عقل اور وجدان کی تحدید اور عدم تحدید پہلا حصہ
عقل جب بھی ایسی کسی تحقیق کے عمل سے گزرتی ہے تو اپنا آغاز اسی ’کل‘ سے کرتی ہے۔
تقابل عقل و وجدان مغربی فلسفے کا ایک اہم موضوع رہا ہے، جس پر مختلف فلسفیوں نے مباحث اٹھائے۔ کلاسیکی جرمن فلسفے میں وجدان کو عقل کی ابتدائی صلاحیت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ تاہم وہ مذہب پرست جن کا فلسفے سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے وہ وجدان کو محض ''مذہبی تجربے'' کی تصدیق کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس 'تصدیق' کا بہرحال ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ کوئی مذہبی تجربہ پسند کسی دوسرے مذہبی تجربہ پسند کو کب غلط کہہ اٹھے اس کے لیے کسی بھی طرح کی دلیل کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ایک دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ ''مذہبی تجربے'' ناقابل ابلاغ ہے۔ حتیٰ کہ وہ وجدان جو مذہبی تجربے کے عمل سے گزرنے کا دعویٰ کرتا ہے اس میں بھی اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اپنے ہی تجربے کو بیان کر سکے۔
اس طرح وجدان کی نفی کے لیے فقط عقل کا ہونا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ وجدان کے اندر ہی اس کی معذوری کے تمام پہلو موجود ہوتے ہیں۔ دوسری جانب وہ منطقی، تعقلی طریقہ کار ہے جس کے تحت اس کل، لامتناہی، تجریدی کی ماہیت کو معلوم کرنے کی خاطر اس کے تجزیے کا آغاز کردیا جاتا ہے۔ عقل جب بھی ایسی کسی تحقیق کے عمل سے گزرتی ہے تو اپنا آغاز اسی 'کل' سے کرتی ہے۔
عقل اس 'کل' کی نفی ہرگز نہیں کرتی۔ نفی اس مفہوم میں کہ اس شے، وجود کو یکسر مسترد کردیا جائے۔ منطقی نفی کی نوعیت جدلیاتی ہوتی ہے جس کے تحت وہ وجود، شے ہی ہے جو عقل کے احاطے میں آتی ہے۔ ان معنوں میں 'کل' کسی جزو سے باہر نہیں رہتا، بلکہ اس جزو میں اپنا اظہار کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جسے جرمن فلسفے میں انتہائی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے سمیٹ لیا گیا تھا۔ یعنی عقل و وجدان کے ایک دوسرے کے مخالف کے طور پر نہیں، بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ علامہ محمد اقبال نے امام غزالی پر جو تنقید کی تھی اس میں عقل و وجدان کے اسی پہلو کو سامنے رکھا گیا تھا۔ اقبال لکھتے ہیں:
''غزالی کو تجزیاتی فکر میں امید کی کوئی کرن نظر نہ آئی، اس نے اپنا رخ صوفیانہ تجربے کی جانب موڑ لیا اور یہاں اس نے مذہب کے لیے خودمختار مافیہا دریافت کرلیا۔ اس طریقے سے وہ سائنس اور مابعدالطبیعات سے آزاد مذہب کے لیے حق محفوظ کرنے میں کامیاب رہا۔ لیکن کلی لامتناہی کے مذہبی تجربے میں انکشاف نے اسے فکر کی تحدید اور اس کے غیر قاطع ہونے کا قائل کردیا، جو اس کے لیے فکر اور وجدان کے درمیان حد فاصل کھینچنے کا محرک بنا۔ وہ یہ دیکھنے میں ناکام رہا کہ فکر اور وجدان نامیاتی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور سلسلہ وار زمان سے تعلق کی وجہ سے فکر کو لازمی طور پر تحدید اور غیر قطعیت کو تحریک دینی ہے۔''
