لوئر کرم ایجنسی میں امریکی ڈرون حملہ
امریکی ڈرون حملے 2004 ء میں قبائلی علاقوں (فاٹا) میں شروع ہوئے
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے لوئرکرم ایجنسی میں امریکی ڈرون طیارے کے میزائل حملے نے واضح کردیا ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے امریکا کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ شاید زیادہ جارحانہ ہوجائے، ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ اور پاک افغان سرحد پر دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے جس ایگزیکٹو آرڈر پر پنٹاگان میں اپنی آمد کے موقع پر دستخط کیے تھے وہ یہی پلان تھا جس کے لیے انھوں نے وزیر دفاع کے لیے نامزد جنرل میٹس کو باور کرایا تھا کہ جب اپنے عہدہ کا حلف لیں تو یہ پلان فوراً تیار ہونا چاہیے۔
اس سے مراد یہی لیا جانا چاہیے کہ ٹرمپ انتظامیہ بھی ڈرون حملوں کو اس پلان کی بنیاد بنا سکتی ہے، ادھر افغانستان میں نیٹو کے امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن نے بدھ کو ایک غیر ملکی جریدہ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس پلان کے بارے میں کہا تھا کہ یہ جامع اور محض فوجی نوعیت کا نہیں،اس کی وسعت عالمگیر ہوگی، اسے شام و عراق تک محدود نہ سمجھا جائے، یہ داعش کو نیست ونابود کرنے کا منصوبہ ہے ، جنرل نکلسن کے مطابق امریکا پاک افغان سرحد سے غافل نہیں رہ سکتا جہاں امریکا کی جانب سے جن 98 تنظیموں کو دہشت گرد قراردیا گیا ہے۔
ان میں20 اس خطے میں موجود ہیں ، ان کاکہنا تھا کہ داعش، ازبک اور پاکستانی طالبان نے ایک غیر رسمی اتحاد بنا لیا ہے جو امریکا کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے، اسی بیان کے گزشتہ روز لوئر کرم ایجنسی میں ڈرون حملے کے نتیجہ میں ایک افغان طالبان کمانڈر ساتھی سمیت مارا گیا۔ پولیٹیکل حکام اور عینی شاہدین کے مطابق دونوں کی شناخت افغان باشندوں کی حیثیت سے ہوئی ہے جن میں ایک افغان طالبان کمانڈر قاری عبداللہ سباری بھی شامل ہے جو افغانستان کے صوبے خوست کے علاقہ سیباری سے تعلق رکھتا ہے اور افغان صوبہ پکتیا میں بھی طالبان کمانڈر رہ چکا ہے جب کہ دوسرے کی شناخت شاکر کے نام سے ہوئی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے اس واقعے کے بارے میں بیان سے صورتحال واضح ہوجائیگی۔
واضح رہے کہ پاک افغان سرحد کے آرپار قبائلی علاقے میں کئی مہینوں سے ڈرون حملہ نہیں ہوا اور یہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں پہلا حملہ ہے۔ نائن الیون کے بعد پاک افغان سرحد آتش و آہن اور انسانی ہلاکتوں اور دیگر ہولناکیوں کی نذر ہوئی ، ڈرون حملے سابق صدر بش کے انتقام کا مظہر تھے جسے اوباما انتظامیہ نے بھی تسلسل اور بے رحمی کے ساتھ استعمال کیا، پاکستان نے اپنے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے خلاف امریکی وزارت دفاع (پنٹاگان) حکام سے بار بار احتجاج بھی کیا اور ڈرون ٹیکنالوجی کے حصول اور دہشگردی کے خلاف مشترکہ دروں ٹیکنالوجی کے درست استعمال پر قائل کرنے کی کوشش کی مگر امریکا نے پاکستان کو ڈرون ٹیکنالوجی نہیں دی، ادھر پاکستان میں بھی دہشت گردی بڑھتی رہی جس کی وجہ سے ملکی اقتصادی تباہی سے دوچار ہوا، ناقابل بیان انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ، گزشتہ سال مئی میں بلوچستان میں آخری امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور مارے گئے تھے۔
