اپنی حفاظت یا ملک کی حفاظت
پچھلے وقتوں میں بادشاہوں کا رعایا کی بددعاؤں سے ڈر جانا، خوف خدا کی علامت ہے
کسی زمانے میں ایک بادشاہ نیک اطوار و نیک خصلت اللہ کی زمین پر حکومت کرتا تھا، اپنی رعایا کا ہر طرح خیال رکھتا، ایک بار یوں ہوا کہ وہ مسجد میں نماز کے لیے داخل ہوا، اس نے دیکھا کہ چند فقرا بے کسی کے عالم میں ہیں اور سخت سردی کی وجہ سے کانپ رہے ہیں، لیکن جب سورج نے اپنی کرنیں بلاتفریق سب کو تقسیم کرنا شروع کردیں تو ان درویشوں نے بھی اپنے ٹھنڈے جسموں کو حرارت پہنچائی اور پھر آپس میں کچھ اس طرح گویا ہوئے کہ روز قیامت میں ہمارا کوئی منصف ضرور ہوگا جو مغرور اور عیش پرست بادشاہوں کو سزا دے گا، جب کہ بہشت بریں ہماری ملکیت اور ہماری پناہ گاہ ہوگی، کیونکہ آج ہم افلاس میں جکڑے ہوئے ہیں اور سکھ اور خوشی کے لیے ترس گئے ہیں اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ آخرت ہمارے لیے رحمت کی جگہ ہوگی اور اگر ہمارے ملک کا بادشاہ جنت کی دیوار کے قریب بھی آیا تو ہم جوتوں سے اس کا سر توڑ دیں گے۔
دوسرے نے کہا کہ میں اپنی قبر سے اٹھ کر جنت میں جانا پسند نہیں کروں گا، اگر بادشاہ جنت میں ہوا۔ اتفاق سے بادشاہ نے ان گداگروں کی باتیں سن لیں لیکن مصلحت کے تقاضے کے تحت وہ خاموش رہا۔ پورا دن اس نے پریشانی میں گزارا اور فقیروں کی باتیں اسے بے چین و پریشان کرتی رہیں، لیکن دوسرے روز بادشاہ نے ان لوگوں کو اپنے محل میں طلب کرلیا اور ان پر اپنی عنایتوں کی بارش کردی۔
بادشاہ کے رویے کو دیکھ کر ان فقرا نے کہا کہ اے بادشاہ سلامت! دنیا تیرے حکم کی منتظر ہے اور بڑے بڑے لوگوں پر تیری مہربانیاں ہیں، ہم غلاموں کی ایسی کون سی بات تجھے بھا گئی ہے جو تو نے اس قدر لطف و کرم کی بارش کردی ہے۔ بادشاہ نے خوش ہو کر کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ جو رائے تم نے میرے بارے میں قائم کی ہے اسے بدل دو کہ روز قیامت میرے اوپر اپنا دروازہ بند نہ کرنا، اسی لیے میں نے صلح کے لیے راہیں ہموار کردی ہیں۔
پچھلے وقتوں میں بادشاہوں کا رعایا کی بددعاؤں سے ڈر جانا، خوف خدا کی علامت ہے، لیکن آج ہمارے ملک کے بادشاہوں کا رویہ بڑا ہی ظالمانہ ہے۔ مخلوق خدا پریشان ہے لیکن بادشاہ وقت چین کی بانسری بجاتے بجاتے ہر گز نہیں تھکتا۔ اسے اپنے عوام کی تکالیف پر ذرہ برابر شرمندگی نہیں۔ موجودہ اور سابقہ دور کے بادشاہوں نے لوگوں کے حقوق غصب کرنے میں مثال قائم کردی ہے۔
اپنی ذمے داریاں اپنے فرائض کو یکسر فراموش کرچکے ہیں، اپنے ضمیر کو گہری نیند سلادیا ہے اور آنکھیں بند کرلی ہیں، اسی لیے وہ معاشرتی تلخ حقائق اور عوام کی تنگ دستی، افلاس اور اداروں کی زبوں حالی کو نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے بدلے کا کام چین کر رہا ہے اور ہماری فوج کر رہی ہے، پہلے ضرب عضب کے ذریعے دہشتگردی کا قلع قمع کیا گیا اور اب ردالفساد کے تحت گلی کوچوں اور خفیہ جگہوں میں پوشیدہ تخریب کاروں کو گرفتار کرکے ملک میں امن و آشتی کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔
