چلو پھر سے مسکرائیں
عورت کا قصور شاید پانچ فی صد بھی نہ ہو مگر اس ناکردہ گناہی کی سو فی صد سزا صرف اسی کو ملتی ہے۔
خواتین کو آگ یا تیزاب سے جلانے اور ان کے چہروں کو مسخ کرنے کی خبریں پڑھنا، سننا اور ان پر اپنے دلی رنج و غم کا اظہار کرنا اور بات ہے لیکن جب آپ ان مظلوم اور ظلم رسیدہ خواتین سے ملتے ان کو دیکھتے اور ان کی کہانیاں سنتے ہیں تو کبھی کبھی انسانیت سے اعتماد بالکل اٹھ سا جاتا ہے۔ ایسے واقعات کیوں ہوتے ہیں اور ان کی عمومی وجوہات کیا ہیں ان پر نظر ڈالی جائے تو جو چند باتیں بار بار سامنے آتی ہیں وہ کچھ یوں ہیں۔ غربت، جہالت، منشیات، بیروزگاری، زبردستی کی شادی، جہیز کے مسائل اور انتقامی کارروائی۔
اب دیکھا جائے تو ان سب میں عورت کا قصور شاید پانچ فی صد بھی نہ ہو مگر اس ناکردہ گناہی کی سو فی صد سزا صرف اسی کو ملتی ہے۔ چند برس قبل جب ڈیپی لیکس والی مسرت مصباح (جو ایک اعلیٰ انسان، اچھی دوست اور ٹی وی کے حوالے سے پرانی کولیگ ہیں) نے بتایا کہ وہ ان جلائی جانے والی عورتوں کے علاج اور ان کی بحالی کے لیے اپنے ادارے کی طرف سے ایک خصوصی پروگرام پر کام کررہی ہیں تو میرے دل میں ان کی عزت مزید بڑھ گئی لیکن جب میں نے ان کے کام کو قریب سے دیکھا اور سمجھا تو مجھے احساس ہوا کہ وہ اور ان کے ساتھی اپنی شبانہ روز محنت سے وہ فرض ادا کررہے ہیں جو سارے معاشرے کی اجتماعی ذمے داری ہے۔
معلوم ہوا کہ اس طرح کے واقعات کا شکار ہونے والی بیشتر خواتین کا تعلق معاشرے کے غریب طبقات سے ہوتا ہے اور ان کے لواحقین ان کا نفسیاتی تو کیا عام اور ممکنہ علاج بھی کرانے کے قابل نہیں ہوتے کہ اس طرح کی سرجری اصل میں بہت سی سرجریوں کا ایک مجموعہ ہوتی ہے جس کے ماہرین کم اور علاج کا خرچہ بہت زیادہ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ علاج کے بعد بھی ان خواتین کے لیے زندہ رہنے، اپنی محرومیوں کے ساتھ نباہ کرنے اور مستقبل میں خود کفیل ہونے کے ذرایع تقریباً ناپید ہوتے ہیں کہ معاشرہ ان پر رحم تو کھاتا ہے مگر ان کا ہاتھ پکڑنے پر تیار نہیں ہوتا۔
مسرت مصباح کا کمال یہ ہے کہ وہ صرف صاحب دل ہی نہیں بلکہ غیر معمولی انتظامی صلاحیتوں اور ایک ایسے وژن کی بھی حامل ہیں جو بیک وقت کم کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ سو انھوں نے ان خواتین کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کو نفسیاتی سطح پر مضبوط کرنے اور ایسے ہنر سکھلانے کا بھی بندوبست کیا کہ یہ بغیر کسی بیرونی سہارے کے نہ صرف اپنی زندگی گزار سکیں بلکہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی بوجھ کے بجائے ایک مددگار کی حیثیت اختیار کرجائیں۔