اقبال کا یہ اقتباس غزالی کا محض اس بنا پر ابظال کا دعویٰ کرتا ہے کہ غزالی نے فکر اور وجدان کے درمیان حدِ فاصل قائم کردی۔ حدِ فاصل سے مراد یہ کہ دونوں کی اپنی اپنی حدود ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے تفاعل میں کوئی مداخلت نہیں کرتے۔ مذہبی تجربے کی بنیاد چونکہ وجدان پر ہے کہ عمل یا فکر جس کی حدود کو چھو نہیں سکتی۔ کیونکہ تجزیاتی طریقہ کار میں بے شک لامتناہی سے بھی آغاز کرلیا جائے، اس کے باوجود تجزیے میں اس کو ایک بار متناہی کی سطح پر آنا پڑتا ہے۔
بجائے اس کے کہ غزالی لامتناہیت کو متناہی کی سطح پر منطقی نقطہ نظر سے لاتے، انھوں نے لامتناہیت کی تجریدی حیثیت میں ہی پناہ لینا ضروری سمجھا۔ جب منطقی طریقہ کار کو ہی رد کردیا جائے، تو پھر اس ''باطنی تجربے'' پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے، جس کی خارجی سطح پر تصدیق ممکن نہیں ہوتی۔ اقبال نے اگرچہ عقل کی کئی جگہوں پر تحقیر کی ہے، تاہم تیسرے لیکچر میں وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مذہبی تجربے کی بنیاد پر جس نظریے کو محض فرض کیا گیا تھا، وہ عقل کے امتحان پر پورا اترتا ہے۔ اقبال چونکہ تجزیاتی طریقہ کار کو علمی ترقی کے لیے بھی ضروری خیال کرتے تھے، اس لیے غزالی پر ان کی تنقید ضروری تھی۔
اس کے علاوہ اقبال چونکہ ثنویت کے فلسفے کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے، اس لیے عقل و وجدان کے درمیان حتمی تفریق ان کی اپنی فکر کو ثنویت میں دھکیل دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا دعویٰ ہے کہ فکر اور وجدان کے درمیان کوئی حتمی علیحدگی نہیں ہے۔ اعتراض بہرحال یہ اٹھتا ہے کہ اگر فکر اور وجدان ایک دوسرے سے متماثل ہیں، اور ان کے درمیان ایسی کوئی حتمی تفریق نہیں ہے جو وجدان کو فکر پر برتری دلا سکے تو پھر فکر، خیال یا عقل کی تحقیر کی بھی کوئی بنیاد نہیں ہے! یہ کہنا کہ عقل ''مطلق حقیقت'' کی لامتناہیت تک مکمل رسائی حاصل نہیں کرپاتی باطل محض ہے، اور اگر فکر ''مطلق حقیقت'' تک اس کی کلیت میں رسائی حاصل نہیں کرپاتی تو پھر فکر اور وجدان ایک دوسرے سے متماثل کیسے ہوگئے؟ متماثل ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ کلیت میں ہر جزو اس کل کا ہی متماثل ہے۔ اگر کچھ ایسا باقی موجود ہے جس پر صرف وجدان ہی گرفت کرسکتا ہے تو پھر اقبال پر بھی وہی تنقید صادق آتی ہے، جو انھوں نے غزالی پر کی ہے۔ اقبال کے یہ الفاظ ملاحظہ کریں:
''اس خیال کہ فکر اساسی طور پر متناہی ہے، اور اس وجہ سے لامتناہی پر گرفت کرنے کے قابل نہیں ہے، کی بنیاد علم کے حوالے سے فکر کی تحریک کے ایک باطل تصور پر ہے۔''
مطلب یہ ہوا کہ فکر بھی لامتناہی تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔ لیکن اگلے ہی لمحے حیرت کی انتہا نہیں رہتی جونہی نظر ان کے اس اقتبا س پر رکتی ہے۔ لکھتے ہیں کہ
''یہ منطقی فہم کا نقص ہے کہ جو باہمی متزاحم انفرادیتوں کی کثرت کی وحدت میں قطعی تخفیف کے امکان کو نہیں دیکھتا جو ہمیں فکر کی قطعیت کے بارے میں تشکیک میں مبتلا کردیتا ہے۔''