ردالفساد آپریشن کی ضرورت بھی محض وفاقی و صوبائی حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے پیش آئی۔ اس کی وجہ حساس اداروں کی طرف سے پہلے ہی اطلاع دے دی گئی تھی، پاکستان کے دشمنوں کی طرف سے کیے گئے خودکش حملے تھے، سب سے بڑا حملہ سیہون شریف حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار کا تھا، جہاں 100 سے زیادہ زائرین شہید ہوگئے اور بے شمار زخمی ہوئے، جو آج تک زیر علاج اور جاں بلب ہیں۔ اسی طرح ملک کے دوسرے صوبوں پنجاب، خیبرپختونخوا میں بھی دھماکے کیے جاتے رہے اور ہمارے فوجی جوانوں کے ساتھ شہری بھی شہادت کے مدارج تک پہنچتے رہے۔
ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی بات کی جا رہی ہے۔ یہ بات کس قدر دکھ کی ہے کہ جو کام حکومتوں کے کرنے کے تھے وہ کام فوج کو کرنے پڑ رہے ہیں۔ فوج کا کام تو سرحدوں کی حفاظت اور غیر ملکی سطح پر دہشتگردوں سے نمٹنا اور دفاعی اعتبار سے ملک استحکام بخشنا ہے، جو الحمدللہ افواج پاکستان نے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وطن عزیز کی حفاظت کی ہے۔
حکومتی اراکین، ممبر قومی و صوبائی اسمبلی باقاعدگی سے تنخواہیں اور ہر طرح کی مراعات وصول کرتے ہیں، ساتھ میں سیکیورٹی کی مد میں بھی بلٹ پروف گاڑیاں اور سیکیورٹی گارڈز کی تعیناتی بھی ان کے عہدوں کے ساتھ شامل ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ سیاستدان، وزرا، مشیر اور دوسرے اعلیٰ حضرات پاکستان کی حفاظت کے لیے آئے ہیں یا اپنی حفاظت کے لیے؟ انھوں نے الیکشن لڑا اور بے چارے ان معصوم و بے بس لوگوں کے ووٹوں کے ذریعے ایوان بالا تک پہنچے ہیں جو بے چارے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ آئے دن کھلے نالوں میں گر کر جان گنوانا ان کا مقدر بن چکا ہے۔ ہر روز دلخراش خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ کوئی نہ کوئی ذی نفس گٹروں اور نالوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ اپنے اور اپنے ممبران اسمبلی کے گھروں کی تزئین و آرائش کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں لیکن غریب کو چھت بھی میسر نہیں۔
اتنا ظلم بھی ٹھیک نہیں کہ ایک دن اس خدائے برتر کی بارگاہ میں جواب دہ ہونا ہے، اگر گزرے اور موجودہ زمانے میں پولیس ڈپارٹمنٹ اور عدالتیں ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیتیں تو پھر کسی دوسرے ادارے یا فورسز کی ضرورت ہرگز نہیں تھی، چونکہ سب کا اپنا اپنا کام ہوتا ہے۔ پولیس کی کارکردگی اگر مجموعی طور پر دیکھی جائے تو قابل تعریف نہیں ہے ساتھ میں یہ کہنا بھی حق بجانب ہوگا، ذمے دار اور منصف اہلکار اور افسران بھی موجود ہیں لیکن کالی بھیڑوں نے محکمے کو نہ کہ بدنام کیا ہے بلکہ شہریوں کا جینا بھی دوبھر کردیا ہے۔
اسی طرح عدالتوں میں انصاف کے تقاضوں کو مجروح کیا جاتا ہے، بے شمار بے قصور قیدی قہر و جبر میں مبتلا ہیں ان کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں اور جو قصوروار ہیں انھیں بارہا سفارش یا ضمانت کے بل پر رہا کردیا جاتا ہے۔ نیب کی کارکردگی کو اگر مدنظر رکھا جائے تو انصاف اور دیانتداری کا وہاں بھی فقدان ہے۔ اگر یہ بڑے اور اہم ادارے بغیر کسی خوف وخطر کے بدعنوانی اور سازش کو بے نقاب کرتے تو آج قائداعظم کا پاکستان اور پاکستانی لہو لہو نہ روتے۔ جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا اللہ ان پر رحم نہیں کرتا ہے۔ بس وقت وقت کی بات ہے۔