اس کا آغاز انھوں نے اپنے گھر سے کیا یعنی ان لڑکیوں کو بیوٹیشن کے کورس کراکے خود اپنے ادارے میں ان کے لیے روزگار مہیا کیا۔ Smile Again ان کی NGO کا نام ہی نہیں ان کا مشن اور فلسفۂ حیات بھی ہے کہ جو ہوگیا وہ ہوگیا اب عمر بھر اس کا ماتم کرنے کے بجائے آگے بڑھو اور زندگی سے اپنا جائز حق محنت اور کوشش کے ساتھ وصول کرو۔ مجھے مسرت مصباح ہی کی معرفت مختلف مواقع پر ان بچیوں سے ملنے اور ان کے خیالات جاننے کا موقع بھی ملا ہے اور مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ انھوں نے اپنے چہروں کے نقش و نگار تو کھوئے ہیں مگر ہمت نہیں ہاری۔ گزشتہ ہفتے ایسی ہی ایک تقریب میں معلوم ہوا کہ اب یہ لڑکیاں پہلے سے بھی زیادہ جوش و جذبے اور لگن کے ساتھ اپنی محرومی کو بھول کر زندگی کی دوڑ میں حصہ لے رہی ہیں۔ ان میں سے چار نے نرسنگ کے کورس مکمل کرلیے ہیں۔ کچھ اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں۔
کچھ کی شادیاں ہوگئی ہیں اور کچھ بیوٹیشن سمیت مختلف ملازمتوں کے ذریعے اپنے پاؤں پر کھڑی ہوچکی ہیں۔ ان کی باڈی لینگوئج کا اعتماد، آوازوں کی کھنک، سیلفیاں اور قہقہے اس بات کا ثبوت تھے کہ انھوں نے اس افسوس ناک معاشرتی جبر سے ہار نہیں مانی جو ان جیسی بہت سی بے گناہ اور نارمل عورتوں سے ان کے چہرے چھین لیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ سوچنے والے ذہنوں اور محسوس کرنے والے دلوں کو یہ احساس بھی دلاتی ہیں کہ ان معاشرتی برائیوں اور معاشی ناہمواریوں کو ختم کیا جائے جو اس طرح کے واقعات کا سبب بنتی ہیں۔ مظلوم کو اس کا حق اور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا بروقت اور بغیر کسی رو رعایت کے ملنی چاہیے اور وہ تمام لوگ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں جو دامے، درمے، قدمے، سخنے ان کی مدد کے لیے آگے بڑھتے ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تمام تر کارہائے زیاں کے باوجود ہمارے معاشرے میں ابھی تک ''احساس زیاں'' باقی ہے اور یہ وہی متاع کارواں ہے جسے علامہ اقبال نے یوں بیان کیا تھا کہ
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
وہ عوامل کیا تھے جن کی وجہ سے ان بچیوں کو ایسی محرومیوں کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ایک طرح سے زندہ درگور ہوگئیں۔ اس پر بھی غورو فکر اور ان کی روک تھام ضروری ہے مگر حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ اس کے باوجود انھوں نے ہار نہیں مانی اور معاشرے میں بھی ایسے لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہیں جو ان کے لیے Smile Again کا ماحول اور گنجائش پیدا کرنے کے لیے تن من دھن سے ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ سو یہ نظم ''چلو پھر سے مسکرائیں'' ان سب کی نذر؎
چلو پھر سے مسکرائیں
دھواں دھواں سے یہ چہرے یہ داغ داغ بدن
کہ جن کے پیچھے شقاوت کی داستانیں ہیں
کہ جن کے آگے گھنی بے کسی کا صحرا ہے
کسی طرف بھی کہیں روشنی کا نام نہیں
افق سے تابہ افق بے کراں اندھیرا ہے
نہ کوئی گھر نہ ٹھکانہ نہ کوئی داد رساں
نہ کوئی راہ نہ منزل نہ حوصلہ نہ امید
اک ایسے موڑ پہ آکر ٹھہر گیا سب کچھ
لگا کہ دہر میں باقی نہیں رہا اب کچھ
خدا کے گھر میں مگر دیر ہے اندھیر نہیں
وہی درخت اگاتا ہے ریگزاروں میں
وہی دلوں میں محبت کے بیج ڈالتا ہے
کہیں سے آتے ہیں کچھ لوگ اس خرابے میں