بنیادی بات یہ ہے کہ منطقی طریقہ کار کو اس کا 'نقص' کہنا ہی 'غلط' ہے۔ اس کا واضح مفہوم یہ نکلتا ہے کہ منطقی طریقہ کار سے غیر منطقی طریقہ کار کی توقع کی جارہی ہے۔ یعنی منطقی طریقہ ایک ایسے طریقہ کو اختیار کرلے کہ جس کی وجہ سے منطقی طریقہ کار کی اپنی شناخت قائم ہوتی ہے۔ اس پر بھی مستزاد یہ کہ یہ کس اصول کے تحت تصور کرلیا گیا ہے کہ یہ منطقی طریقہ کار کا 'نقص' ہے؟ بغیر کسی بھی طرح کی دلیل کے 'نقص' اور 'خوبی' کا تعین کبھی بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیا 'نقص' اور خوبی کا تعین کسی غیر منطقی طریقہ کار کے تحت ہوگا؟ اگر ایسا ہی ہونا ہے تو یہ کیونکر تسلیم کرلیا جائے کہ غیر منطقی طریقہ کار تمام 'نقائص' سے ماورا ہے اور غیر منطقی طریقہ کار کے پاس ایسا کیا ہے کہ جس کے تحت وہ 'نقص' کا تعین کرتا ہے؟ ذاتی خواہش کو دلیل پر کبھی بھی فوقیت نہیں دی جاسکتی۔
اور نہ ہی فقط مابعدالطبیعاتی قضایا کی موضوعی تصدیق کے لیے اعلیٰ اور ادنیٰ کا تعین ہی کیا جاسکتا ہے۔ مذہبی ذہن کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس کے پیروکار بہت جلد 'صحیح' اور 'غلط' کا تعین کرلیتے ہیں۔ غلط اور صحیح کا یہ تعین کسے شے کے صحیح یا غلط ہونے کی وجہ سے نہیں کیا جاتا، بلکہ اس تعین کو پہلے سے متصورہ چند اصولوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ جہاں تک دلیل کا تعلق ہے تو اس کا سہارا لینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ غیر منطقی کو فارغ کیا جارہا ہے۔ منطقی طریقہ کار انسان کی صدیوں کی ذہنی و فکری مشق کا ماحصل ہے۔ اس میں اگر تضادات یا شگاف باقی رہتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں نکلتا کہ اس طریقہ کار سے دست بردار ہوکر کسی غیر منطقی، غیر تعقلی طریقہ کار کو اختیار کرلیا جائے، بلکہ اس کے اندر کے تضاد یا شگاف کو اسی منطقی طریقہ کار کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے ختم کرنے کی کوشش کی جائے، اس طریقہ کار میں توسیع کی جائے۔
(جاری ہے)
اس طرح وجدان کی نفی کے لیے فقط عقل کا ہونا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ وجدان کے اندر ہی اس کی معذوری کے تمام پہلو موجود ہوتے ہیں۔ دوسری جانب وہ منطقی، تعقلی طریقہ کار ہے جس کے تحت اس کل، لامتناہی، تجریدی کی ماہیت کو معلوم کرنے کی خاطر اس کے تجزیے کا آغاز کردیا جاتا ہے۔ عقل جب بھی ایسی کسی تحقیق کے عمل سے گزرتی ہے تو اپنا آغاز اسی 'کل' سے کرتی ہے۔
عقل اس 'کل' کی نفی ہرگز نہیں کرتی۔ نفی اس مفہوم میں کہ اس شے، وجود کو یکسر مسترد کردیا جائے۔ منطقی نفی کی نوعیت جدلیاتی ہوتی ہے جس کے تحت وہ وجود، شے ہی ہے جو عقل کے احاطے میں آتی ہے۔ ان معنوں میں 'کل' کسی جزو سے باہر نہیں رہتا، بلکہ اس جزو میں اپنا اظہار کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جسے جرمن فلسفے میں انتہائی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے سمیٹ لیا گیا تھا۔ یعنی عقل و وجدان کے ایک دوسرے کے مخالف کے طور پر نہیں، بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ علامہ محمد اقبال نے امام غزالی پر جو تنقید کی تھی اس میں عقل و وجدان کے اسی پہلو کو سامنے رکھا گیا تھا۔ اقبال لکھتے ہیں:
''غزالی کو تجزیاتی فکر میں امید کی کوئی کرن نظر نہ آئی، اس نے اپنا رخ صوفیانہ تجربے کی جانب موڑ لیا اور یہاں اس نے مذہب کے لیے خودمختار مافیہا دریافت کرلیا۔ اس طریقے سے وہ سائنس اور مابعدالطبیعات سے آزاد مذہب کے لیے حق محفوظ کرنے میں کامیاب رہا۔ لیکن کلی لامتناہی کے مذہبی تجربے میں انکشاف نے اسے فکر کی تحدید اور اس کے غیر قاطع ہونے کا قائل کردیا، جو اس کے لیے فکر اور وجدان کے درمیان حد فاصل کھینچنے کا محرک بنا۔ وہ یہ دیکھنے میں ناکام رہا کہ فکر اور وجدان نامیاتی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور سلسلہ وار زمان سے تعلق کی وجہ سے فکر کو لازمی طور پر تحدید اور غیر قطعیت کو تحریک دینی ہے۔''
اقبال کا یہ اقتباس غزالی کا محض اس بنا پر ابظال کا دعویٰ کرتا ہے کہ غزالی نے فکر اور وجدان کے درمیان حدِ فاصل قائم کردی۔ حدِ فاصل سے مراد یہ کہ دونوں کی اپنی اپنی حدود ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے تفاعل میں کوئی مداخلت نہیں کرتے۔ مذہبی تجربے کی بنیاد چونکہ وجدان پر ہے کہ عمل یا فکر جس کی حدود کو چھو نہیں سکتی۔ کیونکہ تجزیاتی طریقہ کار میں بے شک لامتناہی سے بھی آغاز کرلیا جائے، اس کے باوجود تجزیے میں اس کو ایک بار متناہی کی سطح پر آنا پڑتا ہے۔
بجائے اس کے کہ غزالی لامتناہیت کو متناہی کی سطح پر منطقی نقطہ نظر سے لاتے، انھوں نے لامتناہیت کی تجریدی حیثیت میں ہی پناہ لینا ضروری سمجھا۔ جب منطقی طریقہ کار کو ہی رد کردیا جائے، تو پھر اس ''باطنی تجربے'' پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے، جس کی خارجی سطح پر تصدیق ممکن نہیں ہوتی۔ اقبال نے اگرچہ عقل کی کئی جگہوں پر تحقیر کی ہے، تاہم تیسرے لیکچر میں وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مذہبی تجربے کی بنیاد پر جس نظریے کو محض فرض کیا گیا تھا، وہ عقل کے امتحان پر پورا اترتا ہے۔ اقبال چونکہ تجزیاتی طریقہ کار کو علمی ترقی کے لیے بھی ضروری خیال کرتے تھے، اس لیے غزالی پر ان کی تنقید ضروری تھی۔
اس کے علاوہ اقبال چونکہ ثنویت کے فلسفے کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے، اس لیے عقل و وجدان کے درمیان حتمی تفریق ان کی اپنی فکر کو ثنویت میں دھکیل دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا دعویٰ ہے کہ فکر اور وجدان کے درمیان کوئی حتمی علیحدگی نہیں ہے۔ اعتراض بہرحال یہ اٹھتا ہے کہ اگر فکر اور وجدان ایک دوسرے سے متماثل ہیں، اور ان کے درمیان ایسی کوئی حتمی تفریق نہیں ہے جو وجدان کو فکر پر برتری دلا سکے تو پھر فکر، خیال یا عقل کی تحقیر کی بھی کوئی بنیاد نہیں ہے! یہ کہنا کہ عقل ''مطلق حقیقت'' کی لامتناہیت تک مکمل رسائی حاصل نہیں کرپاتی باطل محض ہے، اور اگر فکر ''مطلق حقیقت'' تک اس کی کلیت میں رسائی حاصل نہیں کرپاتی تو پھر فکر اور وجدان ایک دوسرے سے متماثل کیسے ہوگئے؟ متماثل ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ کلیت میں ہر جزو اس کل کا ہی متماثل ہے۔ اگر کچھ ایسا باقی موجود ہے جس پر صرف وجدان ہی گرفت کرسکتا ہے تو پھر اقبال پر بھی وہی تنقید صادق آتی ہے، جو انھوں نے غزالی پر کی ہے۔ اقبال کے یہ الفاظ ملاحظہ کریں:
''اس خیال کہ فکر اساسی طور پر متناہی ہے، اور اس وجہ سے لامتناہی پر گرفت کرنے کے قابل نہیں ہے، کی بنیاد علم کے حوالے سے فکر کی تحریک کے ایک باطل تصور پر ہے۔''
مطلب یہ ہوا کہ فکر بھی لامتناہی تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔ لیکن اگلے ہی لمحے حیرت کی انتہا نہیں رہتی جونہی نظر ان کے اس اقتبا س پر رکتی ہے۔ لکھتے ہیں کہ
''یہ منطقی فہم کا نقص ہے کہ جو باہمی متزاحم انفرادیتوں کی کثرت کی وحدت میں قطعی تخفیف کے امکان کو نہیں دیکھتا جو ہمیں فکر کی قطعیت کے بارے میں تشکیک میں مبتلا کردیتا ہے۔''
بنیادی بات یہ ہے کہ منطقی طریقہ کار کو اس کا 'نقص' کہنا ہی 'غلط' ہے۔ اس کا واضح مفہوم یہ نکلتا ہے کہ منطقی طریقہ کار سے غیر منطقی طریقہ کار کی توقع کی جارہی ہے۔ یعنی منطقی طریقہ ایک ایسے طریقہ کو اختیار کرلے کہ جس کی وجہ سے منطقی طریقہ کار کی اپنی شناخت قائم ہوتی ہے۔ اس پر بھی مستزاد یہ کہ یہ کس اصول کے تحت تصور کرلیا گیا ہے کہ یہ منطقی طریقہ کار کا 'نقص' ہے؟ بغیر کسی بھی طرح کی دلیل کے 'نقص' اور 'خوبی' کا تعین کبھی بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیا 'نقص' اور خوبی کا تعین کسی غیر منطقی طریقہ کار کے تحت ہوگا؟ اگر ایسا ہی ہونا ہے تو یہ کیونکر تسلیم کرلیا جائے کہ غیر منطقی طریقہ کار تمام 'نقائص' سے ماورا ہے اور غیر منطقی طریقہ کار کے پاس ایسا کیا ہے کہ جس کے تحت وہ 'نقص' کا تعین کرتا ہے؟ ذاتی خواہش کو دلیل پر کبھی بھی فوقیت نہیں دی جاسکتی۔
اور نہ ہی فقط مابعدالطبیعاتی قضایا کی موضوعی تصدیق کے لیے اعلیٰ اور ادنیٰ کا تعین ہی کیا جاسکتا ہے۔ مذہبی ذہن کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس کے پیروکار بہت جلد 'صحیح' اور 'غلط' کا تعین کرلیتے ہیں۔ غلط اور صحیح کا یہ تعین کسے شے کے صحیح یا غلط ہونے کی وجہ سے نہیں کیا جاتا، بلکہ اس تعین کو پہلے سے متصورہ چند اصولوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ جہاں تک دلیل کا تعلق ہے تو اس کا سہارا لینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ غیر منطقی کو فارغ کیا جارہا ہے۔ منطقی طریقہ کار انسان کی صدیوں کی ذہنی و فکری مشق کا ماحصل ہے۔ اس میں اگر تضادات یا شگاف باقی رہتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں نکلتا کہ اس طریقہ کار سے دست بردار ہوکر کسی غیر منطقی، غیر تعقلی طریقہ کار کو اختیار کرلیا جائے، بلکہ اس کے اندر کے تضاد یا شگاف کو اسی منطقی طریقہ کار کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے ختم کرنے کی کوشش کی جائے، اس طریقہ کار میں توسیع کی جائے۔
(جاری ہے)