زمین سے باہر بھی سات ’عجوبے‘ دریافت

ایک ہی نظام شمسی میں موجود سیارے زمین سے مشابہ ہیں۔

ماہرین نودریافت شدہ نظام شمسی پر تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فوٹو : فائل

حضرت انسان کو یقین ہے کہ اس جہان فانی میں وہ تنہا نہیں ۔ خلائے بسیط میں کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی سیارے پر زندگی ضرور وجود رکھتی ہے جسے اس نے ''خلائی مخلوق'' کا نام دے رکھا ہے۔

اس تصور کو ابتداً قصے کہانیوں اور ناولوں میں تحریری طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ پھر گذشتہ صدی میں اظہار کے بصری ذرائع دست یاب ہوجانے کے بعد فلموں اور ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں خلائی مخلوق کو مختلف اشکال میں دکھایا جاتا رہا۔

تجسس، انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ خلائی مخلوق کے بارے میں بھی انسان ہمیشہ سے متجسس رہا ہے۔ پھر جب سائنس اور ٹیکنالوجی کی سیڑھی میسر آئی تو اسی جذبے کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ خلائی مخلوق کو کھوجنے کے لیے عملی اقدامات کرنے لگا۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا بھر سے خلائی مخلوق اور اڑن طشتریاں دیکھے جانے کے دعوے ذرائع ابلاغ کی زینت بنتے رہتے تھے۔ اس نوع کی خبروں کے تسلسل نے ان دیکھی مخلوق کے بارے میں عالمی سطح پر ایک فضا سی قائم کردی تھی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں اقوام عالم پر برتری رکھنے والے ممالک کے درمیان خلائی مخلوق کی حقیقت جاننے اور اس تک رسائی حاصل کرنے کے ضمن میں بھی باقاعدہ دوڑ شروع ہوگئی اور اس مقصد کے لیے ادارے اور شعبے قائم کردیے گئے۔

ابتدائی طور پر خلائی مخلوق سے رابطہ کرنے کی غرض سے کرۂ ارض کی حدود سے باہر اشارات (سگنل ) بھیجے گئے۔ نیز خلا سے ( متوقع) اشارات وصول کرنے کے لیے جدید آلات بنائے اور نصب کیے گئے، مگر یہ کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکیں۔ اسی دوران انسان نے خلائی جہاز روانہ کرنے میں کام یابی حاصل کرلی۔ سائنس دانوں کا خیال تھا کہ مریخ پر زندگی پائی جاسکتی ہے کیوں کہ زمین کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے اس کے طبعی حالات کرۂ ارض سے مشابہ ہوسکتے ہیں۔ چناں چہ مریخ کی جانب اولین تحقیقی خلائی جہاز 1971ء میں بھیجا گیا۔ اسی برس چار مزید خلائی جہاز سیارے کی جانب روانہ کیے گئے۔

پینتالیس برس گزر جانے کے باوجود مریخ، جسے اس کی رنگت کے باعث سُرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے، سائنس دانوں کی خصوصی توجہ کا مرکز چلا آرہا ہے۔ آج بھی اس کی سرزمین پر اور مدار میں کئی خلائی تحقیقی جہاز اور گاڑیاں موجود ہیں۔



1992ء میں نظام شمسی سے باہر جب پہلے سیارے ( exoplanet ) کی دریافت عمل میں آئی تو ماہرین فلکیات کی توجہ دوسرے سیاروں کی جانب مبذول ہوئی۔ رفتہ رفتہ بیرونی سیاروں ( exoplanets) کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ ان میں سے بعض سیارے ایسے تھے جو جسامت، اجزائے ترکیبی اور دوسرے طبعی خواص میں زمین سے کسی حد تک مشابہت لیے ہوئے تھے۔ ان کی دریافت کے بعد سائنس دانوں کو خیال آیا کہ مریخ کے ساتھ ساتھ زمین سے مشابہ سیاروں پر بھی توجہ دی جائے کیوں کہ ان کے خیال میں زندگی کسی ایسے سیارے ہی پر پنپ سکتی ہے جس کے طبعی خواص زمین سے مشابہ ہوں یعنی یہ چٹانی سیارہ ہو، درجۂ حرارت موزوں ہو اور وہاں پانی بھی رواں رہتا ہو۔

چناں چہ سائنس داں نودریافت شدہ سیاروں میں سے ان پر خصوصی توجہ دینے لگے جو habitable-zone میں واقع تھے۔ habitable-zone سے مراد کسی ستارے کے گرد وہ علاقہ ہے جس میں محو گردش چٹانی سیاروں پر پانی کی مائع شکل میں موجودگی کا امکان ہوسکتا ہے۔

رُبع صدی کے دوران تین ہزار سے زائد بیرونی سیارے دریافت ہوچکے ہیں۔ ان میں سے کئی زمین سے مشابہ ہیں۔ حال ہی میں امریکا کی نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) نے مزید سات سیارے دریافت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کی خاصیت یہ ہے کہ تمام سیارے ایک ہی شمسی نظام کا حصہ ہیں۔ زمین کے تقریباً مساوی جسامت رکھنے والے سیارے ایک ہی ستارے کے گرد محوگردش ہیں۔


