ایک طاقتور افسر نے لاوارث افسروں کو پھر نظر انداز کردیا
ایک انفرادی شخصیت اپنی خواہش کے مطابق افسران کو ترقیاں دے رہی ہے
چند روز قبل بیورو کریٹوں کی ترقیوں سے متعلق ایک خبر نے بہت اچھل کود کی، جس پر کافی نقد و نظر بھی ہوا ٗ ہمیں بھی کچھ سینئر افسروں کے فون موصول ہوئے، ہم ابھی معلومات اکٹھی کر ہی رہے تھے کہ اگلے ہی دن جنابِ وزیراعظم کے ایک انتہائی قریبی ایم این اے کے بیان نے ہنگامہ کھڑا کردیا، انہوں نے انکشاف کیا کہ'' وزیر اعظم ہاؤس کے ایک سب سے اعلیٰ منصب پر فائز افسر سینئر بیوروکریٹس کی پروموشن کے فیصلے کرنے میں مصروف ہیں اور یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔
ایک انفرادی شخصیت اپنی خواہش کے مطابق افسران کو ترقیاں دے رہی ہے (وزیراعظم کا ''منظور نظر افسر'' 20 گریڈ اور اس سے اعلیٰ گریڈ کے سرکاری افسران کی پروموشن کے حوالے سے ذاتی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر فیصلے کررہا ہے)۔ گریڈ 20 اور اس سے اوپر کے سرکاری افسران کی پروموشن کے معاملے کو طے کرنے کیلئے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جانی چاہیے اور ترقی دینے کا فیصلہ کسی بھی افسر کی کارکردگی اور اس کے ٹریک ریکارڈ کو مد نظر رکھ کر کیا جانا چاہیے۔ (منتخب نمائندے سرکاری ملازمین کی ترقی کے حوالے سے زیادہ بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں کیوں کہ یہ ملازمین ہمارے حلقوں میں بطور اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کام کرتے ہیں)۔
تمام وفاقی سیکریٹریز کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاسوں میں شرکت کرنی چاہئے تاکہ انہیں عوام کے مسائل کا اندازہ ہوسکے۔ موجودہ افسران میں کوئی بھی اتنا اہل افسر نہیں ملا جتنے سعید مہدی تھے۔ میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری سے کہوں گا کہ وہ ایوان میں آکر بیٹھیں تاکہ انہیں عوام کے مسائل سے آگاہی حاصل ہوسکے۔ زیادہ تر منتخب نمائندگان بیورو کریٹس کی سرگرمیوں سے واقف ہیں، (ہم جانتے ہیں کہ بیشتر بیوروکریٹس شام میں اپنے پرائیویٹ دفاتر چلاتے ہیں اور انہوں نے کس طرح رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے)۔ (اس ایم این اے نے سپیکر ایاز صادق کی غیر موجودگی میں اجلاس کی سربراہی کرنیوالے ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ عباسی سے درخواست کی) سینئر سول سرونٹس کی ترقی کے حوالے سے ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے''۔
ہم اس ایم این اے کے موقف سے صد فیصد اتفاق کرتے ہیں کیونکہ بیورو کریٹوں کی ترقیوں کے بارے میں سیاستدانوں پر ہمیشہ انگلیاں اٹھتی رہی ہیں ٗمسلم لیگ (ن) پر بھی یہ الزام رہا ہے کہ یہ جماعت بیورو کریسی کے سر پر حکومت کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مہاراجا رنجیت سنگھ کے بعد شریف برادران نے اگر پنجاب پر سب سے زیادہ حکومت کی ہے تواس جادو کا راز محض بیورو کریسی ہی ہے۔ میاں نواز شریف کا ہر دور میں یہی مسئلہ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ بارہ پاؤں اور چوبیس ہاتھوں والے مشیروں پر انحصار کرتے رہے ہیںجو ہمیشہ ہی انہیں غلط مشورے دیتے ہیں۔
حالیہ ترقیوں کے کیس میں بھی انہیں ایک مشیر نے غلط مشورہ دیدیا اور وہ اسی پر ڈٹ گئے اور پھر چند دن کے بعد انہیں اپنے انکار کو اقرار میں بدلنا پڑا۔ ترقی کیلئے بھجوائے گئے کیسوں میں وزیراعظم کی جانب سے نقائص کی نشاندہی کرکے واپس بھجوائے جانے کے بعد سنٹرل سلیکشن بورڈ کا وجود انتہائی مشکوک ہوچکا ہے۔ 500 کے قریب بیوروکریٹس کی ترقیوں میں غیر معمولی تاخیر کے بعد وزیراعظم نے بالآخر مارک کئے ہوئے کچھ فیورٹ افسران کی ترقیوں کیلئے گرین سگنل دے تو دیا مگر ان کی ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ضرورت سے زیادہ جگ ہنسائی ہوئی ہے۔
آخری بار بیوروکریٹس کی ترقیاں مئی 2015ء میں ہوئی تھیں، جبکہ سی ایس بی کی جانب سے سینئر کی جگہ من پسند افسران کو ترقی دینے کیخلاف افسران نے عدالت میںدرخواست بھی دائر کر رکھی ہے جس کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں آیا۔ فی الحال 346 افسران کو 20 ویں گریڈ جبکہ 141 افسران کو 21 ویں گریڈ میں ترقی دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے 28 نومبر 2016 کو اہل افسران کو ترقیاں دینے کیلئے سینٹرل سلیکشن بورڈ کا اجلاس بلانے کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد دسمبر کے وسط میں منعقد ہونیوالے اجلاس کے بعد سی ایس بی نے افسران کو گریڈ 19 سے گریڈ 20 میں ترقی دینے کی سفارش وزیراعظم سے کی تھی۔
اس کیس میں تاخیرکی عمومی وجوہ وزیراعظم کے بیرون ممالک کے دورے بتائے گئے ہیں حالانکہ وزیراعظم انتہائی ضروری کام جہاز میں بیٹھے بیٹھے بھی نمٹا دیتے ہیں۔ 2006ء میں وزیراعظم کی جانب سے دی گئی ہدایات کے بعد یہ لازم ہے کہ سال میںکم سے کم 2 بار سی ایس بی کا اجلاس منعقد ہو، وزیراعظم کے مطابق اس ضمن میں کم سے کم تین سی ایس بی اجلاسوں میںترقیوں کے معاملے پر بحث نہ کیا جانا بھی تاخیر کی ایک وجہ کہی جاسکتی ہے مگر وزیراعظم کو کون یاد دلائے کہ ترقیوں کی منظوری میں بلاجواز تاخیر کے باعث جن افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعدترقیاں دی گئیں ان کے کیریئر کے ناقابلِ تلافی نقصان کا ازالہ کون کریگا؟
سپریم کورٹ نے 28 نومبر کو اہل افسران کو ترقیاں دینے کیلئے سی ایس بی کا اجلاس بلانے کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد سی ایس بی نے دسمبر کے وسط میں 500 افسران کو گریڈ 19 سے گریڈ 20 میں ترقی دینے کی سفارش کی تھی تاہم وزایراعظم آفس میں 2015ء سے بیورو کریٹس کی ترقیوں کا ایک اور معاملہ لٹکا ہوا تھا ۔ ایسے کچھ افسران جن کی ترقیوں کا معاملہ پائپ لائن میں ہے، وہ وزیراعظم آفس کی جانب سے اس بے وجہ تاخیر پر چیں برجبیں ہیں۔ ترقیوں میں تاخیر سے متعلق معاملے پر بھی افسران کا ردِ عمل مختلف قسم کی قیاس آرائیوں کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