کہ جن کے پاؤں سے لپٹی بہار آتی ہے
نوید صبح یہ دیتے ہیں غم گزیدوں کو
قرار بانٹتے پھرتے ہیں بے قراروں میں
کچھ اس ادا سے یہ کاندھوں پہ ہاتھ رکھتے ہیں
تھکن سمٹتی ہے، منظر چمکنے لگتے ہیں
جو سب کو راہ دکھائے یہ وہ ستارا ہیں
یہ لوگ رحمت ربی کا استعارا ہیں
سحر میں رنگ بھریں، شب کو جگمگائیں پھر
پیام ان کا ہے آؤ کہ مسکرائیں پھر
اب دیکھا جائے تو ان سب میں عورت کا قصور شاید پانچ فی صد بھی نہ ہو مگر اس ناکردہ گناہی کی سو فی صد سزا صرف اسی کو ملتی ہے۔ چند برس قبل جب ڈیپی لیکس والی مسرت مصباح (جو ایک اعلیٰ انسان، اچھی دوست اور ٹی وی کے حوالے سے پرانی کولیگ ہیں) نے بتایا کہ وہ ان جلائی جانے والی عورتوں کے علاج اور ان کی بحالی کے لیے اپنے ادارے کی طرف سے ایک خصوصی پروگرام پر کام کررہی ہیں تو میرے دل میں ان کی عزت مزید بڑھ گئی لیکن جب میں نے ان کے کام کو قریب سے دیکھا اور سمجھا تو مجھے احساس ہوا کہ وہ اور ان کے ساتھی اپنی شبانہ روز محنت سے وہ فرض ادا کررہے ہیں جو سارے معاشرے کی اجتماعی ذمے داری ہے۔
معلوم ہوا کہ اس طرح کے واقعات کا شکار ہونے والی بیشتر خواتین کا تعلق معاشرے کے غریب طبقات سے ہوتا ہے اور ان کے لواحقین ان کا نفسیاتی تو کیا عام اور ممکنہ علاج بھی کرانے کے قابل نہیں ہوتے کہ اس طرح کی سرجری اصل میں بہت سی سرجریوں کا ایک مجموعہ ہوتی ہے جس کے ماہرین کم اور علاج کا خرچہ بہت زیادہ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ علاج کے بعد بھی ان خواتین کے لیے زندہ رہنے، اپنی محرومیوں کے ساتھ نباہ کرنے اور مستقبل میں خود کفیل ہونے کے ذرایع تقریباً ناپید ہوتے ہیں کہ معاشرہ ان پر رحم تو کھاتا ہے مگر ان کا ہاتھ پکڑنے پر تیار نہیں ہوتا۔
مسرت مصباح کا کمال یہ ہے کہ وہ صرف صاحب دل ہی نہیں بلکہ غیر معمولی انتظامی صلاحیتوں اور ایک ایسے وژن کی بھی حامل ہیں جو بیک وقت کم کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ سو انھوں نے ان خواتین کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کو نفسیاتی سطح پر مضبوط کرنے اور ایسے ہنر سکھلانے کا بھی بندوبست کیا کہ یہ بغیر کسی بیرونی سہارے کے نہ صرف اپنی زندگی گزار سکیں بلکہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی بوجھ کے بجائے ایک مددگار کی حیثیت اختیار کرجائیں۔
اس کا آغاز انھوں نے اپنے گھر سے کیا یعنی ان لڑکیوں کو بیوٹیشن کے کورس کراکے خود اپنے ادارے میں ان کے لیے روزگار مہیا کیا۔ Smile Again ان کی NGO کا نام ہی نہیں ان کا مشن اور فلسفۂ حیات بھی ہے کہ جو ہوگیا وہ ہوگیا اب عمر بھر اس کا ماتم کرنے کے بجائے آگے بڑھو اور زندگی سے اپنا جائز حق محنت اور کوشش کے ساتھ وصول کرو۔ مجھے مسرت مصباح ہی کی معرفت مختلف مواقع پر ان بچیوں سے ملنے اور ان کے خیالات جاننے کا موقع بھی ملا ہے اور مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ انھوں نے اپنے چہروں کے نقش و نگار تو کھوئے ہیں مگر ہمت نہیں ہاری۔ گزشتہ ہفتے ایسی ہی ایک تقریب میں معلوم ہوا کہ اب یہ لڑکیاں پہلے سے بھی زیادہ جوش و جذبے اور لگن کے ساتھ اپنی محرومی کو بھول کر زندگی کی دوڑ میں حصہ لے رہی ہیں۔ ان میں سے چار نے نرسنگ کے کورس مکمل کرلیے ہیں۔ کچھ اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں۔