امریکی ڈرون حملے 2004 ء میں قبائلی علاقوں (فاٹا) میں شروع ہوئے، امریکیوں کا اصرار تھا کہ دہشتگرد ہی ڈرون حملوں کا ہدف ہیں مگر جتنے دہشتگرد یا ان کے ماسٹر مائنڈز ہلاک ہوئے لیکن ان سے کئی گنا زیادہ بے گناہ شہری بھی نشانہ بنے، ڈرون حملوں کی بارش کا سلسلہ 2013 ء میں نئی حکومت کے قیام کے بعد سے کم ہونا شروع ہوا، اس برس 24 حملے ہوئے ،اس سے ایک سال قبل 2012 ء میں امریکا کی طرف سے 46 حملے کیے گئے،2014 ء میں کمی آئی اور 14جب کہ 2016 ء میں صرف 3 حملے ہوئے، ریکارڈ کے مطابق 2017 ء کے ابتدائی دو ماہ میں کوئی حملہ نہیں ہوا۔
اوباما تھیوری یہ رہی کہ دنیا کچھ بھی کہے ڈرون حملوں کی وجہ سے امریکا محفوظ رہا، امریکا بدستور اسی موقف پرڈٹا رہا کہ اگر امریکا داعش، القاعدہ، طالبان اور دیگر عالمی دہشتگرد تنظیموں کے حملوں سے محفوط رہا تو اس کی وجہ فاٹا اور دیگر ملکوں میں ڈرون حملے تھے ، حالانکہ فاٹا میں ڈرون حملے یا مذکورہ نیا حملہ بھی دہشت گردی کے خاتمہ کا باعث نہیں بن سکے گا ۔دور اندیشی کا تقاضہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے دفاعی مشیروں اور نیٹو کمانڈروں اس حقیقت کا ادراک کریں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔
ادھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے دفاعی مشیر اور نیٹو کمانڈر اس حقیقت کا بھی ادراک کریں کہ موجودہ حالات میں پاکستان پاک افغان سرحد کو تزویراتی طور پر نو وار زون بنانے کی ایک اعصاب شکن جدوجہد کے دورانیے سے گزرہا ہے، اسے خطے کا استحکام عزیز ہے، وہ دہشتگردی کا ستم رسیدہ ہے، اور افغانستان میں امن کے قیام کی خاطر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن ریاست بنا ہے ۔ لہٰذا اس کی دہشتگردی کے خلاف قربانیوں کا اعتراف وقت کا تقاضا ہے ۔
اس سے مراد یہی لیا جانا چاہیے کہ ٹرمپ انتظامیہ بھی ڈرون حملوں کو اس پلان کی بنیاد بنا سکتی ہے، ادھر افغانستان میں نیٹو کے امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن نے بدھ کو ایک غیر ملکی جریدہ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس پلان کے بارے میں کہا تھا کہ یہ جامع اور محض فوجی نوعیت کا نہیں،اس کی وسعت عالمگیر ہوگی، اسے شام و عراق تک محدود نہ سمجھا جائے، یہ داعش کو نیست ونابود کرنے کا منصوبہ ہے ، جنرل نکلسن کے مطابق امریکا پاک افغان سرحد سے غافل نہیں رہ سکتا جہاں امریکا کی جانب سے جن 98 تنظیموں کو دہشت گرد قراردیا گیا ہے۔
ان میں20 اس خطے میں موجود ہیں ، ان کاکہنا تھا کہ داعش، ازبک اور پاکستانی طالبان نے ایک غیر رسمی اتحاد بنا لیا ہے جو امریکا کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے، اسی بیان کے گزشتہ روز لوئر کرم ایجنسی میں ڈرون حملے کے نتیجہ میں ایک افغان طالبان کمانڈر ساتھی سمیت مارا گیا۔ پولیٹیکل حکام اور عینی شاہدین کے مطابق دونوں کی شناخت افغان باشندوں کی حیثیت سے ہوئی ہے جن میں ایک افغان طالبان کمانڈر قاری عبداللہ سباری بھی شامل ہے جو افغانستان کے صوبے خوست کے علاقہ سیباری سے تعلق رکھتا ہے اور افغان صوبہ پکتیا میں بھی طالبان کمانڈر رہ چکا ہے جب کہ دوسرے کی شناخت شاکر کے نام سے ہوئی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے اس واقعے کے بارے میں بیان سے صورتحال واضح ہوجائیگی۔