سیکریٹریٹ گروپ کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ وزیراعظم آفس کے فیصلہ ساز ان ترقیوں سے خوش نہیں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ سلیکشن بورڈ ان ترقیوں کا دوبارہ جائزہ لے تاہم کچھ افسران کا کہنا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس آفس نے یہ معاملہ سکیورٹی کلیئرنس کیلئے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کو بھیج دیا تھا، جس وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی۔ کافی افسران تذبذب کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنی ترقیوں کیلئے فکر مند ہونے کے باعث اپنے کام میں توجہ نہیں دے پا رہے تھے، جس وجہ سے سرکاری کام متاثر ہوتے رہے۔
پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز (پی اے ایس) کے 13 ویں اور 14 ویں کامن بیچز کے 11 ملازمین کی ترقیاں ملتوی کر دی گئی ہیں جبکہ گریڈ 21 کیلئے 43 افسروں کی سفارش کی گئی تھی، مگر 15 ویں کامن بیجز کے وزیراعظم آفس کے بااثر افسران اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ سی ایس بی نے13 ویں سے 20 ویں کامن بیچز سے 43 افسران کو گریڈ 21 میں ترقیاں دینے کی سفارش بھی کی ہوئی ہے۔ 13 ویں اور 14 ویں کامن بیچز کے 11 میں سے 5 افسران کے ترقیوں کے کیسز مئی 2015ء سے ان کی ایمانداری کی وجہ سے ملتوی کر دیے گئے تھے۔ اب بھی دیگر چار فیصد افسران چاہتے ہیں کہ ان بیچز کے افسران کی ترقیاں روک دی جائیں، کیونکہ ترقیوں کی صورت میں وہ سی ایس بی کے آئندہ اجلاس میں سنیارٹی کی بنیاد پر مزید ترقی یعنی اگلے گریڈ 22 کیلئے اہل ہو جائیں گے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ 15 ویں کامن بیجز سے گریڈ 22 میں ترقیوں کیلئے افسران کا انتخاب نہیں کیا جاتا۔ پولیس سروس آف پاکستان (پی ایس پی) کے افسران جو ترقیوں کے منتظر ہیں، وہ اپنی ترقیوں کیلئے 13 ویں اور 14 ویں کامن بیجز کے 11 افسران کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ ترقی سے محروم رہ جانے والے باقی افسران میں وزارتِ دفاع، کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن (سی اے ڈی ڈی) ریلویز، بورڈ آف انویسٹمنٹ، کامرس اینڈ ٹریڈ گروپ، وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی اور وزارتِ پیٹرولیم و قدرتی وسائل کے افسران شامل ہیں۔ اب تو یہ آواز سیاسی ایوانوں میں بھی گونج اٹھی ہے کہ افسران کو ترقی دینے کا حق ایک طاقتور بیوروکریٹ نے چھین لیا ہے جو اپنی خواہشات کے مطابق فیصلے کررہے ہیں۔
اب تو یہ آواز سیاسی ایوانوں میں بھی گونج اٹھی ہے کہ افسران کو ترقی دینے کا حق ایک طاقتور بیوروکریٹ نے چھین لیا ہے جو اپنی خواہشات کے مطابق فیصلے کررہے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم کے انتہائی قریبی ایم این اے نے پارلیمان میں اپنے دل کی بھڑاس تو نکال لی لیکن انہیں ایسی کیا مجبوری درپیش تھی کہ انہوں نے وزیراعظم کو اعتماد میں لئے بغیر اپوزیشن ارکان کی موجودگی میں اپنی ہی پارٹی اور اپنے ہی وزیراعظم کیخلاف جرأتِ اظہار کر ڈالی۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے ایک ذمہ دار رکن قومی اسمبلی ہیں ٗ عام حالات میں ان سے ایسی توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنی پارٹی کیخلاف گھریلو بھڑاس نکالیں گے۔
اس ایم این اے کی اس جسارت پر نون لیگی ارکان تو انگشت بدنداںہی رہے تاہم مخالف پارٹیوں کے زیادہ تر ارکان نے انکی آواز میں آواز ملائی اور انہیں حق بجانب قرار دیا ٗکئی ایک نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ وہ بالکل بجا کہہ رہے ہیں کیونکہ جب وہ اپنے علاقے کے بیوروکریٹس کے پاس ضروری عوامی کام لے کر جاتے ہیں تو وہ ان کی ایک نہیں سنتے، اور تو اور، ان کی ٹیلیفون کالز تک اٹھانا پسند نہیں کرتے لہٰذا بیورو کریسی کی پروموشن پالیسی کو پارلیمان کی سفارش سے یا کسی مجوزہ قانون سے مشروط کیا جانا بہت ضروری ہے۔
اگر ایسا ہوجائے تو کم از کم عوامی نمائندوں کے علاقوں میں سرکاری ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنراپنی اے سی آر معقول تر بنانے کیلئے علاقہ کے عوام کے بھی کام آئینگے اور ان کی کارکردگی کی رپورٹ ہر ایم پی اے اور ایم این اے سے بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہوگی۔ یہی عوامی رپورٹ بطور اے سی آر ان کی پروموشن کے ساتھ منسلک کی جاسکتی ہے۔
ہمارے نزدیک اس ایم این اے کا موقف اپنی جگہ، ارکانِ پارلیمان کی تجاویز اپنی جگہ مگر حقیقت میں پروموشن کا یہ طریقہ کار ایم پی اے اور ایم این اے حضرات کی ذاتی خواہش تو ہوسکتی ہے لیکن اسے قانون کا درجہ دینے یا کسی آئینی شق سے مشروط کرنے سے علاقہ میں سرکاری افسروں پر عوامی نمائندوں کی اجارہ داری مزید بڑھ جائے گی اور عوام کا بھلا پھر بھی نہیں ہوگا۔ اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر وغیرہ اگر ارکانِ پارلیمان کے فون نہیں اٹھاتے یا ان سے ملاقات سے گریز کرتے ہیں تو ہم ارکانِ پارلیمان اور جنابِ وزیراعظم سے یہی سوال کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اسمبلی کے کتنے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں اور کتنے خواہش مندوں سے ملاقات کرتے ہیں۔
سرکاری افسران کی حق تلفی کی بات اتنی سنجیدہ ہے کہ وزیراعظم کے انتہائی قریبی ایم این اے بھی اپنے متوقع نقصانات کی پروا کئے بغیر اس ناانصافی پر سرعام بول پڑے ہیں ۔ سرکاری افسروں کی حمایت کیلئے انہوں نے کسی کی پرواہ تک نہیں کی اور دل کی آواز کو پارلیمان تک پہنچاکر ہی دم لیا۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ یہ ایم این اے اور مانسہرہ کے کچھ سرکاری افسروں کے پروموشن اور تقررو تبادلہ کیلئے کافی عرصہ سے پر مار رہے تھے مگر وزیراعظم آفس کے ایک سینئر افسر کسی کے دباؤ پر ایسا نہیں کرنے دے رہے تھے۔
یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے موجودہ دورِ حکومت میں اس ایم این اے کو مکمل نظر انداز کیا گیا ہے اور اس بات کے صحیح اسباب سامنے نہیں آسکے۔ بلاشبہ وزیراعظم ہاؤس کے طاقتور افسر نے ایک بار پھر سینکڑوں افسروں کی اگلے گریڈ میں ترقیوں کو متنازعہ بنا دیا جو افسر لاوارث اور راندۂ درگاہ اور ناپسندیدہ تھے' انہیں تو اپنی ماتحت خفیہ ایجنسی آئی بی کے ذریعے ''بُری شہرت'' کا سر ٹیفکیٹ لے کر ان کا مستقبل تباہ و برباد کر دیا گیا ہے اور من پسند اور ''طاقتور میرٹ'' کے زمرے میں آنے والوں کو اگلے گریڈوں میں ترقی حاصل ہو گئی ٗاس افسر نے پہلے بھی جب اپنی اگلے گریڈ میں ترقی زبردستی اور طاقتور میرٹ کے ذریعے کروائی تھی تو اس وقت بھی لاوارث ،مظلوم اور بے بس افسران کو نظراندازکر کے خود پردھان بن بیٹھے۔ ہمیں سمجھ نہیں آ سکی کہ اس سنگین معاملے پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ابھی تک سوموٹو کیوں نہیں لیا۔
افسروں کی ترقیوں کا طریق کار یہ ہے کہ جن افسروں کے کورس مکمل ہوتے ہیں اور تمام صوبوں کے چیف سیکرٹری، آئی جی اور محکموں کے سربراہ کی رپورٹیں اے ون ہوتی ہیں، خفیہ ایجنسیوں نے ان کی اچھی شہرت کی رپورٹس دی ہوتی ہیں۔ ان افسروں کی ہی اگلے گریڈ میں ترقی زیرغور آتی ہے۔ پروموشن بورڈ کے سربراہ فیڈرل پبلک سروس کمیٹی کے چیئرمین ہوتے ہیں جبکہ صوبوں کے چیف سیکرٹری اور آئی جی اور وفاقی سیکرٹریز کی اکثریت بورڈ کی ممبر ہوتی ہے۔ چالیس کے قریب ممبروں پر مشتمل ہر ایک افسر کی رپورٹ پر بحث کرتے ہیں جو ہر معاملہ میں فٹ ہو' اسے ہی ترقی دینے کی سفارش کرتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ افسروں کی ترقی و تنزلی کرنے کا اختیار صرف اس ایک افسر کو دے رکھا ہے جو خود میرٹ کی خلاف ورزی کر کے اگلے گریڈ میں پروموٹ ہوا تھا۔ اس نے چالیس کے قریب بورڈ کے ممبران کی توہین کی ہے۔ ہم حیران ہیں کہ متذکرہ ممبران اور چیئرمین احتجاجاً مستعفی کیوں نہیں ہوئے جن کی سفارشات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا تو بورڈ نے متذکرہ افسروں کے کردار اور ساکھ کے بارے میں پہلے خفیہ ادارے سے من پسند رپورٹیں کیوں منگوائیں ٗاور کیا متذکرہ ایجنسی سے بھی پوچھا گیا کہ جس نے پہلے سب اچھا کی رپورٹ دی اور دوسری رپورٹ میں افسروں کو ''بُری شہرت'' والا افسر کیسے لکھ دیا؟ اس کی بھی بازپرس ہونی چاہئے جس نے ایسی بھونڈی رپورٹ دی۔ بورڈ کے ممبران سے بھی بازپرس ہونی چاہئے کہ اگر افسر ترقی کے قابل نہیں تھے تو انہوں نے کس جواز کے تحت انہیں ترقی کی سفارش کی؟
بہ ایں ہمہ یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ وزیراعظم کے طاقتور کا نام بے شمار سکینڈلز میں زیرِ گردش رہا ہے، وہ مختلف قسم کے کاروباری مقاصد اور مفادات کے باعث بھی اکثر تنقید کا نشانہ رہتے ہیں۔ اس طاقتور افسر کی یہ شہرت وزیراعظم ہاؤس کیلئے بھی خاصی نقصان دہ ثابت ہورہی ہے مگر وزیراعظم کی طرف سے پراسرار خاموشی کی بنا پر اس ضمن میں کوئی فیصلہ سامنے نہیں آسکا ٗ خدشہ ہے کہ اس افسر کے نوع بہ نوع سکینڈلز خود وزیراعظم کیلئے بھی بارِ گراں بن سکتے ہیں۔
فی الوقت دیکھنا تو یہ ہے کہ وزیراعظم کے قریبی ایم این اے کی تنقید کس کیلئے مؤثر اور کس کیلئے مضر ثابت ہوتی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ سینکڑوں سینئر ترین بیورو کریٹوں کی پروموشن کی راہ میں وزیراعظم آفس کے محلاتی افسران گزشتہ کچھ سالوں سے رکاوٹ بنے ہوئے تھے اور سنٹرل سلیکشن بورڈ کی طرف سے بھیجی گئی ترقیوں کی سفارشات کے باوجود وزیراعظم ہاؤس کے یہ طاقتور افسر پروموشن سمری کی منظوری میں ڈنگ ٹپاؤ پالیسی اپنائے رہے۔
سپریم کورٹ نے سی ایس بی کو تاکید کی تھی کہ گزشتہ عدالتی فیصلوں کو مدنظر رکھ کر بورڈ کے اجلاس کا انعقاد یقینی بنایا جائے۔ مئی اور دسمبر 2016ء میں سی ایس بی نے ایک طویل التواء کے بعد رسمی اجلاسوں کا اہتمام کیا اور چار سو سے چھ سو سینئر، جونیئر اور اہل، نااہل بیورو کریٹوں کے نام انڈر لائن کئے۔ جو سفارشات سلیکشن بورڈ کی طرف سے بھجوائی گئیں وزیراعظم کے اس طاقتور افسر نے وہ آئی بی کو ارسال کردیں۔ آئی بی کی رپورٹ آنے کے باوجود کچھ افسران کے کیسز دوبارہ آئی بی کو بھجوادیئے گئے۔
اس عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آئی بی نے جو پہلی رپورٹ پی ایم آفس کوبھیجی اور جو بعد میں بھیجے گا ان دونوں میں فرق ہوگا اور ایسی صورتِ حال میں کوئی دو رائے نہیں کہ معاملات عدالت میں جائیں گے اور منظور یا رد کئے گئے افسران کی پروموشن کا معاملہ بہر طور متاثر ہوگا۔ اس سے پہلے بھی ترقی سے متعلقہ امور عدالت میں ہونے کے باعث بہت سے افسران ترقی پائے بغیر ریٹائر ہوگئے تھے۔ سی ایس بی کے کچھ نالاں عناصر یہ توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ افسروں کی ترقی کیلئے بورڈ کی سفارش کے بعد آئی بی کی رپورٹس کی ضرورت نہیں رہتی تھی' بلاشبہ پی ایم آفس نے تاخیری حربے استعمال کئے ہیں تاکہ بورڈ کی سفارشات کو دبی ہوئی پروموشن فائل کا حصہ بنایا جاسکے۔
عام طور پر وزیراعظم کے پاس سی ایس بی کی سفارشات کو مسترد کرنے کا کوئی آئینی و قانونی جواز نہیں ہے کیونکہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے افسران کی ترقیوں سے متعلق اس ضمن میں فیصلہ صادر کیا جاچکا ہے۔ وزیراعظم آفس میں تعینات چہیتے افسران کی ترقی کی سفارش بھی بورڈ کرچکا ہے جو اپنی ترقیوں کے شادیانے تو بجارہے تھے مگر ساتھ ساتھ دیگر افسران کی فائلوں کا جائزہ بھی وزیراعظم ہاؤس کے اس طاقتور افسر کی نگرانی میں یہی موصوفان لے رہے تھے، شاید اسی موقع کیلئے ایک محاورہ معرضِ وجود میں آیا تھا ''مفادات کا ٹکراؤ'' یہی تو ہے مفادات کا ٹکراؤ۔ بورڈ تیرھویں اور چودھویں کامن کے افسران کی بھی گریڈ 21 میں ترقی کی سفارش کرچکا ہے، سو وزیراعظم آفس کا ایک اعلیٰ ترین چہیتا جونیئر ہونے کے باعث گریڈ 22 کی ترقی کے وقت متاثر ہوسکتا ہے۔
یہی وہ کردار ہے جو وزیراعظم نواز شریف کو بیورو کریسی کی کمزوریوں سے آگاہ کرتے ہوئے ہر ایک بیورو کریٹ کی خوبیوں اور خامیوں کی فہرست تیار کرکے دیتا ہے ٗ اگر یہ کہا جائے کہ یہ شخص اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کیلئے وزیراعظم کو دھوکے میں رکھ رہاہے تو بے جا نہ ہوگا ٗ اس فرد کی ایماء پر نوازشریف نے بیورو کریسی سے متعلقہ آج تک جتنے بھی فیصلے کئے ہیں ان سے اہل اور قابل افسران نہ صرف ناخوش ہیں بلکہ اچھے دنوں کا انتظار کررہے ہیں ٗ 2015ء میں بھی وزیراعظم کے تقرریوں، تبادلوں ور ترقیوں کے یکے بعد دیگرے سفارشی ورعایتی فیصلوں سے آدھی سے زیادہ بیوروکریسی نالاں ہوئی تھی۔
