کرکٹ پچ کو سیاسی اکھاڑہ نہ بنائیں
وقت آ چکا کہ سب کو اختلافات بھلا کر فائنل کے کامیاب انعقاد کیلیے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔
WASHINGTON:
اچھی خاصی پی ایس ایل چل رہی تھی کہ فائنل کا وقت قریب آ گیا، لاہور میں میچ کا اعلان تو پی سی بی نے کافی عرصے قبل ہی کر دیا تھا مگر لوگ اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے، عام تاثر یہ تھا کہ فائنل سے چند روز پہلے دبئی میں ہی انعقادکا فیصلہ کر لیا جائے گا مگر ایسا نہ ہوا، لہذا اب یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کرکٹ میچ نہیں کوئی سیاسی دنگل ہو رہا ہے، ہر کوئی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں مصروف ہے، سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا فائنل لاہور میں ہونا چاہیے، اس میں کئی باتیں غور طلب ہیں، گزشتہ ماہ لاہور سمیت بعض شہروں میں دہشت گردی کے جو واقعات ہوئے ان سے قبل تک تو ایسا لگ رہا تھا کہ ملکی حالات اب خاصے بہتر ہو چکے میچ میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی ، مگر اب خدشات بڑھ چکے ہیں۔
پی ایس ایل اب ایک برانڈ بننے جا رہی ہے، اسی لیے آغاز سے مسائل کا شکار ہوئی، پہلے فکسنگ تنازع سامنے آیا پھر اچانک ملک بھر میں دھماکے شروع ہو گئے، یقیناً ملک دشمن عناصر نہیں چاہتے کہ پاکستان کا دنیا میں سافٹ امیج سامنے آئے، گوکہ حکومت و سیکیورٹی فورسز کی پوری کوشش اور امید ہے کہ وہ میچ کا پُرامن انعقاد بھی کرادیں گی مگر سیکیورٹی خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ایسے میں آپریشن ردالفساد کے نتائج کا انتظار کرتے ہوئے اگر کچھ عرصے بعد کوئی میچ کرایا جاتا تو زیادہ مناسب رہتا، اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ شائقین ملک میں اچھی کرکٹ دیکھنے کو ترسے ہوئے ہیں، کب تک انھیں ڈر کر میچز سے محروم رکھا جائے گا، مجھے یقین ہے کہ اتوار کو قذافی اسٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہو گا، خواتین اور بچے بھی مردوں کے ساتھ اسٹیڈیم آ کر ثابت کریں گے کہ وہ کسی خوف کا شکار ہو کر گھروں میں دبک کر نہیں بیٹھیں گے، مگر انھیں سیکیورٹی بھی ایسی فراہم کرنا ہوگی کہ دنیا مثالیں دے، یاد رکھیں خدانخواستہ کوئی معمولی سا واقعہ بھی ہو گیا تو مزید 20 سال کرکٹ کی واپسی کو بھولنا پڑے گا، اسی لیے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
اب یہ صرف کرکٹ میچ نہیں رہا قومی وقار کا معاملہ بن چکا ہے، مگر سیاستدان یہ بھول رہے ہیں، اس باہمی چپقلش کا کہیں ملک دشمن قوتیں فائدہ نہ اٹھا لیں، اگر فائنل لاہور سے منتقل ہوتا تو اپوزیشنز پارٹیز کہتیں ڈر کر میچ منتقل کر دیا، اب ہو رہا ہے تو خطرات کی نشاندہی کی جانے لگی جو غلط بھی نہیں ہے، سیکیورٹی خدشات کے سبب حسب توقع کئی غیر ملکی کرکٹرز لاہورآنے کو تیار نہیں، منہ مانگی رقم دینے پرآمادگی بھی انھیں قائل نہیں کر سکی، ایسے میں پی ایس ایل فائنل قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کا میچ ہی بن جائے گا، یو اے ای میں جتنے مقابلے سے بھرپور میچز ہوئے شاید فائنل میں ویسا لطف نہ آئے، خصوصاً کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو سب سے بڑا نقصان ہوا جس کے تمام غیرملکی کرکٹرز واپس چلے گئے، کمنٹیٹرز، پرانی پروڈکشن ٹیم ، ڈی آر ایس ماہرین بھی پاکستان نہیں آئے، اب نئے لوگوں سے کام چلایا جائے گا جب کہ ریویو سسٹم کا تو اطلاق ہی نہیں ہو رہا، ہم اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس ایک میچ کی بدولت ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ لوٹ آئے گی تو یہ خام خیالی ہے، بلکہ اس سے مزید منفی پیغام گیاکہ دیکھو ان کا ملک اتنا غیرمحفوظ ہے کہ کوئی وہاں جانے کو تیار نہیں،کئی روز قبل ہی اتنا بڑا علاقہ سیل کر دیا،قذافی اسٹیڈیم کو قلعہ بنا دیا گیا، بعض لوگ عمران خان کو الزام دے رہے ہیں کہ ان کے بیان کی وجہ سے غیرملکی کرکٹرز نہیں آ رہے، مگر میں اس تاثر سے متفق نہیں، سب یہ فیصلہ پہلے ہی کر چکے تھے، اعلان اس لیے نہیں کیا کہ ٹیم فائنل میں پہنچے تو بتائیں گے ابھی سے کیوں برے بنیں۔
کھلاڑیوں کی عالمی تنظیم فیکا ایک سے زائد بار انھیں پاکستان نہ جانے کا مشورہ دے چکی ہے، ہمیں غیرملکی کرکٹرزسے بھی کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے، بیرون ملک جب منفی خبریں جائیں گی تو ایسا تاثر تو بنے گا، سب سے پہلے ہمیں ملک میں آئیڈیل حالات بنانا ہوں گے پھر ایسی کوششیں بھی کامیاب رہیں گی، اس وقت کرکٹ پچ سیاسی اکھاڑے کا روپ دھار چکی، ہر طرف سے ایک دوسرے پر لفظی حملے جاری ہیں، کرکٹ پس منظر میں چلی گئی، میڈیا بھی ٹیموں کی تیاریوں سے زیادہ سیکیورٹی انتظامات اور سیاسی بیانات کو اہمیت دینے میں مگن ہے، البتہ لاہوریوں نے ثابت کر دکھایا کہ وہ زندہ دلان شہر کے باسی ہیں، جس طرح ٹکٹوں کی فروخت میں دلچسپی سامنے آئی وہ ثابت کرتی ہے کہ ہم کرکٹ سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، ہمیں اس سے محروم نہیں کیا جا سکتا، ویسے آپس کی بات ہے ٹکٹیں اچانک ایسے غائب ہوئیں کہ پتا ہی نہ چلا، لوگ لائنز میں کھڑے رہے اور پھر اعلان ہوا کہ ٹکٹ بک گئے۔
آن لائن فروخت شروع ہوتے ہی میں نے بھی ٹکٹیں لینے کی کوشش کی، مگر تمام معلومات کا اندراج کرنے کے بعد دوبارہ پہلے والا صفحہ کھل جاتا،پھر دو گھنٹے بعد ''سولڈ آؤٹ'' لکھا نظر آنے لگا، نجانے وہ کون ''خوش نصیب'' لوگ تھے جنھیں ٹکٹیں ملیں، ٹکٹوں کی فروخت میں جو مسائل سامنے آئے میچ کے بعد ان کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیے، اسی طرح بورڈ نے سابق کرکٹرز کو نظرانداز کر کے بھی بڑی غلطی کی ،ہر بات کیا میڈیا ہی یاد دلائے، حکام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے قومی ہیروز کو یاد رکھیں، اس وقت فائنل کی جو مخالفت ہو رہی ہے اس میں ایک بڑی وجہ سیاسی بنیادوں پر اعلیٰ آفیشلز کی تقرری بھی ہے، اگر کوئی سابق کرکٹر بورڈ چیف ہوتا تو شاید اتنے مسائل سامنے نہ آتے، خیر اب وقت آ چکا کہ سب کو اختلافات بھلا کر فائنل کے کامیاب انعقاد کیلیے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا چاہیے، بس ایک بات یاد رکھیں کہ یہ نواز کرکٹ لیگ نہیں بلکہ پاکستان سپر لیگ ہے، اس کی کامیابی سے ملک کو ہی فائدہ ہو گا، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بعد میں اور بھی مواقع ملیں گے۔