واضح رہے کہ پاک افغان سرحد کے آرپار قبائلی علاقے میں کئی مہینوں سے ڈرون حملہ نہیں ہوا اور یہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں پہلا حملہ ہے۔ نائن الیون کے بعد پاک افغان سرحد آتش و آہن اور انسانی ہلاکتوں اور دیگر ہولناکیوں کی نذر ہوئی ، ڈرون حملے سابق صدر بش کے انتقام کا مظہر تھے جسے اوباما انتظامیہ نے بھی تسلسل اور بے رحمی کے ساتھ استعمال کیا، پاکستان نے اپنے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے خلاف امریکی وزارت دفاع (پنٹاگان) حکام سے بار بار احتجاج بھی کیا اور ڈرون ٹیکنالوجی کے حصول اور دہشگردی کے خلاف مشترکہ دروں ٹیکنالوجی کے درست استعمال پر قائل کرنے کی کوشش کی مگر امریکا نے پاکستان کو ڈرون ٹیکنالوجی نہیں دی، ادھر پاکستان میں بھی دہشت گردی بڑھتی رہی جس کی وجہ سے ملکی اقتصادی تباہی سے دوچار ہوا، ناقابل بیان انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ، گزشتہ سال مئی میں بلوچستان میں آخری امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور مارے گئے تھے۔
امریکی ڈرون حملے 2004 ء میں قبائلی علاقوں (فاٹا) میں شروع ہوئے، امریکیوں کا اصرار تھا کہ دہشتگرد ہی ڈرون حملوں کا ہدف ہیں مگر جتنے دہشتگرد یا ان کے ماسٹر مائنڈز ہلاک ہوئے لیکن ان سے کئی گنا زیادہ بے گناہ شہری بھی نشانہ بنے، ڈرون حملوں کی بارش کا سلسلہ 2013 ء میں نئی حکومت کے قیام کے بعد سے کم ہونا شروع ہوا، اس برس 24 حملے ہوئے ،اس سے ایک سال قبل 2012 ء میں امریکا کی طرف سے 46 حملے کیے گئے،2014 ء میں کمی آئی اور 14جب کہ 2016 ء میں صرف 3 حملے ہوئے، ریکارڈ کے مطابق 2017 ء کے ابتدائی دو ماہ میں کوئی حملہ نہیں ہوا۔
اوباما تھیوری یہ رہی کہ دنیا کچھ بھی کہے ڈرون حملوں کی وجہ سے امریکا محفوظ رہا، امریکا بدستور اسی موقف پرڈٹا رہا کہ اگر امریکا داعش، القاعدہ، طالبان اور دیگر عالمی دہشتگرد تنظیموں کے حملوں سے محفوط رہا تو اس کی وجہ فاٹا اور دیگر ملکوں میں ڈرون حملے تھے ، حالانکہ فاٹا میں ڈرون حملے یا مذکورہ نیا حملہ بھی دہشت گردی کے خاتمہ کا باعث نہیں بن سکے گا ۔دور اندیشی کا تقاضہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے دفاعی مشیروں اور نیٹو کمانڈروں اس حقیقت کا ادراک کریں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔
ادھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے دفاعی مشیر اور نیٹو کمانڈر اس حقیقت کا بھی ادراک کریں کہ موجودہ حالات میں پاکستان پاک افغان سرحد کو تزویراتی طور پر نو وار زون بنانے کی ایک اعصاب شکن جدوجہد کے دورانیے سے گزرہا ہے، اسے خطے کا استحکام عزیز ہے، وہ دہشتگردی کا ستم رسیدہ ہے، اور افغانستان میں امن کے قیام کی خاطر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن ریاست بنا ہے ۔ لہٰذا اس کی دہشتگردی کے خلاف قربانیوں کا اعتراف وقت کا تقاضا ہے ۔