسرے انتفاضہ کے اختتام کے بعد 2006 میں فلسطین کے اندر ہونے والے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے الفتح کے ساتھ مقابلے میں 45 کے مقابلے میں 74 نشستیں حاصل کر کے واضح برتری حاصل کی جب کہ 13نشستیں دیگر آزاد امیدواروں کو حاصل ہوئیں۔ اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی کامیابی کے ساتھ ہی امریکا اور یورپی یونین کو بہت بڑا دھچکا لگا کہ جنہوں نے پہلے ہی حماس کو دہشت گرد قرار دیا ہوا تھا تا کہ فلسطین کے معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق چلایا جا سکے۔
تاہم عالمی دہشت گرد امریکا اور اس کی حواری یورپی یونین نے فلسطین کو دی جانے والی امداد یہ کہہ کر بند کر دی کہ حماس کو امداد نہیں دی جا سکتی۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکا اور یورپی یونین نے انتخابات کے نتائج کو ماننے سے بھی انکار کر دیا۔ آج تک امریکا اور یورپی یونین نے حماس کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔
البتہ جہاں تک بات تیسرے انتفاضہ کی ہے تو میرا خیال ہے کہ تیسرا انتفاضہ شروع ہو چکا ہے جو اسرائیل کی مکمل نابودی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گا۔ حماس کی انتخابات میں کامیابی ہی فلسطینیوں کے تیسرے انتفاضہ کا آغاز تھا جب کہ اسی طرح بعد میں حماس نے غاصب صیہونی اسرائیل کے حملے کا مقابلہ کیا اور 22 روز تک بھرپور جنگ کے بعد اسرائیل کو بد ترین شکست سے رسوا کرتے ہوئے غزہ سے باہر نکال دیا۔
اسی طرح حماس نے اسرائیلی کمانڈر گیلاد شالیط کو پانچ سال تک اپنے قبضے میں رکھنے کے بعد ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی صیہونی جیلوں سے رہا کروایا۔ گزشتہ دنوں صیہونی ریاست اسرائیل کے سابقہ وزیر اعظم یہود اولمرٹ نے اسرائیلی حکام کو خبر دار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ہم تیسرے انتفاضہ کو دیکھ رہے ہیں اور مجھے نہیں معلوم کہ یہ کس وقت ایک آتش فشاں کے طور پر اسرائیل کو اڑا دے''۔