اچھی خاصی پی ایس ایل چل رہی تھی کہ فائنل کا وقت قریب آ گیا، لاہور میں میچ کا اعلان تو پی سی بی نے کافی عرصے قبل ہی کر دیا تھا مگر لوگ اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے، عام تاثر یہ تھا کہ فائنل سے چند روز پہلے دبئی میں ہی انعقادکا فیصلہ کر لیا جائے گا مگر ایسا نہ ہوا، لہذا اب یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کرکٹ میچ نہیں کوئی سیاسی دنگل ہو رہا ہے، ہر کوئی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں مصروف ہے، سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا فائنل لاہور میں ہونا چاہیے، اس میں کئی باتیں غور طلب ہیں، گزشتہ ماہ لاہور سمیت بعض شہروں میں دہشت گردی کے جو واقعات ہوئے ان سے قبل تک تو ایسا لگ رہا تھا کہ ملکی حالات اب خاصے بہتر ہو چکے میچ میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی ، مگر اب خدشات بڑھ چکے ہیں۔
پی ایس ایل اب ایک برانڈ بننے جا رہی ہے، اسی لیے آغاز سے مسائل کا شکار ہوئی، پہلے فکسنگ تنازع سامنے آیا پھر اچانک ملک بھر میں دھماکے شروع ہو گئے، یقیناً ملک دشمن عناصر نہیں چاہتے کہ پاکستان کا دنیا میں سافٹ امیج سامنے آئے، گوکہ حکومت و سیکیورٹی فورسز کی پوری کوشش اور امید ہے کہ وہ میچ کا پُرامن انعقاد بھی کرادیں گی مگر سیکیورٹی خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ایسے میں آپریشن ردالفساد کے نتائج کا انتظار کرتے ہوئے اگر کچھ عرصے بعد کوئی میچ کرایا جاتا تو زیادہ مناسب رہتا، اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ شائقین ملک میں اچھی کرکٹ دیکھنے کو ترسے ہوئے ہیں، کب تک انھیں ڈر کر میچز سے محروم رکھا جائے گا، مجھے یقین ہے کہ اتوار کو قذافی اسٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہو گا، خواتین اور بچے بھی مردوں کے ساتھ اسٹیڈیم آ کر ثابت کریں گے کہ وہ کسی خوف کا شکار ہو کر گھروں میں دبک کر نہیں بیٹھیں گے، مگر انھیں سیکیورٹی بھی ایسی فراہم کرنا ہوگی کہ دنیا مثالیں دے، یاد رکھیں خدانخواستہ کوئی معمولی سا واقعہ بھی ہو گیا تو مزید 20 سال کرکٹ کی واپسی کو بھولنا پڑے گا، اسی لیے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
اب یہ صرف کرکٹ میچ نہیں رہا قومی وقار کا معاملہ بن چکا ہے، مگر سیاستدان یہ بھول رہے ہیں، اس باہمی چپقلش کا کہیں ملک دشمن قوتیں فائدہ نہ اٹھا لیں، اگر فائنل لاہور سے منتقل ہوتا تو اپوزیشنز پارٹیز کہتیں ڈر کر میچ منتقل کر دیا، اب ہو رہا ہے تو خطرات کی نشاندہی کی جانے لگی جو غلط بھی نہیں ہے، سیکیورٹی خدشات کے سبب حسب توقع کئی غیر ملکی کرکٹرز لاہورآنے کو تیار نہیں، منہ مانگی رقم دینے پرآمادگی بھی انھیں قائل نہیں کر سکی، ایسے میں پی ایس ایل فائنل قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کا میچ ہی بن جائے گا، یو اے ای میں جتنے مقابلے سے بھرپور میچز ہوئے شاید فائنل میں ویسا لطف نہ آئے، خصوصاً کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو سب سے بڑا نقصان