کچھ افسران وزیراعظم کے ترقیوں کے ایک جابرانہ فیصلے کے خلاف عدالت میں گئے ہوئے تھے جب اپریل 2014ء کو وزیراعظم نے اعلیٰ بیوروکریٹس کی ترقیوں کے معاملہ میں اہلیت اور کارکردگی پر اعتراض اٹھاتے ہوئے سینٹرل سلیکشن بورڈ کی جانب سے گریڈ 20 سے 21 میں ترقی کے لیے 19 ڈی ایم جی افسران کی ترقیوں کی سفارشات کو مسترد کردیا تھا اور بورڈ کو ہدایت کی تھی کہ وہ ان سفارشات کا ازسرنو جائزہ لے۔
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ پچھلی مرتبہ بھی وزیراعظم نے سی ایس بی کے فیصلے کو غیر سنجیدہ اور جلدبازی کے رویے پر تحفظات کا اظہار کرنے کے بعد یہی کہا تھا کہ ''بورڈ نے سپریم کورٹ کے مہیا کردہ راہنما اصولوں کو مد ِنظر نہیں رکھا اور کچھ متاثرہ اور خراب عوامی ساکھ رکھنے والے افسروں کو بھی پروموشن لسٹ میں شامل کر لیا، چنانچہ تمام سفارشات کی منظوری قطعی ناممکن ہے، اس ضمن میں بورڈ کو غور کرنا چاہیے کہ سپریم کورٹ اوریا مقبول جان کیس میں سنہری اصول مرتب کر چکی ہے لیکن سینٹرل سلیکشن بورڈ نے ترقیوں کی سفارشات مرتب کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کی فراہم کردہ گائیڈ لائن کو سرے سے نظر انداز کر دیا''۔
وزیراعظم نے ایک طرف تو کچھ ''ناپسندیدہ'' افسروں کی منظوری کو رَد کردیا تھا تو دوسری جانب کچھ ''پسندیدہ'' افسروں کی گریڈ 20 سے گریڈ21 میں ترقیوں کوفی الفور حتمی منظوری بھی عطا فرما دی تھی،سو اِس مرتبہ بھی وزیراعظم کا مکالمہ اور حکمت ِعملی ہوبہو حسب ِسابق ہے ٗتب بھی ترقی کے جن امیدواروں کی سفارشات کو مسترد کردیا گیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے سفارشی اورمن پسند افسروں کو ترقیاں دیں اور ہمیں سینئر ترین ہونے اور اچھی کارکردگی کاریکارڈ رکھنے کے باوجود صرف اس لیے رَد کردیا کہ نہ توہماری کسی سیاسی جماعت سے کبھی وابستگی رہی اور نہ ہی انٹربیوروکریٹک پریشر گروپوں سے کبھی ہمارا فدویانہ ناطہ رہا جو ہماری سفارش کرتے اور ہمارے وارث بنتے۔
پچھلی بار ترقی سے محروم رہ جانیوالے افسران نے اس امر پر بے حد افسوس کا اظہار کیا تھا کہ وزیراعظم نے سینٹرل سلیکشن بورڈ کو یہ کہہ کر سرزنش تو کردی کہ اس نے سفارشات مرتب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی آبزرویشن کو فالو نہیں کیا جب کہ اصل بات یہ ہے کہ اس آبزرویشن کی دھجیاں تو خود وزیراعظم ہاؤس کے سب سے اعلیٰ منصب پر فائز افسر نے کل بھی اڑائی تھیں اور آج بھی اڑائی ہیں ٗاگر وزیراعظم کی حیل و حجت نہیں بدلی تو افسران کی شکایات میں بھی سالوں بعد کوئی فرق نہیں آیا۔
سابق وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے بھی اپنے دور میں 37 افسران کو گریڈ21 میں ترقی دی جب کہ ان گریڈز میں کوئی پوسٹ سرے سے خالی ہی نہیں تھی۔ ان تقرریوں کیخلاف سینئر بیوروکریٹ اور اینکر پرسن اوریا مقبول جان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی اور موقف اختیار کیا کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ نے میرٹ کو نظرانداز کر کے اعلیٰ افسران کو خلافِ ضابطہ ترقیاں دیں جس سے بیوروکریسی کا بالائی ڈھانچہ متاثر ہوگا اور متاثرہ افراد میں بے چینی کا باعث بنے گا لہٰذا نہ صرف امتیازی ترقیاں وتبادلے منسوخ کیے جائیں بلکہ بیوروکریسی میں اصلاحات متعارف کروانے کا حکم بھی صادر فرمایا جائے۔اس وقت کے بنچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ پوسٹ خالی نہ ہوتو پھر کسی کو نوازنے کیلئے ہی اَپ گریڈ کیا جاتا ہے۔ گڈگورننس میں بیوروکریسی کا اہم کردار ہوتا ہے، اگر بیوروکریسی میں شفافیت نہیں ہوگی تو پھر گڈگورننس بھی ناپید ہوگی۔
سپریم کورٹ نے ترقیوں کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے بیوروکریسی کے لیے اصلاحی بنیادوں کے کچھ سنہرے اصول مرتب کیے جنہیں اس وقت کی اور آئندہ حکومتوں نے محض بے فائدہ کاغذوں کا ایک پلندہ سمجھا۔ نواز شریف کے سابقہ فیصلوں سے متاثر ہونیوالے افسروں نے آفتاب احمد مانیکا کی سرکردگی میں وفاقی حکومت کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست گزاری تھی جس کی سماعت کے بعدکورٹ نے متاثرہ بیوروکریٹس کی ترقیاں روکنے کا فیصلہ کالعدم قراردیدیا تھا۔
درخواست گزاروں کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے حکومت کی یہ قلعی عدالت کے رو برو کھولی تھی کہ وزیراعظم نے من پسند نالائق بیوروکریٹوں کو ترقی دی جبکہ سینٹرل سلیکشن بورڈ کی سفارشات کے باوجود باصلاحیت اور قابل افسروں کو ذاتی پسند وناپسند کی بناء پر نظرانداز کیا، جس پراسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس انورکاسی نے متعلقہ بیوروکریٹس کی ترقیاں روکنے کا حکم کالعدم قراردیتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ کی سفارشات کی روشنی میں انہیں مناسب ترقیاں دی جائیں مگر حکومت نے عدالتی آرڈر کے باوجود معاملہ لیت ولعل کی نذر کردیا اور سلیکشن بورڈ کے اجلاسوں کے انعقاد پر بھی مسلسل سردمہری اختیار کیے رکھی۔
اس مرتبہ بھی پروموشن سمری کی منظوری دیتے ہوئے وزیراعظم نے سنٹرل سلیکشن بورڈ پر اعتراض اٹھایا ہے کہ انہوں نے جن افسران کو ترقیوں کیلئے نامزد کیا ہے ان میں کئی ایک خراب کارکردگی اور بری شہرت کے حامل ہیں جن کو اگلے گریڈ میں پروموٹ نہیں کیا جاسکتا۔
امکانات واضح ہیں کہ وزیراعظم نے حالیہ ترقیوں میں نظر انداز کئے گئے اہل افسران سے انصاف نہ کیا تو یہ مہینوں کی نہیں بلکہ ہفتوں اور دنوں کی بات ہے جب متاثرہ افسران عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور جب عدالت وزیراعظم کی ترقیوں کی منظوری کو کالعدم قرار دے کر صرف اور صرف میرٹ پر پورے اترنے والے افسران ہی کو اگلے گریڈ میں ترقی کیلئے نامزد کرے گی تو وزیراعظم کی سبکی بھی ہوگی اور بیورو کریسی میں ان کیخلاف نفرت کا جو پیغام جائے گا، اس سے آئندہ انتخابات میں ان کو بے اندازہ نقصان بھی ہوسکتا ہے ہم وزیراعظم کو مخلصانہ مشورہ دینگے کہ انہوں نے جن افسران کو ایک درباری کی سفارش پر ناپسندیدہ قرار دیکر ترقی سے محروم کیا ہے انہیں فی الفور اگلے گریڈ میں پروموٹ کرکے اپنے دشمنوں میں کچھ تو کمی کریں۔