فلکیات کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب ایک ہی نظام شمسی میں زمین سے مشابہ سات سیارے دریافت ہوئے ہوں۔ اسی لیے انھیں ' سات عجوبے' بھی کہا جارہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تمام سیارے اپنے سورج سے اتنے فاصلے پر ہیں کہ ان کے طبعی حالات زندگی کی نمو کے لیے موزوں ہوسکتے ہیں۔ بالخصوص تین سیاروں پر پانی کی موجودگی کا قوی امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

ناسا کے واشنگٹن میں واقع سائنس مشن ڈائریکٹوریٹ کے ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر تھامس زُربوچین کہتے ہیں کہ ہم طویل عرصے سے اس سوال کا جواب تلاش رہے ہیں کہ کیا اس کائنات میں ہم اکیلے ہیں؟ حالیہ دریافت اس دیرینہ سوال کا جواب کھوجنے کی جانب اہم پیش رفت ہے۔

بیرونی سیاروں کا یہ نظام ابتدائی طور پر چلی میں نصب Transiting Planets and Planetesimals Small Telescopeکی مدد سے دریافت کیا گیا ہے۔ اسی دوربین کی مناسبت سے ماہرین فلکیات نے اس نظام کو TRAPPIST-1کا نام دیا ہے۔ اس دریافت میں کئی اور دوربینوں سے بھی مدد لی گئی ان میں یورپین سدرن آبزرویٹری کی 'ویری لارج ٹیلی اسکوپ' اور اسپٹزر شامل ہیں۔ TRAPPISTنے دو سیارے دریافت کیے تھے۔ اسپٹزر نے ان کی تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ مزید پانچ سیاروں کی موجودگی کا سراغ دیا۔ یوں سیاروں کی مجموعی تعداد سات تک پہنچ گئی۔

نودریافت شدہ شمسی نظام زمین سے چالیس نوری سال (235 کھرب میل) کے فاصلے پر واقع اور Aquarius نامی کہکشاں کا جزو ہے۔ یوں ہمارے سولر سسٹم سے یہ نظام، قبل ازیں دریافت ہونے والے شمسی نظاموں کی نسبت قدرے قریب ہے۔

اسپٹزر دوربین سے حاصل کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر ناسا کے ماہرین فلکیات کی ٹیم نے ساتوں سیاروں کی جسامت کی پیمائش اور پھر ان میں سے چھے کی کمیت اور کثافت بھی معلوم کرلی۔ کثافت کے پیش نظر سیاروں کے چٹانی ہونے کا امکان قوی ہے۔ سائنس داں تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے یہ معلوم ہوسکے گا کہ نودریافت شدہ اجرام فلکی کی سرزمین پر پانی رواں ہے یا نہیں۔ ساتواں سیارہ جس کی کمیت ہنوز نامعلوم ہے، اس کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہ آخری سیارہ برفانی ہوسکتا ہے۔ تاہم اسے حتمی طور پر برفانی دنیا قرار دینے کے لیے مزید تحقیق درکار ہے۔



عطارد، سورج سے جتنے فاصلے پر ہے 'سات عجوبوں' کی اپنے سورج سے دوری اس سے بھی کم ہے۔ اس کے باوجود یہاں حیات کی نمو کے لیے حالات سازگار ہوسکتے ہیں۔ اس کے برعکس عطارد سورج سے قریب ترین ہونے کے باعث آگ کا گولا ہے۔ جہاں دن میں درجۂ حرارت 427 ڈگری سیلسیئس تک پہنچ جاتا ہے۔ ساتوں سیاروں پر درجۂ حرارت معتدل ہونے کا سبب یہ ہے کہ یہ جس ستارے کے گرد محوگردش ہیں، وہ ہمارے سورج کے مقابلے میں سرد ہے۔ اس کی سطح پر درجۂ حرارت سورج سے کئی گنا کم ہے۔ یہی سبب ہے کہ سیاروں کی بہت کم دوری پر موجودگی کے باوجود ان کا اوسط درجۂ حرارت معتدل ہے۔

نودریافت شدہ سیاروں کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اپنے سورج سے قریب ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا باہمی فاصلہ بھی بہت مختصر ہے۔ یہ ایک دوسرے کے کتنے قریب ہیں، اس امر کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ایک سیارے کی سطح پر کھڑے ہوکر نظر اٹھائیں تو دوسرے سیارے کی فضا میں تیرتے بادل (اگر ہوئے) بہ آسانی دکھائی دے جائیں گے۔

ناسا کے ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر 'سات عجوبوں' کا گردشی زاویہ کچھ اس طرح کا ہے کہ ان کا ایک حصہ ہمیشہ سورج کی جانب رہتا ہے۔ یعنی ان کے نصف حصے پر ہمیشہ دن اور نصف پر رات رہتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہاں موسم، زمین کے موسموں سے یکسر مختلف ہوں گے۔ روشن نصف کرّے سے تاریک نصف کرّے کی جانب طوفانی رفتار سے ہوائیں چلتی ہوں گی اور درجۂ حرارت میں یکلخت بہت زیادہ تبدل در آتا ہوگا۔

ماہرین نودریافت شدہ نظام شمسی پر تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انھیں سات ' عجوبوں' سے جُڑی مزید اہم اور دل چسپ معلومات سامنے آنے کی قوی امید ہے جو ان انوکھی دنیاؤں میں زندگی کے وجود یا عدم موجودگی کا پتا دیں گی۔
Load Next Story