ہوا جس کے تمام غیرملکی کرکٹرز واپس چلے گئے، کمنٹیٹرز، پرانی پروڈکشن ٹیم ، ڈی آر ایس ماہرین بھی پاکستان نہیں آئے، اب نئے لوگوں سے کام چلایا جائے گا جب کہ ریویو سسٹم کا تو اطلاق ہی نہیں ہو رہا، ہم اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس ایک میچ کی بدولت ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ لوٹ آئے گی تو یہ خام خیالی ہے، بلکہ اس سے مزید منفی پیغام گیاکہ دیکھو ان کا ملک اتنا غیرمحفوظ ہے کہ کوئی وہاں جانے کو تیار نہیں،کئی روز قبل ہی اتنا بڑا علاقہ سیل کر دیا،قذافی اسٹیڈیم کو قلعہ بنا دیا گیا، بعض لوگ عمران خان کو الزام دے رہے ہیں کہ ان کے بیان کی وجہ سے غیرملکی کرکٹرز نہیں آ رہے، مگر میں اس تاثر سے متفق نہیں، سب یہ فیصلہ پہلے ہی کر چکے تھے، اعلان اس لیے نہیں کیا کہ ٹیم فائنل میں پہنچے تو بتائیں گے ابھی سے کیوں برے بنیں۔
کھلاڑیوں کی عالمی تنظیم فیکا ایک سے زائد بار انھیں پاکستان نہ جانے کا مشورہ دے چکی ہے، ہمیں غیرملکی کرکٹرزسے بھی کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے، بیرون ملک جب منفی خبریں جائیں گی تو ایسا تاثر تو بنے گا، سب سے پہلے ہمیں ملک میں آئیڈیل حالات بنانا ہوں گے پھر ایسی کوششیں بھی کامیاب رہیں گی، اس وقت کرکٹ پچ سیاسی اکھاڑے کا روپ دھار چکی، ہر طرف سے ایک دوسرے پر لفظی حملے جاری ہیں، کرکٹ پس منظر میں چلی گئی، میڈیا بھی ٹیموں کی تیاریوں سے زیادہ سیکیورٹی انتظامات اور سیاسی بیانات کو اہمیت دینے میں مگن ہے، البتہ لاہوریوں نے ثابت کر دکھایا کہ وہ زندہ دلان شہر کے باسی ہیں، جس طرح ٹکٹوں کی فروخت میں دلچسپی سامنے آئی وہ ثابت کرتی ہے کہ ہم کرکٹ سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، ہمیں اس سے محروم نہیں کیا جا سکتا، ویسے آپس کی بات ہے ٹکٹیں اچانک ایسے غائب ہوئیں کہ پتا ہی نہ چلا، لوگ لائنز میں کھڑے رہے اور پھر اعلان ہوا کہ ٹکٹ بک گئے۔
آن لائن فروخت شروع ہوتے ہی میں نے بھی ٹکٹیں لینے کی کوشش کی، مگر تمام معلومات کا اندراج کرنے کے بعد دوبارہ پہلے والا صفحہ کھل جاتا،پھر دو گھنٹے بعد ''سولڈ آؤٹ'' لکھا نظر آنے لگا، نجانے وہ کون ''خوش نصیب'' لوگ تھے جنھیں ٹکٹیں ملیں، ٹکٹوں کی فروخت میں جو مسائل سامنے آئے میچ کے بعد ان کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیے، اسی طرح بورڈ نے سابق کرکٹرز کو نظرانداز کر کے بھی بڑی غلطی کی ،ہر بات کیا میڈیا ہی یاد دلائے، حکام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے قومی ہیروز کو یاد رکھیں، اس وقت فائنل کی جو مخالفت ہو رہی ہے اس میں ایک بڑی وجہ سیاسی بنیادوں پر اعلیٰ آفیشلز کی تقرری بھی ہے، اگر کوئی سابق کرکٹر بورڈ چیف ہوتا تو شاید اتنے مسائل سامنے نہ آتے، خیر اب وقت آ چکا کہ سب کو اختلافات بھلا کر فائنل کے کامیاب انعقاد کیلیے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا چاہیے، بس ایک بات یاد رکھیں کہ یہ نواز کرکٹ لیگ نہیں بلکہ پاکستان سپر لیگ ہے، اس کی کامیابی سے ملک کو ہی فائدہ ہو گا، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بعد میں اور بھی مواقع ملیں گے۔