ایک انفرادی شخصیت اپنی خواہش کے مطابق افسران کو ترقیاں دے رہی ہے (وزیراعظم کا ''منظور نظر افسر'' 20 گریڈ اور اس سے اعلیٰ گریڈ کے سرکاری افسران کی پروموشن کے حوالے سے ذاتی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر فیصلے کررہا ہے)۔ گریڈ 20 اور اس سے اوپر کے سرکاری افسران کی پروموشن کے معاملے کو طے کرنے کیلئے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جانی چاہیے اور ترقی دینے کا فیصلہ کسی بھی افسر کی کارکردگی اور اس کے ٹریک ریکارڈ کو مد نظر رکھ کر کیا جانا چاہیے۔ (منتخب نمائندے سرکاری ملازمین کی ترقی کے حوالے سے زیادہ بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں کیوں کہ یہ ملازمین ہمارے حلقوں میں بطور اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کام کرتے ہیں)۔
تمام وفاقی سیکریٹریز کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاسوں میں شرکت کرنی چاہئے تاکہ انہیں عوام کے مسائل کا اندازہ ہوسکے۔ موجودہ افسران میں کوئی بھی اتنا اہل افسر نہیں ملا جتنے سعید مہدی تھے۔ میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری سے کہوں گا کہ وہ ایوان میں آکر بیٹھیں تاکہ انہیں عوام کے مسائل سے آگاہی حاصل ہوسکے۔ زیادہ تر منتخب نمائندگان بیورو کریٹس کی سرگرمیوں سے واقف ہیں، (ہم جانتے ہیں کہ بیشتر بیوروکریٹس شام میں اپنے پرائیویٹ دفاتر چلاتے ہیں اور انہوں نے کس طرح رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے)۔ (اس ایم این اے نے سپیکر ایاز صادق کی غیر موجودگی میں اجلاس کی سربراہی کرنیوالے ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ عباسی سے درخواست کی) سینئر سول سرونٹس کی ترقی کے حوالے سے ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے''۔
ہم اس ایم این اے کے موقف سے صد فیصد اتفاق کرتے ہیں کیونکہ بیورو کریٹوں کی ترقیوں کے بارے میں سیاستدانوں پر ہمیشہ انگلیاں اٹھتی رہی ہیں ٗمسلم لیگ (ن) پر بھی یہ الزام رہا ہے کہ یہ جماعت بیورو کریسی کے سر پر حکومت کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مہاراجا رنجیت سنگھ کے بعد شریف برادران نے اگر پنجاب پر سب سے زیادہ حکومت کی ہے تواس جادو کا راز محض بیورو کریسی ہی ہے۔ میاں نواز شریف کا ہر دور میں یہی مسئلہ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ بارہ پاؤں اور چوبیس ہاتھوں والے مشیروں پر انحصار کرتے رہے ہیںجو ہمیشہ ہی انہیں غلط مشورے دیتے ہیں۔
حالیہ ترقیوں کے کیس میں بھی انہیں ایک مشیر نے غلط مشورہ دیدیا اور وہ اسی پر ڈٹ گئے اور پھر چند دن کے بعد انہیں اپنے انکار کو اقرار میں بدلنا پڑا۔ ترقی کیلئے بھجوائے گئے کیسوں میں وزیراعظم کی جانب سے نقائص کی نشاندہی کرکے واپس بھجوائے جانے کے بعد سنٹرل سلیکشن بورڈ کا وجود انتہائی مشکوک ہوچکا ہے۔ 500 کے قریب بیوروکریٹس کی ترقیوں میں غیر معمولی تاخیر کے بعد وزیراعظم نے بالآخر مارک کئے ہوئے کچھ فیورٹ افسران کی ترقیوں کیلئے گرین سگنل دے تو دیا مگر ان کی ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ضرورت سے زیادہ جگ ہنسائی ہوئی ہے۔
آخری بار بیوروکریٹس کی ترقیاں مئی 2015ء میں ہوئی تھیں، جبکہ سی ایس بی کی جانب سے سینئر کی جگہ من پسند افسران کو ترقی دینے کیخلاف افسران نے عدالت میںدرخواست بھی دائر کر رکھی ہے جس کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں آیا۔ فی الحال 346 افسران کو 20 ویں گریڈ جبکہ 141 افسران کو 21 ویں گریڈ میں ترقی دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے 28 نومبر 2016 کو اہل افسران کو ترقیاں دینے کیلئے سینٹرل سلیکشن بورڈ کا اجلاس بلانے کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد دسمبر کے وسط میں منعقد ہونیوالے اجلاس کے بعد سی ایس بی نے افسران کو گریڈ 19 سے گریڈ 20 میں ترقی دینے کی سفارش وزیراعظم سے کی تھی۔
اس کیس میں تاخیرکی عمومی وجوہ وزیراعظم کے بیرون ممالک کے دورے بتائے گئے ہیں حالانکہ وزیراعظم انتہائی ضروری کام جہاز میں بیٹھے بیٹھے بھی نمٹا دیتے ہیں۔ 2006ء میں وزیراعظم کی جانب سے دی گئی ہدایات کے بعد یہ لازم ہے کہ سال میںکم سے کم 2 بار سی ایس بی کا اجلاس منعقد ہو، وزیراعظم کے مطابق اس ضمن میں کم سے کم تین سی ایس بی اجلاسوں میںترقیوں کے معاملے پر بحث نہ کیا جانا بھی تاخیر کی ایک وجہ کہی جاسکتی ہے مگر وزیراعظم کو کون یاد دلائے کہ ترقیوں کی منظوری میں بلاجواز تاخیر کے باعث جن افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعدترقیاں دی گئیں ان کے کیریئر کے ناقابلِ تلافی نقصان کا ازالہ کون کریگا؟
سپریم کورٹ نے 28 نومبر کو اہل افسران کو ترقیاں دینے کیلئے سی ایس بی کا اجلاس بلانے کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد سی ایس بی نے دسمبر کے وسط میں 500 افسران کو گریڈ 19 سے گریڈ 20 میں ترقی دینے کی سفارش کی تھی تاہم وزایراعظم آفس میں 2015ء سے بیورو کریٹس کی ترقیوں کا ایک اور معاملہ لٹکا ہوا تھا ۔ ایسے کچھ افسران جن کی ترقیوں کا معاملہ پائپ لائن میں ہے، وہ وزیراعظم آفس کی جانب سے اس بے وجہ تاخیر پر چیں برجبیں ہیں۔ ترقیوں میں تاخیر سے متعلق معاملے پر بھی افسران کا ردِ عمل مختلف قسم کی قیاس آرائیوں کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
سیکریٹریٹ گروپ کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ وزیراعظم آفس کے فیصلہ ساز ان ترقیوں سے خوش نہیں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ سلیکشن بورڈ ان ترقیوں کا دوبارہ جائزہ لے تاہم کچھ افسران کا کہنا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس آفس نے یہ معاملہ سکیورٹی کلیئرنس کیلئے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کو بھیج دیا تھا، جس وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی۔ کافی افسران تذبذب کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنی ترقیوں کیلئے فکر مند ہونے کے باعث اپنے کام میں توجہ نہیں دے پا رہے تھے، جس وجہ سے سرکاری کام متاثر ہوتے رہے۔
پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز (پی اے ایس) کے 13 ویں اور 14 ویں کامن بیچز کے 11 ملازمین کی ترقیاں ملتوی کر دی گئی ہیں جبکہ گریڈ 21 کیلئے 43 افسروں کی سفارش کی گئی تھی، مگر 15 ویں کامن بیجز کے وزیراعظم آفس کے بااثر افسران اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ سی ایس بی نے13 ویں سے 20 ویں کامن بیچز سے 43 افسران کو گریڈ 21 میں ترقیاں دینے کی سفارش بھی کی ہوئی ہے۔ 13 ویں اور 14 ویں کامن بیچز کے 11 میں سے 5 افسران کے ترقیوں کے کیسز مئی 2015ء سے ان کی ایمانداری کی وجہ سے ملتوی کر دیے گئے تھے۔ اب بھی دیگر چار فیصد افسران چاہتے ہیں کہ ان بیچز کے افسران کی ترقیاں روک دی جائیں، کیونکہ ترقیوں کی صورت میں وہ سی ایس بی کے آئندہ اجلاس میں سنیارٹی کی بنیاد پر مزید ترقی یعنی اگلے گریڈ 22 کیلئے اہل ہو جائیں گے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ 15 ویں کامن بیجز سے گریڈ 22 میں ترقیوں کیلئے افسران کا انتخاب نہیں کیا جاتا۔ پولیس سروس آف پاکستان (پی ایس پی) کے افسران جو ترقیوں کے منتظر ہیں، وہ اپنی ترقیوں کیلئے 13 ویں اور 14 ویں کامن بیجز کے 11 افسران کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ ترقی سے محروم رہ جانے والے باقی افسران میں وزارتِ دفاع، کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن (سی اے ڈی ڈی) ریلویز، بورڈ آف انویسٹمنٹ، کامرس اینڈ ٹریڈ گروپ، وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی اور وزارتِ پیٹرولیم و قدرتی وسائل کے افسران شامل ہیں۔ اب تو یہ آواز سیاسی ایوانوں میں بھی گونج اٹھی ہے کہ افسران کو ترقی دینے کا حق ایک طاقتور بیوروکریٹ نے چھین لیا ہے جو اپنی خواہشات کے مطابق فیصلے کررہے ہیں۔
اب تو یہ آواز سیاسی ایوانوں میں بھی گونج اٹھی ہے کہ افسران کو ترقی دینے کا حق ایک طاقتور بیوروکریٹ نے چھین لیا ہے جو اپنی خواہشات کے مطابق فیصلے کررہے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم کے انتہائی قریبی ایم این اے نے پارلیمان میں اپنے دل کی بھڑاس تو نکال لی لیکن انہیں ایسی کیا مجبوری درپیش تھی کہ انہوں نے وزیراعظم کو اعتماد میں لئے بغیر اپوزیشن ارکان کی موجودگی میں اپنی ہی پارٹی اور اپنے ہی وزیراعظم کیخلاف جرأتِ اظہار کر ڈالی۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے ایک ذمہ دار رکن قومی اسمبلی ہیں ٗ عام حالات میں ان سے ایسی توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنی پارٹی کیخلاف گھریلو بھڑاس نکالیں گے۔
اس ایم این اے کی اس جسارت پر نون لیگی ارکان تو انگشت بدنداںہی رہے تاہم مخالف پارٹیوں کے زیادہ تر ارکان نے انکی آواز میں آواز ملائی اور انہیں حق بجانب قرار دیا ٗکئی ایک نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ وہ بالکل بجا کہہ رہے ہیں کیونکہ جب وہ اپنے علاقے کے بیوروکریٹس کے پاس ضروری عوامی کام لے کر جاتے ہیں تو وہ ان کی ایک نہیں سنتے، اور تو اور، ان کی ٹیلیفون کالز تک اٹھانا پسند نہیں کرتے لہٰذا بیورو کریسی کی پروموشن پالیسی کو پارلیمان کی سفارش سے یا کسی مجوزہ قانون سے مشروط کیا جانا بہت ضروری ہے۔
اگر ایسا ہوجائے تو کم از کم عوامی نمائندوں کے علاقوں میں سرکاری ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنراپنی اے سی آر معقول تر بنانے کیلئے علاقہ کے عوام کے بھی کام آئینگے اور ان کی کارکردگی کی رپورٹ ہر ایم پی اے اور ایم این اے سے بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہوگی۔ یہی عوامی رپورٹ بطور اے سی آر ان کی پروموشن کے ساتھ منسلک کی جاسکتی ہے۔
ہمارے نزدیک اس ایم این اے کا موقف اپنی جگہ، ارکانِ پارلیمان کی تجاویز اپنی جگہ مگر حقیقت میں پروموشن کا یہ طریقہ کار ایم پی اے اور ایم این اے حضرات کی ذاتی خواہش تو ہوسکتی ہے لیکن اسے قانون کا درجہ دینے یا کسی آئینی شق سے مشروط کرنے سے علاقہ میں سرکاری افسروں پر عوامی نمائندوں کی اجارہ داری مزید بڑھ جائے گی اور عوام کا بھلا پھر بھی نہیں ہوگا۔ اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر وغیرہ اگر ارکانِ پارلیمان کے فون نہیں اٹھاتے یا ان سے ملاقات سے گریز کرتے ہیں تو ہم ارکانِ پارلیمان اور جنابِ وزیراعظم سے یہی سوال کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اسمبلی کے کتنے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں اور کتنے خواہش مندوں سے ملاقات کرتے ہیں۔
سرکاری افسران کی حق تلفی کی بات اتنی سنجیدہ ہے کہ وزیراعظم کے انتہائی قریبی ایم این اے بھی اپنے متوقع نقصانات کی پروا کئے بغیر اس ناانصافی پر سرعام بول پڑے ہیں ۔ سرکاری افسروں کی حمایت کیلئے انہوں نے کسی کی پرواہ تک نہیں کی اور دل کی آواز کو پارلیمان تک پہنچاکر ہی دم لیا۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ یہ ایم این اے اور مانسہرہ کے کچھ سرکاری افسروں کے پروموشن اور تقررو تبادلہ کیلئے کافی عرصہ سے پر مار رہے تھے مگر وزیراعظم آفس کے ایک سینئر افسر کسی کے دباؤ پر ایسا نہیں کرنے دے رہے تھے۔
یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے موجودہ دورِ حکومت میں اس ایم این اے کو مکمل نظر انداز کیا گیا ہے اور اس بات کے صحیح اسباب سامنے نہیں آسکے۔ بلاشبہ وزیراعظم ہاؤس کے طاقتور افسر نے ایک بار پھر سینکڑوں افسروں کی اگلے گریڈ میں ترقیوں کو متنازعہ بنا دیا جو افسر لاوارث اور راندۂ درگاہ اور ناپسندیدہ تھے' انہیں تو اپنی ماتحت خفیہ ایجنسی آئی بی کے ذریعے ''بُری شہرت'' کا سر ٹیفکیٹ لے کر ان کا مستقبل تباہ و برباد کر دیا گیا ہے اور من پسند اور ''طاقتور میرٹ'' کے زمرے میں آنے والوں کو اگلے گریڈوں میں ترقی حاصل ہو گئی ٗاس افسر نے پہلے بھی جب اپنی اگلے گریڈ میں ترقی زبردستی اور طاقتور میرٹ کے ذریعے کروائی تھی تو اس وقت بھی لاوارث ،مظلوم اور بے بس افسران کو نظراندازکر کے خود پردھان بن بیٹھے۔ ہمیں سمجھ نہیں آ سکی کہ اس سنگین معاملے پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ابھی تک سوموٹو کیوں نہیں لیا۔