کچھ کی شادیاں ہوگئی ہیں اور کچھ بیوٹیشن سمیت مختلف ملازمتوں کے ذریعے اپنے پاؤں پر کھڑی ہوچکی ہیں۔ ان کی باڈی لینگوئج کا اعتماد، آوازوں کی کھنک، سیلفیاں اور قہقہے اس بات کا ثبوت تھے کہ انھوں نے اس افسوس ناک معاشرتی جبر سے ہار نہیں مانی جو ان جیسی بہت سی بے گناہ اور نارمل عورتوں سے ان کے چہرے چھین لیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ سوچنے والے ذہنوں اور محسوس کرنے والے دلوں کو یہ احساس بھی دلاتی ہیں کہ ان معاشرتی برائیوں اور معاشی ناہمواریوں کو ختم کیا جائے جو اس طرح کے واقعات کا سبب بنتی ہیں۔ مظلوم کو اس کا حق اور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا بروقت اور بغیر کسی رو رعایت کے ملنی چاہیے اور وہ تمام لوگ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں جو دامے، درمے، قدمے، سخنے ان کی مدد کے لیے آگے بڑھتے ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تمام تر کارہائے زیاں کے باوجود ہمارے معاشرے میں ابھی تک ''احساس زیاں'' باقی ہے اور یہ وہی متاع کارواں ہے جسے علامہ اقبال نے یوں بیان کیا تھا کہ
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
وہ عوامل کیا تھے جن کی وجہ سے ان بچیوں کو ایسی محرومیوں کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ایک طرح سے زندہ درگور ہوگئیں۔ اس پر بھی غورو فکر اور ان کی روک تھام ضروری ہے مگر حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ اس کے باوجود انھوں نے ہار نہیں مانی اور معاشرے میں بھی ایسے لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہیں جو ان کے لیے Smile Again کا ماحول اور گنجائش پیدا کرنے کے لیے تن من دھن سے ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ سو یہ نظم ''چلو پھر سے مسکرائیں'' ان سب کی نذر؎
چلو پھر سے مسکرائیں
دھواں دھواں سے یہ چہرے یہ داغ داغ بدن
کہ جن کے پیچھے شقاوت کی داستانیں ہیں
کہ جن کے آگے گھنی بے کسی کا صحرا ہے
کسی طرف بھی کہیں روشنی کا نام نہیں
افق سے تابہ افق بے کراں اندھیرا ہے
نہ کوئی گھر نہ ٹھکانہ نہ کوئی داد رساں
نہ کوئی راہ نہ منزل نہ حوصلہ نہ امید
اک ایسے موڑ پہ آکر ٹھہر گیا سب کچھ
لگا کہ دہر میں باقی نہیں رہا اب کچھ
خدا کے گھر میں مگر دیر ہے اندھیر نہیں
وہی درخت اگاتا ہے ریگزاروں میں
وہی دلوں میں محبت کے بیج ڈالتا ہے
کہیں سے آتے ہیں کچھ لوگ اس خرابے میں
کہ جن کے پاؤں سے لپٹی بہار آتی ہے
نوید صبح یہ دیتے ہیں غم گزیدوں کو
قرار بانٹتے پھرتے ہیں بے قراروں میں
کچھ اس ادا سے یہ کاندھوں پہ ہاتھ رکھتے ہیں
تھکن سمٹتی ہے، منظر چمکنے لگتے ہیں
جو سب کو راہ دکھائے یہ وہ ستارا ہیں
یہ لوگ رحمت ربی کا استعارا ہیں
سحر میں رنگ بھریں، شب کو جگمگائیں پھر
پیام ان کا ہے آؤ کہ مسکرائیں پھر