چین کا تعاون پاکستان کے ساتھ ہمیشہ ہی سے رہا ہے اور اب تو چین کا روشن چہرہ سی پیک منصوبے کے حوالے سے مزید سامنے آگیا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ چین کے تعاون سے کے الیکٹرک کا نظام چل رہا ہے اور بہت اچھا چل رہا ہے، ابھی شکایت کی اور ابھی عملہ حاضر، ساتھ میں تازہ خبر یہ بھی ہے کہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے کراچی الیکٹرک کے صارفین کے لیے بجلی کی قیمتوں میں تین روپے تئیس پیسے فی یونٹ کی کمی کی منظوری دے دی ہے۔ لیکن وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھادی ہیں۔ حکومت اپنی عوام کو سکھ کا سانس اس وقت تک لینے کی اجازت نہیں دے گی، جب تک اس کی سانسیں چل رہی ہیں۔
دوسرے نے کہا کہ میں اپنی قبر سے اٹھ کر جنت میں جانا پسند نہیں کروں گا، اگر بادشاہ جنت میں ہوا۔ اتفاق سے بادشاہ نے ان گداگروں کی باتیں سن لیں لیکن مصلحت کے تقاضے کے تحت وہ خاموش رہا۔ پورا دن اس نے پریشانی میں گزارا اور فقیروں کی باتیں اسے بے چین و پریشان کرتی رہیں، لیکن دوسرے روز بادشاہ نے ان لوگوں کو اپنے محل میں طلب کرلیا اور ان پر اپنی عنایتوں کی بارش کردی۔
بادشاہ کے رویے کو دیکھ کر ان فقرا نے کہا کہ اے بادشاہ سلامت! دنیا تیرے حکم کی منتظر ہے اور بڑے بڑے لوگوں پر تیری مہربانیاں ہیں، ہم غلاموں کی ایسی کون سی بات تجھے بھا گئی ہے جو تو نے اس قدر لطف و کرم کی بارش کردی ہے۔ بادشاہ نے خوش ہو کر کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ جو رائے تم نے میرے بارے میں قائم کی ہے اسے بدل دو کہ روز قیامت میرے اوپر اپنا دروازہ بند نہ کرنا، اسی لیے میں نے صلح کے لیے راہیں ہموار کردی ہیں۔
پچھلے وقتوں میں بادشاہوں کا رعایا کی بددعاؤں سے ڈر جانا، خوف خدا کی علامت ہے، لیکن آج ہمارے ملک کے بادشاہوں کا رویہ بڑا ہی ظالمانہ ہے۔ مخلوق خدا پریشان ہے لیکن بادشاہ وقت چین کی بانسری بجاتے بجاتے ہر گز نہیں تھکتا۔ اسے اپنے عوام کی تکالیف پر ذرہ برابر شرمندگی نہیں۔ موجودہ اور سابقہ دور کے بادشاہوں نے لوگوں کے حقوق غصب کرنے میں مثال قائم کردی ہے۔
اپنی ذمے داریاں اپنے فرائض کو یکسر فراموش کرچکے ہیں، اپنے ضمیر کو گہری نیند سلادیا ہے اور آنکھیں بند کرلی ہیں، اسی لیے وہ معاشرتی تلخ حقائق اور عوام کی تنگ دستی، افلاس اور اداروں کی زبوں حالی کو نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے بدلے کا کام چین کر رہا ہے اور ہماری فوج کر رہی ہے، پہلے ضرب عضب کے ذریعے دہشتگردی کا قلع قمع کیا گیا اور اب ردالفساد کے تحت گلی کوچوں اور خفیہ جگہوں میں پوشیدہ تخریب کاروں کو گرفتار کرکے ملک میں امن و آشتی کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔
ردالفساد آپریشن کی ضرورت بھی محض وفاقی و صوبائی حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے پیش آئی۔ اس کی وجہ حساس اداروں کی طرف سے پہلے ہی اطلاع دے دی گئی تھی، پاکستان کے دشمنوں کی طرف سے کیے گئے خودکش حملے تھے، سب سے بڑا حملہ سیہون شریف حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار کا تھا، جہاں 100 سے زیادہ زائرین شہید ہوگئے اور بے شمار زخمی ہوئے، جو آج تک زیر علاج اور جاں بلب ہیں۔ اسی طرح ملک کے دوسرے صوبوں پنجاب، خیبرپختونخوا میں بھی دھماکے کیے جاتے رہے اور ہمارے فوجی جوانوں کے ساتھ شہری بھی شہادت کے مدارج تک پہنچتے رہے۔
ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی بات کی جا رہی ہے۔ یہ بات کس قدر دکھ کی ہے کہ جو کام حکومتوں کے کرنے کے تھے وہ کام فوج کو کرنے پڑ رہے ہیں۔ فوج کا کام تو سرحدوں کی حفاظت اور غیر ملکی سطح پر دہشتگردوں سے نمٹنا اور دفاعی اعتبار سے ملک استحکام بخشنا ہے، جو الحمدللہ افواج پاکستان نے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وطن عزیز کی حفاظت کی ہے۔
حکومتی اراکین، ممبر قومی و صوبائی اسمبلی باقاعدگی سے تنخواہیں اور ہر طرح کی مراعات وصول کرتے ہیں، ساتھ میں سیکیورٹی کی مد میں بھی بلٹ پروف گاڑیاں اور سیکیورٹی گارڈز کی تعیناتی بھی ان کے عہدوں کے ساتھ شامل ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ سیاستدان، وزرا، مشیر اور دوسرے اعلیٰ حضرات پاکستان کی حفاظت کے لیے آئے ہیں یا اپنی حفاظت کے لیے؟ انھوں نے الیکشن لڑا اور بے چارے ان معصوم و بے بس لوگوں کے ووٹوں کے ذریعے ایوان بالا تک پہنچے ہیں جو بے چارے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ آئے دن کھلے نالوں میں گر کر جان گنوانا ان کا مقدر بن چکا ہے۔ ہر روز دلخراش خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ کوئی نہ کوئی ذی نفس گٹروں اور نالوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ اپنے اور اپنے ممبران اسمبلی کے گھروں کی تزئین و آرائش کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں لیکن غریب کو چھت بھی میسر نہیں۔
اتنا ظلم بھی ٹھیک نہیں کہ ایک دن اس خدائے برتر کی بارگاہ میں جواب دہ ہونا ہے، اگر گزرے اور موجودہ زمانے میں پولیس ڈپارٹمنٹ اور عدالتیں ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیتیں تو پھر کسی دوسرے ادارے یا فورسز کی ضرورت ہرگز نہیں تھی، چونکہ سب کا اپنا اپنا کام ہوتا ہے۔ پولیس کی کارکردگی اگر مجموعی طور پر دیکھی جائے تو قابل تعریف نہیں ہے ساتھ میں یہ کہنا بھی حق بجانب ہوگا، ذمے دار اور منصف اہلکار اور افسران بھی موجود ہیں لیکن کالی بھیڑوں نے محکمے کو نہ کہ بدنام کیا ہے بلکہ شہریوں کا جینا بھی دوبھر کردیا ہے۔
اسی طرح عدالتوں میں انصاف کے تقاضوں کو مجروح کیا جاتا ہے، بے شمار بے قصور قیدی قہر و جبر میں مبتلا ہیں ان کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں اور جو قصوروار ہیں انھیں بارہا سفارش یا ضمانت کے بل پر رہا کردیا جاتا ہے۔ نیب کی کارکردگی کو اگر مدنظر رکھا جائے تو انصاف اور دیانتداری کا وہاں بھی فقدان ہے۔ اگر یہ بڑے اور اہم ادارے بغیر کسی خوف وخطر کے بدعنوانی اور سازش کو بے نقاب کرتے تو آج قائداعظم کا پاکستان اور پاکستانی لہو لہو نہ روتے۔ جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا اللہ ان پر رحم نہیں کرتا ہے۔ بس وقت وقت کی بات ہے۔
چین کا تعاون پاکستان کے ساتھ ہمیشہ ہی سے رہا ہے اور اب تو چین کا روشن چہرہ سی پیک منصوبے کے حوالے سے مزید سامنے آگیا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ چین کے تعاون سے کے الیکٹرک کا نظام چل رہا ہے اور بہت اچھا چل رہا ہے، ابھی شکایت کی اور ابھی عملہ حاضر، ساتھ میں تازہ خبر یہ بھی ہے کہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے کراچی الیکٹرک کے صارفین کے لیے بجلی کی قیمتوں میں تین روپے تئیس پیسے فی یونٹ کی کمی کی منظوری دے دی ہے۔ لیکن وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھادی ہیں۔ حکومت اپنی عوام کو سکھ کا سانس اس وقت تک لینے کی اجازت نہیں دے گی، جب تک اس کی سانسیں چل رہی ہیں۔