افسروں کی ترقیوں کا طریق کار یہ ہے کہ جن افسروں کے کورس مکمل ہوتے ہیں اور تمام صوبوں کے چیف سیکرٹری، آئی جی اور محکموں کے سربراہ کی رپورٹیں اے ون ہوتی ہیں، خفیہ ایجنسیوں نے ان کی اچھی شہرت کی رپورٹس دی ہوتی ہیں۔ ان افسروں کی ہی اگلے گریڈ میں ترقی زیرغور آتی ہے۔ پروموشن بورڈ کے سربراہ فیڈرل پبلک سروس کمیٹی کے چیئرمین ہوتے ہیں جبکہ صوبوں کے چیف سیکرٹری اور آئی جی اور وفاقی سیکرٹریز کی اکثریت بورڈ کی ممبر ہوتی ہے۔ چالیس کے قریب ممبروں پر مشتمل ہر ایک افسر کی رپورٹ پر بحث کرتے ہیں جو ہر معاملہ میں فٹ ہو' اسے ہی ترقی دینے کی سفارش کرتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ افسروں کی ترقی و تنزلی کرنے کا اختیار صرف اس ایک افسر کو دے رکھا ہے جو خود میرٹ کی خلاف ورزی کر کے اگلے گریڈ میں پروموٹ ہوا تھا۔ اس نے چالیس کے قریب بورڈ کے ممبران کی توہین کی ہے۔ ہم حیران ہیں کہ متذکرہ ممبران اور چیئرمین احتجاجاً مستعفی کیوں نہیں ہوئے جن کی سفارشات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا تو بورڈ نے متذکرہ افسروں کے کردار اور ساکھ کے بارے میں پہلے خفیہ ادارے سے من پسند رپورٹیں کیوں منگوائیں ٗاور کیا متذکرہ ایجنسی سے بھی پوچھا گیا کہ جس نے پہلے سب اچھا کی رپورٹ دی اور دوسری رپورٹ میں افسروں کو ''بُری شہرت'' والا افسر کیسے لکھ دیا؟ اس کی بھی بازپرس ہونی چاہئے جس نے ایسی بھونڈی رپورٹ دی۔ بورڈ کے ممبران سے بھی بازپرس ہونی چاہئے کہ اگر افسر ترقی کے قابل نہیں تھے تو انہوں نے کس جواز کے تحت انہیں ترقی کی سفارش کی؟
بہ ایں ہمہ یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ وزیراعظم کے طاقتور کا نام بے شمار سکینڈلز میں زیرِ گردش رہا ہے، وہ مختلف قسم کے کاروباری مقاصد اور مفادات کے باعث بھی اکثر تنقید کا نشانہ رہتے ہیں۔ اس طاقتور افسر کی یہ شہرت وزیراعظم ہاؤس کیلئے بھی خاصی نقصان دہ ثابت ہورہی ہے مگر وزیراعظم کی طرف سے پراسرار خاموشی کی بنا پر اس ضمن میں کوئی فیصلہ سامنے نہیں آسکا ٗ خدشہ ہے کہ اس افسر کے نوع بہ نوع سکینڈلز خود وزیراعظم کیلئے بھی بارِ گراں بن سکتے ہیں۔
فی الوقت دیکھنا تو یہ ہے کہ وزیراعظم کے قریبی ایم این اے کی تنقید کس کیلئے مؤثر اور کس کیلئے مضر ثابت ہوتی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ سینکڑوں سینئر ترین بیورو کریٹوں کی پروموشن کی راہ میں وزیراعظم آفس کے محلاتی افسران گزشتہ کچھ سالوں سے رکاوٹ بنے ہوئے تھے اور سنٹرل سلیکشن بورڈ کی طرف سے بھیجی گئی ترقیوں کی سفارشات کے باوجود وزیراعظم ہاؤس کے یہ طاقتور افسر پروموشن سمری کی منظوری میں ڈنگ ٹپاؤ پالیسی اپنائے رہے۔
سپریم کورٹ نے سی ایس بی کو تاکید کی تھی کہ گزشتہ عدالتی فیصلوں کو مدنظر رکھ کر بورڈ کے اجلاس کا انعقاد یقینی بنایا جائے۔ مئی اور دسمبر 2016ء میں سی ایس بی نے ایک طویل التواء کے بعد رسمی اجلاسوں کا اہتمام کیا اور چار سو سے چھ سو سینئر، جونیئر اور اہل، نااہل بیورو کریٹوں کے نام انڈر لائن کئے۔ جو سفارشات سلیکشن بورڈ کی طرف سے بھجوائی گئیں وزیراعظم کے اس طاقتور افسر نے وہ آئی بی کو ارسال کردیں۔ آئی بی کی رپورٹ آنے کے باوجود کچھ افسران کے کیسز دوبارہ آئی بی کو بھجوادیئے گئے۔
اس عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آئی بی نے جو پہلی رپورٹ پی ایم آفس کوبھیجی اور جو بعد میں بھیجے گا ان دونوں میں فرق ہوگا اور ایسی صورتِ حال میں کوئی دو رائے نہیں کہ معاملات عدالت میں جائیں گے اور منظور یا رد کئے گئے افسران کی پروموشن کا معاملہ بہر طور متاثر ہوگا۔ اس سے پہلے بھی ترقی سے متعلقہ امور عدالت میں ہونے کے باعث بہت سے افسران ترقی پائے بغیر ریٹائر ہوگئے تھے۔ سی ایس بی کے کچھ نالاں عناصر یہ توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ افسروں کی ترقی کیلئے بورڈ کی سفارش کے بعد آئی بی کی رپورٹس کی ضرورت نہیں رہتی تھی' بلاشبہ پی ایم آفس نے تاخیری حربے استعمال کئے ہیں تاکہ بورڈ کی سفارشات کو دبی ہوئی پروموشن فائل کا حصہ بنایا جاسکے۔
عام طور پر وزیراعظم کے پاس سی ایس بی کی سفارشات کو مسترد کرنے کا کوئی آئینی و قانونی جواز نہیں ہے کیونکہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے افسران کی ترقیوں سے متعلق اس ضمن میں فیصلہ صادر کیا جاچکا ہے۔ وزیراعظم آفس میں تعینات چہیتے افسران کی ترقی کی سفارش بھی بورڈ کرچکا ہے جو اپنی ترقیوں کے شادیانے تو بجارہے تھے مگر ساتھ ساتھ دیگر افسران کی فائلوں کا جائزہ بھی وزیراعظم ہاؤس کے اس طاقتور افسر کی نگرانی میں یہی موصوفان لے رہے تھے، شاید اسی موقع کیلئے ایک محاورہ معرضِ وجود میں آیا تھا ''مفادات کا ٹکراؤ'' یہی تو ہے مفادات کا ٹکراؤ۔ بورڈ تیرھویں اور چودھویں کامن کے افسران کی بھی گریڈ 21 میں ترقی کی سفارش کرچکا ہے، سو وزیراعظم آفس کا ایک اعلیٰ ترین چہیتا جونیئر ہونے کے باعث گریڈ 22 کی ترقی کے وقت متاثر ہوسکتا ہے۔
یہی وہ کردار ہے جو وزیراعظم نواز شریف کو بیورو کریسی کی کمزوریوں سے آگاہ کرتے ہوئے ہر ایک بیورو کریٹ کی خوبیوں اور خامیوں کی فہرست تیار کرکے دیتا ہے ٗ اگر یہ کہا جائے کہ یہ شخص اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کیلئے وزیراعظم کو دھوکے میں رکھ رہاہے تو بے جا نہ ہوگا ٗ اس فرد کی ایماء پر نوازشریف نے بیورو کریسی سے متعلقہ آج تک جتنے بھی فیصلے کئے ہیں ان سے اہل اور قابل افسران نہ صرف ناخوش ہیں بلکہ اچھے دنوں کا انتظار کررہے ہیں ٗ 2015ء میں بھی وزیراعظم کے تقرریوں، تبادلوں ور ترقیوں کے یکے بعد دیگرے سفارشی ورعایتی فیصلوں سے آدھی سے زیادہ بیوروکریسی نالاں ہوئی تھی۔
کچھ افسران وزیراعظم کے ترقیوں کے ایک جابرانہ فیصلے کے خلاف عدالت میں گئے ہوئے تھے جب اپریل 2014ء کو وزیراعظم نے اعلیٰ بیوروکریٹس کی ترقیوں کے معاملہ میں اہلیت اور کارکردگی پر اعتراض اٹھاتے ہوئے سینٹرل سلیکشن بورڈ کی جانب سے گریڈ 20 سے 21 میں ترقی کے لیے 19 ڈی ایم جی افسران کی ترقیوں کی سفارشات کو مسترد کردیا تھا اور بورڈ کو ہدایت کی تھی کہ وہ ان سفارشات کا ازسرنو جائزہ لے۔
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ پچھلی مرتبہ بھی وزیراعظم نے سی ایس بی کے فیصلے کو غیر سنجیدہ اور جلدبازی کے رویے پر تحفظات کا اظہار کرنے کے بعد یہی کہا تھا کہ ''بورڈ نے سپریم کورٹ کے مہیا کردہ راہنما اصولوں کو مد ِنظر نہیں رکھا اور کچھ متاثرہ اور خراب عوامی ساکھ رکھنے والے افسروں کو بھی پروموشن لسٹ میں شامل کر لیا، چنانچہ تمام سفارشات کی منظوری قطعی ناممکن ہے، اس ضمن میں بورڈ کو غور کرنا چاہیے کہ سپریم کورٹ اوریا مقبول جان کیس میں سنہری اصول مرتب کر چکی ہے لیکن سینٹرل سلیکشن بورڈ نے ترقیوں کی سفارشات مرتب کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کی فراہم کردہ گائیڈ لائن کو سرے سے نظر انداز کر دیا''۔
وزیراعظم نے ایک طرف تو کچھ ''ناپسندیدہ'' افسروں کی منظوری کو رَد کردیا تھا تو دوسری جانب کچھ ''پسندیدہ'' افسروں کی گریڈ 20 سے گریڈ21 میں ترقیوں کوفی الفور حتمی منظوری بھی عطا فرما دی تھی،سو اِس مرتبہ بھی وزیراعظم کا مکالمہ اور حکمت ِعملی ہوبہو حسب ِسابق ہے ٗتب بھی ترقی کے جن امیدواروں کی سفارشات کو مسترد کردیا گیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے سفارشی اورمن پسند افسروں کو ترقیاں دیں اور ہمیں سینئر ترین ہونے اور اچھی کارکردگی کاریکارڈ رکھنے کے باوجود صرف اس لیے رَد کردیا کہ نہ توہماری کسی سیاسی جماعت سے کبھی وابستگی رہی اور نہ ہی انٹربیوروکریٹک پریشر گروپوں سے کبھی ہمارا فدویانہ ناطہ رہا جو ہماری سفارش کرتے اور ہمارے وارث بنتے۔
پچھلی بار ترقی سے محروم رہ جانیوالے افسران نے اس امر پر بے حد افسوس کا اظہار کیا تھا کہ وزیراعظم نے سینٹرل سلیکشن بورڈ کو یہ کہہ کر سرزنش تو کردی کہ اس نے سفارشات مرتب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی آبزرویشن کو فالو نہیں کیا جب کہ اصل بات یہ ہے کہ اس آبزرویشن کی دھجیاں تو خود وزیراعظم ہاؤس کے سب سے اعلیٰ منصب پر فائز افسر نے کل بھی اڑائی تھیں اور آج بھی اڑائی ہیں ٗاگر وزیراعظم کی حیل و حجت نہیں بدلی تو افسران کی شکایات میں بھی سالوں بعد کوئی فرق نہیں آیا۔
سابق وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے بھی اپنے دور میں 37 افسران کو گریڈ21 میں ترقی دی جب کہ ان گریڈز میں کوئی پوسٹ سرے سے خالی ہی نہیں تھی۔ ان تقرریوں کیخلاف سینئر بیوروکریٹ اور اینکر پرسن اوریا مقبول جان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی اور موقف اختیار کیا کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ نے میرٹ کو نظرانداز کر کے اعلیٰ افسران کو خلافِ ضابطہ ترقیاں دیں جس سے بیوروکریسی کا بالائی ڈھانچہ متاثر ہوگا اور متاثرہ افراد میں بے چینی کا باعث بنے گا لہٰذا نہ صرف امتیازی ترقیاں وتبادلے منسوخ کیے جائیں بلکہ بیوروکریسی میں اصلاحات متعارف کروانے کا حکم بھی صادر فرمایا جائے۔اس وقت کے بنچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ پوسٹ خالی نہ ہوتو پھر کسی کو نوازنے کیلئے ہی اَپ گریڈ کیا جاتا ہے۔ گڈگورننس میں بیوروکریسی کا اہم کردار ہوتا ہے، اگر بیوروکریسی میں شفافیت نہیں ہوگی تو پھر گڈگورننس بھی ناپید ہوگی۔
سپریم کورٹ نے ترقیوں کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے بیوروکریسی کے لیے اصلاحی بنیادوں کے کچھ سنہرے اصول مرتب کیے جنہیں اس وقت کی اور آئندہ حکومتوں نے محض بے فائدہ کاغذوں کا ایک پلندہ سمجھا۔ نواز شریف کے سابقہ فیصلوں سے متاثر ہونیوالے افسروں نے آفتاب احمد مانیکا کی سرکردگی میں وفاقی حکومت کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست گزاری تھی جس کی سماعت کے بعدکورٹ نے متاثرہ بیوروکریٹس کی ترقیاں روکنے کا فیصلہ کالعدم قراردیدیا تھا۔
درخواست گزاروں کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے حکومت کی یہ قلعی عدالت کے رو برو کھولی تھی کہ وزیراعظم نے من پسند نالائق بیوروکریٹوں کو ترقی دی جبکہ سینٹرل سلیکشن بورڈ کی سفارشات کے باوجود باصلاحیت اور قابل افسروں کو ذاتی پسند وناپسند کی بناء پر نظرانداز کیا، جس پراسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس انورکاسی نے متعلقہ بیوروکریٹس کی ترقیاں روکنے کا حکم کالعدم قراردیتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ کی سفارشات کی روشنی میں انہیں مناسب ترقیاں دی جائیں مگر حکومت نے عدالتی آرڈر کے باوجود معاملہ لیت ولعل کی نذر کردیا اور سلیکشن بورڈ کے اجلاسوں کے انعقاد پر بھی مسلسل سردمہری اختیار کیے رکھی۔
اس مرتبہ بھی پروموشن سمری کی منظوری دیتے ہوئے وزیراعظم نے سنٹرل سلیکشن بورڈ پر اعتراض اٹھایا ہے کہ انہوں نے جن افسران کو ترقیوں کیلئے نامزد کیا ہے ان میں کئی ایک خراب کارکردگی اور بری شہرت کے حامل ہیں جن کو اگلے گریڈ میں پروموٹ نہیں کیا جاسکتا۔
امکانات واضح ہیں کہ وزیراعظم نے حالیہ ترقیوں میں نظر انداز کئے گئے اہل افسران سے انصاف نہ کیا تو یہ مہینوں کی نہیں بلکہ ہفتوں اور دنوں کی بات ہے جب متاثرہ افسران عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور جب عدالت وزیراعظم کی ترقیوں کی منظوری کو کالعدم قرار دے کر صرف اور صرف میرٹ پر پورے اترنے والے افسران ہی کو اگلے گریڈ میں ترقی کیلئے نامزد کرے گی تو وزیراعظم کی سبکی بھی ہوگی اور بیورو کریسی میں ان کیخلاف نفرت کا جو پیغام جائے گا، اس سے آئندہ انتخابات میں ان کو بے اندازہ نقصان بھی ہوسکتا ہے ہم وزیراعظم کو مخلصانہ مشورہ دینگے کہ انہوں نے جن افسران کو ایک درباری کی سفارش پر ناپسندیدہ قرار دیکر ترقی سے محروم کیا ہے انہیں فی الفور اگلے گریڈ میں پروموٹ کرکے اپنے دشمنوں میں کچھ تو کمی کریں۔